ميں آنکھ کی جراحی کے بعد 3 دن کمرہ بند [Room arrest] اور 4 دن گھر بند [House arrest] رہا ۔ نہ پڑھنے کی اجازت اور لکھنے کی تھی تو کيا کرتا ؟ ميں جسے بچپن سے پڑھنے اور لکھنے کی عادت ہے لمحہ بھر کيلئے سوچيئے کہ کيا حال ہوا ہو گا ميرا ؟ شکر ہے کہ دماغ پر پابندی نہ تھی ۔ چنانچہ کئی واقعات و مشاہدات پر غور جاری رہا ۔ آج ان ميں سے ايک مسئلہ جو ہر گھر [يا گھرانے] کا مسئلہ ہو سکتا ہے سپُردِ قلم کر رہا ہوں
اپنے ہموطنوں کی اکثريت کو ماہرِ نفسيات کے پاس جانے کی ضرورت ہے مگر ہمارے ہاں صرف پاگل کو يا اُسے جسے کسی مقدمہ ميں سزا ہونے سے بچانا ہو يا اُس سے جان چھڑانا ہو تو ماہرِ نفسيات کے پاس لے جاتے ہيں
صبح ناشتے کی ميز پر بيوی نے خاوند سے کہا “آج ذرا وقت پر آ جايئے گا ۔ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے”
خاوند بيوی کی بات ياد رکھتے ہوئے چھٹی ہوتے ہی گھر کی راہ ليتا ہے ۔ گھر ميں داخل ہوتا ہے تو بيوی گويا ہوتی ہے “ہاتھ منہ دھو کر آ جايئے ۔ چائے تيار ہے”
خاوند ہاتھ منہ دھو کر کھانے کی ميز پر پہنچتا ہے تو بيوی کھانے کی چيزوں والی طشتری آگے بڑھاتی ہے ۔ خاوند کچھ اپنی تھالی ميں رکھ ليتا ہے تو بيوی سُرعت سے پيالی ميں چائے اُنڈيل کر چينی ہلانے لگتی ہے
خاوند مُسکرا کر کہتا ہے ” کوئی وقت کا پابند ڈاکٹر لگتا ہے”
ڈاکٹر کے مطب پہنچنے پر خاوند تختی پر نظر ڈالتا جس پر تحرير ہے ماہر دماغی امراض ۔ وہ دل ہی دل ميں پريشان ہوتا ہے کہ ميری بيوی کو ايسی ضرورت کيوں پيش آئی ؟
ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر جب خاوند اور بيوی بيٹھ جاتے ہيں تو بيوی ڈاکٹر سے مخاطب ہوتی ہے “يہ ميرے خاوند ہيں ۔ ہماری شادی کو 10 سال گذر چکے ہيں ۔ چند دنوں سے يہ عجيب سی بات کرنے لگے ہيں ۔ مجھے کہتے ہيں کہ ميں تمہيں اپنی بيوی سمجھتا ہوں”
ڈاکٹر ” آپ ان کی بيوی ہيں نا ۔ تو اس ميں کيا بُرائی ہے ؟”
بيوی “ڈاکٹر صاحب ۔ آپ ميری بات نہيں سمجھ پائے ۔ ديکھيں نا ۔ يہ مجھے کہتے ہيں کہ يہ مجھے بيوی سمجھتے ہيں ۔ ميں تو ان کی بيوی ہوں پھر وہ ايسا کيوں کہتے ہيں ؟”
اسی دوران ڈاکٹر صاحب کسی کو ٹيليفون پر کہتے ہيں “آپ زيادہ مصروف تو نہيں ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذرا مطب ميں آ جايئے آپ کے مہمان آئے ہيں”
چند منٹ بعد مطب کے پچھلے دروازے سے ايک خاتون داخل ہوتی ہيں ۔ ڈاکٹر صاحب اُنہيں کرسی پر بيٹھنے کا اشارہ کر کے سامنے بيٹھے جوڑے ميں بيوی کو مخاطب کرتے ہيں ” يہ ميری بيوی ماہرِ نفسيات ہيں ۔ آپ ان سے اپنے لئے وقت لے ليجئے ”
پھر خاوند سے مخاطب ہو کر کہتے ہيں ” آپ کی بيگم صاحبہ کو نفسياتی مشورے کی ضرورت ہے”
کوئی اچھا موقع پا کر خاوند اپنی بيوی سے کہے ” ميں آپ کو اپنی بيوی سمجھتا ہوں”
اسی طرح ہر بيوی اچھا موقع پا کر اپنے خاوند سے کہے ” ميں آپ کو اپنا خاوند سمجھتی ہوں”
پھر جو جواب ملے اس سے ميرے علم ميں اضافہ فرمانا نہ بھولئے گا
اصل بات يہ ہے کہ بيوی يا خاوند ہونے کے بعد بيوی يا خاوند سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ بصورتِ ديگر مياں بيوی کے تعلقات مياں بيوی کے تمام عملی تقاضے پورے نہيں کريں گے