معلوماتِ عامہ کا امتحان

1 ۔ کھانے کی کونسی چیز ایسی ہے جو وقت گزرنے سے خراب نہیں ہوتی ؟

2 ۔ مندرجہ ذیل میں قدرِ مُشترک کیا ہے ؟
بُلٹ پروف واسکٹ (bulletproof vests)
آگ سے بچاؤ کا راستہ (fire escapes)
کار کے وائپر (windshield wipers)
اور لیزر پرنٹر (laser printers)
۔
سوچئے
۔
۔
۔
جوابات

1 ۔ قدرتی شہد

2 ۔ یہ سب عورتوں نے ایجاد کئے

دعا کی استدعا

جسمانی لحاظ سے سن 2014ء ویسا ہی ہے جیسا سن 1947ء تھا
اس حوالے سے میں دعا کرتا ہوں

اے اس کُل کائنات کے خالق و مالک
بلاشُبہ تیرے اختیار میں ہے بنانا ، بگاڑنا ، اُبھارنا ، بگڑے کو بنانا ، سیدھی راہ دکھانا ، سیدھی راہ پر چلانا اور دِلوں کی قدورتوں کو دُور کر کے باہمی محبت پیدا کرنا
تو نے 1947ء میں مسلمانانِ ہند کے دِلوں میں ایسی محبت اور نصب العین کی لگن ڈال دی تھی کہ وہ سب کچھ بھُلا کر ایک ہو گئے تھے اور مل کر ایسی تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں تو نے ہمیں اپنی نعمتوں سے مالامال یہ ملک پاکستان عطا کیا
ہم نے تیری دی ہوئی آزادی کی قدر نہ کی اور تیری عطا کردہ نعمتوں کا ناجائز استعمال کیا اور آج ہم اس حال کو پہنچ گئے ہیں
تو رحیم ہے رحمٰن ہے کریم ہے عفو و درگذر تیری صفت ہے
ہماری خطاؤں اور نالائقیوں سے درگذر فرما اور ہمیں پھر سے ایک قوم بنا دے
ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما
ہمیں اس مُلک کی خاطر جو تو نے ہی عطا کیا تھا محنت اور لگن کی توفیق عطا فرما

میں چشم تر کے ساتھ آخر میں خواجہ الطاف حسین حالی صاحب کی لکھی دعا کو بطور ہر پاکستانی کی دعا کے دہراتا ہوں

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے ۔ ۔ ۔ اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے ۔ ۔ ۔ اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے ۔ ۔ ۔ اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب ۔ ۔ ۔ اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں ۔ ۔ ۔ پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے ۔ ۔ ۔ اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی ۔ ۔ ۔ پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر ۔ ۔ ۔ مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
فریاد ہے اے کشتی اُمت کے نگہباں ۔ ۔ ۔ بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
کر حق سے دعا اُمت مرحوم کے حق میں ۔ ۔ ۔ خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھِرا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے ۔ ۔ ۔ نسبت بہت اچھی ہے اگر حال بُرا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی ۔ ۔ ۔ ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اچھی زندگی کیسے ؟

اچھی زندگی بنانے کیلئے ہمیشہ دعا کیجئے کہ اللہ آپ کو عطا کرے
آنکھیں جو بہترین لوگوں کو دیکھیں
دل جو بڑی سے بڑی غلطی معاف کرے
ذہن جو بُری چیزوں کو بھول جائے
روح جس کا اللہ پر یقین کبھی متزلزل نہ ہو

یہاں کلک کر کے پڑھیئے امن کے پجاریوں کی اصلیت

قسمت خراب ہے

عام طور پر یونہی لگتا ہے کہ قسمت ایک غیرمرئی طاقت ہے جو آدمی کو جکڑے رھتی ہے ۔ کہا جاتا ہے ”محنت تو بیچارے نے بہت کی مگر اُس کی قسمت ہی خراب ہے“ ۔ کئی لوگ عام طور پر کہتے سُنے جاتے ہیں ”میری قسمت ہی خراب ہے یا میری قسمت میرا ساتھ نہیں دیتی“۔

نامعلوم کیوں میں بچپن سے ہی اس بات کا قائل رہا کہ قسمت آدمی خود بناتا ہے ۔ شاید میری والدہ محترمہ نے مجھے بچپن سے ہی اس ڈھب سے پالا تھا ۔ کافی پرانی بات ہے کہ ایک محفل میں ایک طرف کچھ بزرگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔ ذکر کسی صاحب کا تھا جس کے ساتھ سب ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ”وہ ایسا کر لیتا تو نقصان نہ ہوتا ۔ وہ یوں کرتا تو پریشانی نہ اُٹھاتا ۔ وغیرہ وغیرہ“۔ ان میں عمر میں سب سے بڑے صاحب خاموش سُنتے رہے ۔ کافی دیر بعد جب سب چُپ ہو گئے تو بزرگ بولے ” اُس کی قسمت میں نہیں ہے“۔ میرے ذہن نے اس بات کو قبول نہ کیا لیکن میں حیران اس بات پر تھا کہ ”یہ بزرگ تو بہت زِیرک اور سمجھدار ہیں ۔ اپنی زندگی انہوں نے محنت سے بنائی ہے مگر یہ انہوں نے کہہ کیا دیا ہے ؟“ خیر بات بھُول بھُلا گئی

چند سال بعد کسی اور جگہ کسی اور کے متعلق بات ہو رہی تھی اور ایک مُختلف بزرگ جن کی سوجھ بُوجھ اور تجربہ کی پوری برادری معترف تھی نے وہی فقرہ کہا ۔ میں قریب ہی بیٹھا سُن رہا تھا لیکن مُخل ہونا مناسب نہ سمجھا کیونکہ متعلقہ حالات و واقعات میرے علم میں نہ تھے

ہفتہ عشرہ قبل رات میں سونے کیلئے لیٹا مگر نیند غائب ۔ ماضی قریب کے کچھ سمجھ نہ آنے والے واقعات ذہن میں گھوم رہے تھے کہ بعد پانی سے اچانک اُچھل کر نظر آنے والی مچھلی کی طرح اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اُوپر تحریر کردہ واقعات میرے ذہن میں تازہ کر دیئے جس سے میرے ذہن کا بوجھ کچھ ہلکا ہو گیا کیونکہ اب مجھے بزرگوں کے استدلال کی سمجھ آ گئی تھی ۔ میں نے مسکرا کر اپنے آپ سے کہا ”اُن کی قسمت میں نہیں ہے“۔

جن واقعات نے میری نیند بھگا دی تھی یہ ہیں

پہلا واقعہ
ہمارے سرونٹ کوارٹر میں پچھلے ڈیڑھ سال سے ایک اُدھیڑ عمر عورت اُس کا بیٹا (پینتیس چالیس سال کا) اور بیٹی (شاید پچیس چھبیس سال کی) رہتے ہیں ۔ ماں اور بیٹی ہمارے گھر کا کام کرتی ہیں ۔ ایک ماہ قبل ملازمہ کہنے لگی کہ ”گاؤں میں مکان کی چھت کا کچھ حصہ گر گیا ہے جو بنانے کیلئے پیسے نہیں ہیں“۔ میری بیوی نے کہا ”پچھلے چند ماہ میں تنخواہ کے علاوہ جو تمہیں پیسے دیئے ہیں اُن کا کیا کیا ؟“ وہ چُپ ہو گئی ۔ کچھ دن بعد آئی اور کہنے لگی کہ ”ٹی وی کیلئے کیبل لگوانا ہے“۔ میری بیوی نے کہا ”ٹی وی کیوں خریدا ہے ؟ تُم میرے ساتھ جو ٹی وی دیکھ لیتی ہو ۔ کیا وہ کافی نہ تھا ؟“

میں اس سوچ میں پڑا تھا کہ کیا ٹی وی گِری چھت کی مرمت سے زیادہ اہم ہے ؟
دوسرے واقعہ نے مجھے پہلے ہی کئی ماہ سے چکرایا ہوا تھا

دوسرا واقعہ
ہمارے اقارب میں سے ایک اچھا خاصہ کھاتا پیتا خاندان ہے ۔ میاں بیوی دونوں ماشاء اللہ اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں ۔ برطانیہ میں کئی سال رہے ہیں ۔ اُنہوں نے امسال شروع میں اپنی رہائشگاہ کی تجدید (renovation) کروائی ۔ جس میں اندر باہر رنگ روغن کے ساتھ ساتھ تمام غُسلخانوں میں فرشوں اور دیواروں پر نئی ٹائیلیں اور سارے برتن اور ٹوٹیاں نئی لگانا ۔ کھانے کے کمرہ کے فرش پر نئی ٹائلیں ۔ باورچی خانہ کے فرش اور دیواروں پر نئی ٹائلیں . الماریوں کی تزئین اور نیا کُوکنگ رینج وغیرہ شامل تھے ۔ یہاں تک تو کوئی بات سمجھ سے باہر نہیں تھی ۔ جو پرانا کُوکِنگ رینج تھا اُسے اُنہوں نے باورچی خانہ سے باہر آسمان تلے لگوا کر اُس کے ساتھ گیس کا پائپ بھی لگوا دیا ۔ چنانچہ پچھلے چھ سات ماہ سے اُن کا ناشہ اور کھانا وغیرہ سب کچھ صبح سویرے سے لے کر رات گئے تک خاتونِ خانہ باہر آسمان تلے پکاتی ہیں
متذکرہ حقیقت کو اُبھارنے کا سبب یہ ہوا کہ حال ہی میں ہمارے علم میں آیا کہ ان کے ہاں عرصہ سے کپڑے دھونے کی ایک خودکار (Fully Automatic/ Fuzzy Matic) مشین ہے لیکن کپڑے ایک ملازمہ ہاتھ سے دھوتی ہے جو کہیں دور سے آتی ہے

نئے سال کا خاندان

فیس بُک پر کچھ روز قبل دیکھا کہ بڑے جوش سے اظہار کیا جا رہا تھا کہ سن 2014ء بالکل ویسا ہی ہے جیسا سن 1947ء تھا ۔ بات درست ہے لیکن ایک 1947ء ہی نہیں بہت سے اور سال بھی 2014ء پر منطبق ہیں

سال 2014ء کے 365 دن ہوں گے ۔ سال 1947ء کے بھی 365 دن تھے
سال 2014ء بدھ کے روز شروع ہوا ہے ۔ سال 1947ء بھی بدھ کے روز شروع ہوا تھا
نیچے سال 1900ء کے بعد سے 2014ء پر منطبق ہونے والوں کی فہرست ہے
خیال رہے کے چھُٹیاں منطبق نہیں ہوتیں
سال پر کلک کر کے پورے سال دیکھا جا سکتا ہے

سال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2014ء سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درمیانی مدت
1902 ۔ ۔ ۔ ۔ 112 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
1913 ۔ ۔ ۔ ۔ 101 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1919 ۔ ۔ ۔ ۔ 95 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1930 ۔ ۔ ۔ ۔ 84 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1941 ۔ ۔ ۔ ۔ 73 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1947 ۔ ۔ ۔ ۔ 67 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1958 ۔ ۔ ۔ ۔ 56 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1969 ۔ ۔ ۔ ۔ 45 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1975 ۔ ۔ ۔ ۔ 39 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1986 ۔ ۔ ۔ ۔ 28 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1997 ۔ ۔ ۔ ۔ 17 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
2003 ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
2014 ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ سال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال

مقامِ توبہ

اگر کسی بڑے پر مصیبت آئے ۔ خواہ وہ اپنا دُشمن ہی کیوں نہ ہو ۔ تو توبہ کرنا چاہیئے اور اللہ سے معافی طلب کرنا چاہیئے کیونکہ کچھ عِلم نہیں ہوتا کل کو کیا ہونے والا ہے

غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت سابق سربراہ فوج اور سابق صدر کو یکم جنوری 2014ء کو عدالت میں پیش ہونے کا کہا تھا لیکن حاضر نہیں ہوئے تھے جس پر 2 جنوری 2014ء کو خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہونے کی تاکید کی گئی تھی
آج صبح جب اُن کیلئے سکیورٹی فورسز کی بہت بھاری نفری کے درمیان وہ گھر سے چلے تو راستہ میں اُنہیں دل کا دورہ پڑا ۔ اُنہیں عدالت پہنچانے کی بجائے ہسپتال پہنچانا پڑا ۔ خبر کچھ یوں ہے

عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل انور منصور خان سے دریافت کیا کہ پر ویز مشرف کہاں ہیں؟
انور منصور خان نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی سے معلوم کیا جائے
خصوصی عدالت کے استفسار پر ڈی آئی جی سیکیورٹی اسلام آباد جان محمد کا نے بتایا کہ پر ویزمشرف راستے میں تھے انھیں دل کی تکلیف ہوئی اور انہیں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی ) منتقل کر دیا گیا ہے

ذرائع کے مطابق سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی اہلیہ بیگم صہبامشرف اے ایف آئی سی پہنچ گئی ہیں اور ان کی بیٹی کو بھی کراچی سے اسلام آباد بلا لیاگیا۔ سابق صدر اب تک ہوش میں نہیں آئے ہیں۔ ڈاکٹرز کی ٹیم ان کا طبی معائنہ کررہی ہے جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ انہیں بیرون ملک منتقل کیا جائے یا پاکستان میں ہی علاج کیا جائے

سدا نہ مانیئے حُسن جوانی ۔ ۔ ۔ سدا نہ صحبت یاراں
سدا نہ باغِیں بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ سدا نہ رہن بہاراں
دُشمن مرے تے خوشی نہ کریئے ۔ ۔ ۔ سجناں وی ٹُر جانا

بجلی چور ہوشیار باش

صدر ممنون حسین نے ایک آرڈیننس کی منظوری دی ہے جس کے تحت پورے ملک میں گھریلو اور تجارتی صارفین کو بجلی چوری کے الزام میں 10 لاکھ سے ایک کروڑ (ایک ملین سے 10 ملین) روپے جرمانہ اور 2 سے 7سال قید بامشقت کی سزا دی جائے گی ۔ آرڈیننس کا مسودہ وزارت پانی و بجلی نے تیار کیا تھا۔ صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر آرڈیننس کی منظوری دی ہے ۔ ملک میں بجلی چوروں کو سزا دینے کے لئے پہلی بار قانون نافذ کیا گیا ہے