چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ماں ؟

ایک کم سِن بچہ اور اُس کی ماں دریا پار کر رہے تھے

ماں نے کہا ”بیٹا ۔ میرا ہاتھ پکڑ لو“۔
بیٹا بولا ”نہیں ماں ۔ آپ میرا ہاتھ پکڑ لو“۔
ماں ”اس سے کیا فرق پڑا ؟“
بیٹا ”اگر میں آپ کا ہاتھ پکڑوں تو ہو سکتا ہے کہ میں آپ کا ہاتھ پکڑے نہ رکھ سکوں لیکن اگر آپ میرا ہاتھ پکڑیں گی تو مجھے یقین ہے آپ کبھی نہیں چھوڑیں گی“۔

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” How the Nations End “

میرا سفر بلاگ تک

میں چیئرمین صاحب کے حُکم سے ہی مارچ 1983ء سے بطور پرنسپل پی او ایف ٹیکنیکل ٹرینیگ انسٹیٹیوٹ کام کر رہا تھا کہ چیئرمین صاحب کو میری قوانین کی تابعداری پسند نہ آئی اور ستمبر 1985ء کے آخری دنوں میں مجھے محکمہ ایم آئی ایس میں ایسی اسامی پر تعینات کر دیا جہاں مجھ سے پہلے والے صاحب کسمپُرسی کی حالت میں پڑے تھے ۔ ایم آئی ایس میں کمپیوٹر سینٹر بھی شامل تھا ۔ اُن دنوں صرف ایک مین فریم تھا (آئی بی ایم کا 4330) جس کی ہارڈ ڈرائیو 50 ایم بی کی تھی۔ میں کمپیوٹر کا کام سیکھنا چاہتا تھا لیکن کمپیوٹر سینٹر کے اُن دنوں بادشاہ نے رویّہ اپنا رکھا تھا کہ اگر میں کمپیوٹر کے قریب گیا تو پورا کمپیوٹر سینٹر تباہ ہو جائے گا ۔ وہ خود ایم اے ایڈمن تھا اور آئی بی ایم کے ایک دن سے 5 دن کے درجن بھر کورسز میں شامل ہونے پر پھولا نہیں سماتا تھا

اپنی بُری عادت ہے کہ نچلّا نہیں بیٹھ سکتا اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی مجھ پر کرم کرتے ہوئے میرے لئے نئے راستے بناتے رہتے ہیں ۔ میں بغیر کمپیوٹر کے کام کرتا رہا ۔ جنوری 1986ء میں اچانک ایک میٹنگ میں پہنچنے کا حُکم ملا ۔ وہاں پہنچا تو بڑے بڑے افسران بیٹھے تھے ۔ چیئرمین صاحب صدارت کر رہے تھے ۔ میں کرسی پر بیٹھ گیا تو ایک صاحب چیئرمین صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے بولے ”سر ۔ انوینٹری منیجمنٹ کی کمپیوٹرائزیشن کیلئے بھوپال صاحب سے بہتر کوئی نہیں ۔ موجودہ انوینٹری منیجمنٹ سسٹم 20 سال قبل اِنہوں نے ہی بنایا تھا“۔ اللہ نے کام کے بھوکے کو کام دے دیا ۔ میں نے کمپیوٹر کا کام خود تربیتی کی بنیاد پر سیکھ کر کمپیوٹر پر کام شروع کر دیا ۔ 1987ء میں پی او ایف کے چیئرمین تبدیل ہوئے تو نئے چیئرمین صاحب نے میرا کام دیکھ کر1988ء میں مجھے پرسنل کمپیوٹر المعروف پی سی خریدنے کی اجازت دے دی چنانچہ پی او ایف میں پہلے 3 پی سی میں نے خریدے جو برینڈِڈ (branded) نہ تھے اور کمپَیٹِبل (compatible) کہلاتے تھے

میں نے اپنا ذاتی کمپیوٹر اوائل 1987ء میں خریدا جو برینڈڈ تھا کیونکہ ابھی کمپیٹبل بازار میں نہیں آئے تھے ۔ اس کی رفتار 128 کے بی پی ایس تھی ۔ کوئی ہارڈ ڈرائیو نہ تھی ۔ فلاپی ڈرائیو تھی جو علیحدہ تھی ۔ فلاپی کا حجم 360 کلو بائیٹ تھا ۔ میں نے اس میں فالتو چِپ لگوائی جس سے اس کی مجموعی رفتار 200 کے بی پی ایس کے قریب ہو گئی اور اس میں ورک شیٹ بھی تھی جسے بعد میں سپریڈ شیٹ کہا گیا ۔ مجھے کمپیوٹر والے نے ورک شیٹ کی کتاب برطانیہ سے منگوا دی اور میں ورک شیٹ پر کام کرنے لگ گیا ۔ مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ پاکستان میں ورک شیٹ میں مہارت حاصل کرنے والا میں پہلا پاکستانی ہوں ۔ اس کمپیوٹر پر میں نے اپنے بڑے بیٹے زکریا کو کام کرنا سکھایا اور اُس نے اپنے چھوٹے بہن بھائی کو ۔ یہ کمپیوٹر ابھی تک میں نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے ۔ میں نے 1989ء میں پہلا کمپیٹبل پی سی خریدا جو ایکس ٹی تھا اور رفتار 256 کے بی پی ایس تھی ۔ اس میں 20 ایم بی کی ہارڈ ڈرائیو تھی جسے دیکھنے کیلئے لوگ میرے پاس آتے تھے ۔ اس کے بعد جوں جوں کمپیوٹر ترقی کرتا گیا میں اپنے کمپیوٹر کو اَپ گریڈ کراتا یا نیا لے لیتا ۔ پہلا ایکس ٹی تھا ۔ اس کے بعد 80186 آیا ۔ پھر 80286 آیا ۔ پھر 80386 ۔ پھر 80486 ڈی ایکس وَن اور ڈی ایکس ٹو اور پھر 80586 جس میں دو مائیکرو پروسیسر ہیں

1993ء میں میرے بڑے بیٹے زکریا نے جو اُن دنوں انجنیئرنگ کے آخری سال میں تھا بتایا کہ ایک انٹرنیٹ سروس ایس ڈی این پی کے نے شروع کی ہے ۔ ہم نے سروس لے لی ۔ اس پر ای میل ہی بھیجی جا سکتی تھی جو دھیرے دھیرے جاتی تھی
پھر 1995ء میں پی ٹی سی ایل نے پاکنیٹ کے نام سے ڈائل اَپ سروس شروع کی تو لے لی اور موجود ٹیلیفون کو کارآمد رکھنے کیلئے ایک اور ٹیلیفون لائین لے لی
پھر ای میل لکھنا عام ہوا ۔ لکھائی کے بعد آواز کی ای میل بھی بھیجنا شروع کیں
اس کے بعد کومسَیٹ نے 1996ء میں سروس شروع کی جس کی رفتا بہتر تھی چنانچہ وہ لے لی
انٹرنیٹ کی عملی رفتار پہلے 2 سال میں 56 کے بی پی ایس تک پہنچی
پھر ہم نے بہتر رفتار کی خاطر ڈبلیو او ایل سے بھی استفادہ کیا

وھاج السراج صاحب جو مکینیکل انجنیئر ہیں نے 2001ء میں مائیکرونٹ ڈی ایس ایل سروس شروع کی جس کی رفتار اس وقت شاید 256 کے بی پی ایس تھی ۔ یہ چلتا تو ٹیلیفون لائین پر ہی تھا لیکن اس سے ٹیلیفون مصروف نہیں ہوتا تھا ۔ ہم نے یہ سروس شروع ہوتے ہی اپنا لی ۔ اس کی رفتار بڑھتی رہی اور 2 ایم بی پی ایس تک پہنچ گئی
مائیکرونیٹ نے اسلام آباد میں پہلی فائبرآپٹکس بچھائی اور نیاٹیل کے نام سے فائبرآپٹکس انٹرنیٹ ۔ ٹیلیفون اور ٹی وی شروع کر دیئے ۔ مگر ہم 10 سال سے مائیکرونیٹ کے ایک ایم بی پی ایس پر ہی صبر شکر کئے ہوئے ہیں کیونکہ ہمیں اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ۔ مائیکرونیٹ کی کسٹومر کیئر بہت اچھی ہے اسلئے مطمئن ہیں

ہم 1994ء میں اسلام آباد منتقل ہوئے تو میں نے اپنے علم ۔ تجربات اور مشاہدات کو پھیلانے کا سوچا ۔ کچھ احباب نے زور دیا کہ اپنے عِلم ۔ تجربہ اور مشاہدہ پر مبنی کتاب لکھوں ۔ کتاب چھپوانا میرے بس کا روگ نہیں تھا اور نہ ناشروں یا سرمایہ داروں سے کوئی واسطہ تھا کہ نظرِ کرم کرتے ۔ دل کی دل ہی میں لئے بیٹھا تھا کہ 1999ء کے آخری مہینوں میں ویب لاگ کا سُنا (جو بعد میں مختصر ہو کر بلاگ ہو گیا) ۔ اپنی سی کوشش شروع کی کہ انٹرنیٹ پر سستی سی جگہ مل جائے تو میں بھی وہاں ویب لاگ بناؤں لیکن کوئی راہ نظر نہ آئی

اللہ نے مہربانی کی ۔ اگست 2004ء میں میری بیٹی نے بتایا کہ بلاگر نام سے ایک انٹرنیٹ سروس شروع ہوئی ہے جس پر بلامعاوضہ بلاگ بنایا جا سکتا ہے ۔ بیٹی نے اس پر میرے بلاگ کا ڈھانچہ بھی بنا دیا اور میں نے اُسے مکمل کر کے ”منافقت تیرا نام ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ Hypocrisy Thy Name is“کے عنوان سے اپنا پہلا بلاگ انگریزی میں شروع کیا بعد میں اس کا عنوان بدل کر ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is Often Bitter “ رکھ دیا

گو میں اُردو میں ای میل کچھ سالوں سے لکھتا آ رہا تھا لیکن ای میل میں اسے عکس کی صورت چسپاں کرنا پڑتا تھا ۔ اُن دنوں ابھی بلاگ پر اُردو لکھنا آسان نہ تھا ۔ اس کیلئے ایچ ٹی ایم ایل بنانا پڑتی تھی
کچھ آسانی پیدا ہوئی تو جنوری 2005ء میں اس پر اُردو بھی لکھنا شروع کیا ۔ پھر 5 مئی 2005ء سے اُردو کا علیحدہ بلاگ شروع کر دیا
پاکستان میں بلاگر بند ہوا تو ورڈ پریس پر دونوں بلاگ منتقل کئے ۔ ورڈ پریس پر اُردو لکھنے میں کچھ دقت رہی لیکن کام چلتا رہا کیونکہ میں نے ایچ ٹی ایم ایل بنا لی تھی جو ہر بند سے پہلے نقل کر دیتا تھا ۔ ورڈ پریس پر تبصرے کی پابندی اور کچھ اور قیود لگیں تو اُردو کے بلاگ کیلئے اپنی جگہ خرید لی البتہ انگریزی والا بلاگ ورڈ پریس پر ہی چل رہا ہے

میں 2010ء تک بلاگ کی نوک پلک خود ہی درست کیا کرتا تھا لیکن پچھلے ساڑھے 3 سال سے یہ کام بیٹے زکریا کے ذمہ ڈال دیتا ہوں کیونکہ اب میرا مغز کام نہیں کرتا
:lol:

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ عزت ؟

انعام حاصل کرنے سے کہیں بڑا اعزاز اس کا مستحق قرار دیا جانا ہے
انعام صرف اور صرف اللہ کا کرم ہوتا ہے ۔ عزت بھی وہی دیتا ہے ذلت بھی وہی دیتا ہے
کبھی اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی عہدہ دے کر ذلیل و خوار کر دیتا ہے
اور
کبھی عہدہ دیئے بغیر عزت عطا کر دیتا ہے
کئی بڑے بڑے عہدیدار اور بلند مقامات پر فائز کرسی نشین نفرت کی علامت بن جاتے ہیں اور عزت کی بجائے ذلت کماتے ہیں
اقتدار کا رعب ۔ کرسی کا خوف اور دولت کی چمک اور شے ہے ۔ اس سے صرف خوشامدی ۔ مفاد پرست اور دولت کمانے والے درباری متاثر ہوتے ہیں اور انہیں فرشی سلام پیش کرتے ہیں
جبکہ
احترام اور عزت اور شے ہے جو دلوں میں گھر بناتی اور اشاروں سے اظہار پاتی ہے ۔ یہ اللہ کی دین ہوتی ہے اور مقام شکر کا درجہ رکھتی ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” The Jews Who Said No “

چند اچھی یادیں

اچھی یادیں اسلئے لکھا ہے کہ سُہانی رات ہوتی ہے اور آنے والا نہیں آتا

میں کم ظرف ہوں گا اگر سب سے پہلے ” نورین تبسم صاحبہ “ کا شکریہ ادا نہ کروں جو بزور گھسیٹ گھساٹ کے مجھے میرے اُس ماضی میں لے گئیں جسے میں اپنی نوجوانی کا دور کہہ سکتا ہوں اور جس سے کچھ اچھی یادیں وابسطہ ہیں ۔ میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں یکم مئی 1963ء کو ملازمت شروع کی ۔ یکم مئی 1963ء سے 31 دسمبر 1963ء تک مطالعاتی دوررہ تھا جس میں مجھے پورے ادارے میں گھمایا گیا یعنی انجنیئرنگ فیکٹری انجنیئرنگ فیکٹری (جو فیرس گروپ ۔ نان فیرس گروپ ۔ فیرس فاؤنڈری ۔ نان فیرس فاؤنڈری ۔ سمال آرمز ایمیونیشن ۔ وُڈ ورکنگ ۔ سروسز وغیرہ پر مشتمل تھی) ۔ ان کے علاوہ ایکسپلوسِوز فیکٹری ۔ فِلِنگ فیکٹری ۔ ٹول روم ۔ سروسز ڈرائنگ آفس اور پروڈکشن ڈرائنگ اینڈ ڈیزائین آفس میں بھی ایک ہفتہ سے 4 ہفتے تک رکھا گیا ۔ جنوری 1964ء میں مجھے ویپنز فیکٹری میں تعینات کر دیا گیا جو اُن دنوں فیرس گروپ کا حصہ تھی اور جہاں رائفل جی تھری کی ڈویلوپمنٹ ابتدائی مراحل میں تھی اور مجھے اس میں آدھی رات کا تیل جلانا تھا (to burn mid-night oil) ۔ رائفل جی تھری کی ڈویلوپمنٹ کے بعد پروڈکشن شروع ہوئی ہی تھی کہ وسط 1966ء میں میرے ذمہ مشین گن کی پلاننگ کر کے ہیڈ کوارٹر میں بھیج دیا گیا ۔ اوائل 1968ء میں مشین گن کی ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن کیلئے واپس ویپنز فیکٹری بھیج دیا گیا جہاں میں 18 مئی 1976ءکو ملک سے باہر بھیجے جانے تک رہا ۔ اتفاق کی بات سمجھ لیجئے کہ میرے 53 سال کی عمر میں 3 اگست 1992ء کو ریٹائر ہونے تک پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی جن شاخوں میں کام کیا(گستاخی معاف) وہاں میرا واسطہ زیادہ تر خود غرض یا منافق لوگوں سے پڑا

میں 2 بڑے افسران کے اچھا ہونے کا ذکر پہلے کر چکا ہوں لیکن اُن میں سے ایک کے ماتحت 2 ماہ اور دوسرے کے ماتحت 6 ماہ کام کرنے کا موقع دیا گیا ۔ میرے ساتھ کام کرنے والے میرے ہم عصر ۔ میرے براہِ راست اُوپر اور میرے براہِ راست ماتحت افسران میں سے صرف 3 ایسے تھے جو محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ ادارے یا ملک کیلئے مخلص تھے

ہوا یوں کہ نورین تبسم صاحبہ نے میری توجہ اپنی ایک تحریر کی طرف کرائی جس میں یعقوب صاحب کا ذکر تھا جنہیں نورین تبسم صاحبہ نے میرا ہمجماعت اور دوست لکھا تھا ۔ محمد یعقوب خان صاحب اور میں آٹھویں سے بارہویں جماعت تک ایک ہی جماعت اور ایک ہی سیکشن میں رہے ۔ نویں جماعت میں ہم ایک ہی بنچ پر بیٹھتے تھے ۔ کالج کے بعد پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں آنے پر محمد یعقوب خان صاحب سے میری ملاقات اُن کے والد کی وساطت سے ہوئی جو اُن دنوں ویپنز فیکٹری میں فورمین تھے ۔ اُس دن سے 18 مئی 1976ء تک ان سے ملاقات رہی ۔ میں 1983ء میں واپس آیا تو اُن کے والد ریٹائر ہو چکے تھے اور باوجود چند بار کوشش کے مجھے محمد یعقوب خان صاحب کا کچھ پتہ نہ چلا

لامحالہ مجھے محمد یعقوب خان صاحب کے والد محمد یار خان صاحب یاد آئے جن کے ساتھ میرا واسطہ پہلی بار مئی 1963ء میں ویپنز فیکٹری میں تربیتی 4 ہفتوں کے دوران پڑا ۔ وہ ویپنز فیکٹری کے سب سے سینئر فورمین تھے اور پوری پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں کام کے ماہر مانے جاتے تھے ۔ ایک دن میرے پاس آئے اور کہا ” اجمل صاحب ۔ آپ کی بہن ڈاکٹر صاحبہ ولیہ ہیں ۔ خاندانی اثر آپ پر بھی ہو گا ۔ ہمارا ایک مسئلہ ہے ۔ اس میں ہماری مدد کیجئے“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا ”خان صاحب ۔ میری بڑی بہن کو آپ نے ولیہ کیسے بنا دیا ؟“ بولے ” میری بیٹی بیمار ہوئی ۔ بہت علاج کرایا ۔ سپشیلسٹ ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا ۔ ہم نا اُمید ہو گئے تھے کہ کسی نے کہا ڈاکٹر فوزیہ قدیر سے علاج کروائیں ۔ ہم نے علاج کروایا اور بیٹی ٹھیک ہو گئی ۔ میں تو اُنہیں ولیہ مانتا ہوں ۔ آپ ہماری مدد کریں“۔ میں نے بہت سمجھایا کہ ”میں تو یہاں آپ سے سیکھنے آیا ہوں ۔ جو مسئلہ آپ حل نہیں کر سکے بھلا میں کیسے حل کر سکتا ہوں ؟“ مگر وہ نہ مانے ۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن میں اُن کے ساتھ ورکشاپ میں گیا ۔ ایک پرزہ تھا جس کی 30 فیصد کے قریب پروڈکشن ضائع ہو رہی تھی ۔ میں نے پرزے اور مشین کا مطالعہ کیا اور کچھ مشورہ دیا ۔ اللہ کا کرنا کہ وہ پرزہ ٹھیک بننے لگا ۔
سورت 3 آل عمران آیت 26 ۔

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۔ ۔ ۔ اور کہیے کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے

دو دن بعد محمد یار خان صاحب ایک اور پرزے کا مسئلہ لائے ۔ اتفاق سے اللہ نے وہ بھی میرے ہاتھوں درست کرا دیا ۔ پھر محمد یار خان صاحب میرے پاس آئے اور بولے ” آپ یعقوب کو جانتے ہوں گے ۔ میرا بیٹا ہے ۔ ایکسپلوسوز فیکٹری میں ہوتا ہے“۔ محمد یار خان صاحب مجھے اپنا اُستاد ماننے لگے ۔ جب کسی ٹیکنیکل مسئلہ میں پھنس جاتے تو میرے پاس پہنچ جاتے
جب مجھے معلوم ہوا کہ نورین تبسم صاحبہ کی شادی کے بعد سے رہائش واہ چھاؤنی میں ہے تو میں نے اُن کے خاوند اور سسر صاحبان کا پوچھا ۔ معلوم ہوا کہ وہ محمد عبدالعلیم صدیقی صاحب کی بہو ہیں ۔ جب میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی تو صدیقی صاحب اسسٹنٹ فورمین تھے بعد میں فورمین ہو گئے تھے ۔ جب جنوری 1964ء میں مجھے ویپنز فیکٹری میں تعینات کیا گیا تو انہیں میرے ماتحت لگا دیا گیا کیونکہ ورکس منیجر صاحب کو ان کا سچ اچھا نہیں لگتا تھا
میرے پاس آئے اور دروازے کے پاس سے ہی بولے ”صاحب ۔ آ سکتا ہوں“۔
میں نے ہاتھ سے آ کر کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا
پھر وہیں سے بولے ”صاحب ۔ میرا تبادلہ آپ کے پاس کر دیا گیا ہے ۔ اب آپ جہاں چاہیں بھیج دیں“۔
میں نے ڈرائنگ سے نظریں اُٹھا کر اُن کی طرف دیکھا تو پریشان نظر آئے ۔ میں نے کہا ”اِدھر آیئے اور تشریف رکھیئے“۔
بولے ”آپ بڑے افسر ہیں ۔ میں آپ کے برابر کیسے بیٹھ سکتا ہوں“۔
میں نے کہا ”دیکھیئے ۔ بطور انسان ہم سب برابر ہیں لیکن آپ مجھ سے بہتر ہیں ۔ آپ کام جانتے ہیں اور میں کام سیکھ رہا ہوں ۔ اب آ کر بیٹھ جایئے“۔
صدیقی صاحب بیٹھ گئے تو میں نے کہا ”آج کے بعد آپ نے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر نہیں کہنا ”صاحب ۔ میں اندر آ سکتا ہوں ؟“
وقت گذرتا گیا اور صدیقی صاحب میرے قریب ہوتے گئے ۔ کبھی کبھار کوئی خاص تکنیکی مشورہ لینا ہوتا یا دل بوجھل ہوتا تو میرے پاس آ جاتے اور ہنستے ہوئے کمرے سے نکلتے

محمد یار خان اور محمد عبدالعلیم صدیقی صاحبان کا ذکر ہوا تو مجھے ان کے ساتھی عصمت اللہ صاحب یاد آئے جو اسسٹنٹ فورمین تھے اور جب اوائل 1968ء میں دوبارہ ویپنز فیکٹری پہنچا تو فورمین ہو چکے تھے ۔ عصمت اللہ صاحب سے بڑے صاحب کسی وجہ سے ناراض ہو گئے اور اُنہیں میرے ماتحت بھیج دیا . دو سال قبل عصمت اللہ صاحب نے مجھے کہا تھا ”دو جماعت پڑھ کر آ جاتے ہیں ۔ پروڈکشن کا کام سیکھنے کیلئے ہاتھ کالے کرنا ہوتے ہیں اور کئی سال محنت کرناپڑتی ہے“۔
میں اَن سُنی کر کے جو کام اُن سے کہنا تھا کہہ کے آ گیا تھا ۔
چند ہفتے میرے ساتھ کام کرنے کے بعد مجھے کہنے لگے ” صاحب ۔ آپ کس کالج سے پڑھ کے آئے ہیں ؟“
میں نے مسکرا کر کہا ”جاہل ہوں ۔ اسلئے کہہ رہے ہیں ؟“
بولے ” نہیں صاحب ۔ یہ سارے جو افسر لوگ ہیں ۔ آپ ان میں سے نہیں ہیں ۔ اس کی وجہ تو کوئی ہونا چاہیئے“۔
میں نے کہا ” عصمت اللہ صاحب ۔ وہ بادشاہ لوگ ہیں ۔ میں اُن کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہوں“۔
کہنےلگے ” ایک بات بتائیں کہ محمد یار خان صاحب آپ کو اُستاد کیوں مانتے ہیں ؟“
میں کہا ”یہ اُن کی ذرہ نوازی ہے ۔ ویسے تو میں اُن کے بیٹے کے برابر ہوں“۔
بولے ”وہ الگ بات ہے ۔ چلیں چھوڑیں“ ۔
عصمت اللہ صاحب سچ گو اور اپنے کام کے ماہر تھے ۔ کام کے بارے میں بلاوجہ کا اعتراض برداشت نہیں کرتے تھے ۔ 1973ء میں ایک افسوسناک واقعہ کے بعد ریٹائرمنٹ لے کر کراچی چلے گئے ۔ جب بھی وہاں سے آتے مجھے ضرور ملتے

کچھ لطیفے زمانہ حال کے

بیوی واپس گھر میں داخل ہوتے ہی خاوند سے ”کار کے کاربُوریٹر میں پانی ہے”
خاوند ”کیا کہہ رہی ہو ۔ تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کاربُوریٹر ہوتا کیا ہے“۔
بیوی ”مجھ پر یقین کیوں نہیں کرتے ۔ میں کہہ رہی ہوں کاربُوریٹر میں پانی ہے“
خاوند ”میں خود دیکھتا ہوں ۔ کہاں ہے کار ؟“
بیوی ” پانی کے تالاب میں“

اُستاد ” زین ۔ پانی کا کیمیائی کُلیہ کیا ہے ؟“
زین ” ایچ آئی جے کے ایل ایم این او (H I J K L M N O)“۔
اُستاد ” یہ کیا بول رہے ہو ؟“
زین ” کل آپ ہی نے تو بتایا تھا ۔ ایچ ٹُو او (H2 O)“

اُستاد ایک 9 سالہ طالب علم سے ” ایسی ایک اہم چیز کا نام بتاؤ جو آج ہمارے پاس ہے لیکن 10 سال قبل نہیں تھی “
طالب علم ” میں “۔

اُستاد ایک چھوٹے سے لڑکے سے ” شہزاد ۔ تمارے کپڑے ہمیشہ میلے کیوں ہوتے ہیں ؟“
شہزاد ” کیونکہ میں آپ کی نسبت زمین کے بہت قریب ہوں“۔

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” “Afghanistan war not in our interests”, president Karzai “

میری کہانی 8 ۔ ذائقہ

میں ذائقہ گھی کی بات نہیں کر رہا اور نہ اُس ذائقہ کی جو ٹی وی کے اشتہاروں میں بہت بتایا جاتا ہے لیکن ہوتا نہیں ہے
بات ہے اُس ذائقہ کی جو آدمی کوئی چیز کھا کے از خود محسوس کرتا ہے ۔ جیسے برفی کا ذائقہ ۔ بیگن کا ذائقہ ۔ سیب کا ذائقہ وغیرہ وغیرہ ۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ذائقہ زبان بتاتی ہے اور میں بھی کم از کم ساڑھے 3 سال قبل تک یہی سمجھتا تھا ۔ مگر معلوم یہ ہوا کہ زبان تو صرف پیغام رسانی کا کام کرتی ہے جس طرح ٹیلیفون ۔ ٹیلیفون کیا جانے کہ بولنے والے نے کیا کہا اور سُننے والے نے کیا سمجھا ۔ وہ تو صرف ادھر سے پکڑتا ہے اور اُدھر پہنچا دیتا ہے ۔ اصل کام تو دماغ کرتا ہے جو آنے والے پیغام کا تجزیہ ایک ثانیئے (second) کی بھی کسر (fraction) میں کر کے بتاتا ہے کہ ذائقہ کیسا ہے اور اگر پہلے بھی وہ چیز چکھی ہو تو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ فلاں چیز کا ذائقہ ہے ۔ دماغ یہ تجزیہ دو سگنل وصول ہونے پر کرتا ہے ایک زبان سے اور دوسرا سونگنے سے ۔ ساڑھے تین سال قبل میری سونگنے کی حس ختم ہو گئی تھی ۔ تب سے نہ خُوشبُو کا پتہ چلتا ہے نہ بد بُو یا کسی اور بُو کا

اگر دماغ کا متعلقہ حصہ کسی صدمے یا حادثے کے نتیجہ میں کام کرنا چھوڑ دے تو پھر انسان کو کدو کی ترکاری اور بیگن کی ترکاری میں کوئی فرق ذائقہ کے لحاظ سے پتہ نہیں چلتا

تو جناب ۔ بندے بشر پر اس حقیقت کا انکشاف اُس وقت ہو گیا جب اللہ کی عطا کردہ اس نعمت سے محروم ہو گیا ۔ جناب ۔ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد جب میں بظاہر تندرست ہو گیا تو میں نے محسوس کیا کہ مجھے میٹھا ۔ نمکین اور مرچ والا کے سوا کسی کھانے میں کوئی فرق ذائقہ کے لحاظ سے محسوس نہیں ہوتا یہاں تک کہ ناشپاتی اور سیب کا ذائقہ بھی ایک جیسا ہی لگتا ہے ۔ بندے نے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اُس نے بتایا کہ حادثہ میں میرے سر کو جو شدید چوٹ لگی تھی اُس کے نتیجہ میں دماغ کا وہ حصہ درست کام نہیں کر رہا جو اس حِس کو کنٹرول کرتا ہے اور اسی وجہ سے ذائقہ کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا

انسان بڑا ناشکرا ہے ۔ بغیر کسی معاوضہ اور محنت کے اللہ کی انسان کو عطا کردہ نعمتوں میں سے کوئی چھِن جاتی ہے تو پھر انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنی بڑی نعمت سے محروم ہو گیا ہے

اللہ مجھے اور سب کو توفیق دے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پسند کا حصول

کسی چیز یا کسی انسان کی اچھائی کیلئے شکرگذار اور قدر دان ہونا
انسان کی اپنی زندگی میں ایسی اور چیزوں کو کھینچ لاتا ہے
جو اُس کیلئے اہم ہوں یا جن کی وہ قدر کرتا ہو

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Angel Face and The Open Prison