Category Archives: یادیں

یومِ ولادت قائدِ اعظم کے حوالے سے

اللہ کے حُکم سے پاکستان بنانے والے مسلمانانِ ہند کے عظیم راہنما قائد اعظم محمد علی جناح کا آج یومِ ولادت ہے ۔ میں اس حولے سے قائد اعظم کے متعلق لکھی ہوئی چند اہم تحاریر کے عنوان مع روابط لکھ رہا ہوں ۔ اُمید ہے کہ قارئین اان سے مُستفید ہوں گے
پڑھنے کیلئے مندرجہ ذیل عنوانات پر باری باری کلِک کیجئے

قائد اعظم کا خطاب ۔ 15 اگست 1947ء

اُردو قومی زبان کیسے بنی ۔ بہتان اور حقیقت

قائد اعظم اور قرآن

قائدِ اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے ؟

میری زندگی کا نچوڑ ؟

میں نے زندگی میں بڑے نچوڑ دیکھے ۔ لیموں کا نچوڑ ۔ مالٹے کا نچوڑ ۔ سیب کا نچوڑ ۔ یہ مجھے مرغوب تھے اور ہیں
اس کے علاوہ ایک اور نچوڑ بھی دیکھا جس کا نام سُنتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ گلاب کا نچوڑ جسے لوگ قبر پر چھڑکتے ہیں
کچھ لوگ دوسروں کا مال نچوڑتے ہیں ۔ ڈاکٹر مریض کا خون نچوڑتے ہیں ۔ کیا معلوم تھا کہ اس بڑھاپے میں مجھے اپنی ہی زندگی کا نچوڑ نکالنا ہو گا ۔ میں ڈرتا تو نہیں ہوں
چھٹی سے آٹھویں جماعت تک روزانہ صبح سویرے اپنی پوری طاقت سے کہتا رہا ہوں
”باطل سے دبنے والے ۔ اے آسماں نہیں ہم ۔ سو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا“

لیکن بات یہ ہے کہ وہ حاجن بی بی ہیں نا ۔ اُن سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے ۔ عمر میں 77 برس کی لگتی ہیں ۔ کیا پتا 107 برس کی ہوں ۔ خالص دودھ پیتی اور دیسی گھی کھاتی رہی ہوں ۔ اسی لئے کم عمر کی لگتی ہیں ۔ مُشکل یہ ہے کہ حاجن بی بی کے میاں بھی حاجی ہیں ۔ ”میں جاؤں تو جاؤں کہاں ۔ سمجھے گا کون یہاں ۔ مجھ جیسے بیوقوف کی زباں“۔

خیر کیا پوچھتے ہیں صاحب ۔ حاجن بی بی لَٹھ لے کے پیچھے پڑ گئیں کہ ”نکالو اپنی زندگی کا نچوڑ“۔
تب سمجھ آئی صاحب کہ وہ لیموں وہ مالٹے اور سیب کیا کہتے ہوں گے جب ہم اُن کو نچوڑتے تھے ۔ ہائے بیچارے لیموں مالٹے سیب
دیکھیں نا ۔ ایک میں بوڑھا ۔ اُوپر سے بیماری نے گھیرا ۔ کہاں رہ گئی ہے طاقت مجھ میں نچوڑنے کی
لیکن جناب مرتا کیا نہ کرتا ۔ بیٹھ گیا نچوڑنے ۔ اور بڑی مُشکل سے بس اتنا سا نچوڑ نکلا

1 ۔ نماز کسی حال میں مت چھوڑو
2 ۔ اللہ پر مکمل یقین اور بھروسہ رکھو کیونکہ سب کچھ اُسی کے ہاتھ میں ہے
3 ۔ گناہ سے بچنے کی پوری کوشش کرو خواہ کچھ بھی ہو جائے
4 ۔ جھوٹ کبھی مت بولو خواہ کتنا ہی دُنیاوی نقصان ہو
5 ۔کسی کو تکلیف مت دوچاہے وہ کتنی ہی تکلیف دے
6 ۔ اس کے نتیجہ میں بہت تکالیف اُٹھائیں مگر اللہ نے مجھے ٹوٹنے نہیں دیا ۔ میں نے مجبور ہو کر 53 سال کی عمر میں ملازمت چھوڑ دی ۔ دورانِ ملازمت تنگدست رہا اور آ ج خوشحال ہوں ۔
سُبحان اللہ و بحمدہ

ارے غضب ہو گیا ۔ حاجن بی بی دیکھ تو نہیں رہیں کہیں ؟ میں بھاگ لوں ۔ اللہ حافظ

محمد مقبول حسین صاحب کی فرمائش

میں نے 22 نومبر 2015ء کو انگریزی کی نظم کا ایک بند اپنی اپریل 1955ء کی ڈائری سے نقل کیا تھا ۔ محمد مقبول حسین صاحب نے 22 اور 23 نومبر کی درمیانی شب فرمائش کی کہ اس کا اُردو میں ترجمہ لکھوں ۔ میں ان کی فرمائش فوری طور پر پوری نہ کر سکنے پر معذرت خواہ ہوں ۔ ساتھ ہی میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ میری تحریر ” بنی اسراءیل اور ریاست اسرائیل“ میں جو نقشے میں نے کسی زمانے میں بڑی محنت سے حاصل کر کے اس تحریر میں شائع کئے تھے کہ اسرائیل کی حقیقت واضح ہو جائے وہ سب غائب ہیں

میں 21 نومبر کی شام امریکن (یا ہانگ کانگ) فلُو میں بُری طرح مُبتلاء ہو گیا تھا ۔ تیز بخار ۔ شدید کھانسی ۔ گلا ایسے جیسے کسی نے کانٹوں سے چھلنی کر دیا ہو ۔ 4 راتیں کھانس کھانس کر بیوی بچوں کو بھی نہ سونے دیا ۔ 22 نومبر کی صبح دوائیاں کھانے کے بعد بخار ذرا ہلکا ہوا تھا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔ میرے موبائل فون پر ٹن ٹن ہوا یعنی کوئی پیغام آیا ۔ فون اُٹھایا اور دیکھنے لگا ۔ فون نے یہ بھی بتایا کہ تحریر شائع کرنا ہے ۔ میں نے تحریر لکھ کر محفوظ کی ہوئی تھی جو موبائل فون پر ایک کلک سے شائع ہو گئی

آج طبیعت کچھ سنبھلی ہے تو اپنے بلاگ کی صحت دیکھنے کیلئے کمپیوٹر کھولا تو محمد مقبول حسین صاحب کی فرمائش نظر پڑی ۔ میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں انگریزی 12 جماعت تک اور اُردو 8 جماعت تک پڑھی تھی یعنی انگریزی 59 سال اور اُردو 64 سال قبل تک ۔ بھول بھی گیا ہوں گا اور عقل کی بھی کمی ہے (کیا کروں بازار میں ملتی نہیں) ۔ خیر ۔ کوشش کرتا ہوں ترجمہ کرنے کی

خوش ذوق بننا اُس وقت تو بہت سہل ہوتا ہے جب زندگی
ایک سُریلے گیت کی لہروں کی طرح بہتی چلی جا رہی ہو
مگر قابلِ قدر آدمی تو صرف وہ آدمی ہوتا ہے
جو مشکلات میں گھِر کر بھی مسکراتا رہے

مجھے ساحر لدھیانوی کا لکھا ہوا اور محمد رفیع کا گایا ہوا یہ گیت پسند رہا ۔ میں نے اسی طرح زندگی گذاری ہے

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا ۔ ۔ ۔ ہر فکر کو دھُوئیں میں اُڑاتا چلا گیا
بربادیوں کا سوگ منانا فضُول تھا ۔ ۔ بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
جو مِل گیا اُسی کو مُقدّر سمجھ لیا ۔ ۔ ۔ جو کھو گیا، میں اُس کو بھُلاتا چلا گیا
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں ۔ ۔ ۔ میں دِل کو اُس مقام پہ لاتا چلا گیا