ٹائم مشين اور ہم

ميں گيارہويں يا بارہويں جماعت ميں پڑھتا تھا جب ميں نے ايچ جی ويلز کا 1895ء ميں چھپنے والا ناول “ٹائم مشين [Time Machine by H.G. Wells] پہلی بار پڑھا تھا ۔ اس پرمبنی مووی فلم پہلی بار 1960ء ميں نمائش کيلئے پيش کی گئی جو ميں نے بھی ديکھی تھی ۔ يہ قصہ ايک مشين کا تھا جس ميں بيٹھ کر آدمی ماضی يا مستقبل ميں سفر کر سکتا تھا ۔ مصنف ايک صدی سے زائد قبل مستقبل کا ايک ايسا نقشہ کھينچ گيا تھا جسے آج ميں اپنی آنکھوں سے ديکھ رہا ہوں

منظر کچھ يوں تھا کہ جب سائنسدان ٹائم مشين کے ذريعہ مستقبل ميں پہنچتا ہے تو ہرے بھرے باغ ۔ شفاف پانی کے چشمے اور ان کے کنارے ہنستے کھيلتے خوبصورت انسان ديکھ کر بہت لُطف محسوس کرتا ہے ۔ وہ اس کے سحر ميں مبتلا تھا کہ کسی عورت کے چيخنے کی آواز اُسے چونکا ديتی ہے ۔ وہ ديکھتا ہے کہ ايک خوبصورت دوشيزہ پانی ميں گر گئیَ ہے اور مدد کيلئے پُکار رہی ہے ۔ وہ دور سے اُس کے گرد کے لوگوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر بے سود ۔ بھاگ کر چشموں کے بہتے پانی کے قريب پہنچتا ہے تو ديکھتا ہے کہ سب مرد و زن قہقے لگانے ميں مصروف ہيں اور ڈوبتی دوشيزہ کی چيخ و پُکار کی کسی کو پرواہ نہيں ۔ وہ بھاگ کر دوشيزہ کی جان بچاتا ہے

ابھی وہ اسی بيگانگی کے متعلق حيران ہو رہا تھا کہ ايک سائرن کی آواز آتی ہے ۔ وہ ديکھتا ہے کہ سب مرد و زن اُس آواز کی طرف چل ديتے ہيں ۔ وہ اُن کے پيچھے جاتا ہے ۔ ايک جگہ جا کر وہ رُکتے ہيں ۔ وہ آگے بڑھ کر ديکھتا ہے کہ سامنے کے پہاڑ ميں ايک دروازہ کھُلتا ہے تو يہ لوگ اُس ميں داخل ہونا شروع کر ديتے ہيں ۔ کچھ مرد و زن کے داخل ہو جانے کے بعد دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ وہ پہاڑ کے اُوپر چڑھتا ہے اور ايک جگہ پر اُسے ايک سوراخ مل جاتا ہے وہ اس ميں داخل ہو کر کسی طرح اندر چلا جاتا ہے ۔ وہاں وہ ايک اور ہی دنيا ديکھتا ہے ۔ بہت ہی خوشحال قسم کے لوگ باہر سے اندر آنے والے لوگوں کا خون نکال کر اور ان کے گوشت پر تجربے کر رہے ہيں اور اس طرح ان کے جسم مکمل طور پر نابود ہو جاتے ہيں ۔ وہ کسی طرح باہر نکل آتا ہے

اگلی بار جب سائرن بجتا ہے تو وہ خوبصورت مرد و زن پھر اس پہاڑ کی طرف چل پڑتے ہيں ۔ وہ ايک ايک کو پکڑ کر سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اندر نہ جائيں وہاں اُنہيں ہلاک کر ديا جائے گا مگر کوئی اُس کی بات نہيں سُنتا اور سب آگے بڑھ جاتے ہيں

ميں آج اپنے ہموطنوں کا يہی حال ديکھ رہا ہوں کہ انہيں اپنے علاوہ کسی پر يقين نہيں ہے ۔ ارد گرد ہونے والے ظُلم بھی انہيں سنجيدہ نہيں کر پاتے اور سب اپنی مرضی سے مقتل کی طرف رواں دواں ہيں

اللہ ہميں ديکھنے والی آنکھ اور سمجھنے والی عقل عطا فرمائے

ماشاء اللہ رونق ہی رونق

گھر آئے ہمارے پرديسی ۔ پياس بُجھی ہماری اکھيوں کی

ميرا بڑا بيٹا زکريا ۔ بڑی بہو بيٹی اور پونے سات سالہ پياری پوتی 7 جون کو اٹلانٹا ۔ جارجيا ۔ امريکہ سے روانہ ہو کر 8 جون کو دبئی ميرے چھوٹے بيٹے کے پاس پہنچے اور 4 دن اُس کے ساتھ رہ کر گذشتہ کل اللہ کے فضل و کرم سے اسلام آباد ہمارے پاس پہنچ گئے ہيں ۔ ماشاء اللہ گھر ميں رونق ہی رونق ہے ۔ الحمدللہ

تينوں اکٹھے پچھلی دفعہ اکتوبر 2008ء ميں آئے تھے ۔ اُس کے بعد بہو بيٹی پچھلے سال وسط ميں اکيلی چکر لگا گئی تھی ۔ زکريا ميرے حادثہ ميں زخمی ہونے کے بعد اکتوبر 2010ء ميں آيا اور الحمدللہ 2 ہفتے دن رات ميری خدمت کرتا رہا ۔ اپنی پياری پوتی سے اکتوبر 2008ء کے بعد اب ملاقات ہوئی ہے ۔ وہ بھی بہت خوش ہے بالخصوص دادا اور دادی سے مل کر کيونکہ اُس کی پھوپھو [ميری بيٹی] تو اسی سال دسمبر جنوری مين اُن کے پا 3 ہفتے رہ کر آئی تھی ۔ 3 جولائی کو ان کی واپسی ہے ۔ اس کے بعد پھر ۔ ۔ ۔

ميں نے 1999ء ميں جب امريکا کے ويزہ کيلئے درخوست دی تو بڑے احترام کے ساتھ مجھے ويزہ ديا گيا تھا ۔ پھنائن اليون آيا چکا تھا اور 2004ء ميں ميں نے اور ميری بيوی نے ويزہ کيلئے درخواستيں ديں ۔ تو نہ ديا گيا کہ پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں کام کرتا تھا ۔ 2010ء ميں پھر ہم نے ويزہ کيلئے درخواستيں دين اور پھر اُسی وجہ سے نہ ديا گيا ۔ چنانچہ ہم تو اب جا نہيں سکتے وہی 3 سال بعد آيا کريں گے

پيپلز پارٹی اور پاکستان

يہ حقيقت تو سب کے عِلم ميں ہو گی کہ جب پاکستان پر پيپلز پارٹی کے لوگ حکمران ہوتے ہيں تو وہ پاکستان کی حکومت نہيں ہوتی بلکہ پيپلز پارٹی کی حکومت ہوتی ہے ۔ اسلئے وہ سارے کام پاکستان کی بجائے پيپلز پارٹی کيلئے کرتی ہے

پيپلز پارٹی کا جو بھی رہنما وزير اعظم بنے يا صدر بنے ۔ ذوالفقار علی بھٹو ہو يا بينظير ہو يا آصف علی زرداری ہو يا يوسف رضا گيلانی ہو وہ جب بھی بولے گا کبھی نہيں کہے گا پاکستان کی حکومت بلکہ کہے گا پيپلز پارٹی کی حکومت

قائد اعظم محمد علی جناح اور ہمارے ملک پاکستان سے پيپلز پارٹی کتنی محبت رکھتی ہے اس کا ايک ثبوت حال ہی ميں شائع کر چکا ہوں ۔ اب ايک اور

سانحہ کراچی ۔ سرکاری کاروائی يا ہيرہ پھيری ۔ اہم سوالات

کراچی میں نہتے نوجوان کو سرعام گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے واقعہ میں ملوث صرف 2 اہلکاروں کو مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ دیگر کردار کہاں گئے ؟
جبکہ عبداللہ شاہ غازی رینجرز کے 6 اہلکاروں کے علاوہ بھی پولیس اہلکار اور ان کے مخبر سمیت کئی اہم کردار اس بہیمانہ واردات میں ملوث ہیں ۔کون کس کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے؟

پہلی ایف آئی آر کے مطابق مقتول سرفراز مبینہ طور پر سی آئی ڈی پولیس کے اہلکار عالم زیب اور اس کی فیملی کو لوٹ رہا تھا۔ ایسے میں افسر خان مدعی کیوں بنا؟
اس کارروائی کا اہم کردار سی آئی ڈی اہلکار عالم زیب تمام سرکاری کارروائی میں کہیں بھی شامل کیوں نہیں ؟
نوجوان کو جعلی مقابلے میں رینجرز اہلکاروں نے قتل کیا۔ اس اہم کارروائی کا مدعی افسر خان ہی کیوں بنا ؟
واقعہ کے بعد سے افسر خان کہاں چلا گیا ؟
نوجوان کو بہیمانہ طریقے سے بالوں سے پکڑ کر لانے کے بعد رینجرز اہلکاروں کے حوالے کرنے اور اسے مارنے کے لئے اُکسانے کے بعد واقعہ کی جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے والے اس اہم کردار کے خلاف اب تک کوئی کارروائی سامنے کيوں نہیں لائی گئی ؟

سرفراز شاہ نہ اپنی پستول کے نقلی ہونے کا واویلا کرتا رہا اور نہ ہی اس نے فائرنگ کی ایسے میں مقابلے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیسے کرلیا گیا ؟
اگر سرفراز کے پاس کھلونا پستول تھی تو پھر زیر دفعہ 13 ڈی اصلی پستول کی برآمدگی کا مقدمہ کیسے درج ہوا ؟
بوٹ بیسن تھانے کے ڈیوٹی افسر سب انسپکٹر ذوالفقار علی کو اصلی پستول کس نے فراہم کی ؟
سب کچھ جانتے ہوئے پولیس اس واقعہ میں فریق کیوں بنی ؟
وڈیو فلم میں سرفراز کو قتل کرنے میں تمام رینجرز اہلکار پیش پیش دکھائی دے رہے ہیں ۔ ایسے میں تمام 6 اہلکاروں کو پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا ؟
جعلی ايف آر کے مطابق لُٹنے والا پولیس اہلکار ہے ۔ سامنے تھانہ ہونے کے باوجود سرفراز کو پولیس کی بجائے رینجرز کے حوالے کیوں کیا گیا ؟
اس سانحہ کے چند ذمہ داروں کو تو شاید سزا مل جائے مگر کیا عوامی خدمت اور حفاظت پر مامور ان فورسز کے اہلکاروں کی انسانیت دشمن تربیت اور مجرمانہ کردار کے ذمے دار افسران کی بھی پکڑ ہوگی ؟

ابھی تو معاملہ گرم ہے اور میڈیا کے ساتھ ساتھ پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں ۔ ایسے میں پُراسرار کرداروں کی متذکرہ بالا قانونی چالبازیاں اس گھناوٴنی واردات کے کچھ کرداروں کو بچانے کے لئے سرگرم نظر آرہی ہیں

بشکريہ ۔ افضل ندیم ڈوگر۔ نمائندہ جنگ

وطن ۔ معاشرہ ۔ اور دہشتگردی

ميرا دماغ سُن ہے ۔ پچھلی 2 راتيں سو نہيں سکا ۔ سوچ سوچ کر درد سے سر پھٹا جا رہا ہے ۔ ميرے رب ۔ يہ زمين کيوں نہيں پھٹ جاتی ؟ کيا قيامت آنے سے قبل اس سے زيادہ بھی کچھ ديکھنا باقی ہے ؟

اخروٹ آباد ميں 2 مردوں اور 3 عورتوں جن ميں ايک 7 ماہ کی حاملہ تھی کے محافظينِ عوام کے ہاتھوں بيہيمانہ قتل کی ابتدائی تحقيقات بھی ابھی مکمل نہيں ہوئيں کہ کراچی کے پُر رونق علاقہ ميں ايک نوجوان کو عوام کے محافظين نے نہائت سفّاکی کے ساتھ قتل کر ديا ۔ ميں سوچتا ہوں کہ کلفٹن کا علاقہ جہاں آدھی رات تک گہما گہمی رہتی ہے وہاں مقتول ۔ 6 وردی والوں اور دلير کيمرہ والے کے علاوہ کوئی انسان موجود نہ تھا کہ اس بے بس نوجوان کی جان بچانے کی کوشش کرتا ؟ کيا ميرے سب ہموطن اپنے جسم کے علاوہ کچھ اور سوچنے کے اہل نہيں رہے ؟ اس لحاظ سے تو لاہوری قابلِ تحسين ہيں کہ اُنہوں نے ريمنڈ ڈيوس کو گھير کر پوليس کے حوالے کر ديا تھا ورنہ وہ دو جوانوں کو ہلاک کرنے کے بعد بھاگ گيا ہوتا

اگر کوئی فرد يا ادارہ برائی پھيلاتا ہے تو اس کا يہ مطلب نہ لينا چاہيئے کہ جو کام وہ اچھا کرے اُسے بھی بُرا سمجھ کر اس کی تعريف نہ کی جائے ۔ ہمارے مُلک کے ذرائع ابلاغ بلاشبہ بُرائيوں کے فروغ ميں ممد رہے ہيں مگر دورِ حاضر ميں لائقِ تحسين ہے اِن کا ايک کردار کہ صحافی اپنی جانوں کو خطرہ ميں ڈال کر اور اپنی جانوں کی قربانی دے کر اپنے مُلک کے بے سُدھ عوام کو حقائق تک رسائی دے کر نيند يا نشہ سے جنجوڑنے کی ارادی يا غير ارادی کوشش کر رہے ہيں

ميں پچھلی 4 دہائيوں سے ديکھتا آ رہا ہوں کہ ميرے ہموطنوں کی اکثريت اُسے دہشتگرد کہتی ہے جسے امريکا دہشتگرد کہے ۔ نہ کوئی تاريخ ميں دلچسپی رکھتا ہے اور نہ حقيقت کی جُستجُو کہيں نظر آتی ہے ۔ معاشرہ خود غرضی کی پٹڑی پر چڑھ چکا ہے ۔ بُغظ اور تعصب کی عينک پہن رکھی ہے ۔ دو ٹکے زيادہ کما ليتے ہينں تو سمجھتے ہيں کہ انسان بن گئے ۔ انسان بننے کے تقاضے کيا ہيں ؟ اس سے اُنہيں کوئی دلچسپی نہيں ہے ۔ صرف زبانی بيان بازی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر پھولے نہيں سماتے ۔ اگر طالبان ۔ القاعدہ ۔ مُلا اور ہر مسجد ميں جانے والے کو گالياں اور بد دعائيں دينے کی بجائے موجودہ حالات کے سبب کی تلاش کرتے تو شايد ہمارا مُلک ان حالات سے دو چار نہ ہوتا جيسا اب ہے ۔ کسی نے اتنا بھی سوچنے کی زحمت نہ کی کہ صرف 8 سال قبل ايسا کچھ نہ تھا تو پھر يہ حالات کيونکر پيدا ہوئے کہ انسانی بم انسانوں کی موت کا سبب بننے لگے ؟

سُنا اور پڑھا بھی يہی تھا کہ عِلم آدمی کو انسان بناتا ہے اور عِلم کی ضد آدمی کو وحشی ۔ اللہ کے فرمان اور اس کی نبيوں عليہم السلام کے ذريعہ مہياء کی گئی عملی تربيت سے معلوم ہوا کہ صرف عِلم نہيں بلکہ عِلمِ نافع آدمی کو انسان بناتا ہے ورنہ عِلم آدمی کو درندہ بنا سکتا ہے ۔ اس فلسفہ کی شايد سمجھ نہ آتی اگر ميں دورِ حاضر سے قبل ہی اس دنيا سے چلا جاتا

پچھلے چند ہفتوں ميں منظرِ عام پر آنے والے اخروٹ آباد اور کراچی کے واقعات کو ذہن ميں رکھ کر بلوچستان ۔ مالاکنڈ ۔ سوات اور باجوڑ وغيرہ پر غور کيا جائے تو ايک واضح تصوير سامنے آتی ہے کہ دہشتگرد کيسے اور کيونکر پيدا ہوئے ؟ اگر ايک کمسِن لڑکے کے ماں باپ اور بہن بھائی گھر ميں بيٹھے يا سوئے ہوئے اچانک کسی فوجی کاروائی يا ڈرون سے پھينکے گئے مزائل کے نتيجہ ميں ہلاک ہو جائيں تو کيا وہ بچہ پھولوں کے ہار لے کر دوسروں کو پہنانے جائے گا يا پہلا موقع ملتے ہی جس کسی کو دشمن سمجھے گا ہلاک کر دے گا خواہ اس کيلئے اُسے اپنے جسم کو ہی بم بنانا پڑے ؟

صرف حکومت کو بُرا کہنے سے کوئی آدمی بری الذمہ نہيں ہو جاتا ۔ گو ہمارے ہاں رواج ہو گيا ہے کہ حکومت ميں شامل ہوتے ہوئے عوام کو بيوقوف بنانے کيلئے ذرائع ابلاغ کے سامنے تقارير کی جاتی ہيں کہ “ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہيں ۔ يہ وہ يہ ۔ وغيرہ”۔ [My Foot] ۔ جس عمل کا مطالبہ عوام کے سامنے کرتے ہيں وہ اگر حکومت ميں ہوتے ہوئے پورا نہيں کر سکتے تو حکومت ميں کس لئے شامل ہيں ؟ وزاتيں چھوڑيں اور حزبِ اختلاف ميں شامل ہو کر مطالبات کريں

درست کہ 3 کروڑ 70 لاکھ جعلی ووٹوں کا اندراج کر کے پرويز مشرف نے کيو ليگ ۔ پی پی پی اور ايم کيو ايم کو زيادہ نشستيں حاصل کرنے کے قابل بنايا ۔ [ن ليگ ميرے چچا کی نہيں ہے ۔ وہ ان دنوں زيرِ عتاب تھی] مگر سب لوگ تو جعلی ووٹوں سے کامياب نہيں ہوئے ہونگے ۔ جن اصلی ووٹروں نے کامياب ہونے والے حکمرانوں کو ووٹ ديئے وہ بھی موجودہ حالات کے ذمہ دار ہيں ۔ بات صرف اتنی نہيں ہے ۔ جن ووٹروں نے ووٹ ڈالنے کی زحمت گوارہ نہيں کی وہ سب سے بڑے مجرم ہيں موجودہ حالات کے کيونکہ وہ اکثريت ميں ہيں

حکومت اور انتخابِ حکومت کے علاوہ بھی تو عوام کے روز مرّرہ کے فرائض ہيں مگر حالت يہ ہے کہ اپنے جائز حقوق اور ناجائز خواہشات حاصل کرنے کيلئے ناجائز ذرائع کو درست سمجھا جاتا ہے مگر دوسرے کے حق کو نہ صرف نظر انداز کيا جاتا ہے بلکہ دوسرے کا حق چھيننے کو ہوشياری اور عقلمندی [Tactfulnees & wisdom] کا نام ديا جاتا ہے ۔ معاشرے ميں بے حِسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سامنے ايک آدمی ظلم کا شکار ہو رہا ہو تو اُسے بچانے کی بجائے کھڑے ہو کر اس ظُلم سے محظوظ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ايسی بھيڑ ميں کچھ لوگ ٹھٹھا کرتے بھی ديکھے جاتے ہيں ۔ دوسری طرف حالت يہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر ايک تا ايک درجن بسيں جلا دی جاتی ہيں اور دوسری املاک کو بھی نقصان پہنچايا جاتا ہے ۔ مگر دعوے انسان دوستی اور حق پرستی کے کئے جاتے ہيں

يا ميرے مالک و خالق ۔ اے مجھ پر ہميشہ اپنا کرم کرنے والے ميرے اللہ ۔ قبل اس کے کہ ميں ايسے خبيث معاشرے کا حصہ بن جاؤں مجھے اس دنيا سے اُٹھا لينا

تُو رحيم و کريم ہے مگر تيرے جہاں ميں
ہيں تلخ بہت تيرے غلاموں کے اوقات

ہينگ لگے نہ پھٹکری ۔ رنگ چوکھا آوے

ميں نہيں جانتا ہينگ اور پھٹکری سے رنگ کا کيا تعلق ہے ؟ يہ محاورہ ميں نے مڈل سکول ميں پڑھا تھا ۔ مطلب جو ميری سمجھ ميں آيا يہ تھا کہ جيب سے کچھ خرچ نہ ہو پھر بھی فائدہ

ہاں جناب ۔ ايک ايسا عمل ہے جس کے سبب آدمی کا نہ تو کچھ خرچ ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی نقصان ہوتا ہے مگر فائدہ ہونے کی توقع ہوتی ہے اور عام طور پر فائدہ ہوتا ہے

سکول و کالج کے زمانہ ميں ہمارے اساتذہ پڑھانے کے علاوہ کبھی کبھی خاص طور پر وقت نکال کر ہماری کردار سازی بھی غيرمحسوس طريقہ سے کيا کرتے تھے ۔ ہم آٹھويں جماعت ميں پڑھتے تھے کہ ايک استاذ صاحب نے کہا

“ديکھو ۔ اگر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کيا جائے تو نقصان تو کچھ نہيں ہوتا مگر فائدہ ہو سکتا ہے ۔ جب کسی سے مليں تو السلام عليکم کہيں ۔ پھر اپنا مدعا بيان کريں ۔ اپنے کسی بہترين اور بے تکلف دوست سے بھی کوئی مدد لينا ہو تو از راہِ کرم يا برائے مہربانی کہہ کر بات شروع کريں اور کام ہو جانے پر شکريہ ادا کريں”

يہ بات ميں نے پلے باندھ لی اور ساری عمر اس کے بے انداز پھل سے مستفيد ہوتا رہا ہوں اور اِن شاء اللہ آخر دم تک ہوتا رہوں گا
ميں سبزی يا پھل يا گوشت يا دال يا کپڑے ۔ کچھ بھی خريدنے جاؤں
بيچنے والا دکاندار ہو يا خوانچہ والا
اُس کے کپڑے صاف ستھرے ہوں يا پھٹے پرانے
پہلے ميں “السلام عليکم” کہتا ہوں
اگر کوئی چيز پکڑ کر ديکھنا ہو تو بيچنے والے سے اس کی اجازت مؤدبانہ طريقہ سے ليتا ہوں
جب وہ تول يا ناپ کر مجھے چيز ديتا ہے تو اس کا شکريہ ادا کرتا ہوں
اگر کوئی ميری مدد کی کوشش کرے مگر کر نہ سکے پھر بھی ميں اُس کا شکريہ ادا کرتا ہوں

ميرا يہ مشاہدہ ہے کہ سوائے معمولی استثناء کے اللہ کی مہربانی اور ميرے اس رويّے کی وجہ سے مجھے فائدہ ہوتا رہتا ہے

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء ۔ عام آدمی کی نظر ميں

عام آدمی سے مراد جنہوں نے ساری عمر محنت کی اور جو مل گيا اُس پر صبر شکر کيا ۔ دوسرے کی جيب کی بجائے اپنے فرائض کی طرف نظر رکھی

پہلے ايک اچھوتی خبر ۔ وفاقی وزيرِ ماليات نے اپنی بجٹ تقرير ميں خبر دی جس پر ميں ابھی تک فيصلہ نہيں کر سکا کہ ہنسوں يا روؤں ۔ اُنہوں نے کہا “ہماری اچھی منيجمنٹ کے نتيجہ ميں روزانہ ضرورت کی اشياء کی قيمتوں ميں کمی ہوئی ہے”

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء کو ملا کر اب تک پاکستان کے 64 بجٹ پيش ہو چکے ہيں ۔ پہلا بجٹ فروری 1948ء ميں پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی نے منظور کيا تھا ۔ يہ خسارے [Deficit] کا بجٹ تھا ۔ صورتِ حال يہ تھی کہ ہندوستان پر قابض رہنے والے انگريز جاتے ہوئے طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف ضلع گورداسپور کو تقسيم کر کے پاکستان کيلئے جموں کشمير مسئلہ کا ناسور ہميشہ کيلئے دے گئے بلکہ ہندوستان کے سارے اثاثے بھارت کے حوالے کر کے چلے گئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے لاکھوں مسلمانوں کو بے خانمہ کر کے پاکستان کی طرف دھکيل ديا

پاکستان کا دوسرا بجٹ فروری 1949ء کو منظور ہوا جو فاضل بجٹ [Surplus] تھا ۔ اس کے بعد 1960ء سميت 12 فاضل بجٹ تھے ۔ پھر 4 بجٹ جو 1969ء ۔ 1998ء ۔ 1999ء اور 2000ء ميں منظور ہوئے فاضل بجٹ تھے ۔ باقی 48 بجٹ خسارے کے بجٹ تھے يا ہيں

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء کا کُل حجم 27 کھرب 60 ارب 2760000000000 روپے ہے ۔ اس بجٹ ميں 9 کھرب 75 ارب يعنی 975000000000 روپے خسارہ شامل ہے جو کہاں سے پورا ہو گا ؟ اس کے متعلق بتايا گيا ہے کہ ايک کھرب 25 ارب صوبوں کے اضافی بجٹ سے پورا ہو گا ۔ باقی 8 کھرب 50 ارب يعنی 8500000000 روپيہ کہاں سے آئے گا ؟ اس کا کچھ پتہ نہيں

تعليم کيلئے اس بجٹ ميں 3 ارب 95 کروڑ 13 لاکھ يعنی 3951300000 روپے رکھے گئے ہيں

صحت کے پورے شعبہ کيلئے اس بجٹ ميں 2 ارب 64 کروڑ 60 لاکھ يعنی 2646000000 روپے رکھے گئے ہيں

سرکاری ملازم کی تنخواہ ميں 15 فيصد اور پنشن ميں 15 سے 20 فيصد اضافہ کی تجويز ہے

وزيرِ اعظم صاحب نے 4 جون 2011ء کويعنی بجٹ پيش ہونے کے ايک دن بعد ايک حکم نامہ کے ذريعہ مندرجہ ذيل افراد کی تنخواہوں ميں اضافہ کر ديا ہے
عہدہ ملازم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ تنخواہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نئی تنخواہ
اٹارنی جنرل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 200000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 606811
ايڈيشنل اٹارنی جنرل ۔ 150000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 548845
ڈپٹی اٹارنی جنرل ۔ ۔ ۔ ۔ 100000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 150000
ايڈووکيٹ آن ريکارڈ ۔ ۔ 75000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100000

جس ملک نے اگلے سال ميں بيرونی قرضوں کی قسط 10 کھرب 34 ارب يعنی 1034000000000 روپے ادا کرنا ہے ۔ جس کے 50 فيصد عوام تنگی سے زندگی گذار رہے ہيں ۔ پيٹ کے ہاتھوں تنگ آ کر خود کُشياں کر رہے ہيں اور بچے فروخت کر رہے ہيں اس کے صدر اور وزيرِ اعظم صاحبان کی تنخواہوں اور ديگر لوازمات کچھ يوں ہيں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وزير اعظم

سالانہ تنخواہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12960000
غير مُلکی دورے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 486320000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1570000000
اندرونِ ملک ٹرانسپورٹ وغيرہ ۔ ۔ ۔ 27700000 ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 24600000
ذاتی ملازمين کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 482000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 996000000
باغبانی کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 15000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14300000
ڈسپنسری کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامعلوم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10200000
کُل اخراجات سالانہ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1008090000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2628060000
اوسط ماہانہ اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 84007500 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 219005000

صدر صاحب کو قوم 8 کروڑ 40 لاکھ 7 ہزار 500 روپے ماہانہ خرچ اور وزيرِ اعظم کو 21 کروڑ 90 لاکھ 5 ہزار روپے ماہانہ خرچ ديتی ہے ۔ اس کے ساتھ بجلی ۔ پانی ۔ قدرتی گيس اور ٹيليفون جتنا بھی استعمال کريں وہ مُفت ہے ۔ اس کے بدلے ميں يہ دونوں حضرات قوم کو کيا ديتے ہيں ؟

پچھلے سال صدر کے بيرونِ ملک دوروں کيلئے 31 کروڑ يعنی 310000000 روپے بجٹ ميں رکھے گئے تھے مگر صدر صاحب نے 36 کروڑ 55 لاکھ 56 ہزار يعنی 365556000 روپے خرچ کر ڈالے

کہا گيا ہے کہ تين سرکاری اداروں کو سبسڈی دی جاتی ہے جو کہ تين سال ميں ختم کی جائے گی ۔ يہ ادارے ہيں ۔ اليکٹرک پاور سپلائی ۔ پاکستان سٹيل اور پی آئی اے جن کا سالانہ خسار 4 کھرب يعنی 400000000000 روپے ہے ۔ اليکٹرک پاور سپلائی کا فضيحتا يہ ہے کہ لگ بھگ 30 فيصد بجلی چوری ہوتی ہے اور چوری کرنے والے حکمران يا اُن کے اپنے لوگ ہيں ۔ شہروں ميں سب سے زيادہ بجلی چوری کراچی ميں ہوتی ہے جس کا مقابلہ دوسرا کوئی پورا صوبہ بھی نہيں کر سکتا ۔ مضافات ميں سب سے زيادہ بجلی کی چوری قبائلی علاقوں ميں ہوتی ہے ۔ پاکستان سٹيل ميں 2 سے 3 ہزار ملازمين ايسے ہيں جو ہر ماہ ميں ايک دن صرف تنخواہ لينے کيلئے پاکستان سٹيل جاتے ہيں مگر کسی کی مجال نہيں جو اُن کی طرف اُنگلی اُٹھا سکے ۔ اس کے ساتھ ہی نااہل افراد کی سياسی بھرتيا ں بڑی بڑی تنخواہوں پر کی گئی ہيں ۔ پی آئی اے کے خسارے کا واحد سبب نااہل افراد کی بڑی بڑی تنخواہوں پر بھرتی ہے ۔ حکمران چوروں اور لُٹيروں سے جان نہيں چھڑانا چاہتے کيونکہ وہ ان کے اپنے لوگ ہيں چنانچہ عام آدمی پر ان کا مزيد بوجھ ڈالنے کی منصوبہ بندی آئی ايم ايف کے مطالبہ کے تحت کی جا رہی ہے کيونکہ ايسا نہ کرنے کی صورت ميں مزيد قرضے ملنا بند ہو سکتے ہيں

وفاقی وزيرِ ماليات ڈاکٹر عبدالحفيظ شيخ جو ريوينيو ايڈوائزری کونسل کے چيئرمين بھی ہيں نے بتايا ہے مُلک ميں ايسے دولتمند لوگ ہيں جن کے اربوں روپے کہ اندرونِ مُلک اور بيرونِ مُلک اثاثے بشمول بينک بيلنس ہيں مگر ٹيکس نہيں ديتے يا نہ ہونے کے برابر ديتے ہيں ۔ ريوينيو ايڈوائزری کونسل نے مضبوط سفارش کی تھی کہ ايسے لوگوں کے اثاثوں پر ايک فيصد عبوری ٹيکس اس طرح لگايا جائے کہ جو ٹيکس وہ ادا کر رہے ہيں اُسے اس ايک فيصد ٹيکس سے منہا کر کے مزريد کچھ ٹيکس بنتا ہو تو وصول کيا جائے ۔ حکومت نے اس سفارش کو نہيں مانا اور بجٹ سے نکال ديا

آ بُلبلا مل کر کريں گريہ و زاری
تُو پُکار ہائے گُل ميں پُکاروں ہائے دِل