چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کردار

بند کمرے میں ہوں تو
جس طرح چھوٹے چھوٹے سوراخوں میں سے آتی سورج کی کِرنیں سورج کے مزاج کا پتا دیتی ہیں

اسی طرح انسان کی چھوٹی چھوٹی باتیں اُس کے کردار کو عیاں کرتی ہیں

اپنے کہے الفاظ اور حرکات جنہیں آپ معمولی سمجھتے ہیں اِن پر نظر رکھیئے یہی آپ کے کردار کی عکاسی کرتے ہیں

برادری ۔ چوہدری ۔ پنچائت ۔ خُوبیاں اور خامیاں

برادری نظام افریقہ اور ایشیا کا قدیم معاشرتی نظام تھا ۔ انگریز جہاں بھی پہنچا اُس نے اسے سب سے پہلے نشانہ بنایا کیونکہ اُن کے اجارہ داری نظام کی راہ میں یہ نظام ایک بڑی رکاوٹ تھا ۔ ہندوستان میں عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے برادری نظام کے مقابلے میں اُنہوں نے لمبرداری یا نمبرداری نظام تشکیل دیا جس میں لمبردار یا نمبردار برطانوی حکومت کا نمائندہ ہوتا تھا اور اُسے عوام کو لوٹنے اور تنگ کرنے کے کئی اختیارات سونپے گئے تھے ۔ اس مصنوعی نظام نے برادری نظام کو کمزور کرنے میں اور برادریاں توڑنے اور ہندوستان پر انگریزوں کی گرفت مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ انگریز کے بنائے نظام میں بھی ایک چوہدری ہوتا تھا جو برادری کا قابلِ احترام بزرگ ہونے کی بجائے انگریز کا پِٹھو جاگیردار ہوتا تھا جسے اپنی قوم سے غداری کے عوض جاگیر ملی ہوتی تھی

نئی اچھی چیزیں اپنانا انسانی بہتری کیلئے لازم ہے لیکن یہ رویہ بھی غلط ہے کہ جدیدیت کو اپناتے ہوئے اپنے قدیم اچھے اوصاف سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے ۔ برادری نظام جس میں عدالت کا کام پنچائت کرتی تھی اپنی کمزور ترین حالت میں آدھی صدی قبل تک رائج تھا ۔ یہ نظام گو اپنی خُوبیوں میں سے اکثر کھو چکا تھا پھر بھی موجودہ انگریزی نما آدھا تیتر آدھا بٹیر نظام سے بدرجہا بہتر تھا ۔ میں صرف اپنے خاندان کے برادری نظام کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں جو کہ اب مرحوم ہو چکا ہے

ہماری برادری دوسری برادریوں سے ایک لحاظ سے مختلف تھی کہ اس میں اپنے ہی خاندان میں شادی کرنے کی پابندی نہ تھی البتہ ترجیح ضرور تھی ۔ جس دوسرے خاندان میں شادی ہوتی اُسے اُن کی رضامندی سے اپنی برادری میں شامل کر لیا جاتا ۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس سوچ کے نتیجہ میں ہماری برادری کا بہت زیادہ پھیل جانا بھی اس برادری نظام کے خاتمہ کی دو بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ۔ دوسری بڑی وجہ جدیدیت کا بخار ہے جس نے 1950ء کی دہائی میں جوان ہونے والی نسل کو خودسر بنا دیا تھا

برادری کا ایک چوہدری ہوتا تھا جسے برادری کے بزرگ چُنتے اور وہ اُس وقت تک چوہدری رہتا جب تک وہ صحت یا کسی اور خاص وجہ سے معذوری ظاہر نہ کرتا ۔ چوہدری کے خلاف کوئی بڑی شکائت ملنے پر پنچائت بُلائی جاتی جس کی صدارت تو چودری ہی کرتا لیکن اسے بولنے کا اختیار صرف اس وقت ہوتا جب پنچائت اسے کسی خاص بات کی وضاحت کرنے کو کہے ۔ اگر چوہدری کے خلاف شکایات بڑھ جاتیں تو چوہدری خود ہی کسی غیرمتنازعہ شخص کو اپنی ذمہ داری سونپ کر الگ ہو جاتا

جو خاندان اپنے باہمی فیصلے نہ کر پاتے وہ چوہدری سے رجوع کرتے اور اگر چوہدری اس کا متفقہ فیصلہ نہ کر پاتا تو معاملہ پنچائت تک پہنچایا جاتا ۔ شادی کی بات پکی کر کے چوہدری کو اطلاع دی جاتی ۔ کچھ لوگ شادی کی بات پکی کرنے سے قبل ہی چوہدری کو اعتماد میں لیتے اور کچھ ایسے بھی ہوتے جو اپنے بیٹے یا بیٹی کا رشتہ طے کرنا چوہدری کے ذمہ کر دیتے ۔ شادی کی تاریخ مقرر ہو جانے پر چوہدری سب مہمانوں کو مطلع کرنے کا ذمہ دار ہوتا یہ کام وہ اس کام کیلئے مقرر ایک خاندان سے کرواتا جس کی کُنیت بھَٹ تھی ۔ کسی کی وفات کی صورت میں بھی بھَٹ کو اطلاع دی جاتی جو گھر گھر جا کر وفات کی اطلاع کے ساتھ نماز جنازہ کے وقت اور دفن کی جگہ کی اطلاع دیتا ۔ اس کے علاوہ بھی سب اجتماعی ۔ معاشرتی اور انفرادی مسائل میں چوہدری سے مشورہ کیا جاتا اور اہم معاملات میں پنچائت بُلائی جاتی ۔ چوہدری گاہے بگاہے اپنے انفرادی طور پر کئے ہوئے فیصلوں پر پنچائت کو اعتماد میں لیتا رہتا ۔ چوہدری کسی بھی صورت مطلق العنان نہیں تھا

شادی کسی کی بھی ہو اس کا منتظمِ اعلٰی چوہدری ہی کو سمجھا جاتا تھا ۔ چوہدری جس کو اس شادی کا منتظم نامزد کر دیتا سب لوگ بالخصوص نوجوان اُس سے تعاون کرنے اور اُس کا حُکم ماننے کے پابند ہوتے ۔ شادی کے کھانے میں جو برتن استعمال ہوتے تھے وہ برادری کی ملکیت ہوتے تھے اور عام طور پر برادری کے چندے سے خریدے جاتے تھے لیکن کوئی چاہے تو چندے کے علاوہ اپنی جیب سے برتن خرید کر دے سکتا تھا ۔ اگر دُلہن بننے والی لڑکی کے والدین کی مالی حالت کمزور ہو تو چوہدری چُپکے سے برادری کے مخیّر حضرات سے مالی تعاون حاصل کر لیتا ۔ کبھی کبھی کوئی مخیّر شخص پوری برادری کی ضیافت بھی کرتا جسے “برادری کا کٹھ” کا نام دیا جاتا ۔ یہ ایک بہت بڑی ضیافت ہوتی تھی جس کا انتظام سب مل کر کرتے تھے ۔ بعض اوقات کچھ لوگ مل کر بھی برادری کے کٹھ کا خرچ اُٹھاتے تھے

میرے والدین کی شادی سے بھی پہلے میرے دادا کو چوہدری بنایا گیا تھا جبکہ برادری میں کئی بزرگ اُن سے عمر میں بڑے تھے اور اُن کے اپنے تینوں بھائی بھی اُن سے بڑے تھے ۔ اُنہوں نے اپنے دور میں برادری کی اجتماعی ضروریات کے سلسلہ میں اپنی جیب سے بہت خرچ کیا جس نے اُنہیں برادری کے عام لوگوں میں ہر دلعزیز بنا دیا لیکن پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے کچھ پہلے اُنہوں نے اپنی صحت کے حوالے سے ذمہ داریاں کسی اور سونپ دیں

دوسری قسط کچھ دن میں

دعوے اور حقیقت

انتخابات سے پہلے انتخابات کے دن سیاسی جماعتوں کے سربراہان بہت سے دعوے کرتے ہیں ۔ ہارنے والوں کے دھاندلی کے دعوٰی کے علاوہ بھی دو دعوے ایسے ہیں جو کہ بار بار کئے گئے

1970ء کے انتخابات میں آؤٹ ٹرن 60 فیصد رہا تھا ۔ ایک سیاسی جماعت سربراہان کا دعوٰی تھا کہ اُن کشش کے باعث 11 مئی 2013ء کے انتخابات میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ آؤٹ ٹرن رہا
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار شائع کرنے پر معلوم ہوا کہ کُل ایک 4 کروڑ 62 لاکھ سے کچھ اُوپر ووٹ ڈالے گئے جو 55.02 فیصد بنتا ہے

ایک سیاسی جماعت 12 مئی 2013ء سے زور دے رہی ہے کہ پنجاب کے 25 حلقوں میں لگائے گئے انگوٹھے کے نشانات کا متعلقہ ووٹرز کے شناختی کارڈز پر لگے انگوٹھے کے نشانات کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ کس اُمیدوار نے دھندلی کی ہے ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ایسا مطالبہ کرنے والے اتنے ہی ناواقف یا بھولے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ بیلٹ پیپر پر انگوٹھے کا نشان نہیں لگایا جاتا اور نہ کوئی ایسی نشانی ہوتی ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ یہ ووٹ کس نے ڈالا ۔ انگوٹھے کا نشان کاؤنٹر فائل پر ہوتا ہے ۔ اگر کاؤنٹر فائل پر لگا انگوٹھے کا نشان شناختی کارڈ پر لگے انگوٹھے کا نشان سے مختلف ہو تو پریزاڈنگ آفیسر کا قصور تو بن سکتا ہے اور مزید کچھ نہیں ہو سکتا

ایک سیاسی جماعت کا دعوٰی تھا کہ 11 مئی 2013ء کو اُنہیں سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں لیکن ہیرا پھیری سے دوسری جماعت اکثریت لے گئی ہے
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار شائع کرنے پر مندرجہ ذیل صورتِ حال سامنے آئی ہے
272 میں سے 266 نشستوں کا اعلان ہوا ہے

سیاسی جماعت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ووٹ ملے ۔ ۔ نشستیں حاصل کیں

مسلم لیگ ن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14794188 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 125

تحریکِ انصاف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7563504 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 27

پی پی پی پی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6822958 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 31

آزاد اُمیدوار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5773494 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 32

ایم کیو ایم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2422656 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 18

جے یو آئی (ف) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1454907 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10

مسلم لیگ ق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1405493 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2

مسلم لیگ ف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1007761 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5

جماعتِ اسلامی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 949394 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3

اے این پی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 450561 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

پختون خوا ملی عوامی پارٹی ۔ ۔ ۔ 211989 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3

این پی پی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 196828 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2

مسلم لیگ ضیاء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 126504 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

عوامی مسلم لیگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 93051 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

عوامی جمہوری اتحاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 71175 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

بی این پی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 64070 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

نیشنل پارٹی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 61171 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

مسلم لیگ مشرّف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 54617 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

قومی وطن پارٹی شیرپاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 46829 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

سیاست اور جھوٹ ؟ ؟ ؟

میں نے لڑکپن میں ایک بزرگ کو کہتے سُنا ”وہ بڑا سیاسہ والا ہے“۔ سیاسہ عربی کا لفظ ہے جسے اُردو میں سیاست لکھتے ہیں ۔ میں نے بعد میں اُن سے اس فقرے کا مطلب پوچھا تو اُنہوں نے بتا یا ”ہوشیار ایسا کہ غلطی کرے مگر پکڑائی نہیں دے“۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اکثر سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں اور پکڑائی نہیں دیتے ؟

سوشل میڈیا (فیس بُک اور ٹویٹر) پر عمران خان کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور ڈر ہے کہ کسی دن کوئی عمران خان کو نبی کے برابر قرار نہ دے دے ۔ پچھلے ایک ماہ سے نواز شریف اور شہباز شریف پر الزامات کی بھرمار کی جا رہی ہے ۔ یہ الزامات حقیقت سے تعلق رکھتے ہیں یا بہتان تراشی ہے ؟ اس کا عِلم تھوڑی سی محنت کرنے پر سامنے آ جاتا ہے

عمران خان کے فدائی لالک جان چوک ۔ ڈی ایچ ۔ اے ۔ لاہور میں 8 دن دھرنا دیئے بیٹھے رہے کہ این اے 125 میں رجسٹرڈ ووٹوں سے بہت زیادہ ووٹ ڈالے گئے چنانچہ بڑی دھاندلی ہوئی ہے ۔ فافن کی متذکرہ رپورٹ میں این 125 کا ذکر ہی نہیں ہے ۔ البتہ فافن رپورٹ کے مطابق این اے 71 میانوالی 1 کے پولنگ سٹیشن نمبر 57 میں 1024 ووٹ ڈالے گئے جبکہ کل رجسٹرڈ ووٹر 790 ہیں ۔ اس حلقے سے عمران خان جیتا ہے

فافن کی رپورٹ یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔ فافن رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے

جے یو آئی ف 10 حلقوں سے جیتی اور 2 حلقوں کے 1 یا 2 پولنگ سٹیشن پر رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ووٹ پڑے جو 20 فیصد بنتا ہے
پی پی پی پی 31 حلقوں سے جیتی اور 6 حلقوں کے 1 یا 2 پولنگ سٹیشن پر رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ووٹ پڑے جو 19.35 فیصد بنتا ہے
تحریکِ انصاف 27 حلقوں سے جیتی اور 5 حلقوں کے 1 یا 2 پولنگ سٹیشن پر رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ووٹ پڑے جو 18.52 فیصد بنتا ہے
ایم کیو ایم 18 حلقوں سے جیتی اور 3 حلقوں کے 1 یا 2 پولنگ سٹیشن پر رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ووٹ پڑے جو 16.67فیصد بنتا ہے
مسلم لیگ ن 124 حلقوں سے جیتی اور 19 حلقوں کے 1 یا 2 پولنگ سٹیشن پر رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ووٹ پڑے جو 15.32 فیصد بنتا ہے

اللہ اکبر

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی قادر ہے جسے چاہے شاہ بنا دے جسے چاہے گدا بنا دے لیکن اللہ الرحمٰن الرحیم نے انسان کو واضح ھدایات دے رکھی ہیں جن پر چل کر انسان اپنی زندگی استوار کر سکتا ہے
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سورت 53 النّجم آیت 39 میں فرماتا ہے
و َأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔
اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

یہ انسان پر ہے کہ وہ کیا حاصل کرنے کیلئے کوشش یا محنت کرتا ہے ۔ انسان جس جہت میں کوشش کرے اللہ اُسے کامیابی عطا فرماتا ہے

تازہ ترین صورتِ حال

الیکشن کمشن کے آج صبح تک کے جاری کردہ انتخابات 2013ء کے نتائج

سیاسی جماعت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قومی اسمبلی ۔ ۔ ۔ ۔ پنجاب ۔ ۔ ۔ سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ خیبر پختونخوا ۔ ۔ بلوچستان

پی ایم ایل این ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 124 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 214 ۔ ۔ ۔ ۔ 4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9

پی پی پی پی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 31 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 63 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0

پی ٹی آئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 27 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 19 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 35 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0

ایم کیو ایم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 18 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 37 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0

جے یو آئی ایف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6

پی ایم ایل ایف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0

جماعت اسلامی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0

این پی پی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0

پی ایم ایل کیو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5

آزاد اُمید وار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 40 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8

کُل نشستیں/اعلان ہوا ۔ ۔ 272/261 ۔ ۔ 297/290 ۔ ۔ 130/119 ۔ ۔ 99/99 ۔ ۔ 51/50

بہتر کون ؟

آج کل سائنس کی ترقی کا چرچہ ہے ۔ سائنس کی ترقی نے آدمی کو بہت سہولیات مہیاء کر دی ہیں
پڑھنے لکھنے پر بھی زور ہے جس کے نتیجہ میں بہت لوگوں نے بڑی بڑی اسناد حاصل کر لی ہیں
توقع تو تھی کہ ان سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے آدمی تعلیم حاصل کر کے انسان بن جائیں گے

لیکن

سائنس کی ترقی میں انسانیت کم پنپ پائی ہے اور وبال یا جہالت زیادہ
سائنس کے استعمال نے انسان کا خون انفرادی ہی نہیں بلکہ انبوہ کے حساب سے آسان بنا دیا ہے اور انسانیت بلک رہی ہے
ایسے میں ویب گردی کرتے میں افریقہ جا پہنچا ۔ دیکھیئے نیچے تصویر میں کون بچے ہیں اور کیا کر رہے ہیں

Ubuntu

ان بچوں کے پاس اپنے جسم ڈھانپنے کیلئے پورے کپڑے نہیں لیکن اس تصویر سے اُن کی باہمی محبت اور احترام کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ تو میرا اندازہ ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے

ایک ماہرِ بشریات (anthropologist) نے شاید ایسے لوگوں کو پڑھا لکھا نہ ہونے کی بناء پر جاہل اور خود غرض سمجھتے ہوئے اپنے مطالعہ کے مطابق ایک مشق دی ۔ماہرِ بشریات نے پھلوں سے بھرا ایک ٹوکرا تھوڑا دور ایک درخت کے نیچے رکھ کر افریقہ میں بسنے والے ایک قبیلے کے بچوں سے کہا
”جو سب سے پہلے اس ٹوکرے کے پاس پہنچے گا ۔ یہ سارے میٹھے پھل اُس کے ہوں گے“۔
اُس نے بچوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے کے بعد کہا ”ایک ۔ دو ۔ تین ۔ بھاگو“۔

سب بچوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئے اور اکٹھے بھاگ کر اکٹھے ہی پھلوں کے ٹوکرے کے پاس پہنچ گئے اور ٹوکرے کے گرد بیٹھ کر سب پھل کھانے لگے

ماہرِ بشریات جو ششدر کھڑا تھا بچوں کے پاس جا کر بولا ”تم لوگ ہاتھ پکڑ کر اکٹھے کیوں بھاگے ؟ تم میں سے جو تیز بھاگ کر پہلے ٹوکرے کے پاس پہنچتا سارے پھل اس کے ہو جاتے”۔

بچے یک زبان ہو کر بولے ”اُبنٹُو (ubuntu) یعنی میرا وجود سب کی وجہ سے ہے ۔ ہم میں سے ایک کیسے خوش ہو سکتا ہے جب باقی افسردہ ہوں”۔

کیا یہ سکولوں اور یونیورسٹیوں سے محروم لوگ اُن لوگوں سے بہتر نہیں جو سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہو کر انفرادی بہتری کیلئے دوسروں کا نقصان کرتے ہیں
اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے دوسروں کا قتل کرتے ہیں
اور بہت خوش ہیں کہ جسے چاہیں اُسے اُس کے ملک یا گھر کے اندر ہی ایک بٹن دبا کر فنا کر دیں

سائنس نے ہمیں آسائشیں تو دے دیں ہیں مگر انسانیت ہم سے چھین لی