سرکاری اداروں میں دھونس اور دھاندلی (Bluff & Corruption) کیسے شروع ہوئی

میں 3 وجوہات کی بنیاد پر آج اپنی 14 مارچ 2009ء کی تحریر دہرا رہا ہوں
1 ۔ یہ تحریر آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی 6 یا زیادہ سال قبل تھی
2 ۔ پچھلے 6 سال میں بلاگستان پر بہت سے نئے چہرے طلوع ہوئے ہیں اور بہت سے پرانے نظر نہیں آتے
3 ۔ عصرِ حاضر کی پڑھی لکھی نسل کو ان حقائق سے اِن کے اساتذہ نے کم ہی متعارف کرایا ہو گا

نوکری ۔ چاکری یا ملازمت ۔ کچھ کہہ لیجئے ۔ ویسے آجکل رواج جاب [job] کہنے کا ہے ۔ ملازمت نجی ادارے کی ہو یا سرکاری محکمہ کی اس کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں جن کی پاسداری ہر ملازم کا فرض ہوتا ہے ۔ دورِ حاضر میں ہماری قوم کی خواری کی بنیادی وجہ ادارے کے قوانین کی بجائے حاکم کی ذاتی خواہشات کی تابعداری ہے جس کی پنیری 1973ء میں لگائی گئی تھی اور اب یہ جنگلی پودا تناور درخت بن چُکا ہے

میں نے جب 1962ء میں ملازمت اختیار کی تو سرکاری ملازمین پر 1955ء میں شائع کئے گئے اصول و ضوابطِ ملازمت کا اطلاق ہوتا تھا ۔ اس میں قائداعظم کی 25 مارچ 1948ء کو اعلٰی سرکاری عہدیداروں کو دی گئی ہدایات پر مبنی اہم اصول یا قوانین مندرجہ ذیل تھے

(الف) ۔ ہر عہدیدار قوم کا حاکم نہیں بلکہ خادم ہے ۔ حکومت کا وفادار رہے گا اور اس سلسلہ میں دوسرے عہدیداران سے تعاون کرے گا
(ب) ۔ تعاون کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دوسرے عہدیدار کے ہر عمل میں تعاون کرےگا یا اپنے اعلٰی عہدیدار کے ہر حُکم کو مانے گا بلکہ اگر دوسرا عہدیدار کوئی کام مروجہ قانون کے خلاف کرے یا اعلٰی عہدیدار کوئی ایسا حُکم دے جو قانون کے مطابق نہ ہو تو ان سے عدمِ تعاون وفاداری اور تعاون ہو گا
(ج) ۔ اوسط کارکردگی ہی مطلوب ہے ۔ اس سے اُوپر اور نیچے معدودے چند ہوتے ہیں جن کی طلب نہیں ہے
(د) ۔ ترقی کیلئے کارکردگی کی سالانہ رپورٹ (Annual Confidential Report)کے تمام حصوں کو برابر التفات (consideration/ weightage) دی جائے
(قارئین کی سہولت کیلئے قائداعظم کے متذکرہ خطاب کا متن اس تحریر کے آخر میں بھی نقل کیا گیا ہے)

زمیندار ۔کاشتکار ۔ باغبان اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے باغیچے بنا رکھے ہیں جانتے ہیں کہ اگر ایک جنگلی پودہ اُگ جائے اور اسے نکالا نہ جائے اور وہ بڑھتے بڑھتے درخت بن جائے تو پھر اسے تلف کرنا اگر ناممکن نہیں تو نہائت مُشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔ اگر اس درخت کو کاٹ دیا جائے تو زیرِزمین اس کی جڑیں پھیلی ہونے کی وجہ سے کئی جگہ سے وہ پھوٹ پڑتا ہے اور ایک کے کئی درخت بن جاتے ہیں ۔ ہمارے مُلک میں اب یہی حالت ہو چکی ہے

ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے 1973ء میں وضع کردہ انتظامی اصلاحات [Administrative Reforms] کے نفاذسے 1955ء کے سرکاری ملازمت کے قوانین کالعدم ہو گئے ۔ گو نئے قوانین کی روح بھی وہی ہے کہ سرکاری عہدیدار قوانین کے مطابق کام کرے گا لیکن اس کی تشریح اُس طرح نہیں کی گئی جس طرح 1955ء کے قوانین میں موجود تھی ۔ بالخصوص ترقی کیلئے جو اصول اُوپر (ج) کے تحت درج ہے کی بجائے کر دیا گیا
Below everage, Average, above Average, Good, Very Good, Exellant
اور ان کے نمبر رکھ دیئے گئے ۔ ترقی کیلئے جو نمبر رکھے گئے اُن کے مطابق اوسط (Average) رپورٹ پانے والا ترقی نہیں پا سکتا تھا ۔ اور ستم ظریفی یہ کہ متعلقہ افسر کو پرانے قوانین کے مطابق صرف Below Average رپورٹ کی اطلاع دی جاتی تھی چنانچہ افسر کو اپنی نااہلی کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب اُس کے جونیئر ترقی پا جاتے ہیں اور وہ بیٹھا رہ جاتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ ستم بھی کہ بی پی ایس 19 کا افسر اگر 3 اوسط رپورٹیں پا لے تو وہ مستقبل میں گُڈ (Good) رپورٹیں لے کر بھی ترقی نہیں پا سکتا

(د) کے تحت لکھا گیا کی بجائے کر دیا گیا کہ
Grading and recommendation in the Fitness column given by the reporting officer shall be final

سرکاری عہدیداروں کی مُلک کے قوانین کی بجائے بڑے صاحب یا اس وقت کے حُکمران کی خوشنودی حاصل کرنے کا عمل شروع ہونے کی
دوسری بڑی وجہ مُلکی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بغلی داخلہ (Lateral Entry) کے ذریعہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور دوسرے منظورِ نظر لوگوں کی سینکڑوں کی تعداد میں اعلٰی عہدوں پر بھرتی بھی ہے جو ذولفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں کی گئی ۔ پیپلز پارٹی کے جیالے وکیل ضلعی اور اعلٰی عدالتوں میں بھی جج بنائے گئے ۔ ان عہدیداروں اور ججوں میں سے کوئی دس فیصد ہوں گے جو متعلقہ عہدوں کے قابل ہو سکتے تھے باقی سب نااہل تھے ۔ ان لوگوں نے حکومتی مشینری اور عدلیہ کو ہر جابر حکمران کے ہاتھ کا کلپرزہ بنا دیا

متذکرہ بغلی داخلہ کے ذریعہ سے وفاقی حکومت میں بھرتی کئے گئے درجنوں ڈپٹی سیکریٹریوں اور جائینٹ سیکریٹریوں سے میرا واسطہ پڑا ۔ ان میں سے صرف ایک ڈپٹی سیکریٹری کو اپنے عہدے کے قابل پایا ۔ ایک ایسے ڈپٹی سیکریٹری سے بھی واسطہ پڑا جس سے ہر شخص نالاں تھا ۔ اُسے نہ بولنے کی تمیز تھی نہ کسی اور آداب کی ۔ ماتحتوں کو گالیاں بھی دیتا تھا ۔ نہ انگریزی درست بول یا لکھ سکتا نہ اُردو ۔ اُس کے پاس بی اے ایل ایل بی کی سند تو تھی لیکن کسی قانون کا اُسے علم نہ تھا ۔ ڈپٹی سیکریٹری بنائے جانے سے پہلے وہ فیصل آباد کے کسی محلہ میں پیپلز پارٹی کا آفس سیکریٹری تھا

میری قوم کب جاگے گی یا رب ۔ میرے مولٰی ۔ جھنجھوڑ دے میری قوم کو کہ وہ جاگ اُٹھے اور اپنی بھلائی کیلئے جدوجہد کرے

DO YOUR DUTY AS SERVANTS ADVICE TO OFFICERS
Address to the Gazetted Officers of Chittagong on 25th March, 1948

I thank you for giving me this opportunity to see you collectively. My time is very limited and so it was not possible for me to see you individually. I have told you two things: I have already said what I had to say to the Gazette Officers at Dhaka. I hope you should read an account of what I said there in the newspapers. If you have not I would request you to take the trouble of reading what I said there. One cannot say something new everyday. I have been making so many speeches and I expect each one of you to know my views by now.

Ladies and Gentlemen, I want you to realize fully the deep implications of the revolutionary change that has taken place. Whatever community, caste or creed you belong to you are now the servants of Pakistan. Servants can only do their duties and discharge their responsibilities by serving. Those days have gone when the country was ruled by the bureaucracy. It is people’s Government, responsible to the people more or less on democratic lines and parliamentary practices. Under these fundamental changes I would put before you two or three points for your consideration:

You have to do your duty as servants; you are not concerned with this political or that political party; that is not your business. It is a business of politicians to fight out their case under the present constitution or the future constitution that may be ultimately framed. You, therefore, have nothing to do with this party or that party. You are civil servants. Whichever gets the majority will form the Government and your duty is to serve that Government for the time being as servants not as politicians. How will you do that? The Government in power for the time being must also realize and understand their responsibilities that you are not to be used for this party or that. I know we are saddled with old legacy, old mentality, old psychology and it haunts our footsteps, but it is up to you now to act as true servants of the people even at the risk of any Minister or Ministry trying to interfere with you in the discharge of your duties as civil servants. I hope it will not be so but even if some of you have to suffer as a victim. I hope it will not happen –I expect you to do so readily. We shall of course see that there is security for you and safeguards to you. If we find that is in anyway prejudicial to your interest we shall find ways and means of giving you that security. Of course you must be loyal to the Government that is in power.

The second point is that of your conduct and dealings with the people in various Departments, in which you may be: wipe off that past reputation; you are not rulers. You do not belong to the ruling class; you belong to the servants. Make the people feel that you are their servants and friends, maintain the highest standard of honor, integrity, justice and fair-play. If you do that, people will have confidence and trust in you and will look upon you as friends and well wishers. I do not want to condemn everything of the past, there were men who did their duties according to their lights in the service in which they were placed. As administrator they did do justice in many cases but they did not feel that justice was done to them because there was an order of superiority and they were held at a distance and they did not feel the warmth but they felt a freezing atmosphere when they had to do anything with the officials. Now that freezing atmosphere must go and you must do your best with all courtesy and kindness and try to understand the people. May be sometimes you will find that it is trying and provoking when a man goes on talking and repeating a thing over and over again, but have patience and show patience and make them feel that justice has been done to them.

Next thing that I would like to impress upon you is this: I keep or getting representations and memorials containing grievances of the people of all sorts of things. May be there is no justification, may be there is no foundation for that, may be that they are under wrong impression and may be they are misled but in all such cases I have followed one practice for many years which is this: Whether I agree with anyone or not, whether I think that he has any imaginary grievances whether I think that he does not understand but I always show patience. If you will also do the same in your dealings with an individual or any association or any organization you will ultimately stand to gain. Let not people leave you with this bearing that you hate, that you are offensive, that you have insulted or that you are rude to them. Not one per cent who comes in contact with you should be left in that state of mind. You may not be able to agree with him but do not let him go with this feeling that you are offensive or that you are discourteous. If you will follow that rule believe me you will win the respect of the people.

With these observations I conclude what I had to say. I thank you very much indeed that you have given me this opportunity to say these few words to you and if you find anything good in it follow, if you do not find anything good in it do not follow.

Thank you very much.

Pakistan Zindabad

میری ڈائری ۔ خواہشات

پچھلے دنوں ایک ڈائری ملی جو اُجڑنے سے محفوظ رہی تھی اپنی لائبریری میں مل گئی ۔ اس میں 26 جنوری 1961ء کو لکھا تھا

کچھ ایسی خواہشات ہوتی ہیں جنہیں انسان اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے ۔ ان کی خاطر انسان پتھر کے پہاڑ کھودتا ہے دریاؤں کا سینہ چیرتا ہے اور تند لہروں سے ٹکراتا ہے
لیکن
بلند ہے وہ انسان جو اپنی ان خواہشات کو بھی دوسرے کی بہتری کیلئے قربان کر دے

بلاگر خواتین و حضرات متوجہ ہوں

میں نے 25 مارچ 2015ء کو محترمات بلاگرات و محترمان بلاگران (Ladies and gentlemen bloggers) متوجہ ہوں کے عنوان سے 19 اپریل 2015ء کو سہ پہر 5 بجے اسلام آباد میں بلاگران کی مجلس کے انعقاد کی اطلاع دی تھی

اُمید تھی کہ میٹرو بس پروجیکٹ 19 اپریل سے قبل مکمل ہو جائے گا اور راولپنڈی و اسلام آباد کی متعلقہ سڑکوں پر ٹریفک خوش اسلوبی سے چلنے لگے گی ۔ باقی کام تو تقریباً مکمل ہو گیا ہے لیکن پشاور موڑ انٹرچینج مکمل ہوتا نظر نہیں آ رہا جس کے باعث راولپنڈی شہر ۔ کوہ مری اور جہلم کی طرف سے مجلس میں شرکت کیلئے تشریف لانے والوں کو دقت کا سامنا ہو سکتا ہے
مزید یہ کہ پروجیکٹ مکمل ہونے پر میٹرو بس تشریف لانے والوں کیلئے سہولت کا باعث بن سکتی ہے

اسلئے مجلس 19 اپریل کی بجائے اِن شاء اللہ 3 مئی 2015ء کو بوقت 5 بجے سہ پہر ہو گی اور اِن شاء اللہ یہ تاریخ بدلی نہیں جائے گی

تشریف لا کر شکریہ کا موقع دیجئے
کچھ استفسارات ہوں تو بلاتامل پوچھیئے ۔ بندہ تشریح کی پوری کوشش کرے گا

آمد کی اطلاع جمعہ یکم مئی تک بذریعہ اس تحریر پر تبصرہ
یا ای میل
یا ٹیلیفون دیجئے

iftikharajmal@gmail.com
0321-5102236

مقام انعقاد اور راستہ

مکان نمبر 14 بی ۔ سٹریٹ نمبر 31 ۔ سیکٹر ایف 8 ۔ اسلام آباد

یہ گھر سٹریٹ نمبر 31 کے آخر میں بائیں جانب ہے ۔ آخری سے پہلے والے گیٹ کے بائیں ستون پر لگی قندیل پر B۔14 لکھا ہے اور ستون پر میرا اور میرے دونوں بیٹوں (زکریا اور فوزی) کے نام لکھے ہوئے ہیں ۔ اس کے نیچے گھنٹی کا بٹن ہے

سٹریٹ نمبر 31 سروس روڈ ویسٹ ایف 8 پر واقع ٹریفک پولیس کے دفتر کے سامنے ہے ۔ ایف 8 کے ساتھ نائنتھ اوینیو (9th Avenue) کے ایک طرف فاطمہ جناح پارک (ایف 9 پارک) ہے اور دوسری طرف سروس روڈ ویسٹ ایف 8 متوازی چلتی ہے

نائنتھ اوینیو پر آتے ہوئے جناح اوینیو عبور کرتے ہی داہنی طرف ناظم الدین روڈ پر مُڑ کر فوراً بائیں جانب سروس روڈ ویسٹ ایف 8 پر مُڑ جایئے

موٹر وے سے اسلام آباد آتے ہوئے آپ سیدھے شاہراہ کشمیر (Kashmir Highway) پر پہنچیں گے ۔ چلتے جایئے اور جی 4/9 اور جی 1/8 کے درمیان پشاور موڑ سے بائیں جانب نائنتھ اوینو پر مُڑ جایئے

راولپنڈی صدر یا ٹیکسلا سے آنے کیلئے جی ٹی روڈ سے شاہراہ کشمیر پر مُڑ جایئے پھر جی 4/9 اور جی 1/8 کے درمیان پشاور موڑ سے بائیں جانب نائنتھ اوینو پر مُڑ جایئے

راولپنڈی شہر سے آنے کیلئے مری روڈ سے بائیں جانب سٹیڈیم روڈ پر مُڑ کر سیدھے نائنتھ اوینیو پر چلے جایئے

جہلم کی طرف سے آنے کیلئے اسلام آباد ایکسپریس وے پر چلے جایئے ۔ زیرو پوائنٹ انٹر چینج سے بائیں جانب شاہراہ کشمیر پر چلے جایئے پھر جی 1/8 اور جی 4/9 کے درمیان پشاور موڑ سے داہنی طرف نائنتھ اوینیو پر مُڑ جایئے

کوہ مری کی طرف سے آنے کیلئے شاہراہ کشمیر پر چلتے ہوئے جی 1/8 اور جی 4/9 کے درمیان پشاور موڑ سے داہنی طرف نائنتھ اوینیو پر مُڑ جایئے

شالا مار یا شالیمار باغ ۔ لاہور

میری ڈائری میں 20 جنوری 1957ء کی تحریر

اصلی شاہی نام
پہلا تختہ ۔ فرح بخش
دوسرا تختہ ۔ فیض بخش

شاہ جہاں نے بصرفہ 6 لاکھ روپیہ تعمیر کروایا اور شاہ نہر پر مزید 2 لاکھ روپیہ خرچ آیا
تعمیر 3 ربیع الاول 1051ھ (1641ء) کو شروع ہوئی اور مکمل ایک سال 5 ماہ 4 دن میں ہوئی
رقبہ ۔ تقریباً 40 ایکڑ
درخت 24 جمادی لاول 1051ھ (1641ء) کو لگائے گئے
غور و پرداخت کیلئے 128 مالی کام کرتے تھے
نقصانات ۔ بہت سے سنگِ مرمر اور آرائش کی دوسری اشیاء سکھ اپنے دورِ حکومت (1767ء تا 1846ء) میں اُکھاڑ کر لے گئے

عرضِ بلاگر
نہر جو شالامار باغ کے عقب میں بہتی تھی اور اس کا پانی شالامار باغ میں بھی آتا تھا ناجانے کس دور میں خُشک ہوئی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ دلِ ناراض

جب کوئی ناراض یا ناخوش ہوتا ہے تو عام طور پر یہ رجحان ہوتا ہے کہ انصاف سے کام نہ لیا جائے
ایسا آدمی اپنے آپ کو باور کراتا ہے چونکہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اُس کا غیر مناسب سلوک یا کلام کوئی برائی نہیں

اللہ کا فرمان ہے ۔ سورۃ 4 النّسآء آیۃ 135 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Letter inflames US feud over Iran talks “

جانور ۔ انسانوں سے زیادہ حساس

یہ اعتقاد صدیوں سے قائم ہے کہ جانوروں کو زلزلہ آنے کا وقت سے پہلے عِلم ہو جاتا ہے ۔ 373 قبل مسیح میں تاریخ دانوں نے لکھا کہ یونان کے شہر ھَیلائس کی زلزلے سے تباہی سے چند روز قبل جانور جیسے چوہے ۔ سانپ ۔ نیولا ۔ وغیرہ اس علاقہ سے چلے گئے تھے ۔ اسی طرح کے مزید واقعات صدیوں سے تاریخ میں مرقوم چلے آ رہے ہیں جن کے مطابق مچھلیوں کا اضطراب ۔ مرغیوں کا انڈے نہ دینا ۔ شہد کی مکھیوں کا پریشانی میں چھتے چھوڑ جانا دیکھا گیا ہے ۔ ماضی میں جانور پالنے والے کئی لوگوں نے بتایا کہ اُنہوں نے زلزلے سے قبل بلی یا کتے کو اضطراب اور بے قراری میں غُراتے دیکھا

سائنسدان عرصہ دراز سے یہ کھوجنے میں سرگرداں ہیں کہ جانوروں کو وقت سے قبل زلزلے کا کیسے عِلم ہو جاتا ہے ؟ لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکے ۔ سائنسی ترقی کے اس دور میں بھی ماہرین ارتعاش اراضی (زلزلے) کی پیش گوئی کرنے سے قاصر ہیں ۔ ماہرین نے یہ معلوم کرنے کی بھی بہت کوشش کی ہے کہ جانوروں کو زلزلہ کا قبل از وقت کیسے معلوم ہو جاتا ہے لیکن لاحاصل

کمال تو امریکی سائنسدادانوں کا ہے کہ اُنہوں نے اس حقیقت کو ہی مشکوک قرار دے دیا ہے کہ جانوروں کو زلزلہ کا قبل از وقت علم ہو جاتا ہے گویا ”نہ آنکھیں کھولو ۔ نہ بِلی نظر آئے“۔

چین میں 1975ء میں جانوروں کی غیرمعمولی حرکات سے اندازہ لگایا گیا کہ ہائی چینگ میں زلزلہ آنے والا ہے اور وہاں کی آبادی کو نکل جانے کی ھدائت کر دی ۔ چند دن بعد 7.3 شدت کا زلزلہ آیا جس سے کچھ لوگ زخمی ہوئے ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر اکثر باشندے ہائی چینگ سے نکل نہ گئے ہوتے تو 150000 تک لوگ زخمی ہو سکتے تھے

سماٹرہ میں 26 دسمبر 2004ء کا زلزلہ اور سونامی ایک اور مثال ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ زلزلہ سے کچھ گھنٹے قبل تھائی لینڈ میں سیاحوں کی سواری والے ہاتھیوں نے اپنے ماہوتوں کا حُکم ماننے سے انکار کر دیا اور سوار سیاحوں کو گرا دیا تھا ۔ ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا ۔ جزائر انڈیمان کے سمندر میں سمندری جانور جیسے سانپ ۔ مینڈک ۔ کچھوے ۔ کیکڑے اور مچھلیاں اضطراب کی حالت میں کود کر خُشکی پر آ گئے تھے ۔ سمجھ نہ آئی تو حضرتِ انسان کو نہ آئی

کانگڑہ میں 4 اپریل 1905ء کو آنے والے زلزلہ سے پچھلی رات کے دوران لاہور کے چڑیا گھر میں جانور غیرمعمولی پریشان ہو گئے تھے اور کھانے پینے سے انکار کر دیا تھا ۔ لاہور کا کانگڑہ سے فاصلہ 200 کلو میٹر ہے

ہمارے پاس 2001ء سے 2004ء تک ایک مخصوص قسم کی بلی تھی ۔ ایک دن میں لاؤنج میں بیٹھا تھا اور بلی میرے سامنے بیٹھی مجھے دیکھ رہی تھی ۔ اچانک بلی پر خوف طاری ہوا ۔ اُس نے میری طرف دیکھ کر کچھ اشارہ کیا ۔ پھر اُچھل کر صوفے کے نیچے گھُس گئی ۔ میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے ۔ جھٹکے ختم ہونے کے بعد بلی نکل کر پھر میرے سامنے بیٹھ گئی

بعض اوقات انسانوں میں بھی کچھ غیرمعمولی اثرات دیکھے گئے ہیں ۔ لاٹر (بھارت) میں 1993ء میں شدید زلزلہ آیا تھا ۔ لاٹر سول ہسپتال کے مطابق زلزلہ سے قبل ایک دن میں عام دنوں کی نسبت 6 گنا بچے پیدا ہوئے تھے اور اُس دن ہسپتال آنے والے مریضوں کی تعداد بھی عام دنوں سے 7 گنا کے لگ بھگ تھی