پِیٹھ میں چھُرا گھونپنا

ہمیں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں محاورے پڑھائے گئے تھے تو میں یہ سمجھا تھا کہ جنگ میں یا آپس میں دُشمنی ہو تو کوئی سامنے سے حملہ کرنے کی بجائے پیچھے سے آ کر حملہ کر دے تو اُسے کہتے ہوں گے ”پِیٹھ میں چھُرا گھونپنا“۔
بی ایس سی انجنیئرنگ پاس کر لینے کے بعد 1962ء میں ملازمت شروع کی تو سمجھ میں آیا کہ دُشمن نہیں بلکہ یہ فعل دوست یا دوست کے بھیس میں دُشمن کرتا ہے ۔ اپنے ساتھ بِیتے کئی ایسے واقعات میں سے 4 بطور نمونہ نذرِ قلم کر رہا ہوں
کیا منافقت اس سے کسی فرق چیز کا نام ہے ؟

1 ۔ دسمبر 1962ء سے اپریل 1963ء تک 5 ماہ میں گورنمنٹ پالی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ راولپنڈی میں سینیئر لیکچرر تھا ۔ ایک دن میں صبح سویرے پرنسپل صاحب کے دفتر کے پاس سے گذر کر اپنے دفتر کی طرف جا رہا تھا کہ ایک سینیئر لیکچرر مسٹر ”م“سامنے سے آتے ہوئے ملے جنہوں نے گارڈن کالج میں گیارہویں جماعت میں ہمیں فزکس پڑھائی تھی ۔ پوچھنے لگے ”آپ پرنسپل صاحب کو مل کر آ رہے ہیں ؟“ میں نے ”نہیں“ کہا اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلا گیا ۔ پندرہ بیس منٹ بعد ایک دوسرے سینیئر لیکچرر جو میرے دوست تھے میرے پاس آئے اور پوچھا ”آج صبح دیر ہو گئی تھی کیا ؟“ میرے ”نہیں“ کہنے پر بولے ”مجھے پرنسپل صاحب سے کام تھا تو صبح پہنچتے ہی اُن کے دفتر میں چلا گیا تھا ۔ بعد میں وہاں مسٹر ”م“ نے آ کر پوچھا کہ کیا بھوپال صاحب آج چھٹی پر ہیں ؟ میں نے سارا انسٹیٹیوٹ دیکھ لیا مگر نہیں ملے“۔

2 ۔ میں نے مئی 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں بطور اسسٹنٹ ورکس منیجر ملازمت اختیار کر لی ۔ پہلے 6 ماہ ہمیں مختلف فیکٹریوں میں مشینوں اور ان کے کام کے مطالعہ کیلئے بھیجا گیا تھا ۔ میں پہلے ماہ سمال آرمز گروپ میں تھا ۔ میرے ساتھ بھرتی ہونے والے 9 میں سے ایک مسٹر ”خ“ جو میری دوستی کا دم بھرتے تھے ایک قریبی فیکٹری میں تھے ۔ اُن کا ٹیلیفون آیا ”جلدی آؤ تم سے کوئی ضروری بات کرنا ہے“۔ میں نے کہا ”چھٹی کے بعد ملوں گا“۔ بولے ”میں نے چائے منگوائی ہے اور چائے کے ساتھ کھانے کیلئے باہر سے کچھ منگوایا ہے ۔ اتنی بے مروّتی تو نہ کرو“۔ میں اپنے ورکس منیجر کے دفتر گیا ۔ وہ نہیں تھے تو میں دوسرے مجھ سے سینیئر اسسٹنٹ ورکس منیجر کو بتا کر چلا گیا ۔ وہاں پہنچا تو تو مجھے بٹھایا ساتھ ہی چائے آ گئی مگر مسٹر ”خ“ مجھے یہ کہہ کر دوسرے دفتر میں چلا گیا ”تم چائے پینا شروع کرو میں ضروری ٹیلیفون کر کے آتا ہوں“۔ میں نے چائے نہیں پی اور اُس کا 10 منٹ انتظار کرنے کے بعد واپس آ گیا ۔ میں 20 منٹ میں واپس پہنچ گیا ۔ واپس آنے پر سیدھا ورکس منیجر کے پاس گیا ۔ اُنہوں نے پوچھا ”تم کہاں تھے ؟“ میرے بتانے پر بولے ”اس دنیا میں کئی ایسے ہیں جنہیں میری شکل پسند نہیں ۔ اسی طرح ایسے بھی ہوں گے جنہیں تمہاری شکل پسند نہیں ۔ ہر آدمی کو دوست مت سمجھو“۔ میں حیران ہو کر اُن کی طرف دیکھنے لگا تو اپنی گھڑی دیکھ کر بولے ”10 منٹ قبل مسٹر ”خ“ کا ٹیلیفون آیا تھا کہ مجھے اجمل سے ضروری کام ہے میں آدھے گھنٹے سے اُسے ڈھونڈ رہا ہوں لیکن وہ مل نہیں رہا ۔ کیا وہ چھٹی پر ہے ؟“

3 ایک انجنیئر مسٹر ”ب“ صاحب نے پی او ایف میں ملازمت شروع کی ۔ اُنہیں 2 سال بعد اسسٹنٹ منیجر بنایا جانا تھا لیکن 3 سال سے زیادہ گذرنے کے بعد بھی نہ بنایا گیا تھا ۔ اُس نے مجھ سے مدد کی درخواست کی ۔ میری محنت اور کارکردگی کی وجہ سے ٹیکنیکل چیف مجھ سے خوش تھے ۔ کام بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے میرے لئے ایک اسسٹنٹ کی منظوری ہو چکی تھی ۔ میں نے ایک اچھا موقع دیکھ کر اُن سے بات کی جس کے نتیجے میں پرانی تاریخ یعنی 2 سال کے بعد سے مسٹر ”ب“ کی ترقی ہو گئی اور اُسے ہماری فیکٹری میں تعینات کر دیا گیا ۔ مسٹر ”ب“ میری دوستی کا دم بھرنے لگے
پھر 1973ء میں ہماری فیکٹری سے چوری ہوئی تو مسٹر ”ب“ کو گھر سے اُٹھا کر کسی تفتیشی مرکز میں رکھ دیا گیا ۔ میں نے اپنے اور بیوی بچوں کے مستقبل حتٰی کہ اپنی جان کی بازی لگا کر قانونی چارہ جوئی اور دیگر اقدامات کئے اور اللہ کے فضل سے اُنہیں 5 دن بعد رہا کر دیا گیا ۔ میں اُن کے گھر ملنے گیا تو مسٹر ”ب“ نے کہا ”میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔ جو آپ نے میرے لئے کیا ۔ آپ کی جگہ میں ہوتا تو نہیں کر سکتا تھا“۔
اس کے بعد ذاتی مفاد کی خاطر مسٹر ”ب“ میرے خلاف من گھڑت کہانیاں بڑے باس تک پہنچاتے رہے جس کے نتیجے میں بڑے باس نے جو پہلے ہی غلط احکام نہ ماننے کی وجہ سے مجھ سے ناراض رہتے تھے کئی سال میری ترقی روکے رکھی جو اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے ملی

4 ۔ پی او ایف میں ہر آفیسر کی سالانہ خُفیہ رپورٹ کی ابتداء اُس کا سیئنر آفیسر کرتا تھا ۔ اس فارم میں پہلا صفحہ وہ آفیسر خود پُر کرتا تھا جس کے متعلق رپورٹ ہوتی تھی ۔ میں پچھلے 8 سال سے جرمنوں کے ساتھ کام کر رہا تھا اُن کی جرمن سمجھنا اور بولنا پڑتی تھی ۔ کئی ڈرائینگز بھی جرمن زبان میں ہوتی تھیں ۔ رپورٹ میں ایک خانہ تھا کہ کون کونسی زبان جانتے ہو ۔ میں نے لکھا کہ جرمن صرف بول لیتا ہوں ۔ میرے سینیئر افسر مسٹر” گ“ نے مجھے بُلا کر کہا ”دو لفظ جرمن کے بول لیتے ہو تو یہاں لکھ دیا ہے ۔ اسے کاٹو“۔ میں نے کاٹ دیا ۔ دوسرے دن ایک مسٹر ”ع“ جو پی او ایف میں بھرتی ہونے سے لے کر منیجر ہونے تک میرے ماتحت رہے تھے میرے پاس آئے ۔
میرے پوچھنے پر بتایا کہ ”باس مسٹر ” گ“ نے بُلایا تھا”۔
میں نے وجہ پوچھی تو بولے ”کہہ رہے تھے کہ رپورٹ فارم پر لکھو کہ تم جرمن بولنا ۔ لکھنا اور پڑھنا جانتے ہو ۔ میں نے لکھ دیا“۔
میں نے کہا ”آپ تو جرمن کا ایک حرف بولنا بھی نہیں جانتے اور آپ نے لکھ دیا“۔
بولے ”باس نے کہا تھا سو میں نے لکھ دیا ۔ مجھے کیا فرق پڑتا ہے“۔
جرمن جاننے کی بناء پر مسٹر ”الف“ کو جرمنی میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور ٹیکنیکل اتاشی مقرر کر دیا گیا جبکہ اس اسامی کیلئے میرے نام کی 3 سال قبل منظور دی گئی تھی جب مجھ سے سینیئر افسر کو تعینات کیا گیا تھا

بلاگ 2014ء میں کیسا رہا

پہلے نئے عیسوی سال کیلئے میری سادہ سی دعا
اے کُل کائنات کے خالق و مالک ۔ اس کا نظام آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ ِاس دنیا سے جھُوٹ اور منافقت کو اُٹھا لے

ورڈ پریس نے پہلی بار میرے اس بلاگ کی سال بھر کی کارکردگی کے کچھ اعداد و شمار بھیجے ہیں ۔ ملاحظہ فرمایئے

سال 2014ء میں یہ بلاگ75480بار دیکھا گیا
سب سے مصروف دن 11 فروری 2014ء تھا جس دن 1634 قارئین نے یہ بلاگ دیکھا
سال 2014ء کے قارئین کا تعلق 65 ممالک سے تھا ۔ سب سے زیادہ قارئین کا تعلق چیک ریپبلِک ۔ پاکستان اور امریکہ سے تھا

سب سے زیادہ مندرجہ ذیل تحاریر دیکھی گئیں

ڈاکٹر طاہر القادری ۔ وضاحت ۔ 1237 بار دیکھی گئی
اُردو زبان کی ابتداء اور ارتقاء ۔ 1222 بار دیکھی گئی
بلاگر ۔ سالگرہ ۔ فوائد اور نقصانات ۔ 1194 بار دیکھی گئی
چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ عزت ۔ 1044 بار دیکھی گئی
اُردو قومی زبان کیسے بنی ۔ بہتان اور حقیقت ۔ 1028 بار دیکھی گئی
عورت اور مرد ۔ 1009 بار دیکھی گئی
پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی ۔، 1003 بار دیکھی گئی

میرے بچے

میرے 2 بیٹے اور ایک بیٹی ہے
مجھے طعنہ دیا جاتا ہے
”اپنے بچے مُلک سے باہر بھیج دیئے ہیں اور دوسروں کو نصیحت کرتا ہے“۔
ایک دو ایسے بھی ہیں جنہوں نے مجھے منافق کہا

”اپنے بچے مُلک سے باہر بھیج دیئے ہیں اور دوسروں کو نصیحت کرتا ہے“۔
ایک دو ایسے بھی ہیں جنہوں نے مجھے منافق کہا

میں نے کسی کو ملک سے باہر جانے سے منع نہیں کیا ۔ صرف محبِ وطن بننے کی تلقین کرتا ہوں جو ملک سے باہر رہ کر بھی ہو سکتا ہے
سوال یہ ہے کہ ”کیا روزی کمانے کیلئے مُلک سے باہر جانے والا آدمی محبِ وطن نہیں رہتا ؟“
دوسری بات کہ ہمارے ہاں اُوپر سے لے کر نیچے تک الزامات لگانے کو شاید اعلیٰ تعلیمی اور عقلی معیار سمجھا جانے لگا ہے ۔ اب تو کچھ ایسا احساس بیدار کیا گیا ہے کہ حُب الوطنی کا ثبوت دوسرے پر الزامات لگانا ہے
کبھی کسی نے کوشش نہیں کی کہ الزام لگانے سے پہلے کچھ حقائق معلوم کر لے
۔سیانے کہتے ہیں کہ دوسرے کو بُرا کہنے سے قبل سوچو کیونکہ ہو سکتا ہے دوسرا عملی طور پر آپ سے بہتر ہو

میرے بڑے بیٹے زکریا نے ایف ایس سی (ہائرسیکنڈری) کے امتحان میں میرٹ سکالرشپ حاصل کیا پھر انجنیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں چاروں سال اوّل رہا ۔ قائد اعظم سکالرشپ اوّل آنے والے کو ملتا ہے ۔ یہ سکالرشپ صوبہ سندھ کے رہائشی کو دیا گیا جو کسی امتحان میں اوّل نہیں آیاتھا البتہ اُس کے میٹرک کے امتحان میں زکریا سے زیادہ نمبر تھے ۔ (بینظیر بھٹو کا دورِ حکومت 19 اکتوبر 1993ء تا 5 نومبر 1996ء)
اُس نے ایک سال تک سکالرشپ سے فائدہ حاصل نہ کیا ۔ زکریا نے اُس کو ٹیلیفون کیا۔ وہ زکریا کے ساتھ بہت بُری طرح پیش آیا اور یہاں تک کہا ”میں شکالرشپ سے مستفید ہوں یا اسے ضائع کر دوں ۔ میری مرضی ۔ تُم کون ہوتے ہو ۔ تُم نے مجھے ٹیلیفون کرنے کی جُراءت کیسے کی“۔ اور پھر وہ سکالرشپ ضائع ہو گیا

ایس اینڈ ٹی سکالرشپ آیا تو زکریا کے آجر (employer) نے اس پر سفارش لکھ کر واپس کرنے کی بجائے فارم ہی غائب کر دیا ۔ رابطہ کرنے پر کہا کہ ”ہم خود ایک سال کے اندر پی ایچ ڈی انجنیئرنگ کیلئے امریکہ بھیجیں گے ۔ امریکہ کی معیاری یونیورسٹی میں داخلہ لے لو ۔ جو خرچہ ہو گا ہم دے دیں گے“۔ زکریا نے داخلہ لے لیا جس پر 34000 روپے خرچ ہوئے جو ضائع گئے کیونکہ 3 سال تک نہ بھیجا گیا جبکہ ایرے غیرے بھیجے جاتے رہے ۔ زکریا نے کہا کہ ”مجھے آپ فارغ کر دیں ۔ میں مزید ملازمت نہیں کرنا چاہتا“ تو فٹا فٹ سکالرشپ پر ایم ایس انجنیئرنگ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ۔ میں نے سربراہ ادارہ (کراچی کے رہائشی) سے رابطہ کیا جس نے میرے بہنوئی (جو اُن دنوں ممبر پی او ایف بورڈ تھے) کی وساطت سے میری منّت سماجت کی تھی کہ زکریا کو اس ادارے میں ملازمت کا مشورہ دو ں اور وہ اُسے ایک سال کے اندر پی ایچ ڈی انجنیئرنگ کیلئے بھیجیں گے ۔ اُس نے بتایا کہ ”کچھ رولز آڑے آ گئے ہیں ۔ زکریا کے ایم ایس کر کے آنے کے ایک سال بعد اُسے پی ایچ ڈی کیلئے بھیج دیں گے“۔

دوبارہ داخلے کیلئے درخواستیں بھیجیں ۔ محکمہ نے پہلے والا 34000 روپیہ نہ دیا ۔ دوسری بار کے اخراجات اور 3 ماہ کا تعلیمی خرچہ دے کر ستمبر 1997ء میں امریکہ بھیج دیا اور کہا کہ ہر 3 ماہ بعد خرچہ بھیج دیا جائے گا لیکن اس کے بعد ایک پیسہ بھی نہ بھیجا ۔ زکریا دسمبر 1997ء سے جون 1998ء تک بار بار ای میلز بھیجتا رہا مگر کوئی جواب نہ دیا گیا ۔ زکریا مالی اور ذہنی پریشانیوں میں مبتلاء رہا اور تنگ آ کر جون 1998ء میں مستعفی ہو گیا ۔ اُس وقت تک وہ عارضی ملازمت پر تھا ۔ اس کے 2 سال 3 ماہ بعد یعنی ستمبر 2000ء میں حادثاتی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ محکمہ نے جولائی 2000ء میں زکریا کے خلاف راولپنڈی کی عدالت میں دعویٰ دائر کیا ہوا تھا جبکہ ادارے کو معلوم تھا کہ ہم اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔ بیلف کو شاید پیسے کھلا کر اس کے سمن ہم تک نہ پہنچنے دیئے گئے تھے ۔ میں اگلی پیشی پر عدالت پہنچ گیا ۔ دعوے کی نقل ملنے پر معلوم ہوا کہ زکریا سے دیئے گئے پیسے واپس مانگنے کے علاوہ 50 لاکھ ڈالر ہرجانہ مانگا گیا ہے ۔ راولپنڈی کچہری ہمارے گھر (اسلام آباد) سے 20 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور راستہ میں ٹریفک بہت ہوتا ہے اسلئے کچہری کے چکروں سے بچنے کیلئے میں نے لکھ کر دے دیا کہ ”وصول کی ہوئی رقم ہم واپس کرنے کو تیار ہیں مگر جرمانہ بے بنیاد ہے“ ۔ اس کے بعد میں ہر ماہ تاریخ پر حاضر ہوتا رہا لیکن ادارے والوں کی طرف سے اوّل کوئی حاضر نہ ہوتا اور حاضری لازمی ہو جانے پر کوئی انٹ شنٹ درخواست جمع کرا دی جاتی ۔ ڈھائی تین سال بعد جج تبدیل ہو جاتا تو پھر پہلے والی گردان دہرائی جاتی ۔ آخر 2010ء میں جج نے فیصلہ کر دیا کہ ”صرف لیا ہوا پیسہ واپس کیا جائے“۔ جو ہم نے بڑی مشکل سے 4 ماہانہ اقساط میں ادا کیا

جو آدمی مقروض ہو گیا ہو اور اس کے پاس واپسی کے ٹکٹ کے پیسے بھی نہ ہوں اور باپ بھی ریٹائر ہو چکا ہو وہ اس کے سوا کیا کر سکتا ہے کہ جہاں ہے وہاں اگر اُسے روزی کمانے کا جائز ذریعہ مل رہا ہو تو اس سے مستفید ہو

میرے چھوٹے بیٹے فوزی نے آئی بی اے کراچی سے صبح کے کورس میں ایم بی اے کیا ۔ اسلام آباد میں بغیر سفارش مناسب ملازمت ممکن نہ ہوئی تو اُس نے معمولی ملازمت شروع کی ۔ میں نے اعتراض کیا تو بولا ”ابو جی ۔ کچھ ملے گا ہی ۔ اگر فارغ رہا تو بے کار ہو جاؤں گا“۔
پھر ایک بہتر ملازمت ملی تو چند ماہ بعد پرویز مشرف کی حکومت آ گئی ۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ہر صوبے سے ایک آدمی تھا ۔ حکومت نے سب لوگ تبدیل کر کے صرف کراچی والے رکھ لئے ۔ کراچی والوں کو اسلام آباد شاید پسند نہ آیا ۔ ملازمین کو فارغ کر دیا اور دفتر بند کر دیا
اس کے بعد فوزی نے برطانیہ سے ایم ایس سی فناس پاس کیا ۔ اسلام آباد میں ایک غیرملکی ادارے میں اسامی نکلی ۔ ٹیسٹ انٹرویو ہوئے ۔ میرٹ کے لحاظ سے فوزی اول رہا ۔ سینیئر وائس پریزیڈنٹ جس کے ماتحت کام کرنا تھا اُس نے منظوری دے دی لیکن پریزیڈنٹ صاحب کراچی کے تھے ۔ اُنہوں نے کراچی سے تعلق رکھنے والے کو رکھ لیا
کچھ ماہ بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی ۔ 3 سال بعد ترقی بھی ہوئی ۔ اس کے بعد وہی کہ اگلی ترقی کیلئے سفارش نہ تھی ۔ پھر دبئی میں ملازمت مل گئی اور 2008ء سے دبئی میں ہے

بیٹی نے کلِنیکل سائیکالوجی میں ایم ایس سی کیا ۔ پھر پوسٹ ماسٹرز ڈپلومہ کیا ۔ نفسیاتی مریضوں کا علاج کرنا چاہا تو معلوم ہوا معالج مریض کو ڈرا کر رقم اکٹھی کرتا ہے اور مریض کی تسلّی بھی ایسے معالج سے ہوتی ہے ۔ سو یہ کام چھوڑ دیا ۔ کمپیوٹر کی ماہر تھی ۔ گھر سے ہی مختلف کمپنیوں کا ایڈمنسٹریشن کا کام شروع کیا ۔ ہوتے ہوتے غیر ملکی کمپنیوں تک پہنچی اور دفتر میں جانا شروع کیا ۔ مالی بے ضابطگی دیکھ کر کمپنی چھوڑی ۔ دوسری میں کام ملا پھر تیسری ۔ ہر جگہ مالی بے ضابطگی معمول کی بات تھی جس کے باعث زندگی مُشکل میں رہی ۔ جب کمپنی میں کام کم ہو جاتا پہلے میری بیٹی اور اس جیسوں کو فارغ کیا جاتا ۔ جو اپنی جیبیں بھرتے اور صاحب لوگوں کو خوش رکھتے وہ ٹِکے رہتے
آخری کمپنی میں بیٹی پرفارمینس آڈیٹر تھی ۔ آڈٹ کرنے پر بھاری مالی بے ضابطگی پائی گئی جس کی رپورٹ دے دی گئی ۔ کچھ ماہ بعد بیٹی کی تنخواہ بہت کم کر دی گئی کہ کام کم ہو گیا ہے چنانچہ بیٹٰی نے ملازمت چھوڑ دی اور اکتوبر 2012ء میں بھائی کے پاس دبئی چلی گئی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اپنا عکس

آپ کو جو کچھ دوسرے میں نظر آتا ہے
وہ آپ کی اپنی سوچ یا شخصیت ہے
اگر آپ کو دوسرے میں بہت اچھی چیز نظر آئے گی
وہ دراصل آپ کی اپنی اچھائی ہو گی

That ordinary people can carry out evil deeds led Professor Arendt to suggest that the “banality of evil” was a critical problem that had to be recognised as a modern condition. The Israeli war with Gaza provided riveting visuals of the bombardment of homes, shops, hospitals, schools, several of which served as United Nations’ “safe havens,” that killed and wounded thousands. Israel responded to Hamas’ rain of rockets by bombing and invading Gaza, attacking urban living areas where Hamas fighters were alleged to be operating with a network of tunnels.
The Palestinian death toll in Gaza stands at more than 2,000 with nearly 10,000 wounded. More than 300 children have died. Included in the carnage were 26 members of the Abu Jame’ family, who were killed in a single strike. Sixty-four Israeli soldiers and three civilians have died. When U.N. observers denied that there were any weapons in their smashed shelters, the Israeli reply was that they would investigate the shelling.
تفصیل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Banal “

بلاگستان کی پی پی

میرا معمول ہے کے صبح سویرے پھر دوپہر اور پھر شام کو بلاگستان کھول کر نظر ڈالتا ہوں کیا نیا ہے

آج جو صبح سویرے کھولا تو پی پی (PP) نظر پڑی ۔ آگے بڑھا تو اور پی پی (PP) ۔ آگے اور پھر اور پی پی (PP) ۔

میں بھی ہمت نہ ہارا اور آگے بڑھتا گیا حتٰی کہ وہ تحاریر شروع ہو گئیں جو گذشتہ شام کو دیکھی تھیں

چنانچہ اس حد تک مبلغ ڈیڑھ درجن پی پی (PP) یعنی پوری 18 عدد پی پی (PP) تحاریر گِن چکا تھا نصف جن کے 9 ہوتے ہیں

شاید اسلئے کہ آج پی پی (PP) کی ایک بڑی لیڈر کا یومِ وصال ہے

اس وقت تک میری پی پی (PP) بول گئی

دہشتگردی کا ذمہ دار کون ؟

ریاض شاہد صاحب کی تحریر پر میرے تبصرے کے حوالے سے ڈاکٹر منیر عباسی صاحب نے تاریخی حقائق لکھے ہیں جو ہمیں اخباروں ۔ رسالوں اور کتابوں میں نہیں ملتے ۔ میں ڈاکٹر صاحب کا تبصرہ نقل کر رہا ہوں ۔ جس کے بعد ایک نکتے کی کچھ وضاحت درج ہے

در اصل اس معاملے کو ہر ایک اپنی عینک سے دیکھ کر عینک کے شیشے کے رنگ کے مطابق فیصلہ دیتا ہے۔ جتنے مُنہ اتنی باتیں کے مصداق میں بھی رائے دینے کا مرتکب ہو رہا ہوں ۔ مجھے جب ایک کینیڈین ویب سائٹ پر یہ پڑھنے کو ملا کہ اگر روس 1979ء میں افغانستان میں داخل نہ ہوتا تو پاکستانی حمایت یافتہ مجاہدین 1980ء کی دہائی کے شروع میں ہی کابل پر قابض ہوجاتے تو میں حیران ہوا۔
میرے ایک دو جاننے والے ہیں جو افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والدین کسی نہ کسی طرح اس کانفلکٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے افغانیوں کی تربیت مذہبی بنیادوں پر کی۔ ان کو قلعہ بالا حصار میں تیار کیا گیا۔ 1973ء میں یہ کام شروع ہوا اور 1975ء میں اسلام پسندوں نے ایک عدد بغاوت کی جو ناکام ہوئی۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کا سب سے پہلا ریلا 1975ء میں آیا تھا۔ چار سال بعد روس افغانستان میں داخل ہوا۔ ایک عدد سپر پاور کو جب آپ اس حد تک قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں تو پھر آپ کو مدد کے لئے کسی اور کی طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ جنرل ضیا ء کو جو پالیسی ملی، اس نے حالات کی وجہ سے اس کو جاری رکھا۔
اگر جنرل ضیاء اس پالیسی پر عمل کی وجہ سے مطعون قرار پا سکتا ہے تو اس پالیسی کا بانی کیوں نہیں ؟ 1994ء ۔ 1995ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ جن کا ذکر آپ نے کیا ، طالبان کو آرگنائز کرنے میں براہ راست ملوث تھے۔ جنرل ضیاء کو گالیاں کیوں؟
جنرل ضیا ء کو گالیاں ایک خاص طبقہ شوق سے دیتا ہے اور وہ اپنے نظریئے کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں۔ چنانچہ آج کل فیشن ہے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا جس کو کچھ علم نہیں اٹھتا ہے اور ضیاء مرحوم کو تختہ ء مشق بنا لیتا ہے۔ ایسا نہیں کہ جنرل ضیا ء ایک فرشتہ تھا، مگر عدل کا تقاضا ہے کہ آپ اس کو اس بات کا الزام نہ دیں جس کا ارتکاب اس نے کیا ہی نہ ہو۔ باقی آپ اپنا نظریہ قائم کرنے میں آزاد ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لئے ہم سب، یا ہمارے آباء ذمہ دار ہیں۔ اتنی زیادہ خرابی صرف ایک شخص کے اقدامات کا نتیجہ نہیں ہو سکتی ۔ ۔ ۔ ۔ تفصیلات مندرجہ بالا حوالاجات میں پڑھی جا سکتی ہیں

میں ساڑھے چھ سال قبل اس موضوع پر مندرجہ ذیل تحاریر لکھ چکا ہوں ۔ اس میں ”3 ۔ افغان جہاد“ میں 1975ء کی بغاوت کا ذکر ہے
1 ۔ طالبان اور پاکستان ۔ پیش لفظ ۔ 2 ۔ افغانوں کی تاریخ کا خاکہ ۔ 3 ۔ افغان جہاد ۔ 4 ۔ جنہیں طالبان کا نام دیا گیا ۔ 5 ۔ ہیروئین کا کاروبار ۔ 6 ۔ پاکستانی طالبان ۔ 7 ۔ ذرائع ابلاغ کا کردار۔
قاضی حسین احمد کی تاریخی تحریر جو 2 قسطوں میں 7 اور 8 مئی 2011ء کو شائع ہوئی

میرے مطالعہ اور تحقیق سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے افغانیوں کی تربیت ”مذہبی بنیادوں پر“ نہیں کی تھی بلکہ مذہب کا نام استعمال کر کے کرائے کے جنگجو تیار کروائے تھے جنہیں محمد داؤد خان کی حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ خیال رہے کہ 1973ء میں محمد داؤد خان نے بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹ کر حکومت حاصل کی تھی ۔ ظاہر شاہ امریکہ اور یو ایس ایس آر کا مشترکہ محبوب تھا ۔ محمد داؤد خان ایسے اقدامات کرتا رہا جس سے کبھی یو ایس ایس آر اور کبھی امریکہ کا طرفدار یا نمائیندہ ہونے کا تاءثر ملتا رہا لیکن آخر ایک دن اس نے اسلامی سلطنت کا اعلان کر کے سب کو ورطہءِ حیرت میں ڈال دیا تھا

قائد اعظم اور قرآن

اکثر محفلوں میں یہ سوال پوچھا جاتاہے کہ قائداعظمؒ کی تقاریر میں جابجا قرآن حکیم سے رہنمائی کا ذکر ملتا ہے۔ کیا انہوں نے قرآن مجید پڑھاہوا تھا اور کیا وہ قرآن مجید سے رہنمائی لیتے تھے؟ اگر جواب ہاں میں ہےتو اس کےشواہد یا ثبوت دیجئے۔ رضوان احمد مرحوم نے گہری تحقیق اور محنت سے قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی سالوں پر کتاب لکھی۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے قائداعظم ؒ کے قریبی رشتے داروں کے انٹرویو بھی کئے۔ رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظمؒ کو بچپن میں قرآن مجید پڑھایا گیا جس طرح سارے مسلمان بچوں کو اس دور میں پڑھایا جاتا تھا۔ وزیرآباد کے طوسی صاحب کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا اور وہ اعلیٰ درجے کی انگریزی لکھتے تھے۔ قیام پاکستان سے چند برس قبل انہوں نے بڑے جوش و خروش سے پاکستان کے حق میں نہایت مدلل مضامین لکھے جو انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ملازمت کے سبب طوسی صاحب نے یہ مضامین قلمی نام سے لکھے تھے۔ قائداعظمؒ ان کے مضامین سے متاثر ہوئے اور انہیں ڈھونڈ کر بمبئی بلایا۔ قائداعظم ان سے کچھ کام لینا چاہتے تھے چنانچہ طوسی صاحب چند ماہ ان کے مہمان رہے جہاں وہ دن بھر قائداعظم ؒ کی لائبریری میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ قائداعظمؒ کی لائبریری میں قرآن حکیم کے کئی انگریزی تراجم، اسلامی و شرعی قوانین، اسلامی تاریخ اور خلفائے راشدین پر اعلیٰ درجے کی کتب موجود تھیں اور وہ اکثر سید امیر علی کا قرآن کا ترجمہ شوق سے پڑھاکرتے تھے۔ انہیں مولاناشبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘ کا انگریزی ترجمہ بھی بہت پسند تھا جس پر کئی مقامات پر قائداعظمؒ نے نشانات لگا رکھے تھے۔ کئی دہائیاں قبل طوسی صاحب کے مضامین لاہور کے ایک معاصر اخبار میں شائع ہوئے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا یا نہیں

اس حوالے سے عینی شاہدین کی یادیں ہی بہترین شہادت ہوسکتی ہیں۔ ایک روز میں جنرل محمد اکبر خان، آرمی پی اے نمبر 1 کی سوانح عمری ’’میری آخری منزل‘‘ پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک دلچسپ اور چشم کشا واقعہ نظر سےگزرا۔ جنرل اکبر نہایت سینئر جرنیل تھے اور قیام پاکستان کے وقت بحیثیت میجر جنرل کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے۔ جن دنوں قائداعظم ؒ زیارت میں بیماری سے برسرپیکار تھے انہوں نے جنرل اکبر اور ان کی بیگم کو تین دن کے لئے زیارت میں بطور مہمان بلایا اور اپنے پاس ٹھہرایا۔ جنرل اکبر 25جون 1948 کو وہاں پہنچے ان کی قائداعظمؒ سے کئی ملاقائیں ہوئیں۔ ایک ملاقات کاذکر ان کی زبانی سنئے۔”ہمارے افسروں کے سکولوں میں ضیافتوں کے وقت شراب سے جام صحت پیا جاتا ہے کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے۔ میں نے قائداعظمؒ سے کہا کہ شراب کے استعمال کو ممنوع کرنے کااعلان فرمائیں۔ قائداعظمؒ نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کوبلوایا اور حکم دیا کہ ”میرا کانفیڈریشن بکس لے آؤ“جب بکس آ گیا تو قائداعظمؒ نے چابیوں کاگچھا اپنی جیب سے نکال کر بکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی اوراسے اس مقام سے کھولا جہاں انہوں نے نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جنرل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہوا ہے کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ کچھ تبادلہ خیال کے بعد سٹینو کو بلوایا گیا۔ قائداعظمؒ نے ایک مسودہ تیار کیا، قرآنی آیات کا حوالہ دے کر فرمایا شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر اپنےایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کاحکم جاری کیا جو میری ریٹائرمنٹ تک موثر رہا۔ میں نے قائداعظمؒ سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں قرآن مجید سے رہنمائی لینی چاہئے۔ ہم نے دفاعی نقطہ نظر پر ریسرچ شروع کردی ہے اور کچھ موادبھی جمع کرلیا ہے۔ قائداعظمؒ
نے اس تحریک کو پسند فرمایا۔ ہماری ہمت افزائی ہوگئی“۔ (صفحہ 282-281)

اس حوالے سے ایک عینی شاہد کاا ہم انٹرویو منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ حصہ اول میں شامل ہے۔ یہ انٹرویو عبدالرشید بٹلر کا ہے جو ان دنوں گورنر ہائوس پشاور میں بٹلر تھا جب قائداعظمؒ گورنر جنرل کی حیثیت سے سرحد کے دورے پر گئے اور گورنر ہاؤس پشاور میں قیام کیا۔ انٹرویو کے وقت عبدالرشید بٹلر بوڑھا ہو کر کئی امراض میں مبتلا ہوچکا تھا ۔ اس عینی شاہد کا بیان پڑھئے اور غور کیجئے ”میری ڈیوٹی ان کے کمرے پر تھی اور قائداعظمؒ کے سونے کے کمرے کے سامنے میرا کمرہ تھا اس لئے کہ جب وہ گھنٹی بجائیں اور انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں فوراً پہنچ جاؤں۔
سوال: انہوں نے کوئی چیز طلب کی ؟
جواب:اس اثنا میں انہوں نے کبھی پانی اور کبھی چائے مانگی
سوال: جب آپ ان کے لئے پانی چائے لے کر گئے وہ کیا کر رہے تھے؟
جواب: وہ بیٹھے خوب کام کر رہے تھے ۔دن بھر کی مصروفیات کے باوجود انہوں نےآرام نہیں کیا۔ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے توکمرے میں اِدھر اُدھر جاتے۔ میں نےخود دیکھا کہ انگیٹھی (مینٹل پیس) پر رحل میں قرآن پاک رکھا ہوا ہے، اس پر ماتھا رکھ کر رو پڑتے تھے
سوال: قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں، رو پڑتے ہیں اس دوران کوئی دعا بھی مانگتے تھے؟
جواب: میری موجودگی میں نہیں
سوال: اس موقع پر ان کا لباس ؟
جواب: شلوار اچکن
سوال:لیکن میں نے جو سنا ہے کہ رات گئے ان کے کمرے سے ٹھک ٹھک کی آواز آئی۔ شبہ ہوا کوئی سرخ پوش نہ کمرے میں گھس آیا ہو؟ جواب:اسی رات۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز گورنمنٹ ہاؤس کا سناٹا چیرنے لگی۔ آواز میں تسلسل اور ٹھہراؤ تھا۔ میں فوراً چوکس ہوا۔ یہ آواز قائداعظمؒ کے کمرے سے آرہی تھی۔ ہمیں خیال آیا اندر شاید کوئی چورگھس گیا ہے۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس افسر بھی ادھر آگئے۔ پولیس اِدھر اُدھرگھوم رہی تھی کہ اندر کس طرح جھانکا جائے؟ ایک ہلکی سی در شیشے پر سے پردہ سرکنے سے پیدا ہوچکی تھی۔ اس سے اندر کی موومنٹ دیکھی جاسکتی تھی۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائداعظم انگیٹھی پر رکھے ہوئے قرآن حکیم پر سر جھکائے کھڑے ہیں۔ چہرہ آنسوؤں سے تر ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اس کی کسی آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر چلنے لگتے ہیں۔ جب ان کے پاؤں لکڑی کے فرش پر پڑتے ہیں تو وہ آواز پیدا ہوتی ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا۔ آیت پڑھ کر ٹہلنا یعنی وہ غور کر رہے تھے کہ قرآن کیا کہتاہے۔ اس دوران میں وہ کوئی دعابھی مانگ رہے تھے۔ (صفحات 239، 240)

غور کیجئے جنرل اکبر سے گفتگو کے دوران بکس منگوانا اوراس سے قرآن مجید نکالنا کا مطلب ہے قائداعظمؒ قرآن مجید اپنے ساتھ رکھتے تھے اور پھر فوراً نشان زدہ صفحہ نکالنے کا مطلب ہے وہ قرآن حکیم پڑھتے، غور کرتے اور نشانیاں بھی رکھتے تھے۔ یہی باتیں عبدالرشید بٹلر نے بھی بتائیں

جہاں تک شراب پر پابندی کا تعلق ہے قائداعظمؒ نے 7 جولائی1944ء کو ہی راولپنڈی کی ایک تقریب میں ایک سوال کے جواب میں اعلان کردیا تھا کہ پاکستان میں شراب پر یقیناً پابندی ہوگی (بحوالہ قائداعظمؒ کے شب و روز، خورشید احمد خان مطبوعہ مقتدرہ قومی اسلام آباد صفحہ 10)

یہی وہ بات ہے جس سے روشن خیال بدکتے اور پریشان ہو کر سیکولرزم کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ قائداعظمؒ ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔ وہ وہی کہتے جوخلوص نیت سے محسوس کرتے اور جس پر یقین رکھتے تھے۔ 19اگست 1941ء کو ایک انٹرویو میں قائداعظم ؒ نے کہا ”میں جب انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کے باہمی رابطہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کا یہ تصور محدود نہیں ہے۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ماہر دینیات، البتہ میں نے قرآن مجید اوراسلامی قوانین کامطالعہ کیاہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق زندگی کے ہر پہلو کااحاطہ کیا گیا ہے۔
کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآن حکیم کی تعلیمات سے باہرہو“ (گفتار ِقائداعظمؒاحمد سعید صفحہ 261)

قائداعظمؒ نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات اور قرآن حکیم پر غور کا ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا اور اگر وہ قرآن مجید کا مطالعہ اوراس پر غور کرنے کے عادی نہ ہوتے تو کبھی ایسی بات نہ کرتے۔ 12جون 1938ءکو انہوں نےجو کہا اسے وہ مرتے دم تک مختلف انداز سے دہراتے رہے ۔ ان کے الفاظ پر غور کیجئے ۔مسلمانوں کے لئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کا سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اسی قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے۔ (ہفت روزہ انقلاب 12جون 1938ءبحوالہ احمد سعید صفحہ 216)

قرآن فہمی کا فیض ہوتا ہے روشن باطن، جوابدہی کاخوف اور زندہ ضمیر۔ قائداعظمؒ نے ایک بار اپنے باطن کو تھوڑا سا آشکارہ کیا۔ ان الفاظ میں اس کی جھلک دیکھئے اور محمد علی جناح قائداعظم کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آل انڈیامسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سربلند دیکھوں۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میراخدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میں آپ سے داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے(انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939 بحوالہ احمد سعید صفحہ 233)

قائداعظمؒ کے الفاظ کو غور سے پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ روشن باطن، زندہ ضمیر، اسلام اورمسلمانوں سے محبت اور خوف ِ الٰہی قرآ ن فہمی ہی کا اعجاز تھا اور مسلمانان ہند و پاکستان کتنے خوش قسمت تھے جنہیں ایسا رہنما ملا۔ اسی لئے تو اقبالؒ، جیسا عظیم مسلمان فلسفی، مفسر قرآن اور زندہ کلام کاشاعر قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر مانتا تھا۔

بشکریہ ۔ جنگ