اپنے ساتھ پيش آنے والے چند واقعات تو ميں شائع کر چکا ہوں ۔ اب دنيا ميں ہونے والے واقعات ميں سے چند
گاڑی اُلٹی کيسے نکالتے ہيں
گاڑی کيسے چلاتے ہيں
ايک
دو بلکہ زيادہ
اپنے ساتھ پيش آنے والے چند واقعات تو ميں شائع کر چکا ہوں ۔ اب دنيا ميں ہونے والے واقعات ميں سے چند
گاڑی اُلٹی کيسے نکالتے ہيں
گاڑی کيسے چلاتے ہيں
ايک
دو بلکہ زيادہ
انشاء اللہ العزيز
سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟ آزادی آزادی آزادی
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا
انتباہ ۔ کوئی کراچی یا اسلام آباد میں رہتا ہے یاپشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تین قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے
رنگ لائے گا شہيدوں کا لہو اور ظُلم کی تلوار ٹوٹے گی
جموں کشمير ہو کر رہے گا آزاد اِن شاء اللہ اِن شاء اللہ
قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”
جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں
اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ پھر موت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایثار کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہلِ جموں کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہلِ جموں کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی
اہلِ جموں کشمیر صرف جموں کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں
حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں ۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ؟
بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے اِن شاء اللہ ناکامی اس کا مقدّر ہے
بھارت جموں کشمیر کے لوگوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔ بھارتی معاندانہ پروپيگنڈہ سے بھونچکا ہوئے ہموطن بھی دشمن کی بانسری بجانے لگے ہيں
یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے ؟
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا ۔ میں نے اپنے دوسرے يعنی انگريزی بلاگ پر ستمبر 2005ء میں لکھا تھاکہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت نے 5 فروری کو چھٹی قرار دیا اور اسے سرکاری طور پر منایا اور آج تک 5 فروری کو چھٹی ہوتی ہے
اہل جموں کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، جموں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ جموں کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمير کے باشندوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ جموں کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے رياست جموں کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں دلال [Middle Man] کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر جموں کشمير کے باشندوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے تین بڑے دریا راوی چناب اور جہلم بھارت کے قبضہ میں ہیں جن پر کئی ڈيم بنا کر بھارت انہيں خُشک کرنے کے در پۓ ہے
جموں کشمیر کی جد و جہد آزادی کا مختصر جائزہ لینے کیلئے یہاں کلِک کیجئے
آنے والی کل کيلئے ہفتہ بھر سے چاروں طرف گہما گہمی ہے يعنی عيد ميلاد النبی منانے کی ۔ زبان زدِ عام قول ہے حُبِ رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم ۔ آج تک ميری سمجھ ميں نہيں آيا کہ ہمارے بھائی بند يعنی اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے محبت ۔ انس ۔ احترام يا عقيدت کسے کہتے ہيں ؟
رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم اُس زمانے کے قليل مسلمانوں سے اجتماعی ضروريات کيلئے کچھ مال لانے کا کہتے ہيں ۔ سب بقدرِ استطاعت لاتے ہيں ۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہيں ” کيا لائے ؟”۔ وہ کہتے ہيں ” گھر ميں جو کچھ تھا اُس کا آدھا لے آيا ہوں”۔ پھر يہی ابو بکر صديق رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو اُنہوں نے کہا “گھر ميں جو کچھ تھا سب لے آيا ہوں”۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم نے کہا ” کچھ بيوی بچوں کيلئے بھی چھوڑا ؟” تو ابو بکر صديق رضی اللہ عنہ نے کہا ” ہاں ۔ اللہ اور اس کا رسول”
رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم مسجد کے منبر پر تشريف فرما ہيں ۔ مسجد کے آخری حصے ميں کچھ مسلمان کھڑے ہيں ۔ رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم اُنہيں بيٹھنے کا کہتے ہيں ۔ سڑک پر مسجد کے پاس آتے ايک صحابی وہيں بيٹھ جاتے ہيں ۔ رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کہتے ہيں “ميں نے مسجد ميں کھڑے لوگوں کو بيٹھنے کا کہا تھا سڑک پر چلنے والوں کو نہيں”۔ صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہيں “درست ۔ ليکن يہ کيسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ کے منہ سے بيٹھنے کا حکم نکلے اور ميں کھڑا رہوں”
ہمارے اجتماع نماز جمعہ و عيدين اور حج ہيں ۔ يہی ہمارے تہوار ہيں ۔ اس کے علاوہ کچھ نہيں ۔ باقی جلسے جلوس اللہ کے دين کا حصہ نہيں ہيں ۔ تھوڑا سا غور کيا جائے تو ہماری رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم سے محبت ۔ عقيدت اور احترام کا بھانڈہ ريزہ ريزہ ہو جاتا ہے ۔ ہم لوگوں نے محبت کو ميلوں ۔ جلوسوں اور مجلسوں ميں بند کر ديا ہے اور اپنے فرائض سے غافل ہيں جو اپنے مال اسباب اور اہل و عيال حتٰی کہ اپنی جان سے زيادہ اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کے متقاضی ہيں
کچھ روز قبل ايک امريکی عيسائی دوست نے بتايا کہ کرسمس منانا عيسائيت کا حصہ نہيں ہے بلکہ منحرف لوگوں کی اختراع ہے اور ثبوت کے طور پر انجيل سے اقتباسات تحرير کئے ہيں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سيّدنا عيسٰی عليہ السلام کی پيدائش دسمبر کی سردی ميں نہيں ہوئی تھی بلکہ ايسے موسم ميں ہوئی تھی جب چرواہے اپنے ريوڑ رات کے وقت چرا رہے تھے ۔ يعنی جب رات کو سردی نہ تھی اور دن کو گرمی برداشت نہ ہوتی ہو گی ۔ ان اقتباسات کو ميں نے ” Why Christmas ? ” کے عنوان سے اپنے انگريزی بلاگ “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is Often Bitterپر نقل کيا تھا جسے ” Why Christmas ?” پر کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے
ايک چينی لڑکے نَونگ يُو ہُوئی [Nong Youhui]کو اللہ سُبحانُہُ نے تعجب انگيز بصارت عطا کی ہے ۔ اس لڑکے کی آنکھيں چمکدار نيلے رنگ کی ہيں اور اندھيرے ميں بلی کی آنکھوں کی طرح دھمکتی ہيں ۔ نَونگ يُو ہُوئی دن ميں عام انسانوں کی طرح ديکھ سکتا ہے اور رات کے اندھيرے ميں بھی اسے دکھائی ديتا ہے
نَونگ يُو ہُوئی کے
متعلق پہلی بار 2009ء ميں پتہ چلا جب اس کے باپ نَونگ شی ہُوآ [Nong Shihua] نَونگ يُو ہُوئی کی چمکدار نيلی آنکھوں کی وجہ سے پريشان ہو کر اُسے جنوبی چين کے شہر داہُوآ [Dahua] کے ہسپتال لے کر گيا ۔ ڈاکٹروں نے اُسے بتايا کہ “پريشانی کی ضرورت نہيں ۔ نَونگ يُو ہُوئی جب بڑا ہو گا تو اس کی آنکھيں ٹھيک
ہو جائيں گی ۔ مگر کئی سال گذرنے کے باوجود نَونگ يُو ہُوئی کی آنکھوں ميں کوئی تبديلی نہ آئی اور نہ اس خصوصيت کی وجہ سے کوئی پريشانی لاحق ہوئی
باقی اس وِڈيو ميں ديکھا جا سکتا ہے
کچھ عرصہ سے حکمران کہہ رہے ہيں کہ پارليمنٹ مقتدر [sovereign] ہے ۔ جواز يہ پيش کيا جاتا ہے کہ آئين کی تشکيل اور ترميم پارليمنٹ کرتی ہے ۔ مطلب يہ ہوا کہ سب کو پارليمنٹ کی اطاعت يا تابعداری کرنا ہو گی
اس تصور يا بيان کی عملی صورت پر غور کيا جائے تو بات يوں بنتی ہے کہ پارليمنٹ يعنی اس کے ارکان کی اکثريت جو فيصلہ کر دے وہ اٹل ہے اور سب اس فيصلے پر عمل کے پابند ہوں گے ۔ گويا پارليمنٹ اگر کوئی فيصلہ ملک يا عوام کے خلاف بھی کر دے تو عوام اُسے ماننے کے پابند ہوں گے ۔ کيا يہ عقل ميں سمو سکتا ہے ؟
دوسری بات جو کہی جا رہی ہے يہ ہے کہ صدر کسی بھی معاملہ ميں کسی بھی عدالت کو جواب دہ نہيں ہے يعنی وہ کوئی بھی جرم کرے اُس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہيں کی جا سکتی
گويا صدر چاہے ڈاکہ ڈالے يا قتل کرے تو بھی اُسے کچھ نہ کہا جائے ۔ پھر پرانے زمانہ کی بادشاہت اور دورِ حاضر کی جمہوريت ميں کيا فرق ہے ؟
آئين کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آئين ميں کچھ باب ايسے ہيں کہ جنہيں پوری پارليمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کيا ہوا ہے ۔ يہ باب آئين کی بنياد يا اساس ہيں اور انہيں تبديل نہيں کيا جا سکتا ۔ ان ميں سے چند شقات درج ذيل ہيں
آئين کی تابعداری ہر شخص [خواہ وہ وزيرِ اعظم يا صدر ہی ہو] کی ناقابلِ خلاف ورزی ذمہ داری ہے [شق 5 ۔ 1 ]
5. Loyalty to State and obedience to Constitution and law.
(1) Loyalty to the State is the basic duty of every citizen.
(2) Obedience to the Constitution and law is the inviolable obligation of every citizen wherever he may be and of every other person for the time being within Pakistan.
اردو کيلئے ديکھيئے صفحہ 4 کا عکس

باب اول ۔ بنيادی ۔ آئين کی شق 25 [1] کے تحت تمام شہری قانون کی نظر ميں برابر ہيں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہيں ۔
25. Equality of citizens.
(1) All citizens are equal before law and are entitled to equal protection of law.
[اُردو کيلئے ديکھيئے صفحہ 15کا عکس]

آئين کی شق 2 الف بھی ناقابلِ خلاف ورزی ہے جس ميں قرار دادِ مقاصد کو آئين کا بنيادی جزو بتايا گيا ہے ۔ اس کے مطابق تمام قوانين اور طرزِ زندگی اللہ کے احکام کے تابع قرار ديا گيا ہے ۔ [اُردو کيلئے نيچے ديکھيئے صفحات 1 ۔ 2 اور 3 کے عکس]
2A. The Objective Resolution to form part of substantive provisions.
The principles and provisions set out in the Objectives Resolution reproduced in the Annex are hereby made substantive part of the Constitution and shall have effect accordingly.
ANNEX [Article 2(A)] The Objectives Resolution
Whereas sovereignty over the entire universe belongs to Allah Almighty alone and the authority which He has delegated to the State of Pakistan, through its people for being exercised within the limits prescribed by Him is a sacred trust;
This Constituent Assembly representing the people of Pakistan resolves to frame a Constitution for the sovereign independent State of Pakistan;
Wherein the State shall exercise its powers and authority through the chosen representatives of the people;
Wherein the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice as enunciated by Islam shall be fully observed;
Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and the Sunnah;
Wherein adequate provision shall be made for the minorities to profess and practice their religions and develop their cultures;
Wherein the territories now included in or in accession with Pakistan and such other territories as may hereafter be included in or accede to Pakistan shall form a Federation wherein the units will be autonomous with such boundaries and limitations on their powers and authority as may be prescribed;
Wherein shall be guaranteed fundamental rights including equality of status, of opportunity and before law, social, economic and political justice, and freedom of thought, expression, belief, faith, worship and association, subject to law and public morality;
Wherein adequate provisions shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes;
Wherein the independence of the Judiciary shall be fully secured;
Wherein the integrity of the territories of the Federation, its independence and all its rights includ-ing its sovereign rights on land, sea and air shall be safeguarded;
So that the people of Pakistan may prosper and attain their rightful and honored place amongst the nations of the World and make their full contribution towards international peace and progress and happiness of humanity.
يہ بھی پڑھ ليجئے “صدارتی عہدے کی اہليت کے متعلق درخواست ۔ عدالت نے امريکی صدر اوبامہ کو طلب کر ليا”
1 ۔ صوبہ سندھ کے سرکاری ملازمين ؟
صوبہ سندھ جس ميں عوام دوست ہونے کی دعويدار پی پی پی ۔ ايم کيو ايم اور اے اين پی کی حکومت ہے کے کُل401388 سرکاری ملازمين ہيں ۔ ان کی پڑتال کے پہلے مرحلے ميں معلوم ہوا ہے کہ 108545 يعنی 27 فيصد سے زائد بھوت پريت [Ghost] ہو سکتے ہيں مگر انسان نہيں
اس طرح قوم کا 100000000 [10 ارب] روپيہ سالانہ ضائع ہو رہا ہے
دوسرے مرحلے ميں کيا ہو گا کچھ کہا نہيں جا سکتا
ابتدائی مرحلے کی تفصيل کچھ يوں ہے
ابتدائی مرحلے ميں 21438 افراد کا کمپيوٹر اندراج [کمپيوٹرائزڈ ڈيٹا] جعلی [Bogus] نکلا
دستور العمل [Manual] ميں 20456 ملازمين کا اندراج [Registration] ہی نہيں ملا
381 ايسے ملازمين ہيں جو انتقال کرگئے ليکن ان کی تنخواہيں دی جارہی ہيں
1264 ملازمين دوہری ملازمت يعنی ايک وقت ميں 2 ملازمتيں کر رہے ہيں
60000 سے 65000 ملازمين نے ملازمت کيلئے اپنی عمريں غلط لکھوائی ہوئی ہيں
يہ سب کچھ حکومتِ سندھ کی وزير شازيہ مری نے بتايا ہے کسی پنجابی نے نہيں بتايا ![]()
2 ۔ بينظير بھٹو انکم سپورٹ پروگرام
بينظير انکم سپورٹ فنڈ کے تحت مستحق افراد کو 1000 روپيہ ماہانہ ديا جاتا ہے ۔ اس کيلئے کچھ رقم يو ايس ايڈ ديتا ہے ۔ يو ايس ايڈ نے آڈيٹ کيا تو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو ماہانہ 1000 روپيہ ادا کيا جا رہا ہے ان ميں سے 4200000 [42 لاکھ] کا اس دنيا ميں وجود ہی نہيں ۔ اس طرح صرف پچھلے ايک سال ميں 50400000000 [50 ارب 40 کروڑ] روپے مستحقين کے نام پر خُرد بُرد کئے گئے يعنی پيپلز پارٹی کی حکومت کے پچھلے ساڑھے 3 سالوں ميں 176400000000 [1 کھرب 76 ارب 40 لاکھ] روپے خُرد بُرد کئے گئے
ايک بچہ اپنی ماں سے “آپ روتی کيوں ہيں ؟”
ماں “کيونکہ ايسی ضرورت پڑتی ہے”
بچہ ” مجھے سمجھ نہيں آئی”
ماں نے بچے کو سينے سے لگا کر پيار کرتے ہوئے کہا “تمہيں سمجھ آئے گا بھی نہيں”
پھر بچے نے اپنے باپ سے سوال کيا “ماں بغير وجہ کيوں روتی ہے ؟”
باپ نے لاپرواہی سے جواب ديا “سب عورتيں بلاوجہ روتی ہيں”
بچہ مخمصے ميں رہا ۔ کچھ دن بعد بچے کی ايک عالِم سے ملاقات ہوئی ۔ بچے نے سوچا “سب لوگ عالِم سے عِلم حاصل کرتے ہيں ۔ انہيں ضرور پتہ ہو گا کہ عورتيں کيوں روتی ہيں”
بچہ نے عالِم سے کہا “يا شيخ ۔ عورتيں اتنی آسانی سے کيوں رونے لگ جاتی ہيں ؟”
عالِم نے جواب ديا
“جب اللہ نے عورت کو بنايا تو اس پر خاص توجہ دی
اللہ نے عورت کے کندھے اتنے مضبوط بنائے کہ وہ دنيا کا وزن اُٹھا سکيں اور ساتھ اتنے نجيب کہ آرام پہنچا سکيں
اللہ نے عورت ميں اندرونی طاقت اتنی بھری کہ بچے کے حمل سے لے کر اُس ناپسنديدگی کو برداشت کر سکے جو بعض اوقات اُس کی اپنی اولاد ہی کی طرف سے ہوتی ہے
اللہ نے عورت کو کڑاپن عطا کيا کہ جب باقی سب ہار جاتے ہيں وہ بغير شکائت اپنے خاندان کی بيماری اور مشکلات کے دوران ديکھ بھال کرتی رہتی ہے
اللہ نے عورت ميں اپنے بچوں سے محبت کا احساس رکھا کہ وہ اُن سے ہر حال ميں محبت کرتی ہے خواہ بچے اُسے دُکھ ہی ديں
اللہ نے عورت کو طاقت بخشی ہے کہ اپنے خاوند کی تمامتر خاميوں کے ساتھ گذر کرتی ہے ۔ اور اللہ نے اسے مرد کی پسلی سے اُس کے دل کی حفاظت کيلئے پيدا کيا ہے
اللہ نے عورت ميں جاننے کی عقل رکھی ہے کہ اچھا خاوند بيوی کو دُکھ نہيں ديتا بلکہ اللہ کبھی کبھار خاوند کا ساتھ دينے ميں عورت کی مضبوطی اور قوتِ ارادی کا امتحان ليتا ہے
اور سب سے بڑھ کر اللہ نے عورت کو آنسو عطا کئے جو عورت کا طُرّہ امتياز ہيں جنہيں وہ جب چاہے جہاں چاہے بہائے ۔ اس کيلئے کسی وضاحت کی ضرورت نہيں کيونکہ يہ اُس کی خاص ملکيت ہيں
ديکھا بيٹا ۔ عورت کا حُسن اُن کپڑوں ميں نہيں جو وہ پہنتی ہے ۔ نہ اُس کے چہرے کی رنگت يا خد و خال ہيں ۔ نہ اُس کے بال ہيں ۔
بلکہ عورت کا حُسن اُس کی پرہيزگاری ہے جو اُس کی آنکھوں سے جھلکتی ہے کيونکہ وہی دل کی راہداری ہيں ۔ دِل جس ميں محبت گھر کرتی ہے”