افتخار اجمل بھوپال کی نہائت انکساری اور خلوص سے
عرض
يہ مختصر زندگی اک نعمتِ ربّانی ہے
آيئے اس کی کچھ مناسب تعظيم کريں
اسے تھوڑا تھوڑا دوسروں ميں تقسيم کريں
دعا
اے خدا ۔ جذبہءِ اِيثار عطا کر ہم کو
جو گفتار ہے وہ کردار عطا کر ہم کو
افتخار اجمل بھوپال کی نہائت انکساری اور خلوص سے
عرض
يہ مختصر زندگی اک نعمتِ ربّانی ہے
آيئے اس کی کچھ مناسب تعظيم کريں
اسے تھوڑا تھوڑا دوسروں ميں تقسيم کريں
دعا
اے خدا ۔ جذبہءِ اِيثار عطا کر ہم کو
جو گفتار ہے وہ کردار عطا کر ہم کو
ايہہ پُتر ہٹاں تے نئيں وِکدے ۔ تُوں لَبھدی پھِريں بزار کُڑے
ايہہ سَودا نقد وی نئيں مِلدا ۔ تُوں لَبھدی پھِريں اُدھار کُڑے
سچ ہے کہ بيٹے نہ تو بِکتے ہيں اور نہ کہيں سے مُستعار ملتے ہيں
بيٹے گھر کے اندر ہی پيدا ہوں تو بات بنتی ہے ۔ عزت بنتی ہے ۔ عِفت قائم رہتی ہے اور دُشمن ڈرتا ہے
بيٹا کيا ہوتا ہے ؟
بيٹا وہ نہيں جو
غير لڑکی کو ديکھ کر لٹُو ہو جائے
پستول دکھا کر راہگير کو لُوٹ لے
دولت کی خاطر نشانہ لے کر بے قصور آدمی کو ہلاک کر دے
مسندِ حکومت پر بيٹھ کر قوم کے مال سے گلچھڑے اُڑائے
قوم کے نام پر اپنی تجورياں بھرے
بيٹا ہوتا ہے
ماں کی عظمت کا نشان
بہن کے فخر کا سامان
باپ کے حوصلے کا مقام
قومی غيرت کا پيغام
نظرياتی سرحدوں کا پاسبان
رات کی تاريکی کی بجائے دن کی روشنی ميں بر سرِ پيکار
اپنے لئے سہارا ڈھونڈنے کی بجائے خود دوسروں کا سہارا
کسی کی کوشش کا متمنی نہيں ۔ اپنی محنت پر بھروسہ کرنے والا
دھواں دار نعرے لگانے والا نہيں ۔ عمل اور کردار سے پہچانا جانے والا
اپنوں پر مہربان اور دُشمن کيلئے قہر
اگر کوئی ہے عزت کا خواہشمند ؟ اور عافيت کا طلباگار ؟
تو بن جائے
بيٹا قوم کی ہر ماں کا
بھائی قوم کی ہر بہن کا
مددگار قوم کے ہر باپ کا
محافظ قومی نظريہ کا
جانثار قوم کے وقار کا
زبانی نہيں عملی طور پر کہ زندگی کوئی تمثيل [drama] نہيں ہے بلکہ ايک اٹل حقيقت ہے جو تلخ ہے اور شيريں بھی
ايک بيٹا ميں نے بچپن ميں ديکھا تھا
سال 1947ء پنجاب اور قربِ جوار ميں جو علاقہ بھارت کا حصہ قرار ديا گيا ہے وہاں جہاں جہاں مسلمان اقليت ميں ہيں راشٹريہ سيوک سنگ ۔ مہا سبھا اور اکالی دَل کے مسلحہ جتھے اُن پر حملے کر رہے ہيں ۔ ايک ايسے ہی شہر ميں ايک محلہ ميں چند مسلمان گھرانے تھے ۔ اکالی دَل کے مسلحہ افراد ايک مکان کا دروازہ پِيٹتے ہيں ۔ يہ مسلمان خاندان مياں بيوی اور جوان بيٹے پر مشتمل ہے ۔ سربراہِ خانہ دروازہ کھولتا ہے تو
ايک گرجدار آواز آتی ہے “کڑے پہن لو ۔ ورنہ مرنے کيلئے تيار ہو جاؤ”۔
جوان بيٹا يکدم باپ کو پيچھے کر کے دروازے سے باہر نکل کر دروازہ بند کر ديتا ہے پھر
بازو ہوا ميں لہرا کر دہاڑتا ہے ” لاؤ اپنی بہن کی ڈولی اور پہناؤ مجھ کو کڑا”۔
ايک سکھ غصہ کھا کر نيزے کا وار کرنے آگے بڑھتا ہے
جوان عقاب کی طرح جھپٹ کر اُس سے نيزا چھين کر اُسے ڈھير کر ديتا ہے پھر دوسروں کی طرف بڑھتا ہے ۔ اکيلا مسلمان جوان پانچوں کے وار سہتا جاتا ہے اور جوابی وار کرتا جاتا ہے حتٰی کہ پانچوں ڈھير ہو جاتے ہيں اور ساتھ ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جوان خود بھی شہيد ہو جاتا ہے
ميں نے عدنان شاہد صاحب کی فرمائش پر سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب پر قلم اُٹھانے کيلئے اپنے دماغ کی محفوظ ياد داشت [Reserve memory] کو کھروچنے اور اپنے پرانے کاغذات اور بياض کھنگالنے کے بعد خاص کر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے کچھ لکھنے ميں کسی حد تک کامياب ہو گيا اور اسے ايک مضمون کی شکل دے رہا تھا کہ شاہد عدنان صاحب کی 25 اور 26 نومبر کی درميانی رات کی لکھی ہوئی ای ميل بروز ہفتہ 26 نومبر 2011ء کو نظر پڑی جس ميں اطلاع تھی کہ وہ پھر سے ميرا بلاگ کھول نہيں پا رہے ۔ يہی شکائت چند اور محترم قارئين اور محترمات قاريات کو بھی ہے [وائے پی ٹی سی ايل]
چونکہ يہ ايک اہم موضوع ہے جس ميں بہت سے قارئين اور قاريات کی دلچسپی کی توقع ہے اور شايد پھر مجھے کبھی اس کے اظہارِ خيال کا موقع نہ ملے ۔ اس لئے ميں نے اس کی اشاعت کو اُس وقت تک ملتوی کرنے کا ارادہ کيا ہے جب تک ميں پاکستانی ڈومين حاصل نہيں کر ليتا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ميری مدد فرمائے
جيسا کہ ميں پہلے ہی اعلان کر چکا ہوں اُميد ہے کہ اللہ کی مہربانی سے وسط ماہ دسمبر 2011ء تک ميرا يہ بلاگ ميری نئی ڈومين پر مُنتقِل ہو جائے گا ۔ اسلئے اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئين اور قاريات کو اِن شاء اللہ زيادہ انتظار نہيں کرنا پڑے گا
اللہ ميرا حامی اور ناصر ہو
اسلام آباد میں محرم الحرام 1433ہجری کا چاند نظرآگیا ہے ۔ چنانچہ کل بروز اتوار 27 نومبر 2011ء کو پاکستان ميں نيا ہجری سال 1433 شروع ہو گا
اللہ سُبحانُ ہُ و تعالٰی نئے ہجری سال 1433 کو سب مسلمانوں بالخصوس ميرے ہموطنوں کيلئے مبارک کرے
سعودی عرب ميں آج يعنی 26 نومبر کو نيا ہجری سال شروع ہونے کا اعلان صبح ہو چکا ہے
موضوع سے پہلے کچھ اپنے بارے ميں
جيسا کہ ميں 10 نومبر کو لکھ چکا ہوں ميری دوسری يعنی داہنی آنکھ کی ليزر سرجری 15 اور 16 نومبر کی درميانی رات کو ہوئی اور اب ميں اللہ کے فضل و کرم سے دونوں آنکھوں سے پہلے کی نسبت بہتر ديکھ سکتا ہوں ۔ 15 نومبر سے آج تک جو کچھ ميرے بلاگ پر شائع ہوا وہ پہلے سے محفوظ شدہ تھا ۔ جو شائع کروا ديا گيا
پہلا سوال
ميں نے پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں يکم مئی 1963ء کو ملازمت شروع کی تو جو جملہ پہلی ہی ديد پر ميرے ذہن ميں بيٹھ گيا اور آج تک ميں نہ صرف اسے بھولا نہيں بلکہ اس پر عمل بھی کيا وہ ہے ہر ڈرائينگ شيٹ کے کنارے پر انگريزی ميں لکھا يہ فقرہ
اگر شک ہو تو پوچھو [If in doubt, Ask ]
مجھے اُس وقت بڑی مسرت ہوئی تھی جب مجھے عدنان شاہد صاحب کی چِٹھی ملی جس ميں اُنہوں نے مجھ سے دو سوال پوچھے تھے ۔ ايک کا ميں نے جواب دے ديا تھا مگر دوسرے کی وسعت کا خيال کرتے ہوئے ميں نے مہلت مانگی جس کی ايک وجہ يہ بھی تھی کہ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد ميری ياد داشت مجروح ہو چکی ہے
دوسرے سوال کے سلسلے ميں ياديں مجتمع کرتے ہوئے ميرے ذہن نے کہا کہ يہ ايک ذاتی معاملہ نہيں بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس کے متعلق بجا طور پر جواں نسل کی اکثريت جاننا چاہتی ہو گی مگر اُنہوں نے وہ ڈرائينگ شيٹس نہيں ديکھی ہوں گی جن پر لکھا تھا ” اگر شک ہو تو پوچھو” چنانچہ ميں نے عدنان شاہد صاحب کے سوالات اور اُن کے جوابات اپنے بلاگ پر لکھنے کا فيصلہ کيا
بلاگ پر لکھنے کا دوسرا سبب يہ ہے کہ اس طرح تبصروں کی وساطت سے ممکن ہے مشاہدات کی وضاحت ہو يا ميری معلومات ميں اضافہ ہو
عدنان شاہد صاحب کی چِٹھی کا متن
السلامُ علیکم انکل جی میرا نام عدنان شاہد ہے اور میں اردو بلاگنگ کرتا ہوں اور آپ کے بلاگ کا مستقل قاری ہوں۔ انکل جی مجھے آپ کا تھوڑا سا وقت چاہئیے اور کیا آپ مجھے ان سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں ؟
قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی مشرقی پاکستان سے کس مطالبے نے جنم لیا؟
شیخ مجیب کے 6 نقاط میں سے وہ نقطہ بیان کیجیے جس کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا
ميرا جواب
السلام عليکم
آپ يہ سوالات کسی تاريخ دان سے پوچھتے تو بہتر ہوتا ۔ ميری بات کی کيا اہميت ؟
آپ کا پہلا سوال
جہاں تک ميرا عِلم اور ياد داشت کام کرتی ہے پاکستان بننے کے فوری بعد مشرقی پاکستان ميں کسی مطالبے نے جنم نہيں ليا تھا ۔ اگر ايسا ہوتا تو حسين شہيد سہروردی صاحب جو خالص بنگالی تھے پاکستان کا پہلا آئين منظور ہونے کے بعد ستمبر 1956ء ميں پاکستان کے وزيرِ اعظم نہ بنتے
خيال رہے کہ حسين شہيد سہروردی صاحب اُس عوامی ليگ کے صدر تھے جس ميں شيخ مجيب الرحمٰن بھی تھا
بنگاليوں کا دُشمن دراصل بنگالی بيوروکريٹ سکندر مرزا تھا جو غلام محمد کا منظورِ نظر ہونے کی وجہ سے بیوروکریٹ سے حکمران بن بیٹھا تھا
حسين شہيد سہروردی صاحب نے مشرقی پاکستان (جو کراچی کے سيٹھوں کے زيرِ اثر تھا) کو اس کا مالی حق دينے کی کوشش کی جسے روکنے کے لئے سکندر مرزا (جو اُس وقت صدر تھا) نے حسين شہيد سہروردی صاحب پر اِتنا زیادہ دباؤ ڈالا کہ اس ڈر سے کہ اُنہيں برخاست ہی نہ کر ديا جائے حسين شہيد سہروردی صاحب اکتوبر 1957ء ميں مستعفی ہو گئے تھے
يہ تھا وہ وقت جب مشرقی پاکستان ميں نفرت کی بنياد رکھی گئی
اس سے قبل محمد علی بوگرہ صاحب جو بنگالی تھے 1953ء ميں وزيرِ اعظم بنے تھے اور انہيں بھی سکندر مرزا نے 1955ء ميں برخواست کيا تھا
محمد علی بوگرہ صاحب سے قبل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدين صاحب (جو لیاقت علی خان صاحب کی شہادت کے بعد 1951ء میں وزیرِ اعطم بنے تھے) کو کابينہ سمیت 1953ء ميں اور پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی کو 1954ء ميں برخواست کر کے پاکستان کی تباہی کی بنياد رکھی تھی
دوسرے سوال کا جواب ميں براہِ راست نہيں بلکہ اپنے انداز سے دوں گا مگر اس کيلئے مجھے وقت چاہيئے کہ پرانی ياديں تازہ کروں
ترميم
ايک اہم بات جو چِٹھی ميں لکھنے سے رہ گئی تھی يہ ہے کہ مشرقی پاکستان ميں بنگالی بھائيوں کے دُشمن وہی تھے جو مغربی پاکستان ميں پنجابيوں ۔ سندھيوں ۔ پٹھانوں اور بلوچوں کے دشمن رہے ہيں يعنی بيوروکريٹ خواہ وہ سادہ لباس ميں ہوں يا وردی ميں
ہم لوگ بڑے کرّ و فر سے اپنے جمہوری ہونے کا بيان داغتے ہيں اور سعودی نظامِ حکومت کو آمريت قرار ديتے ہوئے يہ بھی اعلان کرتے ہين کہ وہاں پاکستانيوں کے ساتھ بُرا سلوک کيا جاتا ہے
البتہ جب جمہوريت اور آمريت ميں عملی زندگی کا موازنہ کرتے ہيں تو آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے
بخشو ری بِلی ۔ چوہا لنڈورا ہی بھلا ۔ ۔ ۔ يعنی بخشو ری جمہوريت ۔ آمريت ہی بھلی
پاکستانی شہری فرمان علی خان نے نومبر 2009ء میں جدہ میں ہونیوالی طوفانی بارش کے باعث سیلاب میں گھرے 14افراد کی جان بچائی اور اپنی جان جان آفریں کے سپردکردی تھی ۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ نایف بن عبدالعزیز نے فرمان علی کیلئے اعلان کردہ سعودی عرب کا اعلٰی ترین سول ایوارڈ ”کنگ عبدالعزیز میڈل“ اس کے والد عمر رحمان کوپیش کردیا
اس سے پہلے ایک سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ پر ہزاروں سعودی افراد نے جدہ کی سڑک کو فرمان علی خان کے نام سے منسوب کرنے کی مہم بھی چلائی تھی جس کے بعد شہید فرمان علی کے نام جدہ کی ایک شاہراہ بھی منسوب کردی گئی ہے
سوات سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ فرمان علی خان نے پسماندگان میں بیوہ اور 3 بیٹیاں زبیدہ ۔ مدیحہ اور جریرہ چھوڑیں ہيں ۔ وہ 6 برس تک سعودی عرب میں مقیم رہا اور صرف 2 بار پاکستان آيا تھا
ميں سعودی عرب 5 بار جا چکا ہوں ۔ پہلی بار مئی جون 1978ء ميں اور آخری بار دسمبر 2000ء جنوری 2001ء ميں ۔ حج ميں نے 1985ء ميں کيا جب ميرا قيام 40 دن رہا ۔ باقی 4 بار عمرے کئے اور ہر بار 15 دن قيام رہا ۔ جب حج پر گيا تھا تو مدينہ منورہ ميں قيام کے دوران ميں بيمار ہوا ۔ ميں پاکستان ہاؤس گيا جہاں يہ کہہ کر مجھے کوئی دوائی نہ دی گئی کہ “دوائياں ابھی پہنچی نہيں ہيں”۔ پھر مجھے او آر ايس کی تين پُڑياں دے کر کہا “رکھ لو کام آئيں گی”۔ ميں نے باہر نکل کر ديکھا تو ان کی معياد ايک سال قبل ختم ہو چکی تھی ۔ مجھے ٹيکسی ڈرائيور کہنے لگا ” آپ سعودی ہسپتال کيوں نہيں جاتے ؟” ميں نے بتايا کہ “کہتے ہيں وہاں پاکستانی حاجيوں کا علاج نہيں کرتے”۔ اُس نے ميری بات نہ مانی اور مجھے سعودی ہسپتال لے گيا ۔ ميں نے اندر جا کر چپڑاسی کو بتايا کہ ميں حج کرنے آيا ہوں ۔ اُس نے مجھے عليحدہ بٹھا ديا ۔ مريض جو ڈاکٹر کے پاس تھا باہر نکلا تو اُس نے عام مريضوں سے کہا “يہ عازمِ حج ہے اور زيادہ بيمار ہے اس لئے اسے ميں پہلے بھيج دوں ؟”۔ 3 مريض انتظار ميں تھے اُنہوں نے اثبات ميں سر ہلايا اور مجھے ڈاکٹر کے پاس بھيج ديا گيا ۔ اتفاق سے ڈاکٹر پاکستانی تھا ۔ کہنے لگا “ليبارٹری ٹسٹ اور نسخہ ميں لکھ ديتا ہوں ۔ آپ کو بازار سے کروانا اور بازار سے ہی دوائی لينا ہو گی ۔ جانے سے قبل باہر کھڑکی پر اس نسخہ کا اندراج کروا ديں”۔ ميں نے باہر کھڑي پر جا کر نسخہ دے کر کہا “اندراج کر ليں”۔ وہاں سعودی تھا ۔ اس پر مہر لگا کر کہنے لگا “ليبارٹری بند ہونے والی ہے جلد اندر جاؤ اور خون ٹيسٹ کيلئے دے کر ميرے پاس آؤ”۔ ميں گيا وہاں پر بھی سعودی تھا ۔ پوچھا “ارجنٹ ہے ؟” ميں نے ہاں ميں سر ہلايا تو بھاگ کر ايک جاتی ہوئی خاتون کو واپس لايا ۔ وہ پيٹھالوجسٹ تھی ۔ اُس نے ليبارٹری کا تالا کھولا ۔ اندر سے سامان نکال کر ميرا خون ليا اور مجھے کہ “چار پانچ بجے کے درميان آئين ۔ ليبارٹری تو بند ہو گی ۔ يہاں جو لڑکا ہو گا اُسے کہيں ڈاکٹر فلاں نے جو ٹيسٹ کيا تھا اُس کی رپورٹ دراز ميں ہے دے ديں”۔ اس کے بعد ميں پھر کھڑکی پر پہنچا اور نسخہ اسی سعودی کے حوالے کيا ۔ اُس نے مجھے ساری دوائياں دے ديں اور کہا “آپ کہاں خوار ہوتے ۔ کيا حرج ہے جو آپ کو دوائی دے دی جائے ۔ بہت دوائياں ہين ہمارے پاس”
یقین ۔ خود اعتمادی ۔ جہدِ مسلسل ۔ صبر و تحمل ۔ انصاف اور محبت
زندگی کے میدانِ کارزار میں حقیقی مؤثر ہتھیار اور فتح کا مُجرّب نُسخہ ہیں
میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے سوا سات سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے