آج کا دن عام لوگوں کے نام جو میری طرح نام نہیں کام کیلئے کام کرتے ہیں ۔ میری یاد داشت چونکہ بہت گڑبڑ ہو چکی ہے اسلئے جس کا نام لکھنے سے رہ گیا وہ اپنے آپ کو شامل سمجھے
عام لوگ عام ہی ہوتے ہیں ۔ یہ باتیں کم اور عمل زیادہ کرتے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اَنٹ شَنٹ باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن دل میں سب کی قدر کرتے ہیں اور عمل میں منہمک ہوتے ہیں ۔ ان عام لوگوں کے نام اخبارات میں نہیں چھَپتے اور نہ ٹی چینلز والے انہیں بلاتے ہیں ۔ یہ لوگ خاموشی سے بڑے بڑے کام کرتے جاتے ہیں ۔ میں آج چند ایسے ہی لوگوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں
1 ۔ شروع شروع میں اُردو چابی تختہ میرے پاس نہیں تھا میں بڑی مشکل سے اپنے بلاگ پر لکھتا تھا ۔ میری اس تکلیف کو ایک نوجوان نے بھانپ لیا اور ایک اُردو کا چابی تختہ بھیج دیا جسے انسٹال کر کے میں بلا دقت اُردو لکھنے لگا ۔ یہ نوجوان (جو اب شاید جوان کہلاتا ہو گا) ہے حارث بن خُرم
2 ۔ حدیث کی اہمیت پر لکھنا چاہ رہا تھا لیکن جس کتاب کا میں مطالعہ کرنا چاہتا تھا وہ مجھے اسلام آباد میں نہ ملی ۔ میں نے پوچھا ”کہاں سے ملے گی” تو میرے گھر کا پتہ پوچھا گیا
کچھ دن بعد ایک پارسل ملا جس میں مطلوبہ کتاب کے ساتھ چند اور چھوٹی چھوٹی کُتب تھیں ۔ بھیجنے والے ہیں خاور بلال صاحب جو اُن دنوں کراچی میں تھے ۔ اُن کا ٹیلیفون نمبر لیا ۔ کچھ دن بعد نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے ٹیلیفون کیا تو جواب ملا ”نہیں ہیں“۔ نمبر کسی دفتر کا تھا ۔ چند دنوں کے وقفے سے ٹیلیفون کرتا رہا مگر بات نہ ہو سکنے پر تشریح چاہی ۔ بتایا گیا کہ وہ ملازمت چھوڑ کر جا چکے ہیں
3 ۔ پھر ایک دن نعیم اختر (الف نظامی) صاحب نے آ کر دروازے کی گھنٹی بجائی اور میرے گھر کو رونق بخشی ۔ کچھ کُتب تحفہ کر کے میرے کندھوں پر وزن اور بڑھا گئے ۔ کچھ روز بعد اُن کے درِ دولت پر نیاز پیش کرنے کیلئے راولپنڈی گیا ۔ گو میں راولپنڈی میں 16 سال رہا ہوں مگر اس علاقے میں پہلی بار جانے کا اتفاق ہوا تھا ۔ میں کوشش کے باوجود الف نظامی صاحب کی رہائش گاہ تک نہ پہنچ سکا
4 ۔ ستمبر 2010ء میں جاپان کی بنی ہوئی ایک پرانی گاڑی خرید لی ۔ اس کے ساتھ صرف ایک چابی ملی ۔ میں احتیاطی آدمی ہوں اسلئے دوسری چابی کیلئے کوشش کی تو معلوم ہوا اس کی نقل شاید نہ بن سکے ۔ جاپان میں کچھ لوگوں سے صرف بلاگی تعارف تھا ۔ اُنہیں درخواست کی ۔ یاسر صاحب نے ریموٹ چابی بھیج دی جو جیب میں ہو تو کار چلائی جا سکتی ہے ۔ قیمت پوچھی تو جواب ملا ”کچھ خیرات کر دیں”۔ سُبحان اللہ ۔ دسمبر 2012ء میں چاپان سے آئے تو ملنے بھی آ گئے
5 ۔ جب بلاگسپاٹ پر حکومت نے پابندی لگائی تو میں نے اپنا بلاگ ورڈ پریس پر منتقل کیا ۔ ملتان والے قدیر صاحب نے زور دار طریقے سے پیشکش کر دی ”انکل ۔ میں آپ کو ایک تھیم اُردوا کر دیتا ہوں وہ لگائیں“۔ پیشکش معصومانہ تھی اسلئے ٹھکرانا مناسب نہ سمجھا ۔ گو اُس تھیم کو اپنے بیٹے زکریا کی مدد سے بہت تبدیل کر چکا ہوں مگر اس کی سی ایس ایس میں قدیر صاحب کا نام قائم رکھا ہوا ہے ۔ 2011ء میں ایک دن قدیر صاحب نے ٹیلیفون پر پتہ پوچھا اور بتایا کہ اسلام آباد آئے ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا ”کہاں ہیں ؟ میں لینے آ جاؤں“۔ کہنے لگے ”کافی دور ہوں ۔ میں خود آتا ہوں”۔ اور آگئے
6 ۔ خرم صاحب امریکا میں ہوتے ہیں انہوں نے میرا پتہ پو چھا ۔ پھر ایک دن ٹیلیفون آیا کہ لاہور سے بس میں اسلام آباد آ رہے ہیں ۔ کہنے لگے ”آپ تکلیف نہ کریں ۔ میں خود آ جاؤں گا ” بہر کیف میں اُنہیں پشاور موڑ سے لے آیا ۔ پشاور موڑ میرے گھر سے 2 کلومیٹر ہے اور بس کا اڈا 20 کلو میٹر ۔ مجھے ملنے کے بعد وہ واپس لاہور کی بس پر سوار ہو گئے ۔ یعنی صرف مجھ سے ملاقات کیلئے اسلام آباد آئے تھے ۔ میری اتنی زیادہ عزت افزائی !
7 ۔ پچھلے سال سعد صاحب نے مطلع کیا کہ تعلیم کے سلسلہ میں اسلام آباد آ چکے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں ۔ قیام عارضی طور پر سیکٹر جی 9/2 میں بتایا جو کہ ہمارے گھر سے 2 کلو میٹر ہے ۔ پیدل یا ٹیکسی پر آنا چاہتے تھے ۔ میں نے اَن سُنی کی اور جا کر اُنہیں لے آیا ۔ خود بولتے نہ تھے اور مجھے بُلواتے رہے ۔ جب میری باتیں ختم ہو گئیں تو واپس چھوڑ آیا ۔ پھر ایک دن اطلاع دی کہ کوئی تقریب ہو رہی ہے جس سے اُردو بلاگنگ کا تعلق ہے اور داخلہ کھُلا ہے ۔ سو ان کے ساتھ میں بھی گیا ۔ وہاں بڑے بڑے لوگوں یعنی شاکر قادری ۔ امجد علوی ۔ ایم بلال ایم ۔ الف نظامی صاحبان اور کئی دوسرے مہربانوں سے ملاقات ہوئی ۔ سعد صاحب نہ بتاتے تو میں محروم رہ جاتا