عام طور پر یونہی لگتا ہے کہ قسمت ایک غیرمرئی طاقت ہے جو آدمی کو جکڑے رھتی ہے ۔ کہا جاتا ہے ”محنت تو بیچارے نے بہت کی مگر اُس کی قسمت ہی خراب ہے“ ۔ کئی لوگ عام طور پر کہتے سُنے جاتے ہیں ”میری قسمت ہی خراب ہے یا میری قسمت میرا ساتھ نہیں دیتی“۔
نامعلوم کیوں میں بچپن سے ہی اس بات کا قائل رہا کہ قسمت آدمی خود بناتا ہے ۔ شاید میری والدہ محترمہ نے مجھے بچپن سے ہی اس ڈھب سے پالا تھا ۔ کافی پرانی بات ہے کہ ایک محفل میں ایک طرف کچھ بزرگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔ ذکر کسی صاحب کا تھا جس کے ساتھ سب ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ”وہ ایسا کر لیتا تو نقصان نہ ہوتا ۔ وہ یوں کرتا تو پریشانی نہ اُٹھاتا ۔ وغیرہ وغیرہ“۔ ان میں عمر میں سب سے بڑے صاحب خاموش سُنتے رہے ۔ کافی دیر بعد جب سب چُپ ہو گئے تو بزرگ بولے ” اُس کی قسمت میں نہیں ہے“۔ میرے ذہن نے اس بات کو قبول نہ کیا لیکن میں حیران اس بات پر تھا کہ ”یہ بزرگ تو بہت زِیرک اور سمجھدار ہیں ۔ اپنی زندگی انہوں نے محنت سے بنائی ہے مگر یہ انہوں نے کہہ کیا دیا ہے ؟“ خیر بات بھُول بھُلا گئی
چند سال بعد کسی اور جگہ کسی اور کے متعلق بات ہو رہی تھی اور ایک مُختلف بزرگ جن کی سوجھ بُوجھ اور تجربہ کی پوری برادری معترف تھی نے وہی فقرہ کہا ۔ میں قریب ہی بیٹھا سُن رہا تھا لیکن مُخل ہونا مناسب نہ سمجھا کیونکہ متعلقہ حالات و واقعات میرے علم میں نہ تھے
ہفتہ عشرہ قبل رات میں سونے کیلئے لیٹا مگر نیند غائب ۔ ماضی قریب کے کچھ سمجھ نہ آنے والے واقعات ذہن میں گھوم رہے تھے کہ بعد پانی سے اچانک اُچھل کر نظر آنے والی مچھلی کی طرح اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اُوپر تحریر کردہ واقعات میرے ذہن میں تازہ کر دیئے جس سے میرے ذہن کا بوجھ کچھ ہلکا ہو گیا کیونکہ اب مجھے بزرگوں کے استدلال کی سمجھ آ گئی تھی ۔ میں نے مسکرا کر اپنے آپ سے کہا ”اُن کی قسمت میں نہیں ہے“۔
جن واقعات نے میری نیند بھگا دی تھی یہ ہیں
پہلا واقعہ
ہمارے سرونٹ کوارٹر میں پچھلے ڈیڑھ سال سے ایک اُدھیڑ عمر عورت اُس کا بیٹا (پینتیس چالیس سال کا) اور بیٹی (شاید پچیس چھبیس سال کی) رہتے ہیں ۔ ماں اور بیٹی ہمارے گھر کا کام کرتی ہیں ۔ ایک ماہ قبل ملازمہ کہنے لگی کہ ”گاؤں میں مکان کی چھت کا کچھ حصہ گر گیا ہے جو بنانے کیلئے پیسے نہیں ہیں“۔ میری بیوی نے کہا ”پچھلے چند ماہ میں تنخواہ کے علاوہ جو تمہیں پیسے دیئے ہیں اُن کا کیا کیا ؟“ وہ چُپ ہو گئی ۔ کچھ دن بعد آئی اور کہنے لگی کہ ”ٹی وی کیلئے کیبل لگوانا ہے“۔ میری بیوی نے کہا ”ٹی وی کیوں خریدا ہے ؟ تُم میرے ساتھ جو ٹی وی دیکھ لیتی ہو ۔ کیا وہ کافی نہ تھا ؟“
میں اس سوچ میں پڑا تھا کہ کیا ٹی وی گِری چھت کی مرمت سے زیادہ اہم ہے ؟
دوسرے واقعہ نے مجھے پہلے ہی کئی ماہ سے چکرایا ہوا تھا
دوسرا واقعہ
ہمارے اقارب میں سے ایک اچھا خاصہ کھاتا پیتا خاندان ہے ۔ میاں بیوی دونوں ماشاء اللہ اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں ۔ برطانیہ میں کئی سال رہے ہیں ۔ اُنہوں نے امسال شروع میں اپنی رہائشگاہ کی تجدید (renovation) کروائی ۔ جس میں اندر باہر رنگ روغن کے ساتھ ساتھ تمام غُسلخانوں میں فرشوں اور دیواروں پر نئی ٹائیلیں اور سارے برتن اور ٹوٹیاں نئی لگانا ۔ کھانے کے کمرہ کے فرش پر نئی ٹائلیں ۔ باورچی خانہ کے فرش اور دیواروں پر نئی ٹائلیں . الماریوں کی تزئین اور نیا کُوکنگ رینج وغیرہ شامل تھے ۔ یہاں تک تو کوئی بات سمجھ سے باہر نہیں تھی ۔ جو پرانا کُوکِنگ رینج تھا اُسے اُنہوں نے باورچی خانہ سے باہر آسمان تلے لگوا کر اُس کے ساتھ گیس کا پائپ بھی لگوا دیا ۔ چنانچہ پچھلے چھ سات ماہ سے اُن کا ناشہ اور کھانا وغیرہ سب کچھ صبح سویرے سے لے کر رات گئے تک خاتونِ خانہ باہر آسمان تلے پکاتی ہیں
متذکرہ حقیقت کو اُبھارنے کا سبب یہ ہوا کہ حال ہی میں ہمارے علم میں آیا کہ ان کے ہاں عرصہ سے کپڑے دھونے کی ایک خودکار (Fully Automatic/ Fuzzy Matic) مشین ہے لیکن کپڑے ایک ملازمہ ہاتھ سے دھوتی ہے جو کہیں دور سے آتی ہے