تبدیلی لیکن کیسے ؟

میں بھی چاہتا ہوں کہ میرے وطن میں خوشگوار تبدیلی آئے اور میرا وطن سکون و ترقی کی ایک مثال بن جائے لیکن یہ تبدیلی آئے گی کیسے ؟
کیا صرف تقریروں سے ؟
یا
صرف سینٹ اور اسمبلیوں میں بیٹھنے والوں کو تبدیل کرنے سے ؟

تقریر کا اثر ماضی میں بھی اُس میدان تک ہی ہوتا تھا جہاں تقریر کی جاتی تھی ۔ اب تو اس میدان میں موجود لوگوں پر بھی کم کم ہی اثر ہوتا ہے ۔ سینٹ اور اسملیاں بھی کئی بار تبدیل ہوئیں مگر نتیجہ ؟

بطور نمونہ ایک سرکاری محکمہ کے بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ بعد میں پہلے ایک تازہ ترین

پچھلے 4 ماہ سے نَیب کے چیئرمین کے تقرر کی بحث چل رہی تھی تو تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر سے ایک بار بھی رابطہ نہ کیا ۔ اگر کیا تھا اور اس نے تحریک انصاف کی بات مانے سے انکار کیا تھا تو کوئی آج تک نہ بولا ۔ جونہی نیب کے چیئرمین کے نام پر اتفاق ہوا ۔ تحریکِ انصاف نے اسے مُک مُکا قرار دے کر مسترد کر دیا ۔ کیا اس سے سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے یا تماش بینی کا ؟

اب نمونہ

ایک بڑے صنعتی ادارے کی ایک چھوٹی سی شاخ ایک ڈبہ فیکٹری ۔ ایک انڈسٹریل ہوم ۔ ایک پٹرول پمپ و سروس سٹیشن اور لوکل ٹرانسپورٹ پر مشتمل تھی ۔ ڈبہ فیکٹری میں سٹیل شیٹ کے ڈبے بنتے تھے جن میں اس ادارے میں بنا کچھ مال پیک ہوتا تھا ۔ انڈسٹریل ہوم میں بیوہ عورتوں سے اس ادارے میں استعمال ہونے والی کچھ وردیاں سلوائی جاتی تھیں اور اُجرت سلائی فی وردی کے حساب سے دی جاتی تھی ۔ ٹرانسپورٹ سیکشن 10 بسوں اور 4 ٹیکسیوں پر مشتمل تھا

ادارے کا سربراہ نیا آیا تو ادارے کے بڑے اور اہم حصوں سے فارغ ہونے پر اس نے اس چھوٹی سی شاخ کی طرف توجہ کی اور اس کا نیا منیجر مقرر کیا ۔ نئے منیجر نے سب کام کا مشاہدہ بلکہ مطالعہ کیا تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے

ڈبہ فیکٹری کا انچارج ایک ریٹائرڈ میجر تھا جس نے صرف ایم او ڈی سی (موجودہ ڈیفنس گارڈز) سروس کی تھی ۔ اس فیکٹری کو زیادہ فعال نہیں ہونے دیا جاتا تھا کہ کہیں بیچارے ٹھیکیدار کو نقصان نہ ہو جو اس ڈبہ فیکٹری کے مقابلہ پر ڈبے سپلائی کرتا تھا ۔ ڈبہ فیکٹری کا منیجر سرکاری گاڑی گھر لیجا کر اس کا پٹرول نکال کر اپنی گاڑی میں ڈالا کرتا تھا
انڈسٹریل ہوم کی سربراہ ایک سرکاری ملازم عورت تھی ۔ وہ صرف اُن عورتوں کو کام دیتی جن کی سفارش ہوتی یا جو اس کے ذاتی کام آتیں ۔ ان میں بعض اوقات ایسی عورتیں ہوتیں جن کے خاوند زندہ تھے ۔ مزید اپنے بڑے افسروں کو راضی رکھنے کیلئے انڈسٹریل ہوم سے گدیاں اور رضائیاں وغیرہ بنوا کر دیتی جس کیلئے وہ بیواؤں سے بغیر اُجرت کام کرواتی
پٹرول پمپ و سروس سٹیشن سے چند افسران مفت پٹرول لیتے اور اپنی گاڑیوں کی مُفت سروس کرواتے
ٹرانسپورٹ مقامی (local bus service) طور پر چلتی تھی ۔ 3 بسیں بند پڑی تھیں اور باقی سب مرمت طلب تھیں ۔ 2 کی چھتیں بارش میں بے تحاشہ ٹپکتی تھیں ۔ بسوں میں ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والوں کے احباب وغیرہ مفت سفر کرتے ۔ کنڈکٹروں اور ڈرائیوروں کی تنخواہیں کم تھیں ۔ جب بھیڑ ہوتی تو کچھ سواریوں کو پیسے لے کر ٹکٹ نہ دیتے ۔ ٹیکسیاں بارسوخ لوگوں کو مُفت مہیاء کی جاتیں ۔ کوئی بہت خیال کرتا تو پٹرول اپنی جیب سے ڈلوا لیتا ۔ کنڈکٹروں کی کچھ معقول پریشانی بھی تھی کہ بس کا ٹکٹ 75 پیسے اور ایک روپیہ 50 پیسے تھا ۔ بقایا ادا کرنے کیلئے کنڈکٹر 125 روپے دے کر 100 روپے کی ریزگاری بازار سے لیتے تھے ۔ دوسرے بقایا واپس کرنے کے چکر میں کئی لوگ بغیر ٹکٹ سفر کرتے اور زیادہ تر یہی کہتے پچھلے سٹاپ سے بیٹھا ہوں تاکہ 1 روپیہ 50 پیسے نہ دینا پڑیں

نئے منیجر نے دو تین کالی بھیڑوں کو رُخصت کر کے ان کی جگہ بہتر لڑکے رکھے ۔ اور حرام خوری پر پابندی لگا کر خود معائنہ کرتا رہا ۔ کنڈکٹر کی تنخواہ جو 600 روپے ماہانہ تھی 800 روپے کی ۔ کمیشن جو سب کو 2 فیصد ملتا تھا اس کو روزانہ کی بنیاد پر منازل میں تقسیم کیا ۔ 300 روپیہ پر کوئی کمیشن نہیں ۔ اس سے اُوپر 300 پر 0.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 1 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 1.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 2 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 2.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 3 فیصد ۔ ڈرائیوروں کی تنخواہ کنڈکٹروں کی نسبت زیادہ بڑھائی مگر اُن کا کمیش 600 روپے کے اُوپر شروع کیا ۔ 2 ٹکٹوں کی بجائے پورے سفر کا ایک روپیہ ٹکٹ کر دیا

اس اثناء میں سربراہ ادارہ تبدیل ہو گیا ۔ نئے سربراہ سے کافی بحث اور منت کے بعد ویلفیئر فنڈ کے بیکار پڑے فنڈ میں سے 5 نئی بسیں اور 3 کوسٹر خریدیں ۔ بسوں کی قیمت پیشگی ادا کرنا تھی ۔ نئے منیجر نے کسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا اور اس بڑی رقم کو اپنے استعمال میں لانے یا بنک کو موج اُڑانے دینے کی بجائے بنک کے زونل چیف کے پاس جا کر خاص منافع کا معاہدہ حاصل کیا ۔ روپیہ 10 ماہ بنک میں رہا ۔ اس کے منافع سے جو خراب بسیں بند پڑی تھیں اُنہیں نیا کیا ۔ باقی بسوں کی باڈیاں درست کروا کے پینٹ کروایا
ان اصلاحات کے نتیجہ میں ٹرانسپورٹ کی آمدنی جو پچھلے 6 سال میں 69000 ماہانہ سے زیادہ کبھی نہ ہوئی تھی بڑھتے بڑھتے 6 ماہ بعد ایک لاکھ ہو گئی اور ڈیڑھ سال بعد 3 لاکھ ماہانہ ہو گئی

پٹرول پمپ جو کچھ منافع نہ دیتا تھا 6 ماہ بعد 5000 روپیہ ماہانہ دینے لگا جو ایک سال بعد 10000 روپیہ ماہانہ پر پہنچ گیا باوجودیکہ پٹرول پمپ کا فرش جو کچا تھا پکا کروایا گیا اور عمارت کو رنگ روغن کرایا گیا

مگر کچھ افسران اور بارسوخ لوگ اس منیجر کے دشمن بن گئے جس کے نتیجہ میں منیجر کی ملازمت ختم کر دی گئی

نیا منیجر نئے سربراہ ادارہ کا چہیتا تھا ۔ یہ شخص انڈسٹریل ہوم سے گدیوں کا تحفہ وصول کر چکا تھا اور ٹیکسی بھی مفت لیتا تھا ۔ اُس نے آتے ہی کمیشن ختم کر دیا ۔ جس نے اعتراض کیا اُسے ملازمت سے نکال دیا ۔ 3 لاکھ ماہانہ کی آمدنی ایک سال میں ایک لاکھ پر آ گئی ۔ ٹکٹ بڑھا کر 2 روپے کر دیا پھر لمبے سفر کیلئے 3 روپے کر دیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ بسوں کی حالت خراب ہوتی گئی کیونکہ دیکھ بھال کیلئے پیسہ نہ تھا

یہ صرف ایک نمونہ ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری تحویل میں چلنے والے ادارے بالخصوص پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کا بُرا حال کیوں ہے

یہ تو معلوم ہو گیا ہو گا کہ تبدیلی لانا کتنا مُشکل ہے ۔ اب بتایئے کہ تبدیلی لانے کیلئے کیا ضروری ہے ؟

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ طاقت

مرد کی طاقت کا معیار یہ نہیں
کہ
وہ کتنا وزن اُٹھا سکتا ہے
بلکہ
مرد کی طاقت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے
کہ
وہ کتنی ذمہ داریاں نبھا سکتا ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے” Traitors and Torturers

مدد کی ضرورت ہے

قارئین سے درخواست ہے کہ میری رہنمائی فرمائیں ۔ مشکور ہوں گا

چند دنوں سے میں کوئی تصویر کھولتا ہوں تو وہ مائیکرو سافٹ کے پکچر منیجر (Picture Manager) میں کھُلتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ تصویر اَینِی میٹِڈ (animated) ہے یا نہیں یعنی اَینِی میٹِڈ تصویر بھی پکچر منیجر میں ساکن رہتی ہے

ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا

چند روز قبل میں نے ایک تصویر پکچر منیجر میں کھول کر اُس کی نوک پلک درست کی تھی ۔ شاید متذکرہ بالا مسئلہ اُسی سے پیدا ہوا ہو

اس مُشکل سے باہر نکلنے کیلے میری رہنمائی فرمایئے

روپے کا سفر

یہ الفاظ عام سُنے جاتے ہیں ”پچھلے 66 سالوں میں پاکستان میں بُرا حال ہے“۔ ایسا کہنے والے شاید یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں ۔ درحقیقت ایسے لوگ پاکستان کے دُشمن ہیں کیونکہ اپنے ملک کی بدنامی جھوٹ بول کر کرنے والا مُلک کا خیر خواہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ میں عمومی مباحث میں دلائل کے ساتھ اس کی نفی کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں لیکن دیکھا یہ گیا کہ ایسے لوگ کسی دلیل یا منطق کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتے

کسی ملک کی کرنسی کی قدر کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو مختلف ادوار میں اس مُلک کی معیشت کا حال معلوم ہو جاتا ہے ۔ مجھے یہ اعداد و شمار اکٹھے کرنے میں کئی ہفتے لگاتار محنت کرنا پڑی ۔ موازنہ کیلئے میں نے بھارت کی کرنسی کی تاریخ بھی معلوم کی اور درج کر رہا ہوں ۔ یہاں میں نے بنیادی کرنسی ایک امریکی ڈالر لیا ہے

پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1948ء ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1949 ۔ ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ 3.6719

1950ء ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1951 ۔ ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

1952ء ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1953 ۔ ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

پہلی منتخب اسمبلی کو غلام محمد نے چلتا کیا ۔ غلام محمد کے مفلوج ہونے پر 1955ء میں سکندر مرزا حاکم بن گیا۔ 1954ء سے 1958ء تک 5 وزیراعظم بنائے گئے

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1954ء ۔ ۔ ۔ 3.3085 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ 1955 ۔ ۔ ۔ 3.9141 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619
1956ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ 1957 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

ایوب خان کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1958ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 1959 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

1960ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 1961 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

1962ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 1963 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

1964ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 1965 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 4.7619

1966ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6.3591 ۔ ۔ ۔ ۔ 1967 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 7.5000

یحیٰ خان کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1968ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7.5000۔ ۔ ۔ ۔ 1969 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 7.5000

1970ء ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7.5000۔ ۔ ۔ ۔ 1971 ۔ ۔ ۔ 4.7619 ۔ ۔ ۔ ۔ 7.4919

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1972ء ۔ ۔ ۔ 8.6814 ۔ ۔ ۔ ۔ 7.5945 ۔ ۔ ۔ ۔ 1973 ۔ ۔ ۔ 9.9942 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7.7420

1974ء ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ 8.1016 ۔ ۔ ۔ ۔ 1975 ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8.3759

1976ء ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ 8.9604 ۔ ۔ ۔ ۔ 1977 ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8.7386

ضیاء الحق کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1978ء ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8.1928 ۔ ۔ ۔ ۔ 1979 ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ 8.1258

1980ء ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7.8629 ۔ ۔ ۔ ۔ 1981 ۔ ۔ ۔ 9.9000 ۔ ۔ ۔ ۔ 8.6585

1982ء ۔ ۔ ۔ 11.8475 ۔ ۔ ۔ 9.7551۔ ۔ ۔ ۔ 1983 ۔ ۔ ۔ 13.1170۔ ۔ ۔ ۔ 10.0989

1984ء ۔ ۔ ۔ 14.0463 ۔ ۔ ۔ 11.3626 ۔ ۔ ۔ 1985 ۔ ۔ ۔ 15.9284 ۔ ۔ ۔ ۔ 12.3687

1986ء ۔ ۔ ۔ 16.6475 ۔ ۔ ۔ 12.6108 ۔ ۔ ۔ 1987 ۔ ۔ ۔ 17.3988 ۔ ۔ ۔ ۔ 12.9615

بینظیر بھٹو کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1988ء ۔ ۔ ۔ 18.0033 ۔ ۔ ۔ 13.9171۔ ۔ ۔ 1989 ۔ ۔ ۔ 20.5415 ۔ ۔ ۔ 16.2255

نواز شریف کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1990ء ۔ ۔ ۔ 21.7074 ۔ ۔ ۔ 17.5035 ۔ ۔ ۔ 1991 ۔ ۔ ۔ 23.8008 ۔ ۔ ۔ ۔ 22.7424

1992ء ۔ ۔ ۔ 25.0828 ۔ ۔ ۔ 25.9181 ۔ ۔ ۔ 1993 ۔ ۔ ۔ 28.1072 ۔ ۔ ۔ ۔ 30.4933

بینظیر بھٹو کی حکومت 1993ء سے

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1994ء ۔ ۔ ۔ 30.5666 ۔ ۔ ۔ 31.3737 ۔ ۔ ۔ 1995 ۔ ۔ ۔ 31.6427 ۔ ۔ ۔ 32.4271

1996ء ۔ ۔ ۔ 36.0787 ۔ ۔ ۔ 35.4332 ۔ ۔ ۔ 1997 ۔ ۔ ۔ 41.1115 ۔ ۔ ۔ 36.3133

نوز شریف کی حکومت 1997ء سے

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
1998ء ۔ ۔ ۔ 45.0467 ۔ ۔ ۔ ۔ 41.2594 ۔ ۔ ۔ 1999 ۔ ۔ ۔ 49.5007 ۔ ۔ ۔ 43.0554

پرویز مشرف کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
2000ء ۔ ۔ ۔ 53.6482 ۔ ۔ ۔ 44.9416 ۔ ۔ ۔ 2001 ۔ ۔ ۔ 61.9272 ۔ ۔ ۔ 47.1864

2002ء ۔ ۔ ۔ 59.7238 ۔ ۔ ۔ 48.603 ۔ ۔ ۔ 2003 ۔ ۔ ۔ 57.7520۔ ۔ ۔ 46.5833

2004ء ۔ ۔ ۔ 58.2579 ۔ ۔ ۔ 45.3165 ۔ ۔ ۔ 2005 ۔ ۔ ۔ 59.5145 ۔ ۔ ۔ 44.1000

2006ء ۔ ۔ ۔ 60.2713 ۔ ۔ ۔ 45.3070 ۔ ۔ ۔ 2007 ۔ ۔ ۔ 60.7385 ۔ ۔ ۔ 41.3485

زرداری کی حکومت

۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ ۔ ۔ ۔ ۔ سال ۔ ۔ ۔ پاکستانی روپیہ ۔ ۔ ۔ بھارتی روپیہ
2008ء ۔ ۔ ۔ 70.4080۔ ۔ ۔ 43.5052 ۔ ۔ ۔ 2009 ۔ ۔ ۔ 81.7129 ۔ ۔ ۔ 48.4053

2010ء ۔ ۔ ۔ 85.1938 ۔ ۔ ۔ 45.7258 ۔ ۔ ۔ 2011 ۔ ۔ ۔ 86.3434 ۔ ۔ ۔ 46.6705

2012ء ۔ ۔ ۔ 94.3779 ۔ ۔ ۔ 54.7431 ۔ ۔ ۔ 2013 ۔ ۔ ۔ 101.6571 ۔ ۔ ۔ 59.1141

نوز شریف کی حکومت وسط مارچ 2013ء سے

دوست کی قدر

چَڑھدے سورج ڈَھلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (چَڑھتے سورج ڈھلتے دیکھے)
بُجھے دِیوے بَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بُجھے چراغ جلتے دیکھے)
ہِیرے دا کوئی مُل نہ تارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ہیرے کی کوئی قیمت نہ لگائے)
کھوٹے سِکے چَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کھوٹے سِکے چلتے دیکھے)
جِنّاں دا نہ جَگ تے کوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جن کا نہیں دنیا میں کوئی)
اَو وی پُتر پَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (وہ بیٹے بھی پَلتے دیکھے)
اوہدی رحمت نال بندے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اُس کی رحمت سے لوگ)
پانی اُتّے چَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پانی پر چلتے دیکھے)
لَوکی کہندے دال نئیں گَلدی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (لوگ کہیں کہ دال نہیں گلتی)
میں تے پَتھّر گَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (میں نے تو پتھر گلتے دیکھے)
جِنھاں قَدر نہ کیتی یار دی بُلھیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بُلھیا ۔ جنہوں نے دوست کی قدر نہ کی)
ہَتھ خالی اَو مَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (خالی ہاتھ وہ مَلتے دیکھے)

کلام ۔ بابا بُلھے شاہ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ بولنا

پیدائش کے بعد
انسان کو بولنا سیکھنے میں دو سال لگتے ہیں
لیکن
یہ سیکھنے میں عمر بیت جاتی ہے
کہ
کیا نہیں بولنا چاہیئے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے” March to Disaster

محبت اور میں ؟

آشنائی والے اسد حبیب صاحب نے ”محبت کیا ہے“ کے عنوان سے مباحثہ کی صورت میں لکھا ۔ اسد حبیب صاحب کبھی کبھی لکھتے ہیں لیکن لکھتے خوب ہیں ۔ میں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر تبصرہ لکھا ”محبت واقعی ایک فرضی نام ہے جو اُنس کو دیا گیا ہے ۔ البتہ کہتے ہیں جسے عشق وہ خلل ہے دماغ کا ۔ اُنس ہونے کیلئے کسی ایسی حرکت کا ہونا ضروری ہے جو دوسرے پر اثر چھوڑ جائے ۔ پھر اگر ملاقات بالمشافہ یا کسی اور طریقہ سے جاری رہے تو یہ اُنس بڑھ جاتا ہے اور اسے محبت کا نام دیا جاتا ہے“۔ متذکرہ تحریر پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں ماضی گھوم گیا ۔ آج سوچا کہ اسے قرطاس پر بکھیر دیا جائے

سن 1954ء یا 1955ء کی بات ہے جب میں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ میرے بچپن کا ایک دوست راولپنڈی آیا ہوا تھا ۔ اس نے ایک خط مجھے تھما کر کہا”پڑھو“۔ خط ایک لڑکی کی طرف سے تھا ۔ کوئی عشقیہ بات نہ تھی صرف واپسی کا تقاضہ کیا تھا ۔ میں نے پڑھ کر دوست کی طرف دیکھا تو وہ بولا ”ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ۔ پتہ نہیں آگے کیا ہو گا“۔ میں نے اُسے حوصلہ دیتے ہوئے مشورہ دیا ”محنت کرو ۔ جلد کمانے لگ جاؤ اور شادی کر لو ۔ کوئی مشکل ہو تو مجھے بتانا”۔ میرے علم کے مطابق وہ دونوں عشق میں مبتلاء نہیں ہوئے ۔ شادی کے بعد آج تک مزے میں ہیں

بات ہے سن 1958ء اور 1965ء کے درمیان کی ۔ ایک نوجوان کو ایک لڑکی سے بقول اُس کے اتنی محبت ہو گئی (عشق کہہ لیجئے) کہ اُس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا ۔ مجھے والدین سے بات کرنے کا کہا ۔ میں نے اس کی والدہ سے بات کی ۔ بعد میں اس کے والد نے مجھے کہا ” اُسے کہو ۔ محنت کرے اور پہلے کسی قابل بنے”۔ چند سال بعد اسے کسی دوسری لڑکی سے عشق ہو گیا ۔ پھر وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا ۔ تیسری لڑکی جس سے اُس کی شادی ہوئی مجھے نہیں معلوم بنیاد عشق تھی یا نہیں

میں جب انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو ایک ہمجماعت ہر ماہ میں ایک یا دو بار میڈیکل کالج کی ایک لڑکی سے ملنے جاتا تھا ۔ تین سال بعد ہمارے آخری سال کے تحریری امتحان ختم ہو چکے تھے عملی ابھی باقی تھے ۔ ہم ہوسٹل کے صحن میں بیٹھے تھے کہ اُس لڑکے کا بہترین دوست آیا اور اُسے کوسنے سنانے لگا ۔ معاملہ پوچھا گیا تو بولا ”یہ انسان نہیں ہے ۔ میں نے اسے دوست بنا کر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ۔ جس لڑکی کے ساتھ یہ ملتا تھا اُس سے مجھے بھی متعارف کرایا تھا ۔ میں شہر گیا ہوا تھا تو سوچا کہ اسے اللہ حافظ کہتا جاؤں ۔ میں وہاں پہنچا تو وہ زار و قطار رو رہی تھی ۔ پوچھا تو بتایا ”میں نے ۔ ۔ ۔ کو کہا کہ اب تم یہاں سے چلے جاؤ گے تو رابطہ ممکن نہیں ہو گا ۔ اسلئے تم اپنے والدین سے کہو کہ میرے والدین سے بات کریں”۔ لڑکے نے بات جاری رکھی ”اِس سُوّر نے اُسے کہا کہ میں تجھ سے شادی کروں گا جو بغیر کسی رشتہ کے غیر لڑکے (میرے) کے ساتھ ملتی رہی”۔

سن 1970ء میں ایک لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہو گئی ۔ جب اس کے والدین نے اس کی شادی کا سوچا تو اس نے اس لڑکی کا بتایا ۔ باپ مان گیا لیکن ماں نے صاف نکار کر دیا ۔ لڑکے کے زور دینے پر ماں نے کہا ”یا وہ اس گھر میں ہو گی یا میں ۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے“۔ اس لڑکی کی جس سے شادی ہوئی شریف اور محنتی ہے اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے پاس دولت کی ریل پیل ہے

سن 1996ء کا واقعہ ہے ایک لڑکی نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف ایک لڑکے سے محبت کی شادی کر لی اور اُس کے ساتھ دساور چلی گئی ۔ شادی کے پانچ سال بعد لڑکی نے خود لڑکے سے طلاق لے لی اور واپس پاکستان آ گئی ۔ شاید وہ اُس کے خوابوں کا شہزادہ ثابت نہ ہوا تھا

اکیسویں صدی میں دو جوڑوں کی ملاقات فیس بُک پر ہوئی اور چلتے چلتے والدین تک پہنچی تو شادیاں ہو گئیں ۔ دونوں جوڑے مزے میں رہ رہے ہیں ۔ ایک جوڑا ملک سے باہر بس گیا ہے ۔ دوسرا لاہور میں ہے جن سے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی ہے ۔ میاں بیوی دونوں ہی بہت ملنسار اور ہنس مُکھ ہیں

آپ یہاں میری کہانی پڑھنے آئے ہوں گے ۔ چلیئے بتائے دیتے ہیں ۔ کیا یاد رکھیں گے ۔ میں جب بر سرِ روزگار ہو گیا تو میری والدہ نے میرے بہترین دوست سے پوچھا ”اجمل کو کوئی لڑکی پسند ہے ؟“ اُس نے جواب دیا ”توبہ کریں خالہ ۔ جب ہم گارڈن کالج میں پڑھتے تھے تو کئی لڑکیاں چاہا کرتیں کہ یہ اُن سے بات ہی کر لے ۔ مجال ہے اس نے اُنہیں حوصلہ بخشا ہو“۔

دراصل میرے ماتھے پر جلی حروف میں کچھ لکھا ہے جسے کچھ لوگ ”بیوقوف“ پڑھتے ہیں اور کچھ ”نیک بچہ“۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ گارڈن کالج میں چند بار لڑکیوں نے مجھے کسی لڑکے سے کتاب یا کاپی لے کر دینے کا کہا یا پروفیسر صاحب کی معرفت کہا کہ فلاں پریکٹیکل کروا دوں ۔ مجھے اُن لڑکیوں کی شکلیں یاد نہ رہیں ۔ نام تو کچھ کا معلوم ہی نہیں تھا ۔
جب ہم انجنیئرگ کالج میں پرھتے تھے تو میوزک کنسرٹ ہوا ۔ چند لڑکوں نے کوشش کر کے اپنے ذمہ خواتین کا استقبال لیا ۔ مجھے ایک اعلٰی عہدیدار کا استقبال سونپا گیا جس کیلئے میں گیٹ کے قریب استقبالیوں سے کچھ پیچھے کھڑا تھا ۔ لڑکیوں کا ایک غول آیا ۔ میں نے دوسری طرف منہ کر لیا ۔ وہ لڑکے آگے بڑھے مگر لڑکیوں نے ”نہیں شکریہ“ کہہ دیا ۔ وہ مجھ سے گذرنے کے بعد میری طرف گھومیں اور ایک بولی ”پلیز ۔ ذرا ہمیں گائیڈ کر دیجئے“۔ میں نے کہا ”یہ اسقبالیہ والے ہیں ان کے ساتھ چلی جایئے“۔ دو تین بولیں ”آپ کیوں نہیں لیجاتے“۔ میں چل پڑا اور آگے جا کر شامیانے پر استقبال کرنے والے سے کہا ”انہیں بٹھا دیجئے“۔ اور لپک کر گیٹ پر پہنچا کہ کہیں مہمان نہ پہنچ گئے ہوں ۔ اُس کے بعد کئی دن تک میرا ریکارڈ لگتا رہا کہ کس اُجڈ کے پاس لڑکیاں جاتی ہیں
کچھ عرصہ بعد مجھے شہر میں دو تین جگہ کام تھا ۔ کالج کا کام ختم کر کے میں عصر کے بعد ہوسٹل سے نکلا اور بس پر شہر پہنچ کر قلعہ گوجر سنگھ اُترا ۔ وہاں کا کام کر کے پیدل میکلوڈ روڈ ۔ مال ۔ انارکلی اور شاہ عالمی سے ہوتا ہوا جب ریلوے سٹیشن کے سامنے لوکل بس کے اڈا پر پہنچا تو رات کے ساڑھے 10 بجے تھے اور بسیں بند ہو چکی تھیں ۔ سیڑھی پل گیا اور ریلوے سٹیشن کو عبور کر کے دوسری طرف جی ٹی روڈ پر ٹانگوں کے اڈا پر پہنچا ۔ وہاں کوئی ٹانگہ باغبانپورہ کی طرف جانے کو تیار نہ تھا ۔ میں تھک چکا تھا مگر سوائے پیدل چلنے کے کوئی حل نہ تھا ۔ جب ہمارا ہوسٹل ڈھائی یا تین کلومیٹر رہ گیا تو ٹانگوں میں چلنا تو ایک طرف کھڑے ہونے کی سکت نہ رہی ۔ گھڑی دیکھی رات کے ساڑھے 12 بجے تھے ۔ میں بیٹھنے کیلئے ادھر اُدھر کوئی سہارا دیکھ رہا تھا تو ایک کار آ کر رُکی ۔ شیشہ کھُلا اور زنانہ آواز آئی ۔ میں سمجھا کہ کسی جگہ کا راستہ پوچھ رہی ہیں ۔ قریب ہو کر پوچھا تو جواب ملا ”آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ بیٹھ جایئے میں پہنچا دیتی ہوں“۔ میں بغیر سوچے سمجھے پچھلا دروازہ کھولنے لگا تو بولیں ”ادھر فرنٹ سیٹ پر ہی بیٹھ جایئے“۔ جب گاڑی چلی تو بولیں ”میں گذر جاتی مگر خیال آیا کہ کوئی مجبوری ہو گی جو اس وقت آپ پیدل جا رہے ہیں“۔ میں ٹھہرا ارسطو کا شاگرد بولا ”آپ کا بہت شکریہ مگر دیکھیئے بی بی ۔ آج آپ نے یہ بہادری دکھائی ۔ آئیندہ ایسا نہ کیجئے گا ۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا کب شیطان سوار ہو جائے“ ہوسٹل کا گیٹ آیا ۔ کار کھڑی ہوئی اور میں شکریہ ادا کر کے اُتر گیا ۔ غلطی یہ ہوئی کہ ایک دوست کے رات دیر سے آنے کے استفسار پر احوال بتا دیا چنانچہ میرا ریکارڈ کئی دن لگتا رہا
اصل میں طلب اور رسد (Supply and Demand) کا کُلیہ ہر جگہ منطبق ہوتا ہے ۔ میں لڑکیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا تو لڑکیاں میری طرف متوجہ ہوتی تھیں ۔ جو لڑکیوں کے پیچھے جاتے ہیں لڑکیاں اُن سے دور بھاگتی ہیں

میں بہت دُور نکل گیا ۔ خیر ۔ میری امی کو تسلی نہ ہوئی ۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا ”تم اپنی امی کو نہیں بتاؤ گے کہ تم کس سے شادی کرنا چاہتے ہو ؟“
میں نے کہا ”امی ۔ جو لڑکی آپ پسند کریں گی وہ بہترین ہو گی“۔
دو تین دن بعد والد صاحب نے مجھ سے پوچھا “تم کس سے شادی کرنا پسند کرو گے ؟“
میں نے کہا ”جس سے آپ شادی کر دیں گے“۔
پھر اُنہوں نے کہا ”تمہاری بڑی خالہ کی بیٹی ؟“
میں نے کہا ”اُن کی سب بیٹیاں اچھی ہیں“۔
خالہ کی بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی تھی ۔ اُس سے چھوٹی سے میری شادی ہو گئی ۔ میرے اللہ نے مجھے سچا کر دکھایا کہ میرے والدین کی پسند میرے لئے زندگی کا بہت بڑا تحفہ ثابت ہوئی ۔ اللہ کے فضل سے دنیاوی اور دینی دونوں تعلیمات سے آراستہ ہونے کے ساتھ خوبصورت ۔ خوب سیرت ۔ پیار اور احترام کرنے اور توجہ دینے والی ہے اور کبھی مجھ پر کسی لحاظ سے بوجھ نہیں بنی ۔ مشکل حالات میں نہ صرف میرا بھرپور ساتھ دیا بلکہ میرا حوصلہ بھی بڑھاتی رہی ۔ اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو دنیا کے چند خوش قسمت مردوں میں سمجھتا ہوں

نتیجہ ۔ سکون نہ تو دولت سے ملتا ہے اور نہ عشق و محبت سے بلکہ اچھی ماں کے بعد اچھی بیوی بہم پہنچاتی ہے