پریشانی وقت کا ضیاع ہے
پریشان ہونے سے کوئی چیز تبدیل نہیں ہوتی
البتہ پریشانی خوشیاں چھین لیتی ہے
اور آدمی کو بے فائدہ مصروف رکھتی ہے
یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” A Shambles “
پریشانی وقت کا ضیاع ہے
پریشان ہونے سے کوئی چیز تبدیل نہیں ہوتی
البتہ پریشانی خوشیاں چھین لیتی ہے
اور آدمی کو بے فائدہ مصروف رکھتی ہے
یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” A Shambles “
پہلی ملاقات ایک اچھوتا تجربہ ہوتی ہے ۔ کبھی باتیں کر کے بھی کچھ پتہ نہیں چلتا اور کبھی بِن بات کئے بہت کچھ حاصل ہو جاتا ہے ۔ میں ڈراموں یا فلموں کی بات نہیں کر رہا جنہوں نے پہلی ملاقات کا تصور ہی گہنا دیا ہے ۔ میرے مدِ نظر اصلی ملاقات ہے جو دبئی میں کاشف صاحب سے ہوئی ۔ نہیں نہیں کاشف نصیر صاحب نہیں اور نہ ہی محمد کاشف صاحب قرآن مع تفسیر کا آسان مگر اعلٰی سافٹ ویئر بنا کر فی سبیل اللہ بانٹنے والے ۔ یہ صاحب ہیں جوانی پِٹّے کا بلاگ والے
میرے دبئی آنے کا اعلان 22 جنوری کو شائع ہوا تھا لیکن اپنا کمپیوٹر میں 21 جنوری کی شام کو بند کر چکا تھا ۔ کاشف صاحب نے تبصرہ میں دبئی ایئر پورٹ پر ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ میں نے دبئی پہنچنے کے اگلے دن بعد دوپہر لیپ ٹاپ کھولا تو پڑھ کر افسوس ہوا ۔ لیکن کاشف صاحب دھُن کے پکے نکلے پہلے بلاگ پر تبصرے کی جگہ مکالمے ہوتے رہے ۔ پھر ای میلز کا تبادلہ ہوا ۔ میں نے بتایا کہ میں مرسی دبئی (Dubai Marina) میں ہوں اور ایک ہفتہ بعد الروضہ (The Greens) چلا جاؤں گا جہاں ایک ھفتہ قیام کے بعد واپسی ہو گی
بدھ 5 فروری کی صبح ٹیلیفون آیا کہ ”آج ہی مِل سکتا ہوں“۔ میں نے اھلاً و سہلاً مرحبا کہا ۔ بالآخر اُس شام کو کاشف صاحب نے خوشگوار شام بنا دیا ۔ پونے پانچ بجے الروضہ میں ہماری رہائشگاہ کے استقبالیہ پر پہنچ کر اطلاع دی ۔ میں 3 منزلیں اُتر کر اُن کی گاڑی میں بیٹھا اور قریبی سُپر مارکیٹ کے ایک ریستوراں (Restaurant) میں جا بیٹھے ۔ کاشف صاحب آئے تو میرے پاس تھے لیکن میزبان بن کر مجھے چائے پلا دی ۔ کافی پلانا چاہ رہے تھے لیکن سوا تین سال سے اسے میرے لئے ممنوع قرار دیا جا چکا ہے ۔ گپ شپ ہوئی ۔ کاشف صاحب نے اپنا تو کچھ نہ بتایا بس مجھ سے پوچھتے رہے
مغرب کی اذان ہوئی تو ساتھ ہی مسجد تھی وہاں فرض سے فارغ ہوئے اور آئیندہ ملتے رہنے کے وعدہ کے ساتھ مجھے گھر چھوڑ کر چلے گئے ۔ آئیندہ ملاقات اِن شاء اللہ مرسی دبئی میں ہو گی ۔ کاشف صاحب کے بلاگ کے عنوان سے تاءثر اُبھرتا ہے کہ کچھ سڑیل سے ہوں گے لیکن اس عنوان کے برعکس خوش دِل اور پُرعزم محسوس ہوئے
عورت صرف ایک قسم کی ہوتی ہے
قسم ۔ مظلوم
مرد دو قسم کے ہوتے ہیں
پہلی قسم ظالم ۔ وہ عورت پر ظلم کرتا ہے
دوسری قسم مظلوم ۔ وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے
عورت کبھی غلطی نہیں کرتی ۔ اگر عورت سے غلطی ہو تو وہ مرد کے کہے پر چلنے سے ہوتی ہے
مرد غلطی کرتا ہے ۔ اور اس کا ذمہ دار وہ خود ہوتا ہے
عورت کا کام مرد کے گھر کو چلانا ہے ۔ وہ اپنے لئے کچھ نہیں کرتی
مرد کا کام گھرانے کی تمام ضروریات پورا کرنا ہے
عورت مرد کو حُکم مہیاء کرتی ہے
مرد حاکم ہے
عورت مرد کو زندہ رہنے میں مدد دیتی ہے
مرد عورت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا
عورت مرد کے بچے پالتی ہے
مرد اپنے بچے پالتا ہے
عورت عقل اور سلیقہ رکھتی ہے
مرد عقل استعمال نہیں کرتا
عورت ہر چیز عمدہ اور ارزاں خریدتی ہے
مرد اچھا سودا کرنے سے قاصر ہے
عورت کی عزت مرد پر فرض ہے
مرد اپنی عزت خود خراب کرتا ہے
مرد کو عورت (جب چاہے جہاں چاہے جس کے سامنے چاہے) ڈانٹ سکتی ہے
عورت کی تضحیک مرد کیلئے شرمناک ہے
درج بالا خیالات سے اتفاق یا اختلاف کرنا ہر قاری کا حق ہے ۔ البتہ قارئین سے تحمل کی توقع ہے
آخری سطر کے پہلے حصہ کی چوری کو اُمید ہے ایم ڈی نور صاحب اپنی دریا دلی سے کام لیتے ہوئے معاف فرمائیں گے
اگر آپ چند منٹ دے سکتے ہوں تو یہاں کلک کر کے ”سب کی خیر ۔ سب کا بھلا“
کبھی کبھی اپنے احساسات کا اظہار کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہوتا ہے
کیونکہ
یہ احساس بہت تکلیف دہ ہوتا ہے
کہ
دوسرے آپ کو سُن تو رہے ہیں مگر سمجھ نہیں رہے
یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Obama and Mandela’s Legacies “
پہلے خود غرضی یا خود تعریفی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم اور اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے آج اس بلاگ پر یہ میری 2001 ویں تحریر ہے ۔ جب میں نے یہ بلاگ شروع کیا تو مجھے اُمید نہیں تھی کہ میں 100 تحاریر ہی لکھ پاؤں گا ۔ اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے
ہاں جناب ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے کرم سے بندہ بشر اپنے اعلان کے مطابق رواں ماہ کی 23 تاریخ کو دبئی پہنچ گیا تھا ۔ میرے لئے دبئی نئی تو نہیں رہی کہ جب سے چھوٹا بیٹا یہاں آیا ہے (2008ء) یہ ہمارا پانچواں پھیرا ہے اور غیر ترقی یافتہ دبئی 1975ء میں دیکھا تھا ۔ لیکن رسم ہے جو کسی زمانہ میں میرا محبوب مشغلہ تھا کہ کچھ عکس بندی کی جائے ۔ سو پیشِ خدمت ہیں چند عکس جن میں سے پہلے 9 مرسی دبئی (Dubai Marina) میں 22 منزلوں کی اُونچائی سے حاصل کئے گئے ہیں اور بعد والے 3 مرسی دبئی میں سمندر کے کنارے بنچ پر بیٹھے حاصل کئے گئے ۔ یہ سب عکس میرے موبائل فون نوکیا ای 5 کے مرہونِ منت ہیں ۔ میں نے اپنے موبائل فون سے وڈیو بھی بنائیں ہیں لیکن وڈیو 7 سے 22 ایم بی تک ہیں جب کہ 2 ایم بی سے بڑی وڈیو میرے بلاگ پر اَپ لوڈ نہیں کی جا سکتی
عکس ۔ 1 ۔ میری بائیں جانب شارع الشیخ زید پر گاڑیاں دوڑ رہی ہیں

عکس ۔ 2 ۔ میں عکس ۔ 1 کا کلوز اَپ ہے

عکس ۔ 3 ۔ میرے سامنے سمندر کا نظارہ

عکس ۔ 5 ۔میرے داہنی جانب سمندر کا نظارہ

عکس ۔ 7 ۔ میرے مزید داہنی جانب سمندر کا نظارہ

عکس ۔ 8 ۔ عکس ۔ 7 کا کچھ کلوز اَپ

عکس ۔ 9 ۔ سمندر کے کنارے بنچ پر بیٹھے ہوئے سمندر اور عمارات کا نظارہ

عکس ۔ 10 ۔ مارینا مول کے سامنے سمندر کے کنارے بنچ پر بیٹھے ہوئے سمندر اور عمارات کا نظارہ

وطنِ عزیز پاکستان میں میڈیا (ٹی وی چینلز ۔ اخبارات ۔ رسائل) ریٹنگ کی اندھی دوڑ میں حقائق پر پردہ ڈال کر ناظرین یا قارئین کو من گھڑت مفروضوں پر لگائے ہوئے ہیں ۔ ان کی مَن پسند خبر یا رپورٹ مل جائے تو درجنوں بار دکھائی جاتی ہے اور مذاکروں میں بھی اس کا بار بار ذکر ہوتا ہے ۔ ایسے مذاکرات کیلئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر جانبدار لوگ لائے جاتے ہیں جو حقائق کو مسخ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ اشتہار ہوں ۔ اپنے ترتیب دیئے پروگرام یا کالم ہوں ۔ مذاکرے ہوں حتٰی کہ خبریں ہوں ننگ دھڑنگ یا لہراتی عورت کو دکھانا تعلیم و ترقی کی علامت بنا دیا گیا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کا کام فحاشی پھیلانا ہے ۔ میڈیا پرچار کرتا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عورت کیلئے پردہ ایک قید ہے اور پاکستانیوں کی اکثریت اسے رَد کر چکی ہے اور صرف چند جاہل پردے کے حق میں ہیں
پاکستان کا میڈیا جسے کسی ادارے کی بھی چھوٹی سے چھوٹی رپورٹ مل جاتی ہے وہ بڑے طمطراق سے نشر کی جاتی ہے چاہے وہ مستند بھی نہ ہو یا وہ ادارہ ہی غیرمعروف ہو ۔ مگر یہ میڈیا امریکا سے تعلق رکھنے والے پِیئُو تحقیقی مرکز (Pew Research Center) جس کی رپورٹس کو عمومی طور پر دنیابھر میں اہمیت دی جاتی ہے کی ایک اُس حالیہ رپورٹ کو پی گیا جس میں پردے کا ذکر ہے ۔ نہ ٹی وی چینلز ، نہ اخبار ، نہ کسی رسالے نے اس کا ذکر کیا کیونکہ یہ سروے رپورٹ ان کے جھوٹ کو پول کھول رہی ہے
پِیئُو تحقیقی مرکز کی اس سروے رپورٹ جو 7 مسلم ممالک (پاکستان، مصر، سعودی عرب، ترکی، عراق، لبنان اور تیونس) میں پردے کے سلسلہ میں ہے کے خلاصہ کا عکس ملاحظہ ہو

اس سروے نے ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی اسلام اور اسلامی شعائر سے محبت کو ثابت کر دیا ہے
سورت 24 النّور آیت 31
اور اے نبی ۔ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ۔ وہ اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں سوائے شوہر یا باپ یا شوہروں کے باپ اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا بھتیجے یا بھانجے کے یا اپنی میل جول کی عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے ۔ اور نہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی چلا کریں کہ ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حُکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں ۔ اے مومنو ۔ تم سب کے سب اللہ سے توبہ کرو ۔ توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے
سورت 33 الْأَحْزَاب آیت 59
اے نبی ۔ اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں ۔ اور اللہ غفور و رحیم ہے