عوام کے غمخوار

مُسلم لیگ میں سچے مسلمان کتنے ہیں معلوم کرنا بہت مُشکل کام ہے ۔ مُلک میں وفاقی اور 3 صوبوں کی حکومتیں جس جماعت کے پاس ہیں اُس کا نام ہے پاکستان پیپلز پارٹی یعنی پاکستانی عوام کی جماعت ۔ اس حکومت کی عوام دوستی کے جھنڈے ہر طرف گڑے ہیں ۔ اس کی کارستانیوں میں سے ایک چھوٹی سی بات جس کا اثر عوام کی بہت سی ضروریات پر پڑتا ہے وہ ہے پٹرولیم مصنوعات جن کی قیمت میں اضافے سے 65 فیصد پاکستانی شدید متاثر ہوتے ہیں

12 اکتوبر 1999ء کو جب مسلم لیگ کی حکومت ختم کی گئی تو پٹرول کی قیمت فی لیٹر 22 روپے 30 پیسے تھی ۔ 25 مارچ 2008ء کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اقتدار سنبھالنے پرپٹرول کی قیمت فی لیٹر 62 روپے 81 پیسے تھی جو اپریل 2012ء میں 103 روپے 68 پیسے ہو چکی ہے یعنی پی پی پی کی حکومت کے 4 سالہ دور میں پٹرول کی قیمت میں 40 روپے 87 پیسے اضافہ ہو چکا ہے جبکہ پرویز مشرف کے ساڑھے 8 سال میں 40 روپے 51 پیسے اضافہ ہوا تھا

حکومت پٹرول پر فی لیٹر 46 روپے 18 پیسے ٹیکس لے رہی ہے یعنی عوام فی لیٹر 46 روپے 18 پیسے ٹیکس کی مد میں ادا کر رہے ہیں

حکومت بلاواسطہ ٹیکسوں کا 50 فیصد، ڈومیسٹک جنرل سیلز ٹیکس کا 47 فیصد، درآمدی جنرل سیلز ٹیکس کا 36 فیصد اور امپورٹ ڈیوٹی کا 11 فیصد پٹرولیم مصنوعات پرٹیکس لگا کر حاصل کرتی ہے

موجودہ حکومت نے صرف 2010 ۔ 2011ء میں پٹرولیم پراڈکٹس پر5کھرب 3 ارب 50 کروڑ کے ٹیکس وصول کئے جس کی کچھ تفصیل یہ ہے ۔ ڈومیسٹک جنرل سیلز ٹیکس ایک کھرب 53 ارب 30کروڑ ۔ درآمدی جنرل سیلز ٹیکس ایک کھرب 10ارب 50کروڑ ۔ درآمدی ڈیوٹی 21 ارب 40کروڑ اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 5 ارب 10کروڑ جبکہ دیگر 5 ٹیکسوں کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں

یوں پٹرولیم پراڈکٹس پر (سوائے ود ہولڈنگ ٹیکس) 2010 ۔ 2011ء میں 503 ارب روپے سے زائد کے ٹیکس وصول کئے گئے اس طرح ملک کا نصف بلاواسطہ (indirect) ٹیکس ریونیو پٹرولیم پراڈکٹس سے حاصل ہوتا ہے

رانا بھگوان داس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سال 2002 ۔ 2009ء (7 سال) میں اُس وقت کی حکومت نے 10 کھرب 23 ارب روپے پٹرولیم پراڈکٹس پرٹیکس کی مد وصول کئے تھے یعنی سالانہ 146 ارب سے کچھ زائد جبکہ موجودہ حکومت نے ایک سال میں پٹرولیم پراڈکٹس پرٹیکس کی مد 503 ارب روپے سے زائد وصول کئے

بشکریہ ۔ جنگ

کاش ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ابھی تو یہ حال ہے کہ سڑک پر کھڑا میرے جیسا چھ فٹا انسان بھی گاڑی والے کو نظر نہیں آتا

میرے خالق و مالک ۔ وہ دن کب آئے گا جب اس گورے اجنبی کی طرح میرے ہموطن بھی اپنی گاڑی روک کر معصوم جانوں کو بچانے کا اہتمام کریں گے ؟
میں شاعر نہیں ہوں ۔ میرے دل نے جو کہا میں لکھ رہا ہوں

کاش کہ میرے وطن میں آزادی کا وہ دور آئے
جب میرے ہموطن ہر جان کو قیمتی سمجھیں

جب ہر ہموطن دوسرے کا بھی اچھا سوچے
جب میرے وطن میں کوئی سچ کو نہ ترسے

جب کوئی بھی جبیں نہ خوف سے تر ہو
انسان کی اپنی ہر سانس پر اپنا حق ہو

جب ہر چھوٹے بڑے کا اپنا اپنا قد ہو
جب ظُلم کا ہر کلمہ اور ہر وار رَد ہو

پیارے دیس کے پیارے لوگو
اب تو مدہوشی سے جاگ اُٹھو
کہیں دیر زیادہ نہ ہو جائے اور
اپنے پاس صرف پچھتاوا رہ جائے

لڑکپن کی باتيں قسط 2 ۔ وطن

ميں قسط 1 ميں اپنے ہی مقرر کردہ اُن اصولوں کو نقل کر چکا ہوں جن کا ميری کاميابی ميں کچھ حصہ تو ضرور رہا ہو گا ۔ لڑکپن ميں وطن سے ميرے لگاؤ کی ايک جھلک ان اشعار ميں ملتی جو ميں نے اپنی عام استعمال کی بياض پر نقل کئے ہوئے تھے

وطن وہ مرکزِ صِدق و صَفا حريمِ جمال ۔ وطن وہ کعبہءِ عِلم و ہُنر عروجِ کمال
وطن کہ سرمہ چشم طلب ہے خاک اسکی ۔ وطن شہر نغمہ نکہت ديارِ حُسن و خيال
وطن جہاں ميری اُمنگوں کا حُسنِ تاباں ہے ۔ وطن کہ جہاں ميری شمع وفا فروزاں ہے
وطن جہاں ميری يادوں کے ديپ جلتے ہيں ۔ وطن جو يوسف بے کارواں کا کنعاں ہے

ميرے خلوصِ سُخن پہ جو اعتبار آئے ۔ روِش روِش پہ چمن ميں کوئی پکار آئے
ہميں بھی باغِ وطن سے کوئی پيام آئے ۔ ہميں بھی ياد کرے کوئی جب بہار آئے

ديارِ شوق سے تيرا اگر گذر ہو صبا ۔ گُلوں سے کہنا کہ پيغمبر بہار ہوں ميں
ميرے نفس سے ہيں روشن چراغِ لالہ و گُل ۔ چمن کا روپ ہوں ميں حُسنِ لالہ زار ہوں ميں

چمن چھُٹا تو گُل و ياسمن کی ياد آئی ۔ پہنچ کے دشت ميں صبحِ چمن کی ياد آئی

قابلِ تقلید ؟ ؟ ؟

بچپن سے ہی نہ افسانے پڑھنے کا شوق رہا نہ جن یا بھوت پریت کی کہانیاں سُننے کا ۔ فرضی کہانیاں قصے اور رومانی ناول پڑھنے کا شوق بھی نہ تھا ۔ البتہ آرتھر کونن ڈائل اور اگاتھا کرسٹی کی لکھی جاسوسی اور پُرتجسس کہانیاں آٹھویں جماعت سے ہی پڑھنا شروع کر دیں ۔ ان کے ساتھ ساتھ تاریخ ۔ مہم جوُئی اور شکار کی حقیقی کہانیاں پڑھنے کا شوق رہا لیکن سب سے بڑھ کر شوق رہا اور آج بھی ہے اللہ کی قدرت کے مظہر اور مخلوقات کی حرکات کا مطالعہ کرنا ۔ یہ مطالعہ زیادہ تر چرند ۔ پرند ۔ حشرات اور آبی مخلوق ہی کا کیا مگر انسان کو بھی فراموش نہ کیا

میں نے اللہ کی اس مخلوق سے بہت کچھ سیکھا جو پی ایچ ڈی یا ایم ایس سی کرنا تو کُجا کبھی کسی سکول میں بھی پڑھنے نہیں گئے ۔ ذیل میں چند مثالیں ہیں انسان سے کم تر اس مخلوقِ خدا کے طور طریقوں کی جس سے انسان جو اپنی راہ سے بھٹک کر اپنے ہی ہم جِنس کا دُشمن بن چکا ہے کیلئے قابلِ تقلید سبق ملتا ہے

دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے دوسروں کا سہارا بنیئے

خوراک پر بھِڑیئے نہیں ۔ مل کر کھایئے

مِل جُل کر رہیئے کہ اتفاق میں برکت ہے


یہ مُلک خدا نخواستہ نہ رہا تو آپ بھی نہیں رہیں گے

خودغرضی ایک لعنت ہے اس سے پیچھا چھڑایئے

مٹا کر امتیازِ رنگ و بُو ملت میں گُم ہو جا

نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

کیا بہت مُشکل ہے آدمی کا انساں ہونا ؟

دوسرے کو متعصب کہہ کر کوئی سُرخرُو نہیں ہوتا

اگر اپنے حالات درست کرنا چاہتے ہیں تو تمام تعصبات کو بھول کر یکجہتی کی کوشش کیجئے ۔ اللہ کا فرمان ہے ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔( سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 )

وقت وقت کی بات

آج ہر طرف سے سدا آتی ہے 64 سال سے کچھ نہیں ہوا ۔ حاکم غاصب تھے لُٹیرے تھے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس ہاہا کار کا سبب مُلکی ذرائع ابلاغ ہیں جو کچھ دنوں سے کچھ سچ کہنا یا لکھنا شروع ہوئے ہیں لیکن پچھلی چار پانچ دہائیوں سے عوام کو گمراہ کرنا ان کا نصب العین رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پرانے لوگ اتنے کم ظرف اور لالچی نہ تھے جتنے ہمارے حکمران اب ہیں ۔ خاور صاحب نے “بے چارے کم ظرف لوگ” لکھا ۔ اسے پڑھتے ہوئے میرا ذہن واقعات کی کھوج میں ماضی کا سفر کرنے لگا ۔ میں اُس دور میں پہنچ گیا جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ جنرل محمد ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا اور نواب کالاباغ امیر محمد خان گورنر تھا

مجھے یاد آیا کہ

1 ۔ گوجرانوالہ میں منقعدہ ایک شادی میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان بھی مہمانوں میں شامل تھا ۔ حسبِ معمول مہمانوں کی تفریح طبع کیلئے بھانڈوں نے بولیاں مارنا شروع کیں :
“او سُنا کچھ تم نے ؟”
“کیا ؟”
“ایوب خان نے پاکستان کے سارے غُنڈے ختم کر دیئے ہیں”
“اوہ ۔ نہیں ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ”
“سچ کہتا ہوں”
“پر کیسے ؟’
“سارے بی ڈی ممبر بنا دیئے ہیں”۔ بی ڈٰ ممبر یعنی رُکن بنیادی جمہوریت

اس پر محمد ایوب خان نے قہقہہ لگایا اور دونو کو سو سو روپیہ دیا ۔ اُن دنوں سو روپیہ بڑی رقم تھی ۔ اس سے بڑا نوٹ نہیں تھا

2 ۔ انارکلی میں ایک آدمی مصنوعی مونچھیں بیچتے ہوئے آواز لگا رہا تھا
“دوانی دی مُچھ تے گورنری مفت” (دو آنے کی مونچھ اور گورنری مفت ۔ ایک روپے میں 16 آنے ہوتے تھے)
پولیس والے نے پکڑ کے اُس کی پٹائی کر دی ۔ اگلے روز یہ خبر اخبار میں چھپ گئی
گورنر نے خبر پڑھ کر حُکم دیا “متعلقہ آدمی حاضر کیا جائے”
پولیس نے حاضر کر دیا تو گورنر امیر محمد خان نے اُسے پوچھا “سچ بتاؤ تم نے کیا کہا تھا ؟”
غریب آدمی سہما ہوا تھا ۔ ڈرتے ڈرتے کہا “جی جی ۔ میں مصنوعی مونچھیں بیچ کر اپنی روٹی کماتا ہوں”
گورنر نے پوچھا “مجھے بتاؤ تو سہی کہ تم کیا کر رہے تھے ؟”
اُس آدمی نے مصنوئی مُونچھ اپنے لگائی اور کہا “دوانی دی مُچھ تے گورنری مُفت”
گورنر امیر محمد خان نے ہنس کر اُسے تھپکی دی اور نقد انعام بھی دیا

دو ٹوٹکے

صلاح الدین ایوبی نے کیا خوب کہا تھا

۔”اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینا ہو تو اس قوم میں فحاشی پھیلا دو“۔

میری بھانجی جو لاہور کے علاقہ گُلبرگ میں رہتی ہے اُس نے کتاب چہرہ (Face Book) پر یہ کتبہ لگایا ہے