بھارت میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے لئے گئی ہوئی پاکستان نابینا کرکٹ ٹیم کے کپتان ذیشان عباسی کو ناشتے کی ٹیبل پر تیزاب پلا دیا گیا جس کے بعد ان کی طبیعت بگڑ گئی ۔ ذیشان عباسی کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا ،جہاں ان کی اینڈو اسکوپی ہوئی اور تمام رپورٹس کلیئر قرار پائیں ۔ ڈاکٹروں کے مطابق اگر یہ تیزاب پیٹ میں چلا جاتا تو ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے
بغل میں چھُری ۔ منہ میں رام رام
تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو افشا ہوتا ہے کہ امن پسندی کا شور مچانے والے ہی دراصل دہشتگرد ہیں ۔ اسرائیلی افواج فلسطین میں ہوں یا بھارتی افواج جموں کشمیر میں یا امریکی افواج عراق افغانستان اور ملحقہ علاقوں میں
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ظلم و استبداد کی داستان طویل ہے ۔ اسی سلسلے میں انسانی حقوق کے لئے سرگرم بھارتی رضاکاروں نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں 22 سال سے جاری کاروائی میں فوج ، نیم فوجی دستوں اور پولیس کے 500 افسروں اور اہلکاروں پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کئے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں
فرضی جھڑپوں ، حراست کے دوران اموات اور جنسی زیادتیوں کے 214 معاملات میں 235 فوجی اہلکاروں ، 123 نیم فوجی اہلکاروں ، 111 مقامی پولیس اہلکاروں اور فوجی اداروں سے وابستہ 31 سابقہ عسکریت پسندوں کو ملوث پایا گیا ہے
ان کارروائیوں ملوث اہلکاروں میں شامل ہیں
فوج کے 2 میجر جنرل ، 3 بریگیڈیئر ، 9کرنل ، 3 لیفٹننٹ کرنل ، 78 میجر اور 25 کیپٹن
نیم فوجی اداروں کے 37 سینیئر افسر
مقامی پولیس کے ایک انسپکٹر جنرل اور ایک ریٹائرڈ سربراہ
رپورٹ کی تفصیلات کا بیشتر حصہ اْن دستاویزات اور معلومات پر مشتمل ہے جو بھارت میں انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ”کولیشن آف سول سوسائٹیز (Coalition of Civil Societies)“ اور کشمیر کی سرکردہ تنظیم اے پی ڈی پی (Association of Parents of Disappeared People ۔ لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم) اور نجی طور پر بنائے گئے ”بین الاقوامی مسند عدالت (International Tribunal)“نے حکومت سے حقِ اطلاع (Right to Information) کے قانون کے تحت طلب کی ہیں ۔ کولیشن آف سول سوسائٹیز اور اے پی ڈی پی طویل عرصے سے کشمیر میں گم شدہ نوجوانوں اور وہاں پولیس کے ہاتھوں مبینہ فرضی تصادم میں مارے جانے والے معصوم کشمیریوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں
چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ عبرت
جو جانے والے سے عبرت حاصل نہیں کرتا
وہ آنے والوں کے لئے عبرت بن جاتا ہے
جارح اور ظالم کون ؟
میرے پاس 1946ء سے 1948ء تک صیہونی دہشتگردوں کے ظُلم و تشدد اور 1948ء سے 2000ء تک اسرائیلی افواج کے نتیجہ میں مرنے اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں اور فلسطین کی املاک کے نقصان کا ریکارڈ نہیں ہے ۔ ذیل میں انتفادہ کی ابتداء یعنی 29 ستمبر 2000ء سے 18 جنوری 2008ء تک اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی جوابی کاروائی کا نتیجہ کے کچھ مصدّقہ اعداد و شمار دیئے ہیں ۔ یہ اعداد و شمار اسرائیل کے حواریوں اور اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ سے لئے گئے ہیں ۔ فلسطین کے حامیوں کے مطابق فلسطین کا نقصان بہت کم بتایا گیا ہے ۔ پھر بھی ان اعداد و شمار سے واضح طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون
1 ۔ 18 سال سے کم عمر کے 1446 فلسطینی بچے ہلاک ہوئے اور 124 اسرائیلی
فلسطینی بچے روزمرہ کے کاموں جیسے سکول یا سودا لینے جاتے آتے یا میدان میں کھیلتے یا گھر میں اسرائیلی بمباری یا فوجیوں کی بے تحاشہ فارنگ سے ہلاک ہوئے
2 ۔ 6348 بالغ فلسطینی اور 1072 بالغ اسرائیلی ہلاک ہوئے
3 ۔ 39019 فلسطینی زخمی ہوئے جن میں بہت سے معذور ہو گئے ۔ 8864 اسرائیلی زخمی ہوئے

4 ۔ اسرائیل کی جیلوں میں 7383 فلسطینی سیاسی قیدی ہیں جبکہ صرف ایک اسرائیلی فلسطین میں قید ہے

5 ۔ اسرائیل میں فلسطینیوں نے کوئی گھر تباہ نہیں کیا جبکہ اسرائیلی افواج نے فلسطینیوں کے 24145 گھر مسمار کر دیئے

6 ۔ اسرائیل نے فلسطین کی زمین پر قبضہ کر کے وہاں یہودیوں کی 121 بستیاں بسائی ہیں جن میں کسی ٖیر یہودی کو آنے کی آجازت نہیں ۔ اس کے علاوہ 106 فوجی چوکیاں بنائیں

7 ۔ امریکا کم از کم 3 ارب (3،00،00،00،000) ڈالر سالانہ فوجی امداد دیتا ہے

8 ۔ اسرائیل کی کاروائیوں کو روکنے کی اقوامِ متحدہ میں قرار داد امریکا کبھی منظور نہیں ہونے دیتا اور قرادادِ مذمت کی بھی مخالفت کرتا ہے ۔ اس کے باوجود اسرائیل کے 65 قراد دادِ مذمت منظور ہو چکی ہیں
بنی اسراءیل کا کردار
حضرت ابراھیم علیہ السّلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السّلام تھے ۔ خانہ کعبہ حضرت ابراھیم علیہ السّلام اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے 4000 سال قبل تعمیر کیا تھا البتہ کچھ حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسی جگہ حضرت آدم علیہ السّلام نے کعبہ بنایا اور مشہور طوفان کے بعد حضرت نوح علیہ السّلام نے اسے تعمیر کیا تھا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السّلام نے فلسطین کے علاقہ بیت المقدّس میں بھی عبادت گاہ بنائی ۔ حضرت اسحاق علیہ السّلام بھی وہاں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے
حضرت اسحاق علیہ السّلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السّلام تھے ۔ اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السّلام کا لقب تھا ۔ اسراءیل کے معنی ہیں عبداللہ یا اللہ کا بندہ ۔ بنی اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السّلام کے قبیلہ کو کہا جاتا ہے ۔حضرت یعقوب علیہ السّلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السّلام تھے جو مصر کے بادشاہ بنے ۔ بنی اسراءیل میں پھر حضرت موسی علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے بعد صحراۓ سینائی کے علاقہ میں حضرت داؤد علیہ السّلام پیدا ہوۓ جو بعد میں فلسطین چلے گئے
جب حضرت داؤد علیہ السّلام نے طاقتور دیو ہیکل جالوت (Goliath) کو اللہ کی نصرت سے غلیل سے پتھر مار کر گرا دیا تو فلسطین کے بادشاہ صَول نے حسبِ وعدہ ان کی شادی اپنی بیٹی مِشل سے کر دی ۔ صَول کے مرنے کے بعد حضرت داؤد علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ حضرت داؤد علیہ السّلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہوا ۔ جِن اور ہر قسم کے جانور حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تابع کر دیئے تھے ۔ قبل مسیح 961 سے قبل مسیح 922 کے دوران حضرت سلیمان علیہ السّلام نے جنّوں کی مدد سے ایک عبادت گاہ اُس جگہ تعمیر کروائی جہاں حضرت ابراھیم علیہ السّلام نے عبادت گاہ تعمیر کرائی تھی
فلسطین کی ریاست 586 قبل مسیح میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ جنوبی علاقہ پر بابل کے لوگوں نے قبضہ کر کے عبادت گاہ مسمار کر دی اور بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا ۔ اس کے سو سال بعد بنی اسراءیل واپس آنے شرو ع ہوئے اور انہوں نے اُس جگہ کے قریب اپنی عبادت گاہ تعمیر کی جہاں حضرت سلیمان علیہ السّلام نے عبادت گاہ تعمیر کرائی تھی ۔ 333 قبل مسیح میں سکندراعظم نے اسے یونان کی سلطنت میں شامل کر کے بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال دیا ۔ 165 قبل مسیح میں بنی اسراءیل نے بغاوت کر کے ایک یہودی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ 100سال بعد یہودی ریاست پر سلطنت روم کا قبضہ ہو گیا ۔ 70ء میں یہودیوں نے بغاوت کی جسے شہنشاہ ٹائٹس نے کچل دیا اور یہودیوں کی عبادت گاہ مسمار کر کے انہیں وہاں سے نکال دیا ۔ روم کے بادشاہ حیدریاں (138ء-118ء) نے یہودیوں کو شروع میں بیت المقدس آنے کی اجازت دی لیکن پھر بغاوت کرنے پر بیت المقدس کے شہر کو مکمل طور پر تباہ کر کے یہودیوں کو شہر بدر کر دیا اور اُن کا واپس فلسطین آنا ممنوع قرار دے دیا
پونے پانچ سو سال کی تاریخ کا کچھ معلوم نہیں ۔ 614ء سے 624ء تک فلسطین پر ایرانیوں کی حکومت رہی جنہوں نے یہودیوں کو عبادت کرنے کی کھُلی چھٹی دے دی مگر یہودیوں نے مسجد الاقصی میں عبادت نہ کی اور عرب عیسائیوں پر بہت ظلم و تشدّد شروع کر دیا ۔ اس کے بعد بازنطینی حکومت آئی جس نے یہودیوں کی سرکوبی کی ۔ 636ء میں بازنطینی حکومت نے مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہُ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس اُن کے حوالے کر دیا ۔ اِس طرح فلسطین سیّدنا محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلّم کی اُمّت کی عملداری میں آ گیا ۔ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہُ نے مسجد الاقصی کی تعمیر 639ء میں اُس جگہ پر شروع کروائی جہاں پر اُسے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے تعمیر کروایا تھا ۔ 709ء سے 715ء کے درمیان خلیفہ ولید نے اس مسجد کی تعمیرِ نو کروائی اور اُس کا نام غالباً معراج یا اِسراء کے حوالہ سے مسجد الاقصٰی رکھا ۔ 747ء کے زلزلہ سے مسجد بُری طرح متاءثر ہوئی تو نئے سرے سے مگر وسیع مسجد بنائی گئی ۔ 1033ء میں صلیبی جنگوں نے اسے خاصہ نقصان پہنچایا ۔ بعد میں صلیبی بادشاہوں نے اُسے اپنے محل میں تبدیل کر دیا ۔ 1927ء اور 1936ء کے زلزلوں سے اس کی عمارت کو بہت نقصان پہنچا جس کے باعث اس کی کُلی طور پر نئے سرے سے تعمیر شروع کی گئی جس کے دوران حضرت عیسٰی علیہ السّلام سے پہلے کا عمارتی سامان بھی وہاں سے برآمد ہوا
636ء سے 1918ء تک یعنی 1282 سال فلسطین پر جس میں اُردن بھی شامل تھا سیّدنا محمد صلّی اللہ علیہ و سلّم کی امّت مسلمہ کی حکومت رہی سواۓ صلیبی جنگوں کے بعد کے چند سالوں کے ۔ اس وقت تک یہودیوں کو فلسطین سے باہر ہوۓ 1800 سال ہو چکے تھے ۔ سلطنت عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد 1918 میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا ۔ 1947ء میں برطانیہ نے فلسطین اقوامِ متحدہ کی تحویل میں دے کر اپنی فوج وہاں سے نکالنا شروع کی اور فلسطین عربوں کی تحویل میں چلا گیا
بنی اسراءیل کے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا جن میں ان کے اپنے قبیلہ کے حضرت زَکَرِیّا علیہ السّلام اور حضرت یحٰی علیہ السّلام بھی شامل ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السّلام بھی اسی قبیلہ سے تھے ۔ ان کو بھی قتل کرنا چاہا مگر اللہ نے اُنہیں بچالیا اور اّن کا کوئی ہم شکل سولی پر چڑھا دیا گیا ۔ خلق خدا کو بھی بنی اسراءیل بہت اذیّت پہنچاتے رہے اور آج تک پہنچا رہے ہیں
دہشتگرد حکمران
چیف آف سٹاف اسرائیل آرمڈ فورسز تو 1953ء میں ہی ایک بدنام زمانہ دہشت گرد موشے دیان بن گیا تھا مگر صیہونی دہشت گرد تنظیمیں [ارگون ۔ لیہی ۔ ہیروت ۔ لیکوڈ وغیرہ] اسرائیل میں 1977ء تک حکومت میں نہ آسکیں اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدّد ہوتا رہا ۔ 1977ء میں ارگون کے لیڈر مناخم بیگن نے وزیراعظم بنتے ہی غزہ اور باقی علاقے میں جن پر 1967ء میں قبضہ کیا گیا تھا زمینی حقائق کو بدلنے کے لئے تیزی سے یہودی بستیاں بسانی شروع کر دیں تا کہ کوئی ان سے علاقہ خالی نہ کرا سکے ۔ ان صیہونی تنظیموں کا پروگرام ایک بہت بڑی صیہونی ریاست بنانے کا ہے جس کا ذکر میں اس سے قبل کر چکا ہوں ۔ یہ نقشہ تھیوڈور ہرستل جس نے صیہونی ریاست کی تجویز 1896ء میں پیش کی تھی نے ہی تجویز کیا تھا اور یہی نقشہ 1947ء میں دوبارہ ربی فشمّن نے پیش کیا تھا ۔
اسرائیل نے 1982ء میں لبنان پر بہت بڑا حملہ کر کے اس کے بہت سے علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔ ان حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون دہشت گرد ہے ۔ فلسطینی مسلمان یا اسرائیلی صیہونی ؟
چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں ۔
موشے دیان جو 1953ء سے 1957ء تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔
مناخم بیگن جو 1977ء سے 1983ء تک اسرائیل کا وزیراعظم رہا ۔
یتزہاک شمیر جو 1983ء سے 1984ء تک اور پھر 1986ء سے 1992ء تک وزیراعظم رہا ۔
ایرئل شیرون جو 2001ء سے 2006ء تک وزیراعظم رہا ۔ دہشتگردی پر اُس کی مذمت کرنے کی بجائے اُسے نوبل امن انعام دیا گیا ۔
مسلمان تو ایک طرف عرب عیسائی اور عرب یہودی جو کہ فلسطین کے باشندے ہیں ان کو اسرائیل میں وہ مقام حاصل نہیں ہےجو باہر سے آئے ہوئے صیہونی یہودیوں کو حاصل ہے ۔ اس کا ایک ثبوت یہودی صحافی شمیر ہے جو اسرائیل ہی میں رہتا ہے ۔ دیگر جس لڑکی لیلی خالد نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو اُجاگر کرنے کے لئے دنیا میں سب سے پہلا ہوائی جہاز ہائی جیک کیا تھا وہ عیسائی تھی ۔ فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرانے کے لئے لڑنے والے گوریلوں کے تین لیڈر جارج حبش ۔ وادی حدّاد اور جارج حواتمے عیسائی تھے ۔ اتفاق دیکھئے کہ حنّان اشراوی ۔ حنّا سینی اور عفیف صفیہ جنہوں نے اوسلو معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا وہ بھی عیسائی ہی ہیں ۔ 2005ء کی صورت حال نقشہ میں دکھائی گئی ہے ۔
Map # 6. “Israeli constructed roads” should be read as “Roads under control of Israel”.
صیہونیوں کا توسیعی پروگرام پر عملدرآمد
اسرائیل نے 1955ء میں غزہ اور اردن کی شہری آبادیوں پر چھاپہ مار حملے شروع کر دیئے ۔ جس سے فلسطینی مسلمان تو مرتے رہے مگر اسرائیل کو خاص فائدہ نہ ہوا ۔ 1956ء میں برطانیہ ۔ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر بھرپور حملہ کر دیا جس میں مصر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان مشترکہ فوجوں نے سینائی ۔ غزہ اور مصر کی شمالی بندرگاہ پورٹ سعید پر قبضہ کر کے نہر سویز کا کنٹرول سنبھال لیا جو حملے کی بنیادی وجہ تھی ۔ روس کی دھمکی پر اقوام متحدہ بیچ میں آ گئی اور جنگ بندی کے بعد سارا علاقہ خالی کرنا پڑا ۔

اسرائیل نے امریکا اور دوسرے پالنہاروں کی پشت پناہی سے 5 جون 1967 کو مصر ۔ اردن اور شام پر حملہ کر دیا اور غزہ ۔صحرائے سینائی ۔ مشرقی بیت المقدّس ۔گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اُردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا [دیکھئے اُوپر والا نقشہ] ۔ اس جنگ میں امریکا کی مدد سے مصر ۔ اردن اور شام کے راڈار جیم کر دیئے گئے اور اسرائیلی ہوائی جہازوں نے مصر کے ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا ۔ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد 242 کے ذریعہ اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقہ خالی کرنے کو کہا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر ۔ شام ۔ لبنان اور اُردن کی طرف دھکیل دیا گیا ۔
جب مذاکراتی اور سیاسی ذرائع سے اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا تو مصر اور شام نے 1973ء میں رمضان کے مہینہ میں اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ مصری فوج نہر سویز کے کنارے اسرائیل کی بنائی ہوئی بیس میٹر اونچی ریت کی دیوار میں شگاف ڈال کر سینائی میں داخل ہو گئی اور دیوار کے پار موجود اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ مصر نے اسرائیلی ایئر فورس کے دو سو کے قریب ہوائی جہاز سام مزائیلوں سے مار گرائے ۔ اسرائیل کے گھر گھر میں رونا پڑ چکا تھا ۔ ان کے چھ ہزار فوجی اور دوسو پائلٹ ہلاک ہو چکے تھے اور مصری فوج صحرائے سینائی عبور کر کے اسرائیل کی سرحد کے قریب پہنچ گئی تھی ۔
اگر امریکا پس پردہ اسرائیل کی بھر پور امداد نہ کرتا تو فلسطین کامسئلہ حل ہو چکا تھا ۔ امریکا بظاہر جنگ میں حصہ نہیں لے رہا تھا مگر اس کا طیارہ بردار بحری جہاز سینائی کے شمالی سمندر میں ہر طرح سے لیس موجود تھا اس کے راڈاروں اور ہوائی جہازوں نے اسرائیل کے دفاع کے علاوہ مصر میں پورٹ سعید کے پاس ہزاروں اسرائیلی کمانڈو اتارنے میں بھی رہنمائی اور مدد کی ۔ اسرائیلی کمانڈوز نے پورٹ سعید کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن جاری رہا ۔ وہاں مصری فوج موجود نہ تھی کیونکہ اسے جغرافیائی لحاظ سے کوئی خطرہ نہ تھا ۔ اپنے دور حکومت میں جمال عبدالناصر نے ہر جوان کے لئے 3 سال کی فوجی تربیت لازمی کی تھی جو اس وقت کام آئی ۔ پورٹ سعید کے شہریوں نے اسرائیلی کمانڈوز کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا ۔ سعودی عرب کے بادشاہ فیصل نے تیل کا ہتھار موثّر طور پر استعمال کیا ۔ پھر امریکا ۔ روس اور اقوام متحدہ نے زور ڈال کر جنگ بندی کرا دی
نچلے نقشہ میں 1946ء سے اب تک فلسطین پر اسرائیل کے بتدریج غیرقانونی قبضہ کی تصویر دکھائی گئی ہے