ایک اور جھٹکا

میں نے گذشتہ کل اپنی پریشانی کا اظہار کیا تھا ۔ آج ایک اور واقعہ پڑھ کر میں پریشان ہوں ۔ جب تبدیلی کے علمبراروں کا یہ حال ہے تو بنے گا کیا ؟ آپ بھی پڑھ لیجئے ۔ میں نے اُردو ترجمہ نہیں کیا تاکہ ترجمہ میں ہیرا پھیری نہ ہو جائے

PESHAWAR: Like their predecessors, ministers, special assistants and advisors in the Pakistan Tehreek-e-Insaf-led coalition government have also started taking official cars from their respective departments for the use of their private secretaries and other staff members.

The phenomenon has led to some confusion in several departments as their heads are worried about justifying the expenses for these vehicles. In some cases even designated cars of some high-ranking officials have been taken by the ministers, advisors and special assistants.

One such case happened in the Law Department where the designated car of a senior government pleader has been handed over to the private secretary (PS) of minister of law and parliamentary affairs.

The senior government pleader, Noorullah, on June 25 wrote to the secretary Law (copy of letter is available with The News)

“… the government of Khyber Pakhtunkhwa has arranged the purchase of the vehicle for senior government pleader of the Peshawar Law Department Civil Secretariat vide invoice No. 9131`6887, dated 2013. The vehicle was under my (Noorullah) use for official duties being a senior government pleader Peshawar Law Department since dated 23.4.2013.

According to the rules in vogue I am not drawing conveyance allowance as I have been provided the said vehicle for performing my official duties.

The above mentioned vehicle being designated one and the undersigned is responsible for its maintenance, wear and tear and has plied the said vehicle 5,000 km for official duties. I the undersigned (senior government pleader) being your subordinate officer in Law Department complied with your verbal orders for handing over the aforesaid officially authorized designated car along with the dedicated driver to the PS to law minister for the purpose and duty best known to your good office or worthy law minister.

I am aware of the exigencies of services and discipline or protocol to be followed in letter and spirit in upholding the rule of law and good order, but it is worthwhile to mention here that my office is located at Peshawar Saddar (Cantt area) and being, in charge of the officer, I perform my duties at courts as well as at my office, hence, am facing great inconvenience while performing my daily duties without the vehicle.

To overcome this troublesome situation, it is requested that the designated vehicle of senior government pleader Peshawar may please be made available to the undersigned by taking it back from law minister to enable me to discharge my official duties in efficient manner at the earliest.”

پی پی پی حکومت کا خفیہ خط منظرِ عام پر آ گیا

میں اس سے قبل ”حکمرانوں کی عیاری و مکاری“ کے تحت اپنی تحریر میں گذشتہ حکمرانوں کے قوم کو دھوکا دینے کا ذکر کیا تھا ۔ اس کی تفصیل آج کے اخبار میں آ گئی ہے جو میرے لکھے سے زیادہ گھناؤنی ہے ۔ پڑھنے کیلئے مندرجہ ذیل عنوان پر کلِک کیجئے

پی پی حکومت نے سوئس حکام کو کیس نہ کھولنے کا خفیہ خط لکھا

حکمرانوں کی عیاری و مکاری

کل صبح میں ایک خبر پڑھ کر پریشان تھا کیونکہ ان لوگوں میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا کہ لوگ جس کی دیانت کے دعویدار ہیں ۔ یہی پریشانی کیا کم تھی کہ عصر کی نماز کے بعد کمپیوٹر چلایا تو ایک اور خبر پڑھنے کو مل گئی

پہلی خبر ۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اُن اراکین قومی اسمبلی کو سرکاری رہائش گاہ دینے سے انکار کر دیا ہے جن کے اپنے مکان اسلام آباد یا راولپنڈی میں ہیں ۔ چنانچہ مسلم لیگ ن کے ارکان قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل اور ملک ابرار کو پچھلے دور میں دی گئی سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی ہے اور عمران خان کی طرف سے سرکاری رہائش گاہ کی الاٹمنٹ کیلئے دی گئی درخواست بھی نامنظور کر دی ہے

پریشانی اسلئے ہوئی کہ تحریکِ انصاف کی طرف سے ببانگِ دُہل اعلان کیا گیا تھا کہ عمران خان سمیت تحریکِ انصاف کا کوئی رکن اسمبلی سرکاری رہائش گاہ نہیں لے گا ۔ یہ اعلان عمران خان کی درخواست نامنظور ہونے کے بعد کیا گیا ؟ یا عمران خان نے اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دیا ؟

دوسری خبر ۔ چیف جسٹس پا کستان جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت انکشاف ہوا کہ عدالتِ عظمٰی کی ھدائت کے مطابق سوئس حکام کو 5 نومبر 2012ء کو لکھے گئے خط کے بعد سابق حکومت کی جانب سے ایک اور خط 22 نومبر 2012ء کو لکھا گیا تھا جو سابق سیکریٹری قانون یاسمین عباسی نے تحریر کیا تھا ۔ اس خط میں لکھا گیا تھا کہ صدر زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کا کوئی کیس نہیں ہے اور نہ ہی حکومتِ پاکستان کوئی کیس کھولنا چاہتی ہے اسلئے مقدمہ بند کرکے خط لکھ دیں ۔ اس کے زیرِ اثر سوئس حکام نے 4 فروری کو مقدمات بند کردیئے

یعنی سابقہ حکومت نے نہ صرف عدالتِ عظمٰی بلکہ پوری قوم کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیا ۔ اس جُرم اور گناہ میں صرف زرداری اور یاسمین عباسی ہی نہیں اور لوگ بھی شامل ہوں گے

اسلام پر رائے

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَيَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدة مِنْ لِسَانِی يَفْقَھُوا قَوْلِی

آجکل کچھ لوگ بڑے کرّ و فر سے دین اسلام پر رائے زنی کرتے ہیں ۔ قطع نظر اس کے کہ وہ کہتے کیا ہیں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا وہ دین اسلام پر رائے دینے کا استحقاق رکھتے ہیں

کسی بھی چیز کا استحقاق رکھنے کیلئے کچھ شرائط ہوتی ہیں ۔ عام طور پر سُنا یا پڑھا ہو گا کہ فلاں رُکن اسمبلی نے تحریکِ استحقاق پیش کی ۔ اس شخص کو یہ استحقاق ایک بنیادی شرط پوری کرنے پر ملتا ہے اور وہ شرط ہے کہ انتخابات میں حصہ لے کر جیتے پھر رُکن بننے کاحلف اُٹھائے

اسی طرح کسی مریض کے علاج یا میڈیکل سائنس کے معاملات پر رائے دینے کا استحقاق صرف اُس شخص کو ہے جسے ہم ڈاکٹر کہتے ہیں کیونکہ اس نے بنیادی شرط یعنی میڈیکل سائنس کی مطلوبہ سند حاصل کر کے اپنی رجسٹریشن مجاز ادارے میں کرائی ہوتی ہے ۔ یہی صورتِ حال انجنیئرنگ پر رائے دینے یا انجیئرنگ کا کام کرنے کی ہے اور قانون دان کی بھی

کبھی میڈیکل سائنس پر انجينئر کی رائے یا انجنیئرنگ پر ڈاکٹر کی رائے معتبر نہیں مانی جاتی ۔ نہ کسی قانون کی سند رکھنے والے کی رائے میڈیکل سائنس یا انجنیئرنگ سائنس کے اصول و ضوابط پر معتبر مانی جاتی ہے خواہ اُس کے پاس قانون کی سب سے اُونچی سند ہو ۔ نہ قانونی باريکيوں پر کسی بڑے سے بڑے ڈاکٹر یا انجنیئر کی بات کوئی سُنے گا ۔ بس ايک دين ہی ہے جس پر ہر نيم خواندہ و ناخواندہ رائے زنی کرنا اپنا فطری و بنيادی یا جمہوری حق سمجھتا ہے

بلاشبہ دين آسان ہے ليکن پہلے دين کا فہم تو حاصل کيا جائے ۔ جس کو دين کا مکمل فہم حاصل ہے وہ عالِمِ دین ہے یعنی ایسا شخص جس نے دین میں مطلوبہ تعلیم حاصل کی ہوتی ہے ۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہند وپاکستان میں بغیر متذکرہ شرط پوری کئے کسی داڑھی والے کو امام مسجد بنا دیا جاتا ہے جو کہ درست نہیں ہے ۔ امام مسجد دین کا سند یافتہ شخص ہی ہونا چاہیئے ۔ بہر کیف امام مسجد نہیں بلکہ عالِمِ دین دينی معاملات ميں رہنمائی کرنے کا حق رکھتا ہے جس کیلئے امام مسجد ہونا ضروری نہیں ہے البتہ پاکستان میں ایسے امام مسجد ہیں جو دین پر رائے کا استحقاق رکھتے ہیں یعنی دین کی مطلوبہ تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور دین کا فہم رکھتے ہیں

اللہ کريم کا ارشاد ہے ”ھَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ “ (سورت 39 ۔ الزُّمَر ۔ آیت 9) يعنی کيااہلِ علم اور بے علم برابر ہوسکتے ہيں؟ مطلب یہی ہے نہيں ہوسکتے ۔ اسی طرح ايک اور ارشادِ باری تعالٰی ہے ” فَاسْأَلُوا أَھْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ “(سورت 16 النّخل ۔ آیت 43) ترجمہ ۔ پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو

نبي پاک ﷺ کے دور اقدس ميں ہر چند کہ صحابہ کرام اہل زبان تھے ليکن قرآن شریف کے فہم کے لئے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے اور ان کے منتخب تربيت و تعليم يافتہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے رجوع کرتے تھے جنہيں دربار ِ رسالت سے اذن تھا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم کے وصال کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم ان کے بعد تابعین پھر تبع تابعين ہر دور ميں لوگوں کی دينی رہنمائی کے لئے اپنے اپنے دور کے علما کرام سے رجوع کرتے رہے حالانکہ قرآن و حديث ان کی اپنی زبان ميں موجود تھے

جو شخص دین پر رائے زنی کا شوق رکھتا ہے وہ اپنا شوق ضرور پورا کرے ليکن پہلے دين کے فہم کے لئے مکمل وقت دے کر اسے صحيح معنوں ميں سمجھے ۔ جو حضرات اپنے شُبہات کو واقعی دور کرنا چاہتے ہيں اوراپنی غلط فہميوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہيں تو اس سلسلے ميں کم از کم قرآن شریف مع ترجمہ اور تفسیر انہماک کے ساتھ نیک نیتی سے مطالعہ کر لیں ۔ ایسا کرنے کے بعد اِن شاء اللہ اُنہیں بہت کچھ خود ہی سمجھ آ جائے گا اور اعتراض کی حاجت باقی نہیں رہے گی

وما علينا الا البلاغ المبين

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ دل

کسی ایسے آدمی کی خاطر
* * * * * اپنا آپ نہ کھویئے

جسے * * * * * * * * * *
آپ کے کھو جانے کی فکر نہ ہو

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔

بجٹ کون سا اچھا ؟ ؟ ؟

”بجٹ“ انگریزی ہے ”تخمینہ“ کی ۔ یعنی آمدنی اور خرچ کا تخمینہ ۔ میرے پاس اگر آمدنی ہو گی تو میں خرچ بھی کر سکوں گا ۔ پھر میں کس طرح سوچ سکتا ہوں کہ حکومت بغیر آمدنی کے خرچ کرے گی ؟ مجموعی طور پر کوئی بجٹ نہ بُرا ہوتا ہے نہ اچھا ۔ اسے اچھا یا بُرا اس کا نفاذ اور تکمیل بناتے ہیں جس میں سب سے اہم عنصر عوام ہیں جن میں صنعتکار ۔ تاجر ۔ ٹھیکیدار ۔ دکاندار اور سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین شامل ہیں

بات چند سو چند ہزار یا چند لاکھ کی نہیں بلکہ میرے وطن کے کروڑوں باسیوں کی ہے جو پچھلی 4 دہائیوں سے اپنی سوچ کو سُلا کر دولت جمع کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں اور اُنہیں احساس نہیں کہ وہ بدعنوانی (corruption) میں ملوّث ہو رہے ہیں

شروع میں کم از کم بدعنوانی کو بُرا سمجھا جاتا تھا ۔ پھر دور آیا جنرل پرویز مشرف کا جس نے اقتدار سنبھالتے وقت کرپشن کے خاتمے کے بلند بانگ دعوے کئے ۔ مگر پھر اپنی کرسی کے لئے سب قربان کر دیا ۔ کرپشن کا پھل لاکھوں گھرانوں تک پہنچنے لگا اور کرپشن کو بُرا سمجھنے کا رجحان بھی معاشرے سے ناپید ہوتا گیا۔ پچھلے پانچ سالوں میں قومی دولت کو بے دریغ لُوٹا گیا ۔ مُلک اندھیروں میں ڈوب رہا تھا اور بجلی پیدا کرنے کیلئے شروع کئے گئے منصوبوں جن میں نندی پور اور چیچوکی ملیاں بھی شامل ہیں کے اربوں روپوں سے حکمرانوں نے اپنی جیبیں بھریں ۔ یہاں تک کہ حکمرانی کے آخری 3 دنوں میں دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے مُختص رقم کے اربوں روپے اُڑا لئے ۔ ہر سطح پر بدعنوانی کو ذاتی استحقاق اور اسلوبِ کار بنا دیا گیا

سڑکوں پر دوڑتی پھرتی بیش قیمت گاڑیوں ۔ لاکھوں کی تعداد میں موٹرسائیکلوں اور دن بدن عام ہوتی ڈیزائنر شاپس اور مہنگے ترین ریستورانوں کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بدعنوانی خاص و عام کا دستورالعمل بن چکی ہے ۔ دفاتر میں چند منٹ کے انتظار سے بچنے کیلئے اچھے خاصے پڑھے لکھے ”شکل سے شریف“ آدمی جائز کام بھی رشورت دے کر کرواتے ہیں ۔ ناجائز کام کروانے والوں نے دفاتر اور اداروں میں ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ جائز کام کیلئے بھی چائے پانی کے نام سے رشوت مانگی جاتی ہے ۔ سرکاری اداروں ہی میں نہیں پرائیویٹ اداروں میں بھی رشوت اور بدعنوانی کا ڈیرہ ہے

کہا جاتا ہے کہ حکمران بدعنوان ہیں ۔ اگر سیاستدان بدعنوان ہیں اور بدعنوانی کے ذمہ دار ہیں تو سوال یہ ہے کہ عوام بار بار انہیں ووٹ دے کر منتخب کیوں کرتے ہیں ؟ اپنے تئیں دانشور سمجھنے والے کہتے ہیں کہ عوام جاہل ہیں اسلئے درست فیصلہ کرنے کی قوت نہیں رکھتے مگر یہ دلیل بے معنی ہے ۔ جو عوام برسرِ عام سیاستدانوں کو بدعنوان کہتے پھرتے ہیں وہ ووٹ ڈالتے ہوئے اپنا مؤقف کیوں بھول جاتے ہیں ؟

حکومت کوئی بھی آئے ۔ حکمران کوئی بھی ہوں جب تک ہم عوام اپنا قبلہ درست نہیں کریں گے اور اپنی ذاتی خواہشات کیلئے جو ہیرا پھیریاں اور لاقانونیاں کی جاتی ہیں اُنہیں نہیں چھوڑیں گے کچھ بہتر نہیں ہو گا ۔ اللہ کا فرمان اٹل ہے

سورت 13 الرعد آیت 11 إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے)

سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ( اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)

لازم ہے کہ ہم سب جذباتیت اور دوسروں کی عیب جوئی کو چھوڑ کر معاشرہ کی اصلاح کیلئے کوشش کریں اور اس سے پہلے اپنی اصلاح کریں ۔ اس کے بغیر کوئی بہتری نہیں آئے گی