کسی کو خبر بھی نہ ہوئی

ہاں جی ۔ قاريات و قارئين ۔ اپ کو خبر بھی نہ ہوئی ۔ ہم نے 12 فروری کو لاہور ميں رختِ سفر باندھنا شروع کيا اور 14 فروری کو سارا سامان روانہ کرنے کے بعد ہم 15 فروری کو اللہ کے فضل و کرم سے اسلام آباد پہنچ گئے ۔ کل کمپيوٹر وغيرہ کے ڈبے کھولے تھے ۔ آج کچھ وقت ملا ہے تو سوچا کہ کہ اپنے ابھی تک زندہ ہونے کی خبر نشر کی جائے

“اتنے دن کيا کرتے رہے ؟”
“جناب ہم آئے تو گيس کی ترسيل بند تھی ۔ پلمبر کو بلايا تو اُس نے سارے گھر کی پائپ لائين کا معائنہ کر کے بتايا کہ ميٹر سے آگے گيس نہيں آ رہی ۔ ہيلپ لائن پر اطلاع کی ۔ ميٹر بدلانے والے آئے تو معلوم ہوا ميٹر کا نمبر کچھ اور ہے اور بل پر ميٹر کا نمبر کچھ اور لکھا ہے ۔ جس پر پہلے اس تفاوت کو درست کروانے کا حکم ملا ۔ فدوی نے دو دن سوئی نادرن گيس پائپ لائنز لمٹڈ کے ہيڈ آفس ميں گذارے ہين اور بغير جنرل منيجر عامر نسيم صاحب کے حکم دينے کے بات آگے نہيں بڑھ رہی تھی ۔ آج ميں جا نہيں سکا ۔ اب پير کو جا کر وہاں سے درست ميٹر نمبر والی بل کی کاپی نکلوا کر لاؤں گا اور پھر ہيلپ لائن والوں سے رابطہ کروں گا”

“تو کھاتے پيتے کيا ہوٹل سے ہيں ؟’
نہيں جناب ۔ اتفاق ميں برکت ہے ۔ اللہ خوش رکھے ميرے بہن بھائيوں کو ۔ ابھی تک چھوٹے بھائی کے گھر کھاتے پيتے ہيں ۔ کل تک سوتے بھی وہيں تھے ۔ ابھی صرف ايک رات اپنے گھر مين سوئے ہيں”

اللہ حافظ
پھر مليں گے اللہ کے حُکم سے

دوغلا پن یا منافقت ؟

آج کی دنیا میں قدریں بدل چکی ہیں۔ کوئی وقت تھا جب کہا جاتا تھا

سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
سرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا

لیکن مادیّت اور دکھاوے نے آدمی کو اتنا گھیر لیا ہے کہ قدریں مٹ چکی ہیں یا خلط ملط ہو کے رہ گئی ہیں۔ آج قابلیت سے زیادہ سندوں کی قیمت ہے اور اس سے بھی زیادہ بے ڈنگ فیشن اور اثر و رسوخ کی۔ آدمی دوغلا پن یا منافقت کا شکار ہو چکا ہے۔ دین کو بھی مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ آدمی یہ بھول چکا ہے کہ اس کی پیدائش کیسے ہوئی اور وہ کسی کے آگے جواب دہ بھی ہے

کئی سال قبل ایک محلہ دار کے ہاں سے میری بیوی کو دعوت ملی کہ بیٹے کی شادی سے ایک دن پہلے قرآن خوانی کرنا ہے اس لئے آپ بھی آئیں ۔ میری بیوی چلی گئی ۔ میری بیوی واپس منہ پھُلائے گھر آئی تو وجہ پوچھی ۔ کہنے لگی ” قرآن خوانی کے اختتام پر چائے کیک مٹھائی وغیرہ سے تواضع شروع ہوئی اور ساتھ ہی اُونچی آواز میں پاپ موسیقی لگا دی گئی ۔ میں تو ایک دم اُٹھ کے چلی آئی”

ایک محترمہ اپنی عزیز خواتین کے ہمرا ایک کھاتے پیتے تعلیم یافتہ گھرانہ میں اپنے بیٹے کے لئے رشتہ لینے گئیں اور لڑکی کی ماں سے مخاطب ہوئیں”۔ ہم مذہبی لوگوں کو پسند کرتے ہیں ۔ آپ کا کسی نے بتایا کہ آپ نیک لوگ ہیں تو آ گئے”۔ پھر باتوں باتوں میں کہنے لگیں ” آپ کی بیٹی جسم اور سر اچھی طرح ڈھانپ کے رکھتی ہے ۔ اچھی بات ہے لیکن دیکھیں نا ۔ میرا بیٹا افسر ہے ۔ اس نے دوستوں سے ملنا اور پارٹیوں میں جانا ہوتا ہے ۔ ہائی سوسائٹی میں تو پھر ان کے مطابق ہی کپڑے پہننا ہوتے ہیں نا ”

ہمارا دورِ حاضر کا معاشرہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا نام لینے والوں کو جاہل اور گنوار کا لقب دیتا ہے ۔ مگر کامیاب وہی ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سے محبت کرتا ہے اور اُسی سے ڈرتا ہے ۔ میں ان لوگوں کی حمائت نہیں کرتا جو بظاہر تو مذہبی ہوتے ہیں نماز روزہ بھی کر لیتے ہیں مگر باقی معاملات میں اللہ سُبحانُہُ تعالٰی کے احکام کی پیروی نہیں کرتے

نظر آتے نہیں ۔ بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا
ناز بھی کر تو باندازہءِ رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوّسِ شوکتِ دلدائی کر

فروغِ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزمِ عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئےگل کا سُراغ

علامہ اقبال

تعليم

عصرِ حاضر ميں تعليم کا بہت چرچہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ تعليم کا معيار بہت بلند ہو چکا ہے ۔ پرانے زمانہ کے لوگ تو کچھ نہيں جانتے تھے ۔ مگر کبھی کبھی سمندر ميں اچانک مچھلی کے اُبھرنے کی طرح عصرِ حاضر کے پردے کو پھاڑ کر پرانی کوئی ياد نماياں ہو جاتی ہے تو ميں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ تعليم وہ تھی جس ميں سے ہم پانچ چھ دہائياں قبل گذرے يا وہ ہے جہاں ايک ايم اے انگلش کو انگريزی ميں ايک صفحہ غلطی سے پاک لکھنا نہيں آتا ؟

ميں نے پنجاب يونيورسٹی لاہور سے 1953ء ميں دسويں کا امتحان اول آ کر نہيں صرف ايسے پاس کيا تھا کہ مجھے دو سال وظيفہ حکومت کی طرف سے ملتا رہا تھا ۔ ہمارے انگريزی کے پرچہ ميں ايک اُردو کے بند کو بامحاوہ [ideomatic] انگريزی ميں ترجمہ کرنا تھا اور اسی طرح بورڈ کے بارہويں کے امتحان ميں بھی تھا

دسويں کا اُردو ميں بند [paragraph] جس کا ترجمہ بامحاورہ انگريزی ميں کرنا تھا [کل نمبر 10]

دودھ والا دودھ لئے چلا آ رہا ہے ۔ دودھ کم پانی زيادہ ۔ پوچھو تو کہتا ہے “صاحب ۔ قسم کرا ليجئے جو دودھ ميں پانی ڈالا ہو “۔ ٹھيک ہی تو کہتا ہے ۔ وہ دودھ ميں پانی نہيں پانی ميں دودھ ڈالتا ہے ۔ مگر کيا کريں يہ چائے کی جو لت پڑ گئ ہے ۔ اسے بھی تو نبھانا ہوتا ہے ۔ چائے بھی کيا چيز ہے ۔ جاڑے ميں گرمی اور گرمی ميں ٹھنڈک پہنچاتی ہے اور ہميں دودھ ملا پانی دودھ کے بھاؤ خريدنے پر مجبور کرتی ہے

بارہويں جماعت کا اُردو کا بند جس کا ترجمہ بامحاورہ انگريزی ميں کرنا تھا [کل نمبر 10]
“اسم شريف ؟”
“ناچيز تنکا”
“دولتخانہ ؟”
“جناب ۔ نہ دولت نہ خانہ ۔ اصل گھر جنگل ويرانہ تھا مگر حال ہی ميں احمدآباد ميں بستی بسائی ہے اور سچ پوچھئ تو يہ ننھا سا کاغذی ہوٹل جو آپ کی انگليوں ميں دبا ہے ميرا موجودہ ٹھکانہ ہے”
“مگر آپ کا نام تو ؟”
” جی ہاں لوگ مجھے ديا سلائی کہتے ہيں اور ميں بھی ان کی خوشی ميں خوش ہوں”

ريمنڈ ڈيوس کون ہے ؟

ريمنڈ ڈيوس کے قاتل بننے کے بعد سے امريکی سفارتخانہ اور امريکی حکومت شور مچا رہے ہيں کہ ريمنڈ ڈيوس سفارتکار ہے جبکہ ريمنڈ ڈيوس کے قاتل بننے سے قبل امريکی سفارتخانے کی پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو بھيجی گئی دستاويزات ريمنڈ ڈيوس کو سفارتکار ثابت نہيں کرتيں

امریکی سفارت خانے کی طرف سے ریمنڈ ڈیوس سے متعلق وزارت خارجہ کو فراہم کردہ دستاویز میں واضح طورپر غیرسفارتی شناختی کارڈ کے اجرا کی درخواست کی گئی تھی

20جنوری 2010ء کوامریکی سفارت خانے کی طرف سے وزارت خارجہ کو بھیجی گئی دستاویز میں بتایا گیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کی امریکی سفارت خانے میں ذمہ داری انتظامی اور تکنیکی سٹاف کی ہے

ريمنڈ ڈيوس 18 اکتوبر 2009ء کو پاکستان پہنچا اور امریکی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر ہوا

پاکستان کی طرف سے ریمنڈ ڈیوس کو سرکاری ملٹی پل ویزا جاری کیا گیا ہے جس کی میعاد 14 جون 2010 ء تا 6 جون 2012ء ہے

دستاویزکے مطابق امریکی سفارت خانے کی طرف سے 25 جنوری 2011ءکو وزارت خارجہ کو بھیجی جانے والی سفارت کاروں کی فہرست میں ریمنڈ ڈیوس کا نام شامل نہیں تھا

فہرست میں امریکی سفارت خانے کے شناختی کارڈ میں ریمنڈ ڈیوس کو ڈی او ڈی ۔ ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس کا کنٹریکٹر ظاہر کیا گیا ہے

اس سے پہلے ریمنڈ ڈیوس پشاور میں امریکی قونصلیٹ کے اہلکار کے طور پر کام کرتا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں جاری شدہ کارڈ میں اسے امریکی ڈپارٹمنٹ آف ویٹرن افیئرز [Department of Veteran Affairs] کا اہلکارظاہرکیاگیا تھا

بشکريہ ۔ جنگ اخبار

ريمنڈ ڈيوس کی کہانی

”ریمنڈ ڈیوس“ بدنام زمانہ امریکی سیکیورٹی کمپنی ”بلیک واٹر“ کا کارندہ اور سی آئی اے کا سابق ملازم ہے۔ یہ بظاہر لاہور میں قائم امریکی قونصلیٹ میں بطور تکنیکی مشیر فرائض انجام دے رہا تھا، مگر دراصل لاہور میں بلیک واٹر کا آپریشنل کمانڈر ہے جو گزشتہ کئی دنوں سے لاہور اور اس کے گردونواح میں جرائم پیشہ افراد کی خدمات حاصل کررہا تھا، جنہیں پاکستان کے اندر مختلف تخریب کاری کے منصوبوں میں استعمال کرنا تھا۔ وہ کرنسی نوٹوں سے بھرا سوٹ کیس لئے جرائم پیشہ افراد سے معاملات طے کرتا تھا۔ ڈیوس کی گاڑی میں جدید ترین اسلحہ ہوتا۔ وہ ہر وقت جدید وائرلیس سیٹس کے ذریعے شہر میں پھیلے بلیک واٹرز کے دوسرے ایجنٹوں سے رابطہ میں رہتا۔ ڈیوس اردو کے علاوہ روانی سے پشتو بھی بول سکتا ہے جس کے باعث وہ مقامی جرائم پیشہ عناصر کے جذباتی نوجوانوں سے رابطے قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ڈیوس پشاور میں بھی منفی اور مشکوک سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں بلیک واٹر کے اہلکار مختلف سرگرمیوں ملوث پائے گئے ہیں
اسلام آباد میں بلیک واٹر کے 56 مراکز ہیں
پورے پاکستان میں 11 امریکی تنظیمیں سرگرم ہیں

ستمبر 2009ء میں امریکا میں پاکستان کے سفیر نے کہا تھا: ”بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ بلیک واٹر کی موجودگی محض افواہ ہے۔ عوام ان افواہوں پر ہرگز کان نہ دھریں۔ اگر کسی کے پاس بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت ہیں تو وہ فراہم کرے۔ حکومت پاکستان سخت کارروائی کرے گی“
اس سے چند روز قبل اسی قسم کے الفاظ وزیراعظم نے بھی کہے تھے کہ “بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر اس کی موجودگی کے کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ پیش کرے، ہم کارروائی کریں گے“

حیرت کی بات ہے کہ حکومت پاکستان بار بار تردید کررہی ہے کہ بلیک واٹر کا وجود نہیں ہے لیکن پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق اس وقت بلیک واٹر کا نہ صرف وجود ہے بلکہ وہ پاکستان کو افغانستان اور عراق سمجھ کر بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بڑے منظم اور مربوط طریقے سے اپنا مشن آگے بڑھارہے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے افغانستان اور عراق کے بعد بلیک واٹر کا سب سے مضبوط گڑھ اب پاکستان میں ہے

پاکستان میں بلیک واٹر کی سرگرمیوں کا آغاز بہت پہلے کیا جاچکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزارت داخلہ نے 2007ء ميں خبردار کیا تھا کہ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے لیکن اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلیک واٹر نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلیک واٹر کے دفاتر اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں۔ صرف اسلام آباد اور پشاور میں ہی اس کے 700 افراد موجود ہیں جن کی رہائش کے لئے 200 سے زائد گھر کرائے پر لئے گئے ہیں جس کی تصدیق سابق امریکی سفیر بھی کرچکی ہیں

کراچی کے مختلف علاقوں میں 500 سے زائد امریکی موجود ہیں جن کو خفیہ طور پر ملک کے مختلف حصوں میں بھیجا جاتا ہے۔ 19 اگست 2009ء کو اخبارات میں ہموی بکتر بند کے بارے میں رپورٹ چھپی۔ یہ گاڑیاں شہروں میں آپریشن کرنے کے لئے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں۔ یہ جدید اسلحے سے لیس ہوتی ہیں۔ یہ پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ 40 لاکھ روپے کی ہوتی ہیں۔ حاصل یہ کہ کراچی میں بلیک واٹر کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہاں اس نے باقاعدہ اپنے دفاتر قائم کرلئے ہیں

(جاری ہے)

بشکريہ ۔ جنگ اخبار

يہ گندگی کون صاف کرے گا ؟

“ننگِ قوم” سُن تو بچپن سے رکھا ہے مگر جيسے کرتب موجودہ اور اس سے پہلے والے حُکمرانوں نے دِکھائے ہيں شايد ہی کسی نے قوم کے ساتھ ايسی غداری کی ہو گی

گاہے بگاہے مختلف حقائق سامنے آتے رہتے ہيں ۔ آج گفتگو صرف اس حوالے سے کہ لاہور ميں دو جوانوں کے قاتل ريمنڈ ڈيوِس جيسے لوگ کہاں سے پيدا ہوئے يا کہاں سے آئے ؟

آج اربابِ اختيار ميں سے کوئی بھی نہيں بتا سکتا کہ امريکی ايف بی آئی اور سی آئی اے کے کتنے غيرمُلکی اور مقامی ايجنٹ پاکستان ميں گھوم پھر رہے ہيں اور کيا کر رہے ہيں ؟

صرف پرويز مشرف ہی نے نہيں موجودہ وفاقی حکومت نے بھی امريکی سی آئی اے اور ايف بی آئی کو نہ صرف مقامی ايجنٹ رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے بلکہ بلا روک ٹوک وہ جہاں چاہيں جا سکتے ہيں اور جو چاہيں کر سکتے ہيں

ايک اور ناقابلِ يقين سہولت جو پچھلی حکومت نے امريکيوں کو دی اور موجودہ حکومت نے برقرار رکھی يہ ہے کہ امريکا سے پاکستان آنے اور واپس جانے پر اُن کی کوئی چيکنگ نہيں ہوتی تھی ۔ وہ پاکستان آنے اور جانے کيلئے اسلام آباد ايئرپورٹ پر وہ راستہ استعمال کرتے رہے جس راستہ سے جہاز پر کھانے پينے کا سامان بھيجا جاتا ہے اس طرح کچھ پتہ نہيں چلتا کہ کون آيا اور کون گيا اور نہ پتہ چلتا تھا کہ امريکی کيا پاکستان ميں لے کر آئے اور کيا پاکستان سے لے کر چلے گئے ۔ وزارتِ دفاع کی مداخلت پر اکتوبر 2009ء ميں اس سہولت ميں کچھ تخفيف کی گئی مگر اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا تھا يعنی پاکستان ميں اميرکی سيکريٹ ايجنسيز اور اسلحہ کا نيٹ ورک پھيل چکا تھا

ايک امريکی اخبار “واشنگٹن ٹائمز” نے بھی کچھ سال قبل لکھا تھا کہ امريکی ايف بی آئی نے پاکستان ميں “سپائيڈر گروپ” کے نام سے ايک گروہ ترتيب ديا ہے جس ميں پاکستان کی مسلحہ افواج کے ريٹائرڈ افسران اور دوسرے لوگوں کو بھرتی کيا ہے ۔ اس کا مقصد پاکستان سے امريکا کيلئے معلومات حاصل کرنا ہے ۔ گروپ ميں عيسائی اور مسلمان دونوں شامل ہيں جنہيں ايف بی آئی نے تربيت دی ہے اور مسلحہ بھی کيا ہے

يہ بھی خبر ہے کہ ايک صوبائی سيکرٹ ايجنسی کا سربراہ اور درجن بھر اور لوگ امريکی سی آئی اے کو معلومات فراہم کرتے رہے جس پر وفاقی وزارتِ داخلہ نے اس سربراہ کو ملازمت سے سبکدوش کر ديا تھا ۔ يہ بھی خبر آئی تھی کہ نجی سيکيورٹی کمپنيوں کے ملازمين کی بڑی تعداد امريکی سی آئی اے کيلئے کام کرتی ہے

ايک مقامی صحافی اعزاز سيّد نے انکشاف کيا کہ چند سال قبل اُس نے امريکی ايف بی آئی کيلئے بھرتی کا ايک بين الاقوامی اشتہار ديکھا ۔ اُس نے اسلام آباد ميں امريکی سفارتخانے کے ليگل سيکشن سے اس خيال سے رابطہ کيا تاکہ وہ ايک انويسٹیگيٹو سٹوری لکھ سکے ۔ اُس نے اپنے آپ کو طالبان کے خلاف خفيہ معلومات حاصل کرنے کيلئے ملازمت چاہی ۔ انٹرويو کرنے والے امريکی نے اُسے کہا کہ “تمہيں [طالبان نہيں] پاکستان کی سول بيوروکريسی کے متعلق معلومات مہياء کرنا ہوں گی جس کا اچھا معاوضہ ديا جائے گا”۔

پچھلی حکومت نے بغير پائلٹ کے جہازوں [ڈرون] کو پاکستان کی فضا ميں پرواز کرنے کی اجازت دی جو موجودہ حکومت نے برقرار رکھی ہوئی ہے ۔ يہ جہاز راڈار پر نظر نہيں آتے چنانچہ يہ قبائلی علاقہ کے علاوہ دوسرے علاقوں کی بھی سروِلنس کرتے رہتے ہيں جو کہ ملک کے مفاد ميں نہيں
[قارئين کو ياد ہو گا کہ جولائی 2007ء ميں کاروائی کے دوران لال مسجد اسلام آباد کے اُوپر امريکی بغير پائلٹ کا ہوائی جہاز اُڑتا رہا تھا ۔ يہ بغير حکومتِ وقت کی اجازت کے کيسے ممکن تھا ؟]

موجودہ حکومت بجائے غلط طور پر دی گئی مراعات واپس ليتی اُلٹا اپنے مُلک کو خطرہ ميں ڈالتے ہوئے امريکيوں کيلئے ويزہ کے اجراء سے قبل ہونے والی انويسٹيگيشن کو ہی ختم کر ديا اور امريکا ميں پاکستانی سفارت خانے کو حُکم ديا کہ امريکيوں کو بلا توقف ويزے ديئے جائيں ۔ ايک خبر کے مطابق وسط 2010ء ميں موجودہ حکومت نے امريکا ميں پاکستان کے سفارتخانے کو لکھا کہ بغير کسی قسم کی تحقيقات اور تاخير کے امريکيوں کو ويزے جاری کئے جائيں جس کے نتيجہ ميں 500 امريکيوں کو چھٹی کے دن سفارتخانہ کھول کر 2 دنوں ميں ويزے جاری کئے گئے

سابقہ امريکی سفير اينی پيٹرسن نے وزيرِ داخلہ رحمٰن ملک کو خط لکھا کہ “انتر رِسک کے مقامی شراکت دار ڈئين کارپوريشن کو ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس ديئے جائيں”۔ اس کے بعد اس نے وزارتِ داخلہ کے وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کو لکھا جس ميں لائسنسوں کی 3 اقساط کی واضح ڈيڈ لائينز بھی دی گئيں جس کی وزير موصوف نے تابعداری کی ۔ 7 مئی 2009ء کو امريکی سفارتخانہ کے چارج ڈی افيئرز جيرالڈ ايم فِيئرشٹائن نے وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کو لکھا کہ “134 ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس انٹر رسک کيلئے ديئے جائيں ۔ 50 لائسنس فوری طور پر پھر 50 جون 2009ء ميں اور 34 جولائی 2009ء ميں

ايک ہفتہ کے اندر وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کے پرسنل سيکرٹری نے ايک ٹاپ پرائی آريٹی [Top Priority] حکم نامہ جاری کيا کہ انٹر رسک کيلئے 50 ممنوعہ اسلحہ کے لائسنسوں کی منظوری وزير موصوف نے دے دی ہے ۔ يہ لائسنس 20 مئی تک جاری کئے جائيں

دريں اثناء ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو پوليٹيکل ايجنٹ بنوں کا ايک سرکاری خط ملا کہ 50 ويپنز ملک خانزادہ خان وزير نے تحفہ ديا ہے ۔ ظاہر ہے کہ يہ ويپنز امريکی سفارتخانے نے انٹر رسک کو ديئے تھے ۔ حکومت پاکستان کے کسی اہلکار کو معلوم نہيں کہ يہ ويپنز کہاں سے آ رہے ہيں

ذکر ايک شہنشاہ کا

راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بے نظیر قتل کیس کا عبوری چالان پیش کیا گیا۔ ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چالان میں سابق صدر پرویزمشرف کا نام بطور ملزم شامل ہے ۔ ان سے تفتیش کی مسلسل کوشش کی گئی لیکن جواب نہیں ملا جس پر انہیں مفرور قرار دے دیا گیا ہے ۔ وکیل نے مزيد بتايا دونوں گرفتار پولیس آفیسرز سعود عزیز اور خرم شہزاد اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے احکامات پر عمل کررہے تھے ۔ اگر سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف عدالت نہ آئے تو انہیں اشتہاری قرار دیدیا جائیگا

عدالت نے گرفتار پولیس آفسیرز سعود عزیز اور خرم شہزاد کی درخواست ضمانت کی سماعت بھی کی ۔ وکیل صفائی وحید انجم نے مؤقف اختیار کیا کہ ایس ایس پی یاسین فاروق کا 3 برس بعد پیش کردہ بیان صرف بے نظیربھٹو کے سکیورٹی ایڈوائزر [اب وفاقی وزيرِ داخلہ] کو بچانے کے لئے لایا گیا ہے ۔ سعود عزیز اور خرم شہزاد کی درخواست ضمانت پر وکلا نے بحث مکمل کرلی جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جوکہ آج سنائے جانے کا امکان ہے