غیرمطمئن قوم

انڈا ٹوٹنے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
اگر انڈا باہر سے لگائی گئی طاقت سے ٹوٹے تو ایک ممکنہ زندگی ضائع ہو جاتی ہے
اگر انڈا اندر سے لگائی گئی طاقت سے ٹوٹے تو ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے
یعنی صحتمند تبدیلی اندر سے جنم لیتی ہے

ہمارا یہ حال ہے کہ خود تو بدلتے نہیں ساری دنیا کو بدلنے کے نعرے لگاتے ہیں اور اسی بہانے سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑے ہو کر جن کی بہتری کے دعوے کرتے ہیں اُنہی کیلئے زحمت کا سبب بنتے ہیں اور بعض اوقات اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے املاک کو نقصان پہنچا کر عوام پر مالی بوجھ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں

دوسری طرف ہمارا یہ حال ہے کہ کیسا بھی ماحول ہو ہم کبھی اس سے مطمئن یا خوش نہیں ہوتے یعنی روتے رہنا ہماری عادت بن چکی ہے
گیلپ انٹرنیشنل نے دنیا بھرمیں خوش رہنے والے ممالک کی فہرست جاری کی ہے ۔ 138 قوموں میں سے پہلی 10 خوش رہنے والی اقوام میں سے 9 کا تعلق لاطینی امریکا سے ہے ۔ متحدہ عرب امارات کا 15واں، کینیڈا کا 16واں، آسٹریلیا کا 18واں، دنیا میں سب سے زیادہ خوش سمجھے جانے والے امریکیوں کا 24واں اور چین کا 31 واں نمبر ہے اور پاکستان کا 117 نمبر ہے

یہ سوالات پوچھے گئے تھے کل دنیا کی بنیاد پر جتنوں نے ان سوالات کے جواب ہاں میں دیئے وہ سامنے لکھے ہیں
1 ۔ کیا کل آپ نے اپنے آپ کو آرام میں پایا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 72 فیصد
2 ۔ کیا کل آپ سے اچھا سلوک کیا گیا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 85 فیصد
3 ۔ کیا کل آپ نے کچھ سیکھا یا کوئی دلچسپ کام کیا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 43 فیصد
4 ۔ کیا ان چیزوں کا احساس آپ کو کل کے اکثر حصہ میں ہوا ؟ ۔ ۔ 73 فیصد
5 ۔ پُر لُطف کیا تھا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 72 فیصد

زندگی کی مثبت سوچ رکھنے والوں میں سرِ فہرست مندرجہ ذیل 10 ممالک ہیں
۔ ۔ نام ملک ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں کہنے والے ۔ ۔ ۔ ۔ نام ملک ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں کہنے والے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نام ملک ۔ ۔ ہاں کہنے والے
1 ۔ پاناما ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 85 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ۔ پراگوئے ۔ ۔ ۔ ۔ 85 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ۔ السالوے ڈور ۔ 84 فیصد
4 ۔ وینزولا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 84 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 ۔ ترِینِیداد و توبَیگو ۔ ۔ ۔ 83 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 ۔ تھائی لینڈ ۔ ۔ ۔ ۔ 83 فیصد
7 ۔ گوآٹے مالا ۔ ۔ 82 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8 ۔ فِلِیپِینز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 82 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 9 ۔ اِیکوے ڈور ۔ ۔ ۔ ۔ 81 فیصد
10 ۔ کوسٹا رِکا۔ ۔ 81 فیصد

پاکستان ۔ ۔ ۔ 36 فیصد

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خوشی

زندگی کی خوشی کا انحصار سوچ کے معیار پر ہے

دماغ اتنا بالغ نہیں ہوتا کہ اُسے اُس کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے خواب پورے ہوں تو زیادہ مت سویئے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Martin Luther King & Gandhi “

مذہب اور عصر

اسلام کی عظمت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اللہ کا آخری پیغام ہے بلکہ اس کی عظمت یہ بھی ہے کہ اسلام بیک وقت قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ اس کے قدیم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے عقائد ازلی و ابدی ہیں ۔ اس کی عبادات کا نظام مستقل ہے اور اس کا اخلاقی بندوبست دائمی ہے

اس کے جدید ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے زمانے یعنی اپنے عصر سے متعلق رہتا ہے۔ اس کے مسائل و معاملات پر نگاہ رکھتا ہے ۔ اس کے چیلنجوں کا جواب دیتا ہے اور اس طرح اپنے پیروکاروں کو ایمان و یقین کی دولت سے کبھی محروم نہیں ہونے دیتا۔ اسلام دائمی طور پر زمانوں کے درمیان پُل کا کام انجام دیتا رہتا ہے۔ چنانچہ اسلام کے دائرے میں ایک زمانہ دوسرے زمانے سے متصل منسلک اور مربوط رہتا ہے اور زمانی تسلسل برقرار رہتا ہے۔ یوں اسلام کی فکری کائنات میں قدیم اور جدید کے درمیان خلیج حائل نہیں ہوتی

کہنے کو عیسائیت بھی ایک الہامی مذہب ہے لیکن عیسائیت نہ اپنے عقائد کو اصل حالت میں محفوظ رکھ سکی ۔ نہ اس کے دائرے میں عبادات کا نظام اپنی حقیقی صورت میں باقی رہا اور نہ ہی عیسائیت ایک وقت کے بعد خود کو عصر سے مربوط کر سکی ۔ نتیجہ یہ کہ عصر سے عیسائیت کا تعلق ٹوٹ کر رہ گیا۔ عیسائیت کی تاریخ میں جدید و قدیم کے درمیان خلیج حائل ہو گئی اور عیسائیت ماضی کی چیز بن کر رہ گئی۔ عیسائیت نے اپنی تاریخ کے ایک مرحلے پر اسلامی علوم سے زبردست فائدہ اٹھایا۔ امام عزالیؒ نے عیسائیت کے علم کلام پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ابن رُشد مغرب میں مستقل حوالہ بن کر رہ گئی

مسلم سائنسدانوں کے نظریات ڈیڑھ دو صدی تک مغرب کی جامعات میں پڑھائے جاتے رہے۔ اس صورت حال کا مفہوم یہ ہے کہ عیسائیت نے اسلامی فکر سے استفادہ کر کے خود کو عصر سے مربوط کیا۔ خود کو اس کے چیلنجوں کا جواب دینے کے قابل بنایا لیکن مغرب میں جدید علوم بالخصوص سائنس کا آغاز ہوا تو عیسائیت ان کے ساتھ صحت مند تعلق استوار کرنے میں ناکام ہو گئی۔ ابتدا میں چرچ نے جدید سائنسی نظریات کو کفر قرار دے کر مسترد کر دیا۔ کئی سائنس دانوں کو کافرانہ فکر رکھنے کے الزام میں زندہ جلا دیا گیا۔ لیکن جدید علوم کا سفر جاری رہا اور انہیں عوام میں پذیرائی حاصل ہونے لگی تو عیسائیت نے اپنا رویہ یکسر تبدیل کر لیا۔ عیسائیت نے اپنے عقائد کو سائنسی نظریات کے مطابق بنانا شروع کر دیا اور اس طرح ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف نکل گئی۔ اگر چہ یہ عیسائیت کی جانب سے خود کو عصر سے مربوط کرنے کی کوشش تھی مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی بلکہ اس سے عیسائیت کے وقار اور عظمت کو ناقابل تلافی
نقصان پہنچا ۔ یہاں تک کہ جدید فکر نے عیسائیت کو یکسر رد کر دیا اور عصر سے عیسائیت کا تعلق ٹوٹ کر رہ گیا

ہندو ازم دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک ہے۔ اس کی تاریخ 6000 سال پرانی ہے۔ ہندوﺅں کی مقدس کتابوں ویدوں، مہابھارت اور گیتا میں الہامی شان ہے۔ ہندو ازم کے پاس ایک خدا کا تصور ہی، رسالت کا تصور ہے۔جنت، دوزخ کا تصور ہے۔ لیکن ہندو ازم کی گزشتہ ایک ہزار
سال کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ہندو ازم اس طویل مدت میں خود کو عصر سے مربوط نہیں کر سکا۔ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی اور اس عرصے میں ہندو ازم اسلامی تہذیب کے اثرات قبول کرتا رہا۔ مسلمانوں کے بعد انگریز آگئے اور 200 سال تک بھارت پر راج کرتے رہے۔ اس عرصے میں ہندوﺅں کے موثر طبقات کی کوشش یہ رہی کہ وہ جہاں تک ممکن ہو سکے خود کو مغربی تہذیب اور قانون و سیاست سے ہم آہنگ کرتے رہیں

راجہ رام موہن رائے ہندوﺅں کے سرسید تھے مگر راجہ رام موہن رائے کی تحریک سرسید کے مقابلے میں بہت زیادہ کامیاب ہوئی۔ ہندو راجہ رام موہن رائے اور ان جیسے لوگوں کی تحریکوں کے زیر اثر زیادہ سے زیادہ جدید ہوتے گئے مگر اس جدیدیت کا ہندو ازم کے بنیادی تصورات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہندو ازم کوئی اور چیز تھا اور جدیدیت کوئی اور شے

مسلمانوں کی تاریخ میں عصر کا سوال سب سے پہلے امام غزالیؒ کے زمانے میں اٹھا۔ اس زمانے میں یونانی علوم مسلمانوں میں تیزی کے ساتھ پھیل رہے تھے اور سوال پیدا ہو رہا تھا کہ ان علوم کا مسلمانوں کے بنیادی عقائد سے کیا تعلق ہے ؟ امام غزالیؒ نے تن تنہا اس سوال کا جواب دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہ طریقہ کار اختیار کیا کہ یونانی علوم پر انہی کے اصولوں کی روشنی میں تنقید لکھی اور ان علوم کے داخلی تضادات کو نمایاں کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی غزالیؒ نے یہ بھی دکھا دیا کہ ان علوم کا مسلمانوں کے بنیادی اصولوں سے کیا تعلق ہے ؟ غزالی کی تنقید نے مسلمانوں کو یونانی علوم کے اثرات سے محفوظ کر دیا

مسلمانوں کی تاریخ میں زمانہ یا عصر کا سوال دوسری مرتبہ اُنیسویں اور بیسویں صدی میں اہم بن کر سامنے آیا۔ برصغیر میں اقبال پہلی شخصیت تھے جو اس سوال سے نبرد آزما ہوئے۔ انہوں نے اپنی بے مثال شاعری میں اس سوال کی جزیات تک کو کھول کر بیان کر دیا اور بتا دیا کہ اسلام کا جواب اس سلسلے میں کیا ہے ؟ اقبال عصر کے چیلنج سے گھبرائے نہیں بلکہ انہوں نے چیلنج سے قوت کشِید کی اور اسے اپنے لئے قوتِ محرکہ بنا لیا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا

مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

اقبال نے جو کام شاعری میں کیا مولانا مودودیؒ نے وہی کام نثر میں کیا۔ اس طرح کے کاموں میں شاعری پر نثر کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس میں بات کو زیادہ کھول کر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اور اسے زیادہ سے زیادہ دلائل سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے کام کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے کام کی روشنی میں اسلام بیسویں صدی میں اسی طرح متعلق (relevant) نظر آیا جس طرح غزالیؒ یا ان سے پہلے کے زمانے میں تھا

اس کام کی اہمیت دوسرے مذاہب کی تاریخ کی روشنی میں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے جنہوں نے یا تو عصر کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے یا اس کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہوگئے۔ ظاہر ہے یہ دونوں مثالیں عصر کے ہاتھوں مذہب کی شکست کی مثالیں ہیں

تحریر ۔ شاہ نواز فاروقی
یہ تحریر میں نے اخبار جسارت میں پڑھی تھی لیکن وہاں سے ہٹا دی گئی ہے اور اب یہاں موجود ہے

ہمارے ذہن کب آزاد ہوں گے ؟

ہمارے اربابِ اختيار انگريزی دانی پر تُلے رہتے ہيں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ انگريزی کے بغير ترقی نہيں ہو سکتی ۔ ہم لوگ “اپنے ملک پر انگریزوں کے قبضہ سے پہلے کے نظام” کو کوستے اور “ہمارے لئے انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی نظام” کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ۔ زیادہ تر تو کہتے ہیں کہ مسلمان مقبرے بناتے رہے اور انگریز یونیورسٹیاں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قدیم نظام کے مطابق مسجد ہی علم کا گھر ہوا کرتی تھی ۔ مسجد ہی میں دین اور دنیاوی علم سیکھائے جاتے تھے ۔ جس مسجد میں اعلٰی تعلیم اور تحقیق کا کام ہوتا تھا اسے جامعہ یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ حکومتِ وقت ان مساجد کے نام جاگیریں کر دیتی تھی تا کہ جامعات خود کفیل ہوں ۔ حاکم تحائف بھی دیتے تھے اور جو دولتمند طالب علم آتا وہ اپنی خوشی سے بھاری معاوضہ دیتا جسے فی زمانہ ہم فِیس کہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نویں سے چودہویں صدی کے مسلمان سائنس دان دینی عالم بھی تھے ۔ ماضی قریب میں یونانی طِب کے معروف ماہر حکیم اجمل خان (1868ء تا 1927ء) نے بھی پہلے مسجد میں تعلیم حاصل کی جس میں اسلامی تعلیم مع حفظِ قرآن اور عربی شامل تھے ۔ پھر اپنے خاندانی علم یونانی طِب کی طرف راغب ہوئے ۔ خیال رہے کہ ہندوستان میں 1857ء میں انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی تھی ۔ لیکن حکیم اجمل خان نے انگریزوں کے بنائے نصاب کے مطابق تعلیم حاصل نہیں کی تھی

گرجا جسے انگریزی میں چرچ کہتے ہیں بھی کسی زمانہ میں تعلیم کا گھر تھا ۔ جب سرمایہ داروں کی حکمرانی ہو گئی تو گرجا سے علم کی روشنی چھین لی گئی تھی ۔ یقین نہ آئے تو تیرہویں سے اٹھارہویں صدی کے عیسائی سائنس دانوں کی سوانح کا مطالعہ کیجئے

اب ملاحظہ ہو ایک تاریخی حقیقت جو شائد صرف چند ایک پاکستانیوں کے علم میں ہو گی ۔ ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون لارڈ میکالے (Lord Macaulay) کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835ء کے خطاب سے اقتباس
” میں ہندوستان کے طول و عرض میں گیا ہوں ۔ میں نے ایک بھی آدمی نہیں دیکھا جو گداگر ہو یا چور ہو ۔ ایسی خشحالی میں نے اس ملک میں دیکھی ہے ۔ لوگوں کے اخلاق بہت بلند ہیں ۔ ایسے اعلٰی معیار کے لوگ ہیں کہ ہم انہیں کبھی مغلوب نہیں کر سکتے جب تک ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو نہیں توڑ دیتے جو کہ ان کی روحانی اور ثقافتی اساس ہے ۔ چنانچہ میں تجویز کرتا ہوں کہ ان کے قدیم تعلیمی نظام کو تبدیل کر دیا جائے کیونکہ اگر لوگ سمجھیں کہ وہ سب کچھ جو غیرملکی اور انگلش ہے وہ ان کے اپنے نظام سے بہتر ہے تو خوداعتمادی اور فطری ثقافت کو چھوڑ دیں گے اور وہ وہی بن جائیں گے جو ہم بنانا چاہتے ہیں یعنی ایک صحیح معنوں میں مغلوب قوم“ ۔
Macaulay

اگر ترقی انگريزی پڑھنے سے ہو سکتی ہے تو پھر جرمنی ۔ فرانس ۔ چين ۔ جاپان ۔ ملائشيا وغيرہ نے کيسے ترقی کی ؟ وہاں تو ساری تعليم ہی ان کی اپنی زبانوں ميں ہے ۔ بارہويں جماعت ميں ہمارے ساتھ 5 لڑکے ايسے تھے جو کہ خالص انگريزی سکول سينٹ ميری (Saint Marry) ميں پڑھ کے آئے تھے ۔ ان ميں سے 3 لڑکے بارہويں کے امتحان ميں فيل ہوگئے ۔ اور باقی دو بھی انجنيئرنگ يا ميڈيکل کالج ميں داخلہ نہ لے سکے ۔ جب کہ ہمارے کالج کے اُردو ميڈيم والے 12 لڑکوں کو انجنيئرنگ کالجوں ميں داخلہ ملا ۔ ميڈيکل کالجوں ميں بھی ہمارے کالج کے کئی لڑکوں اور لڑکيوں کو داخلہ ملا جو سب اُردو میڈیم کے پڑھے ہوئے تھے ۔ کمال یہ کہ ان میں 2 لڑکے انگریزی کے مضمون میں بھی فیل ہوئے تھے

ہماری قوم کی پسماندگی کا اصل سبب ہر دوسرے تيسرے سال بدلتے ہوئے نظامِ تعليم کے علاوہ تعليم کا انتہائی قليل بجٹ اور ہمارے ہاں اساتذہ کی تنخواہيں باقی سب اداروں سے شرمناک حد تک کم ہونا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں سوائے غیر ملکی ملکیت میں چلنے والے تعلیمی اداروں کے سب تعليمی ادارے قوميا کر ان ميں سياست کی پنيری لگا دی گئی اور ملک ميں تعليم کا تنزل تیزتر ہو گيا ۔ پھر انگريزی اور بين الاقوامی معيار کے نام پر مہنگے تعليمی ادارے بننا شروع ہوئے اور سرکاری تعلیمی ادارے یتیم بنا دیئے گئے

محبت میں ؟ یا ۔ سیاست میں ؟

سُنا تھا کہ ” محبت اور جنگ“ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے (All is fair in love and war)لیکن عملی طور پر دیکھا یہ ہے کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے ۔ زیرِ نظر ہیں 2 نو آموز سیاستدان ۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سابق کمانڈو اور عمران خان قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ۔ پہلے بات عمران خان کی

عمران خان فرماتے ہیں کہ نواز شریف ۔ الیکشن کمیشن ۔ اعلٰی عدالتوں اور جنگ جیو گروپ نے دھاندلی کر کے 11 مئی 2013ء کو ہونے والے الیکشن میں عمران خان کو ہرا دیا

کچھ غیر سیاسی لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کو تو اپنی جیت کا جشن منانا چاہیئے کہ اُنہوں نے قومی اسمبلی میں ملک کی تیسری بڑی پارٹی کی حیثیت حاصل کر لی ۔ جن نشتوں سے ہارے ہیں اگر وہاں دھاندلی ہوئی تھی تو وہاں دھاندلی کیوں نہ ہوئی جہاں تحریکِ انصاف جیتی ؟ عجب بات یہ ہے کہ ملک میں حکومت تو پیپلز پارٹی کی تھی تو دھاندلی نواز شریف نے نواز شریف نے کیسے کی ؟ اور جس کی حکومت تھی اُس کی زیادہ تر نشستیں تو عمران خان لے گیا

کیا 11 مئی 2014ء کو ڈی چوک کے پاس تیرہ چودہ ہزار کا جلسہ کرنے سے یہ مبینہ دھاندلی ختم ہو جائے گی یا اس سے موجودہ حکومت بھاگ جائے گی یا بھگا دی جائے گی ؟ اس جلسے پر تحریکِ انصاف کی اور حکومت کی وساطت سے عوام کا جو روپیہ خرچ ہوا کیا وہ قومی نقصان نہیں ؟

عمران خان شاید سیاست ۔ میڈیا ۔ الیکشن کمیشن اور اعلٰی عدالتوں کو اُسی طرح چلانا چاہتے ہیں جس طرح کرکٹ چلاتے تھے کہ جب جاوید میانداد دو ورلڈ ریکارڈ بنانے کو تھا تو بغیر وجہ میچ ڈکلیئر کر دیا اور پھر جب جاوید میانداد کا کھیل عروج پر تھا اُسے ٹیم سے علیحدہ کر دیا ۔ کہیں عمران خان کی کپتانی میں فرق نہ آ جائے

اب بات سابق آمر پرویز مشرف کی ۔ ملک سے بھاگنے کیلئے عارضہ قلب کا بہانہ کارساز نہ ہونے کے بعد 6 مئی کو جو میڈیکل رپورٹ منظرِ عام پر لائی گئی ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے
” پرویز مشرف کی ریڑھ کی ہڈی کے دو مُہروں میں فریکچر ہے جس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں اور صرف دبئی ۔ شمالی امریکہ اور یورپ میں ممکن ہے ۔ اسلئے سندھ ہائیکورٹ پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے“۔

1 ۔ رپورٹ میں سرِ فہرست اور سب سے سِنیئر ہیں دبئی کے ڈاکٹر امتیاز ہاشمی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر امتیاز ہاشمی ریڑھ کی ہڈی کے ماہر مانے جاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک سے باہر جانا ضروری ہے ۔ ڈاکٹر امتیاز ہاشمی ہفتے میں 3 دن دبئی میں اور 3 دن کراچی میں علاج اور آپریشن وغیرہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ پرویز مشرف ڈاکٹر امتیاز ہاشمی سےکراچی میں علاج اور آپریشن کروا سکتے ہیں ۔
حال ہی میں میرے ایک قریبی عزیز کی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ڈاکٹر امتیاز ہاشمی نے کراچی میں کیا تھا ۔ مریض کو لاہور میں ڈاکٹروں نے ڈاکٹر امتیاز ہاشمی سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ مریض وقت لینے کے بعد لاہور سے کراچی پہنچا تھا

2 ۔ اگر ریڑھ کی ہڈی کا کوئی آپریشن ممکن ہے تو پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے ۔ کیوں ؟ آگے پڑھیئے

مجھے 2001ء یا 2002ء میں کمر میں شدید درد اُٹھا ۔ میں نے عام ڈاکٹر کو دکھایا ۔ اُس نے درد کی گولیاں کھانے کو اور بیلاڈونا پلاسٹر کمر پر لگانے کا کہا ۔ میں 6 ماہ سے زائد یہ علاج کرتا رہا اور مُڑنے ۔ بیٹھنے اور اُٹھنے میں بہت احتیاط شروع کر دی ۔ میں 2004ء میں کراچی چلا گیا ۔ 10 جنوری 2005ء کو اچانک میری کمر اور ٹانگ میں شدید درد شروع ہوا جو ناقابلِ برداشت تھا ۔ مجھے آغا خان ہسپتال لیجایا گیا جہاں درد کو کم کرنے کا ٹیکہ ہر گھنٹہ بعد لگایا جاتا رہا اور ایم آر آئی کرایا گیا ۔ وہاں کے ڈاکٹر کا خیال تھا کہ آپریشن کیا جائے ۔ میں مزید 2 اچھے نیورولوجِسٹس (Neurologists) کی رائے لینا چاہتا تھا ۔ سو ہسپتال سے فارغ ہونے کے کچھ دن بعد مجھے کراچی کے مشہور نیورو فزیشن کے پاس لیجایا گیا جو اُن دنوں پی ای سی ایچ ایس میں کلنک کرتے تھے ۔ اُنہوں نے آپریشن نہ کرانے کا کہا اور درد کم ہونے کے بعد کچھ ورزشیں کرنے کا کہا جو میں آج تک کرتا ہوں

میں نے 20 فروری 2005ء کو درد کم ہوتا محسوس کیا تو اُسی دن اسلام آباد پہنچ گیا ۔ میری بڑی بہن اور سب سے چھوٹا بھائی ڈاکٹر ہیں ۔ بہن پیتھالوجسٹ اور بھائی سرجن ہے ۔ بھائی اپنے ایک ساتھی نیوروسرجن جو راولپنڈی میڈیکل کالج میں پروفیسر اور ہیڈ آف نیورولوجی ڈیپارٹمنٹ تھے اور راولپنڈی اسلام آباد میں بہترین نیوروسرجن سمجھے جاتے تھے کے پاس لے گیا ۔ اُس نے ایم آر آئی کا مطالعہ کر کے کہا
” بھائی جان ۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ آپریشن نہیں کرایا ۔ آپ کی ریڑھ کی ہڈی کا ایک مُہرا کبھی فریکچر ہوا ہو گا جس کے درست ہونے پر اُس کے اندر باہر کیلسیم (Calcium) جم گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے آپ کی سپائینل کورڈ (Spinal cord) دب رہی ہے جو درد کی وجہ ہے ۔ آپ کو آئیندہ کچھ احتیاطیں کرنا ہیں ۔ نیوروفزیشن کی بتائی ہوئی ورزشیں کریں اور میتھی کوبال 500 (Methycobal 500) ایک گولی دن میں 3 بار کھاتے رہیں ۔ اس سے آپ کے اعصاب (nerves) مضبوط ہوں گے اور درد کم ہو گا”۔

اس نیوروسرجن کے مطابق مہرہ فتیکچر ہونے کی صورت میں ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن انتہائی خطرناک ہوتا ہے ۔ آپریشن کے بعد بہتری کی اُمید 40 فیصد بھی نہیں ہوتی البتہ ٹانگیں بے کار ہونے کا احتمال بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ اُس نے یہ بھی بتایا تھا کہ اگر فریکچر ہونے کے فوراً بعد بھی پتا چل جاتا تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا صرف احتیاط کرنے سے صورتِ حال آج سے بہتر ہو سکتی تھی

میں باقاعدہ میتھی کوبال کھا رہا ہوں اور ورزش بھی کرتا ہوں جو فرش پر لیٹ کر کرنا ہوتی ہیں ۔ ڈاکٹر کی ہدائت کے مطابق سونے کیلئے میں نے ارتھوپیڑِک گدیلہ اور تکیہ (orthopaedic mattress and pillow) کراچی ہی میں خرید لیا تھا پھر فروری میں اسلام آباد آنے پر یہاں بھی خرید لئے تھے
انگوٹھے کے سوا میرا داہنا پاؤں ہر وقت سُن (numb) رہتا ہے ۔ اگر میری داہنی ٹانگ پر وزن پڑے تو میں گِر جاتا ہوں ۔ کبھی انگوٹھا بھی اور ٹانگ کا نیچلا حصہ سُن ہو جاتا ہے ۔ کبھی کبھار پوری ٹانگ اور کمر میں شدید درد شروع ہو جاتا ہے لیکن ناقابلِ برداشت نہیں ہوتا ۔ میں ایسی صورت میں فرش پر لیٹ جاتا ہوں اور ڈاکٹر کی بتائی ہوئی ایک خاص ورزش کرتا ہوں ساتھ درد کم کرنے کی کوئی اچھی دوائی بھی کھاتا ہوں
اس حال میں 9 سال اور 4 ماہ گذر گئے ہیں ۔ اللہ کا شکر گذار ہوں کہ بہتوں سے بہتر حال میں ہوں