عام لوگ

آج کا دن عام لوگوں کے نام جو میری طرح نام نہیں کام کیلئے کام کرتے ہیں ۔ میری یاد داشت چونکہ بہت گڑبڑ ہو چکی ہے اسلئے جس کا نام لکھنے سے رہ گیا وہ اپنے آپ کو شامل سمجھے

عام لوگ عام ہی ہوتے ہیں ۔ یہ باتیں کم اور عمل زیادہ کرتے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اَنٹ شَنٹ باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن دل میں سب کی قدر کرتے ہیں اور عمل میں منہمک ہوتے ہیں ۔ ان عام لوگوں کے نام اخبارات میں نہیں چھَپتے اور نہ ٹی چینلز والے انہیں بلاتے ہیں ۔ یہ لوگ خاموشی سے بڑے بڑے کام کرتے جاتے ہیں ۔ میں آج چند ایسے ہی لوگوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں

1 ۔ شروع شروع میں اُردو چابی تختہ میرے پاس نہیں تھا میں بڑی مشکل سے اپنے بلاگ پر لکھتا تھا ۔ میری اس تکلیف کو ایک نوجوان نے بھانپ لیا اور ایک اُردو کا چابی تختہ بھیج دیا جسے انسٹال کر کے میں بلا دقت اُردو لکھنے لگا ۔ یہ نوجوان (جو اب شاید جوان کہلاتا ہو گا) ہے حارث بن خُرم

2 ۔ حدیث کی اہمیت پر لکھنا چاہ رہا تھا لیکن جس کتاب کا میں مطالعہ کرنا چاہتا تھا وہ مجھے اسلام آباد میں نہ ملی ۔ میں نے پوچھا ”کہاں سے ملے گی” تو میرے گھر کا پتہ پوچھا گیا
کچھ دن بعد ایک پارسل ملا جس میں مطلوبہ کتاب کے ساتھ چند اور چھوٹی چھوٹی کُتب تھیں ۔ بھیجنے والے ہیں خاور بلال صاحب جو اُن دنوں کراچی میں تھے ۔ اُن کا ٹیلیفون نمبر لیا ۔ کچھ دن بعد نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے ٹیلیفون کیا تو جواب ملا ”نہیں ہیں“۔ نمبر کسی دفتر کا تھا ۔ چند دنوں کے وقفے سے ٹیلیفون کرتا رہا مگر بات نہ ہو سکنے پر تشریح چاہی ۔ بتایا گیا کہ وہ ملازمت چھوڑ کر جا چکے ہیں

3 ۔ پھر ایک دن نعیم اختر (الف نظامی) صاحب نے آ کر دروازے کی گھنٹی بجائی اور میرے گھر کو رونق بخشی ۔ کچھ کُتب تحفہ کر کے میرے کندھوں پر وزن اور بڑھا گئے ۔ کچھ روز بعد اُن کے درِ دولت پر نیاز پیش کرنے کیلئے راولپنڈی گیا ۔ گو میں راولپنڈی میں 16 سال رہا ہوں مگر اس علاقے میں پہلی بار جانے کا اتفاق ہوا تھا ۔ میں کوشش کے باوجود الف نظامی صاحب کی رہائش گاہ تک نہ پہنچ سکا

4 ۔ ستمبر 2010ء میں جاپان کی بنی ہوئی ایک پرانی گاڑی خرید لی ۔ اس کے ساتھ صرف ایک چابی ملی ۔ میں احتیاطی آدمی ہوں اسلئے دوسری چابی کیلئے کوشش کی تو معلوم ہوا اس کی نقل شاید نہ بن سکے ۔ جاپان میں کچھ لوگوں سے صرف بلاگی تعارف تھا ۔ اُنہیں درخواست کی ۔ یاسر صاحب نے ریموٹ چابی بھیج دی جو جیب میں ہو تو کار چلائی جا سکتی ہے ۔ قیمت پوچھی تو جواب ملا ”کچھ خیرات کر دیں”۔ سُبحان اللہ ۔ دسمبر 2012ء میں چاپان سے آئے تو ملنے بھی آ گئے

5 ۔ جب بلاگسپاٹ پر حکومت نے پابندی لگائی تو میں نے اپنا بلاگ ورڈ پریس پر منتقل کیا ۔ ملتان والے قدیر صاحب نے زور دار طریقے سے پیشکش کر دی ”انکل ۔ میں آپ کو ایک تھیم اُردوا کر دیتا ہوں وہ لگائیں“۔ پیشکش معصومانہ تھی اسلئے ٹھکرانا مناسب نہ سمجھا ۔ گو اُس تھیم کو اپنے بیٹے زکریا کی مدد سے بہت تبدیل کر چکا ہوں مگر اس کی سی ایس ایس میں قدیر صاحب کا نام قائم رکھا ہوا ہے ۔ 2011ء میں ایک دن قدیر صاحب نے ٹیلیفون پر پتہ پوچھا اور بتایا کہ اسلام آباد آئے ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا ”کہاں ہیں ؟ میں لینے آ جاؤں“۔ کہنے لگے ”کافی دور ہوں ۔ میں خود آتا ہوں”۔ اور آگئے

6 ۔ خرم صاحب امریکا میں ہوتے ہیں انہوں نے میرا پتہ پو چھا ۔ پھر ایک دن ٹیلیفون آیا کہ لاہور سے بس میں اسلام آباد آ رہے ہیں ۔ کہنے لگے ”آپ تکلیف نہ کریں ۔ میں خود آ جاؤں گا ” بہر کیف میں اُنہیں پشاور موڑ سے لے آیا ۔ پشاور موڑ میرے گھر سے 2 کلومیٹر ہے اور بس کا اڈا 20 کلو میٹر ۔ مجھے ملنے کے بعد وہ واپس لاہور کی بس پر سوار ہو گئے ۔ یعنی صرف مجھ سے ملاقات کیلئے اسلام آباد آئے تھے ۔ میری اتنی زیادہ عزت افزائی !

7 ۔ پچھلے سال سعد صاحب نے مطلع کیا کہ تعلیم کے سلسلہ میں اسلام آباد آ چکے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں ۔ قیام عارضی طور پر سیکٹر جی 9/2 میں بتایا جو کہ ہمارے گھر سے 2 کلو میٹر ہے ۔ پیدل یا ٹیکسی پر آنا چاہتے تھے ۔ میں نے اَن سُنی کی اور جا کر اُنہیں لے آیا ۔ خود بولتے نہ تھے اور مجھے بُلواتے رہے ۔ جب میری باتیں ختم ہو گئیں تو واپس چھوڑ آیا ۔ پھر ایک دن اطلاع دی کہ کوئی تقریب ہو رہی ہے جس سے اُردو بلاگنگ کا تعلق ہے اور داخلہ کھُلا ہے ۔ سو ان کے ساتھ میں بھی گیا ۔ وہاں بڑے بڑے لوگوں یعنی شاکر قادری ۔ امجد علوی ۔ ایم بلال ایم ۔ الف نظامی صاحبان اور کئی دوسرے مہربانوں سے ملاقات ہوئی ۔ سعد صاحب نہ بتاتے تو میں محروم رہ جاتا

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ مُشکل

کوئی مُشکل حقیقت میں مُشکل نہیں ہوتی

مُشکل دراصل مُشکل پر ردِ عمل پیدا کرتا ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء میں ورڈ پریس نے اسے 10 بہترین بلاگز میں سے ایک قرار دیا تھا اور بلاگ ابھی تک اپنی حثیت بحال رکھے ہوئے ہے ۔ 2012ء کی رپورٹ دیکھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے

گفتار و کردار

مجھے اس بلاگ کو شروع کئے 7 سال 8 ماہ ہو چکے ہیں ۔ اس بلاگ کے شروع کرنے کا مقصد جو کہ سرِ ورق درج ہے یہ ہے کہ ”میں انسانی فرائض کے بارے میں اپنےعلم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچاؤں”۔
پچھلے 5 سال سے کچھ زیرک قارئین وقفے وقفے سے میری توجہ بلاگ کے مقصد کی طرف دلاتے ہوئے ذاتی تجربات بیان کرنے کا کہتے رہتے ہیں ۔ میری کوشش رہی کہ میں ایسے تجربات بیان نہ کروں جن سے میرا ذاتی تعلق ہو لیکن کچھ ہفتے قبل ایک ہمدرد قاری نے کہا ”آپ کے ہر تجربہ بلکہ علم میں بھی آپ کی ذات کا عمل دخل ہے تو پھر آپ پوری طرح اپنے وہ تجربات ہم تک کیوں نہیں پہنچاتے جن سے آپ نے اس دنیا کے کاروبار کو پہچانا ؟“

میں اس پر کئی ہفتے غور کرتا رہا اور آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ مجھے سوائے قومی راز کے اپنی زندگی کے تمام واقعات جوان نسل تک پہنچانے چاہئیں تاکہ جوان نسل کے عِلم میں وہ زمینی حقائق آ سکیں جو اللہ کے دیئے ہوئے ہمارے مُلک پاکستان کی موجودہ حالت کا پیش خیمہ ہیں ۔ آج اس سلسلہ کی پہلی تحریر ۔ اللہ مجھے اس مقصد میں کامیابی عطا فرمائے

میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ 1965ء میں اُس وقت کے ٹیکنیکل چیف جو مکینیکل انجنیئر اور کرنل تھے نے ہم 9 نئے افسران کو بُلا کر حُکمانہ قسم کا مشورہ دیا کہ ہم آرڈننس کلب کے ممبر بن جائیں ۔ دراصل وہ کلب کے پریذیڈنٹ بھی تھے ۔ باقی 8 تو واہ چھاؤنی ہی میں رہتے تھے وہ ممبر بن گئے ۔ میں راولپنڈی سے آتا جاتا تھا ۔ سوچا کہ کلب جا تو سکوں گا نہیں ممبر بن کر کیا کروں گا لیکن دوستوں کے تلقین کرنے پر چند ماہ بعد ممبر بن گیا

ستمبر میں جنگ شروع ہوئی تو مجھے حُکم ملا کہ واہ چھاؤنی میں رہوں ۔ میں نے آفیسرز میس میں ایک سوِیٹ (Suite) لے لیا اور واہ چھاؤنی میں رہنا شروع کر دیا ۔ آرڈننس کلب سڑک کے پار آفیسرز میس کے سامنے تھی ۔ اکتوبر 1965ء میں کلب میں سکواش کھیلنا شروع کر دیا ۔ کچھ ہفتے بعد خیال آیا کہ دیکھا جائے کلب میں کیا ہوتا ۔ معلوم ہوا کہ ایک طرف ایسی جگہ ہے جہاں لوگ بیٹھ کر مشروبات پیتے ہیں جن میں اُم الخباعث بھی ہے ۔ یہ خبر میرے دل میں ایک سوئی کی طرح پیوست ہو گئی

اگلے سال جو نئے انجنیئر بھرتی ہوئے ان میں کچھ ہم خیال مل گئے تو افسران سے رابطہ مہم شروع کی ۔ کچھ لوگوں کی حمائت کے ساتھ ایک سینیئر افسر کی حمائت ملنے پر کلب کی جنرل باڈی میٹنگ بلانے کا نوٹس دے دیا ۔ ان سینئر افسر صاحب کو اللہ جنت میں جگہ دے صاف گو شخص تھے ۔ ذہین ۔ محنتی ۔ باکردار اور بے باک شخص تھے اسلئے نام لکھ دیتا ہوں ”محمد اصدق خان“

اس دوران پہلے کرنل صاحب ریٹائر ہو گئے تھے اور ان کے نائب لیفٹننٹ کرنل صاحب ٹیکنیکل چیف اور کلب کے پریذیڈنٹ بن گئے تھے ۔ نئے صاحب کی ہر کسی کو پند و نصائح کرنے کی عادت تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ نمازی ہیں اور باعمل بھی ۔ میٹنگ شروع ہوئی تو سب سے پہلے محمد اصدق خان صاحب نے قراداد پڑھ کر اس کی تائید کی
کلب کے پریذیڈنٹ صاحب نے تقریر جھاڑ دی جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ شراب کی فروخت سے کلب کو بہت فائدہ ہوتا ہے اور یہ فائدہ دراصل ممبران کو ہے
اس کے بعد میں اُٹھا اور کہا ”ہمارے دین میں نہ صرف شراب نوشی کی ممانعت ہیں اس کی فروخت اور اس سے منافع حاصل کرنے کی بھی ممانعت ہے ۔ کتنے ممبران ہیں جو اس منافع کمانے کی حمائت کرتے ہیں ؟ آپ ہاتھ کھڑے کریں“۔
کسی نے ہاتھ کھڑا نہ کیا اور میں یہ کہہ کر بیٹھ گیا کہ شراب کی فروخت بند کر کے ممران کا ماہانہ چندہ زیادہ کر دیجئے
پریزیڈنٹ صاحب پھر بولے ”ایسے ہی کلب کے فیصلے نہیں کر لئے جاتے ۔ اس کیلئے کلب کی انتظامی کمیٹی کی منظوری ہوتی ہے”۔
میں نے اُٹھ کر کلب رولز کی متعلقہ شق پڑھ دی جس کے مطابق فیصلہ جنرل باڈی کی اکثریت کا حق تھا
اس پر میرے باس اُٹھے اور شراب کی فروخت سے کلب کو ہونے والی آمدن کے فوائد بیان کئے
میں نے پھر روسٹرم پر جا کر کہا”حضورِ والا ۔ اگر یہ کلب روپیہ کمانے کیلئے بنایا گیا ہے تو پھر یہاں طوائفوں کے مُجرے کا بھی بند و بست کر دیجئے ۔ بہت منافع ہو گا“۔
اس پر میرے باس طیش میں آ گئے اور مجھے بہت سخت سُست کہا (میں الفاظ نہیں لکھنا چاہتا)۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ مزید ممبران میرے طرفدار ہو گئے

مجبور ہو کر رائے شماری کرائی گئی تو بھاری اکثریت نے شراب نوشی بند کرنے کے حق میں ووٹ دیئے اور شراب نوشی جاری رکھنے کے حق میں کوئی ووٹ نہ آیا ۔ اس قرار داد پر عمل درآمد کرانے میں ہمیں 6 ماہ لگے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ آرڈننس کلب میں شراب نوشی بند ہو گئی

کلب کی اس جنرل باڈی میٹنگ کے بعد یہ راز بھی افشاء ہوا کہ سب کو پند و نصائح کرنے والے پریذیڈنٹ صاحب اور کچھ اور پاکباز نظر آنے والے صاحبان بھی اُم الخباعث سے شغف رکھتے تھے

پھر میرے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا بہت شکر گذار ہوں کہ نہ میں نے کسی انسان کے آگے کبھی ہاتھ پھیلایا اور نہ کبھی میری عزت میں کمی آئی ۔ مزے کی بات کہ جب بھی کوئی مُشکل ٹیکنیکل یا قانونی مسئلہ درپیش ہوتا تو مجھے ناپسند کرنے والے یہ بڑے افسران مجھے ہی مشورہ کیلئے بُلاتے

یہ کرم ہے میرے اللہ کا مجھ ایسی کوئی بات نہیں ہے

پاکستان نہیں بننا چاہیئے تھا؟

دنیا کا سب سے بڑا مذہب غربت ہے ۔ یقین نہیں آتا تو اس عورت کا تعاقب کر کے دیکھیں جو سامنے ایک بھارتی شہر کے ریلوے سٹیشن پر گھوم رہی ہے ۔ وہ ایک مسلمان عورت ہے جس کا نام بیگم ہے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ ریلوے اسٹیشن کے ٹوائلٹ میں داخل ہوگی اور جب باہر آئے گی تو اس کا نام بیگم کی بجائے لکشمی ہو گا، ماتھے پر سندور ہوگا ، ہاتھ میں چوڑیاں ،گلے میں منگل سوتر اور بدن پر ساڑھی…اللہ کے نام والا تعویز اس کے بازو پر نہیں ہوگا۔ اب وہ ایک روایتی شادی شدہ ہندو عورت ہے لیکن صرف صبح 9 سے شام 5 بجے تک ۔گھر واپس جا کر وہ دوبارہ اپنے مذہب میں ”داخل“ ہو جائے گی ۔ بیگم سے لکشمی تک کا سفر میرے اور آپ کے لئے تو شائد حیرت اور تکلیف کا باعث ہو مگر اس مسلمان عورت کے لئے نہیں جو ”سیکولر“ بھارت میں رہتی ہے اور جسے اپنا پیٹ پالنے کے لئے ایک نوکری کی تلاش ہے ۔کئی برس ٹھوکریں کھانے کے باوجود جب بطور مسلمان اسے نوکری نہیں ملی تو اس کے غریب ذہن نے سمجھایا کہ اب ذرا ہندو بن کر بھی کوشش کرو ، اس نے یہی کیا اور کام بن گیا ۔ آج کل وہ ایک ہسپتال میں آیا ہے ۔ حال ہی میں ہسپتال کی انتظامیہ نے اسے کہا ہے کہ” انہیں چند مزید لڑکیوں کی بھی ضرورت ہے مگر وہ مسلمان نہ ہوں ۔ اگر انہیں پتہ چل گیاکہ میں مسلمان ہوں تو وہ فوراً مجھے نوکری سے نکال دیں گے“۔

اس کے باوجود ہمارے سیکولر طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا

جس ملک میں عورتیں خود کو زندہ رکھنے کے لئے اتنی مجبور ہوں کہ اپنا ہونے والا بچہ ”ایڈوانس“ پکڑ کر بیچ دیں اور یہ آپشن وہ تب استعمال کرتی ہوں جب ان کا اپنا خریدار کوئی نہ رہے،اس ملک میں کسی مسلمان عورت کا معمولی سی نوکری کی خاطر بھیس بدلنا تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہئے ۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 13فیصد ہے جبکہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں مسلمان صرف 3 فیصد ہیں ،انڈین فارن سروس میں 1.8 فیصد اور انڈین پولیس سروس میں 4 فیصد ۔ بھارتی ریلویز میں 14لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں صرف 64,000 مسلمان ہیں جو 4.8 فیصد بنتا ہے اور اس میں سے بھی 98.7 فیصد وہ ہیں جو نچلے درجے کے ملازمین میں شمار ہوتے ہیں ۔ پھر بھی ،پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا

حال ہی میں بھارت نے ایک مسلمان سید آصف ابراہیم کو انٹیلیجنس بیورو کا چیف مقرر کیا ۔ اس اقدام نے ہمارے ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے دانشوروں کو بھنگڑے ڈالنے کا ایک اور موقع فراہم دیا اور ان کی زنبیل میں ایک اور دلیل کا اضافہ ہو گیا ۔ بھارت کا (سابقہ) صدر مسلمان ، آئی بی کا چیف مسلمان ، فلم انڈسٹری کا بادشاہ مسلمان ۔ ”اب بھی کہتے ہو کہ پاکستان بننا چاہئیے تھا۔ you loosers “

بھارتی صدر تو خیر ایک رسمی سا عہدہ ہے جس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ بھارت اس عہدے کو اپنا سیکولر امیج بہتر بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ بھارت کے جاسوسی ادارے میں مسلمان سربراہ کی تعیناتی 125 سال میں پہلی مرتبہ عمل میں آئی ہے اور اس کا مسلمانیت سے کتنا تعلق ہے ، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی مختلف سیکورٹی ایجنسیوں میں 90 لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں دفاع کی تینوں ایجنسیاں بھی شامل ہیں ۔ ان میں سے جب 5 لاکھ 20 ہزار افراد کا ڈیٹا کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ ان ایجنسیوں میں مسلمان عہدے داروں کا تناسب فقط 3.6 فیصد ہے جبکہ نچلے درجے کے ملازمین میں سے 4.6 فیصد مسلمان ہیں ۔ اوررہی بات فلم انڈسٹری کی تو جو لوگ شاہ رخ خان ،عامر خان اور سلمان خان کو سچ مچ کا مسلمان سمجھتے ہیں ان کے حق میں علامہ طاہر القادری سے دعا ہی کروائی جا سکتی ہے

اگراب بھی کسی سیکولر بھائی کا یہ خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا تو انہیں چاہئیے کہ فوراً ممبئی میں اپنا ایک فلیٹ بک کروا لیں لیکن خیال رکھیں کہ اس فلیٹ میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہو کیونکہ ودیا بالن کے بھارت کی کل آبادی لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ ہے جن میں سے نصف کو ٹوائلٹ کی سہولت ہی میسر نہیں ا ور مسز بالن اس ضمن میں بہت پریشان ہیں ۔ انہوں نے بھارتیوں کو شرم دلانے کے لئے ایک مہم بھی چلائی مگر بے سود ۔ بھارت ماتا میں 60کروڑ لوگ بغیر ٹوائلٹ کے زندگی گزارتے ہیں ۔ جھارکنڈ، اڑیسہ اور بہار میں یہ شرح 75فیصد سے بھی زیادہ ہے اور ان تینوں ریاستوں کی کل آبادی پورے پاکستان کے برابر ہے ۔ بنگلور جسے بھارت کی سِلیکون ویلی کہا جاتا ہے ، بھارت کے ماتھے کا سندور ہے ۔ رات گئے جب 60 لاکھ آبادی کا یہ شہر سو جاتا ہے تو نچلی ذات کے ہندو جنہیں اچھوت یا دلت کہا جاتا ہے 15000 کی تعداد میں نکلتے ہیں اور 60 لاکھ شہریوں کا گند صاف کرتے ہیں ۔ پورے بھارت مہان میں یہ کام کرنے والوں کی تعداد سرکار کے مطابق 3 لاکھ جبکہ اصل میں 10 لاکھ کے قریب ہے اور یہ لوگ اوسطً 4 ڈالر یومیہ سے بھی کم کماتے ہیں ۔ بھارتی شہروں میں مسلمانوں کی غربت ان اچھوتوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔ بھارت کے وہ چھوٹے دیہات جہاں مسلمانوں کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے (اکثریت نہیں ہے) ان میں سے ایک تہائی ایسے ہیں جہاں سرے سے کوئی سکول ہی نہیں ہے ۔ اور ایسے بڑے دیہات جہاں مسلمان بستے ہیں ، ان میں سے 40 فیصد میں کسی بھی قسم کی کوئی صحت کی سہولت میسر نہیں ۔ یہ بیان مجھ جیسے کسی تنگ نظر مسلمان کا نہیں بلکہ بھارت کی مشہور زمانہ سچر کمیشن رپورٹ کا نتیجہ ہے ۔مگر کیا کریں . پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا ؟

پاکستان اور بھارت کا مقابلہ کرنا مقصد ہے اور نہ مجھے اس بات پر ڈھول بجانے کا شوق ہے کہ اگر ہمارے ہاں 22.6 فیصد افراد 73 پنس یومیہ سے بھی کم آمدن رکھتے ہیں تو کیا ہوا، بھارت میں یہی شرح 41.6 فیصد ہے ۔ یہاں اگر بچے غذائی کمی کا شکار ہو کر مرتے ہیں تو بھارت میں یہ شرح دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے لہذا ہمیں گھوڑے بیچ کر سو جانا چاہئے ۔ اگر پاکستان میں بچے 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کسی بیماری کی وجہ سے مر جاتے ہیں تو بھارت میں سالانہ 21 لاکھ بچے ایسے ہیں جو under weight پیدا ہوکر مرجاتے ہیں لہذا ہم پھر جیت گئے

جی نہیں ، ایسی جیت پر لعنت اور ایسا سوچنا پرلے درجے کی حماقت ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس بنیاد پر پاکستان بنا کیا وہ نظریہ درست تھی ؟ نظریہ بڑا سادہ تھا کہ اگر مسلمان متحدہ ہندوستان میں رہے تو بطور اقلیت انہیں ان کے حقوق نہیں ملیں گے ۔ اس بات کا تعین کرنے کا سادہ ترین طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا بھارت کا ایک عام مسلمان پاکستانی مسلمان سے بہتر حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے ؟ پاکستان کی تمام جملہ خرابیوں کے باوجود ،جن میں زیادہ تر حصہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ہے اورجو فوجی آمریتوں کی دین ہے ، ایک عام پاکستانی کے حالات بھارتی مسلمان سے کہیں بہتر ہیں ۔ ہمیں صرف بھارتی فلم اور میڈیا کی چکا چوند دکھائی دیتی ہے، یہ پتہ نہیں چلتا کہ سیکولر بھارت میں فقط ہندو ہی ”دبنگ“ ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قوم دھنیا پی کر سو جائے

جتنا جذبہ ہم بھارت کو کرکٹ کے میدان میں ہرانے کے لئے بروئے کار لاتے ہیں اگر اس کا 10 فیصد بھی ہم دیگر شعبوں میں استعمال کریں تو
ہمارا بین الاقوامی امیج بھارت سے بہتر ہو جائے گا۔ بھارت کا امیج اس کی ”The Dirty Picture“کی وجہ سے بہتر ہے جبکہ ہم اپنے ملک کی dirtiest pictureپینٹ کرتے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کے وجود پر معذرت خواہانہ رویہ اپنا لیتے ہیں ، لاحول ولا۔

تحریر ۔ یاسر پیرزادہ

تضاد ۔ طاہرالقادری

بہت سے لوگ طاہر القادری صاحب کی 23 دسمبر کی تقریر کے سحر میں مبتلا ہیں اور سراپا تعریف ہیں ۔ طاہر القادری صاحب کو اللہ نے مسحور کُن تقریر کرنے کا فن عطا کیا ہے جس کے باعث سامعین ان کی تقریر میں موجود کمی کی طرف نظر نہیں کر پاتے ۔ طاہر القادری صاحب کی نیت پر شک کئے بغیر بھی اگر ان کے کہے الفاظ پر غور کیا جائے تو ان میں تضاد ملتا ہے

طاہر القادری صاحب نے پاکستان کے آئین کی تائید کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ وہ سب کچھ پاکستان کے آئین کے تحت کرنا چاہتے ہیں مگر نہ صرف ان کا مطالبہ کہ ”نگران حکومت بنانے کیلئے فوج اور اعلٰی عدلیہ کو شامل کیا جائے“ آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ 25 دسمبر کا جلسہ بھی آئین کی خلاف ورزی تھا

طاہر القادری صاحب نے قرار دیا کہ اگر اُن کے مطالبہ پر عمل نہ کیا گیا اور موجودہ قوانین کے تحت انتخابات کرائے گئے تو انتخابات غیر آئینی ہوں گے
کوئی عمل اگر غیر آئینی ہو تو اس کے خلاف عدالتِ عظمٰی میں درخواست دی جاتی ہے لیکن ایسی کاروائی کی طرف کوئی اشارہ نہیں دیا

طاہر القادری صاحب نے کہا کہ وہ انتخابات ملتوی کرانے نہیں آئے اور یہ بھی کہا کہ پہلے ساری گندگی صاف کی جائے خواہ اس میں 90 دن سے زیادہ لگ جائیں
چیف جسٹس آف پاکستان واضح کر چکے ہیں کہ صرف ملک میں سول وار ہونے کی صورت میں انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ 90 دن کی حد آئین نے مقرر کی ہے چنانچہ اسے عبور کرنا بھی آئین کی خلاف ورزی ہو گا

طاہر القادری صاحب نے کہا کہ اسلام آباد میں اکٹھے ہونے والے (بقول اُن کے) 40 لاکھ افراد وہ فیصلے کریں گے جو آج تک پارلیمنٹ کے ارکان نہیں کر سکے
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا آئین اس کی اجازت دیتا ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا 14 جنوری کو اسلام آباد میں ریفرنڈم ہو گا اور طاہر القادری صاحب کے حواریوں کی رائے پاکستان کے 18 کروڑ عوام کی رائے ہو گی ؟ آئین کے مطابق دونوں سوالوں کا جواب ” نہیں “ ہے

طاہر القادری صاحب نے 2 بڑی پارٹیوں (پی پی پی اور پی ایم ایل ن) کو رد بھی کیا ۔ طاہر القادری صاحب کو خیبر پختونخوا ۔ بلوچستان اور سندھ میں پذیرائی ملنے کی بہت کم توقع ہے البتہ اس اُمید میں کہ پنجاب میں گھسنے کا راستہ نکل آئے کراچی ۔ حیدر آباد یا سکھر میں ایم کیو ایم طاہر القادری صاحب کے جلسے کو کامیاب بنا سکتی ہے اور شاید اسی خیال سے ایم کیو ایم کا 50 رکنی وفد جس میں کچھ سنیئر رہنما بھی شامل تھے لاہور کے جلسے میں موجود تھا۔ پی پی پی کا کچھ نقصان ہوتا نظر نہیں آ رہا (ویسے سننے میں آیا ہے کہ 23 دسمبر کے جلسے میں پی پی پی کے کارکن بھی موجود تھے)۔ گو کہ طاہر القادری صاحب سیاست سے انکار کر رہے ہیں لیکن واقعات اور خود اُن کے الفاظ چُغلی کھا رہے ہیں کہ ساری مہم جوئی کا مقصد داہنے بازو کی جماعتوں جن کے رہنما نواز شریف بن سکتے ہیں کو حکومت بنانے سے روکنا ہے ۔ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری مل کر نواز شریف اور اس کی ہمخیال جماعتوں کے ووٹ توڑنے کی کوشش میں ہیں ۔ لگتا یہی ہے کہ طاہر القادری صاحب کو استعمال کرنے والے بھی وہی ہیں جو عمران خان کو استعمال کر رہے ہیں

طاہر القادری صاحب نے کبھی کسی آمر کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی یہاں تک کہ اسلام آباد کے لال مسجد اور جامعہ حفصہ للبنات پر فوج کشی جس میں سینکڑوں معصوم بچیاں ہلاک ہوئیں کے خلاف تحریک چلانا تو بڑی بات ہے کبھی احتجاج نہیں کیا

طاہر القادری صاحب نے 2 مارچ 2010ء کو جہاد کے خلاف فتوٰی دیا جو کتاب کی صورت میں اُردو میں 600 اور انگریزی میں 512 صفحات پر مشتمل ہے ۔ بظاہر یہ فتوٰی دہشتگردی کے خلاف ہے لیکن اصل میں فرنگیوں کو خوشی کرنے کی کوشش ہے ۔ مزید ۔ ۔ ۔

On 24 October 2010, Qadri was invited to deliver a speech entitled “Jihad: Perception and reality” to a gathering of thousands of British Muslims at the largest European multicultural gathering, the Global Peace and Unity event. Qadri stated in his speech: “Let me make it very clear and sound, let me remove any ambiguity that no leader or a group has any authority to declare jihad. If any leader or a group does that, it is terrorism and not jihad.” He added: “it is solely the prerogative of a state authority to declare jihad and only as a matter of last resort when diplomacy and all other efforts to make peace have failed.”

Qadri refutes the division of the world into two categories Dar al-Islam (the abode of Islam) and Dar al-harb (the abode of war) and that the west is the latter; Qadri instead divides the world into five categories. Qadri argues that the word “Dar al-Islam” actually implies “the abode of Peace” rather than the abode of Islam and that all countries under the United Nations (UN), whether Muslim or non-Muslim actually come under Dar al-Ahad (house of treaty) which Qadri says is the same as Dar al-Islam.

ساتویں کی ڈائری

اسلامیہ مڈل سکول سرکلر روڈ راولپنڈی (کب کا ہائی ہو چکا) سے میں نے ساتویں جماعت پاس کی تھی ۔ مجھے اس دور (1949ء۔1950ء) میں لکھی ڈائری سے پھٹا ایک ورق مل گیا تو میں نے سنبھال کر رکھ لیا تھا مگر ایسا سنبھالا کہ 2 دہائیاں بعد پچھلے دنوں کچھ اور تلاش کرتے ملا ۔ سوچا اسے کمپیوٹر میں محفوظ کیا جائے

مُلک ۔ ۔ ۔ آزادی دلانے والے ۔ ۔ ۔ آزادی کا دن

پاکستان ۔ ۔ ۔ محمد علی جناح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 اگست 1947ء
بھارت ۔ ۔ کرمچند موہنداس گاندھی ۔ ۔ 15 اگست 1947ء
ترکی ۔ ۔ ۔ ۔ مصطفٰی کمال پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ یکم نومبر 1923ء
مصر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سعد زغلول پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ 12 جنوری 1924ء
امریکا ۔ ۔ ۔ ۔ ابراھیم لنکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4 جولائی 1776ء
چین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موزے تُنگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 اکتوبر 1948ء
فرانس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 جولائی
اٹلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26 مارچ
یونان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 مارچ
پرتگال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 اکتوبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیدائش

چرچل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1874 ء
علامہ اقبال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 نومبر 1876ء
قاعد اعظم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 دسمبر 1876ء
سر آغا خان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1877ء
محمد علی جوہر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 دسمبر 1878ء
مارشل سٹالن ۔ ۔۔ ۔ ۔ 1879ء