میں نے بچپن میں بزرگوں سے سُن رکھا تھا کہ ہِٹلر نے خود کُشی نہیں کی ۔ وہ بہت دلیر آدمی تھا ۔ والد صاحب کا کاروبار دوسری جنگِ عظیم کے دوران قاہرہ مصر میں تھا ۔ اُن کا واسطہ برطانوی فوج کے میجر اور کرنل عہدے کے افسروں سے رہتا تھا ۔ اُنہوں نے بتایا تھا ”ایک دن برطانوی میجر شام کو میرے پاس آیا ۔ وہ آتے ہی بولا ۔ کچھ سُنا تم نے ؟ کہتے ہیں جنرل رَومیل افریقہ آ رہا ہے (جرمن جنرل رَومیل یورپ کا بہت سا علاقہ فتح کر چکا تھا) ۔ والد صاحب نے اُسے کہا ”جرمن تو پڑوس میں پہنچ چکے ہیں ۔ تُم نے نہیں سُنا کہ فلاں ریلوے سٹیشن پر بم گرایا ہے جس سے ریلوے لائن اُڑ کر 2 کلو میٹر دور جا کر گری ہے“۔ والد صاحب یہ کہہ کر چائے کا بندوبست کرنے گئے ۔ جب واپس آئے تو میجر بولا’Where is your bathroom. My bloody tummy.’ جنرل رومیل کے قریب پہنچنے کی خبر سُن کر میجر کو اسہال ہو گیا تھا ۔ والد صاحب کہتے تھے ”ہِٹلر بہت دلیر اور حاضر دماغ آدمی تھا ۔ وہ اِن کے ہاتھ نہیں آیا اور اپنی خِفّت مٹانے کیلئے اِنہوں نے مشہور کر دیا کہ خود کُشی کی یعنی ہِٹلر بُزدل تھا
اتحادیوں جن کیلئے ہِٹلر ایک قہر سے کم نہ تھا کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ایڈولف ہِٹلر (Adolf Hitler) 30 اپریل 1945ء کو زیرِ زمین پناہ گاہ (Under ground Bunker) میں اپنے سر میں گولی مار کر اور اُس کی بیوی اِیوا براؤن (Eva Braun) نے زہر کی گولی (cyanide pill) کھا کر خود کُشی کر لی تھی پھر اُن کے سٹاف نے اُن کی لاشوں کو باہر لا کر نظرِ آتش کر دیا تھا اور زمین میں دبا دیا تھا
کیا بیسویں صدی کے سب سے دلیر حکمران ایڈولف ہِٹلر نے جو اتحادیوں کیلئے ایک ڈاؤنا خواب بن چکا تھا واقعی 1945ء میں خود کُشی کی تھی ؟ کبھی کسی نے دلیر آدمی کو خود کُشی کرتے سُنا ؟
ہفِنگٹَن پوسٹ ۔برطانیہ (Huffington Post, UK) میں چھپنے والی ارجنٹِینا (Argentina) کی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تاریخ دان عبدالباسط کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے ایک معاہدے کے تحت ہِٹلر کو جنوبی امریکہ بھاگنے میں مدد دی تھی تاکہ ہِٹلر سوویٹ یونین کے ہتھے نہ چڑھ جائے ۔ اسی طرح امریکہ نے بہت سے سائنس دانوں ۔ فوجیوں اور خُفیہ اداروں کے افراد کو بھی فرار میں مدد دی تھی جنہیں بعد میں سوویٹ یونین کے خلاف استعمال کیا گیا
تاریخ دان عبدالباسط جس نے ہِٹلر کے متعلق بہت کچھ لکھا یہ دعوٰی بھی کیا کہ برلن کی چانسلری (Chancellery in Berlin) کے نیچے بنی سرُنگ (Under ground Tunnel) کے ذریعہ ہِٹلر Tempelhof Airport ایئر پورٹ پہنچا ۔ وہاں سے ہیلی کاپٹر پر ہسپانیہ (Spain) گیا جہاں سے Canary Islands اور وہاں سے U-boat (Sub-marine) میں ارجنٹینا پہنچا ۔ ارجنٹینا میں 10 سال کے قریب رہا پھر Paraguay چلا گیا جہاں 3 فروری 1971ء کو فوت ہوا ۔ اُسے city of Asuncion میں ایک زیرِ زمین پناہ گاہ (Under ground Bunker) میں دفن کیا گیا جہاں اب ایک اب ایک عالی شان ہوٹل ہے ۔ اُس کی تدفین میں 40 لوگ شریک ہوئے تھے
امریکی سی آئی اے کے تجربہ کار ایجنٹ بوب بائر (veteran CIA agent Bob Baer) کی رپورٹ بھی تاریخ دان عبدالباسط کے مؤقف کی تائید کرتی ہے
مقتول امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے حوالے سے وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری کردہ خفیہ دستاویزات کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کو اس کے ایک مخبر جس کا Code Name تھا Cimelody-3 نے بتایا تھا کہ جرمنی کے آمر ایڈولف ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر خود کشی نہیں کی تھی بلکہ وہ فرار ہو کر لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا میں روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ نیویارک پوسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہٹلر نہ صرف زندہ تھے بلکہ 1950ء کی دہائی میں نازی پارٹی کے سابق ارکان کے ساتھ کولمبیا میں روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سٹرون کو اس کے ذریعے نے بتایا تھا کہ جرمنی کے سابق حکمران نہ صرف زندہ تھے بلکہ نازی پارٹی کے مسلح ونگ Waffen SS کے ایجنٹ سٹرون ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور کولمبیا کے شہر Tunja میں ان کے رابطے ہوتے تھے ۔ سٹرون نے مُخبر کو بتایا کہ انہوں نے سابق نازیوں کی ایک کالونی ریزادینسیاس کولونیالس میں ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جو ہو بہو ایڈولف ہٹلر جیسا ہے ۔ لوگ اسے دار فیورہر کہہ کر پکارتے ہیں اور اسے نازی سیلوٹ بھی کرتے ہیں ۔ وافن ایس ایس کے سابق ایجنٹ سٹرون کے پاس اپنی وہ فوٹو بھی تھی جس میں وہ ایک شخص کے ساتھ بیٹھا ہے جو ہو بہو ہٹلر جیسا ہے ۔ سٹرون کے مطابق ایڈولف ہٹلر نے بعد میں اپنا نام تبدیل کرکے ایڈول شریٹمیئر رکھا تھا ۔ سی آئی اے کی خفیہ یاد داشتیں (Secret Memos) دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ سی آئی اے کو شک تھا کہ ہٹلر زندہ ہے ۔ یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ سی آئی اے کو مُخبر نے بتایا کہ ہٹلر ایک Shipping Company میں ملازمت کر رہا ہے
سی آئی اے کیلئے یہ یاد داشتوں کی فائل (Memos File وینزویلا کے دارالحکومت کراکس میں تعینات بیورو چیف ڈیوڈ برکسنر نے لکھی تھی جسے سٹرون اور ہٹلر کی تصویر کے ساتھ 1955ء میں واشنگٹن ارسال کیا گیا تھا