Category Archives: گذارش

میں ممنون ہوں

میں تمام قارئین کا ممنون ہوں جنہوں نے میری بیماری میں میرے لئے دعا کی اور ان کی دعاؤں اور اللہ کے کرم سے الحمدللہ اب میری طبیعت بہت بہتر ہے ۔ میں بالخصوص مندرجہ ذیل خواتین و حضرات کا ممنون ہوں جنہوں نے مجھ سے رابطہ کیا ۔ اللہ آپ سب کو خوش و صحتمند رکھے ۔ آمین ۔ محمد شاکر عزیز صاحب ۔ طارق کمال صاحب ۔ الف نظامی ۔ شعیب صفدر صاحب ۔ شگفتہ صاحبہ ۔ روسی شہری صاحب ۔ بوچھی صاحبہ ۔ وقار علی روغانی صاحب اور فیصل صاحب ۔

بیٹیاں اللہ کی نعمت ہوتی ہیں ۔ انہیں اللہ تعالٰی نے بہت محبت کرنے والا دل دیا ہوتا ہے ۔ اسی لئے شگفتہ صاحبہ اور بوچھی صاحبہ نے بار بار میری عیادت کی ۔

میں سوچتا ہوں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے کتنا مالدار بنایا ہے ۔ زر و جواہر میرے پاس نہیں تو کیا ہوا ۔ ان کی حقیقت ہی کیا ہے ؟ ایک محبت ساری دنیا کی دولت سے نہیں خریدی جا سکتی اور میں اتنی ساری محبتیں سمیٹ رہا ہوں ۔ سُبحان اللہ بعدد خلقِہِ ۔

مجھے کوئی خطرناک بیماری نہ تھی ۔ میرا جسم اللہ تعالٰی نے بہت حساس بنایا ہے اور اسلام آباد میں اب الرجی بہت زیادہ ہو چکی ہے ۔ مجھے نزلہ ۔ بخار اور کھانسی نے گھیر لیا ۔ کھانسی اس قدر شدید تھی کہ میں تین دن اور دو راتیں بالکل نہ سو سکا ۔ کسی وقت تو سانس لینا ہی دشوار ہو جاتا ۔ یہ وقت بہت تکلیف دہ ہوتا ۔ اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے کہ اپنی رحمتیں نازل فرماتا رہتا ہے ۔

جمہوریت کا قتل

اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
یہ سال جو 3 دن بعد ختم ہونے والا ہے ۔ ملک کی 60 سالہ زندگی کا بد ترین سال بن کر رہ گیا ہے ۔ ستم تو فوجی آمر ڈھاتے ہی ہیں مگر پرویز مشرف نے ظُلم میں پاکستان کے دُشمنوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔ اس سال میں ظُلم کے چیدہ چیدہ واقعات یہ ہیں

باجوڑ کے دینی مدرسہ پر میزائل یا بم مار کر 80 سے زائد طلباء اور اساتذہ شہید کئے گئے جن میں 30 طلباء کی عمریں 9 اور 15 سال کے درمیان تھیں ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
جنوبی اور پھر شمالی وزیرستان پر فوج کشی اور بمباری جس میں بوڑھوں ۔ بچوں اور عورتوں سمیت سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔
پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی معطلی
کراچی میں 12 مئی کا قتلِ عام ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
لال مسجد جامعہ حفصہ آپریشن جس میں سینکڑوں طلباء و طالبات ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر 4 سے 17 سال کی بچیاں تھیں ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔
کراچی میں بینظیر کے جلوس میں دھماکے جس میں 150 بیگناہ ہلاک ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
سوات پر فوج کشی جس میں اب تک سینکڑوں شہری اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
ایمرجنسی کے نام پر پرویز مشرف کا دوسرا مارشل لاء
پانچ درجن سے زائد سینئر ترین جج صاحبان کو سبکدوش کر کے قید کرنا
وکلاء اور صحافیوں پر بیہیمانہ پولیس تشدد
چارسدہ کی مسجد میں بم دھماکہ جس میں 60 نمازی شہید ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔
پورے ملک میں ڈکیتیوں میں بے پناہ اضافہ

اور کل یعنی جمعرات 27 دسمبر 2007ء کو

سہ پہر کے وقت مسلم لیگ نواز کا جلوس جب شاہراہ اسلام آباد پر کرال چوک کے قریب تھا تو سڑک کے کنارے اُونچی جگہ پر کیو لیگ کےرہنما نواز کھوکر کے گھر کی چھت سے جلوس پر گولیاں چلائی گئیں جس میں 11 آدمی ہلاک اور 3 درجن زخمی ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔ پہلے خبر پھیلی کہ نواز شریف پر فائرنگ کی گئی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ نواز شریف اس جلوس میں شامل نہیں تھا ۔ اس نے راستہ بدل لیا تھا چنانہ یہ جلوس اس کے ساتھ شامل ہونے کیلئے جا رہا تھا ۔

پھر سورج غروب ہونے کے وقت یعنی 5 بج کر 5 اور 7 منٹ کے درمیان بینظیر بھٹو پر بالکل قریب سے گولیاں چلائی گئیں اور پھر زوردار دھماکہ ہوا ۔ بینظیر کو راولپنڈی جنرل ہسپتال ہسپتال لیجایا گیا جو وہاں سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جہاں ڈاکڑ پروفیسر مصدق اس کی جان بچانے میں ناکام رہے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔ سرکاری مسلک ہے کہ بینظیر خودکُش حملہ کے نتیجہ میں ہلاک ہوئیں جبکہ قُرب و جوار میں موجود لوگوں اور کچھ صحافیوں کے مطابق بینظیر گولیوں سے اور باقی 29 لوگ دھماکے کے نتیجہ میں ہلاک ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔ 100 کے قریب زخمی ہوئے جن میں ناہید خان کی حالت تشویشناک ہے ۔

بلاشبہ میں بینظیر کا حامی کبھی نہیں رہا اور اس کے کئی خیالات کی مخالفت بھی کرتا رہا لیکن بینظیر ہمارے ملک کے دو مقبول ترین رہنماؤں میں سے ایک تھیں ۔ ظُلم ظُلم ہوتا ہے اور اللہ نے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے ۔ میں اس کی پرزور مذمت کرتا ہوں اور میری ہمدردیاں ان بچوں کے ساتھ ہیں جو ماں سے محروم ہو گئے ۔ بینظیر کا قتل بقول نواز شریف “جمہوریت کا قتل ہے ۔ عوام کی خواہشات کا قتل ہے ۔ عوام کا قتل ہے ۔ ملک کا قتل ہے “۔

جمرات 27 دسمبر کے دونوں واقعات پاکستان کے خلاف ایک گہری سازش معلوم ہوتے ہیں جسے روکنے میں موجودہ خودغرض حکومت بُری طرح ناکام رہی ہے ۔ موجودہ حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں نے اس ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ میری دعا ہے ” اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمارے گناہ معاف فرمائے ۔ ہمیں ان نااہل اور خودغرض حکمرانوں سے نجات دلائے اور ان کی جگہ مُلک و ملت کا درد رکھنے والے حکمران عطا فرمائے”۔

آج اس کی اشد ضرورت ہے

صَبَر کے معنی

آجکل عُرفِ عام میں صَبْر کے معنی یہ لئے جاتے ہیں کہ جب کچھ نہ ہو سکے یا کر سکے تو صَبْر کر لیا۔
درحقیقت ایسا نہیں ہے ۔ صَبْر کے لُغوی معنی روکنے یا باندھنے کے ہیں ۔
لفظ صَبْر جِن معنی میں قرآن و حدیث میں اِستعمال ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

* مُشکِل وقت یا مُصیبت میں گبھراہٹ نہ دِکھانا ۔ بے قرار نہ ہونا
* غُصّہ کی وجوہ ہوتے ہوئے غُصّہ پی جانا
* کام یا مُہم میں پامردی دکھانا یا ثابت قدم رہنا
* بدلتے حالات میں اپنا توازن قائم رکھنا یعنی اپنے آپ کو حالات کے سپُرد نہ کرنا
* دین یا نیک کام کی خاطر سختی یا زیادتی برداشت کرنا
* اپنی باری کا یا کِسی کے آنے یا کِسی سے مِلنے کیلئے اِنتظار کرنا
* کِسی کام میں یا بولنے میں جلد بازی نہ کرنا
* دولتمند نہ ہوتے ہوئے بھی دولت کے لالچ میں نہ آنا
* مال و دولت یا بڑا عُہدہ ملنے پر اپنا توازن قائم رکھنا ۔ مغرُور نہ ہو جانا ۔ تُندخُوئی اِختیار نہ کرنا
* جذبات اور خواہشات کو قابو میں رکھنا
* استطاعت ہوتے ہوئے بدلہ نہ لینا

احتجاج کس لئے اور کیسے ؟

امریکہ نے احتجاج کیا ۔ برطانیہ نے احتجاج کیا ۔ فرانس نے احتجاج کیا ۔ اور کئی ملکوں نے احتجاج کیا ۔ ملک کے اندر سول سوسائٹی کے علمبرداروں نے اور پھر بینظیر نے احتجاج کیا ۔ سب نے صرف جمہوری قسم کے انتخابات کا انعقاد یا زیادہ سے زیادہ ایمرجنسی [دراصل مارشل لاء] کے خاتمہ کا مطالبہ کیا ۔

صرف وکلاء صاحبان اور نواز شریف کو اصل ہدف کا خیال آیا اور اُنہوں نے سب سے اہم اور ناگزیر مطالبہ کیا ۔ آخر نواز شریف کی ایماء پر بینظیر بھٹو نے بھی اس مطالبہ کو اختیار کر لیا ہے ۔


“اعلٰی عدالتوں کے اُن تمام جج صاحبان کو بحال کیا جائے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اُٹھایا”

ان جج صاحبان نے اس ملک اوراس کے باشندوں کی بہتری کی خاطر اپنے اعلٰی عہدوں ۔ اپنے ذریعہ روزگار اور اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی عزت اور جان تک داؤ پر لگا دی ۔ ہمارے پاکستانی بھائیوں کی اکثریت اسی روزگار ۔ اسی عزت ۔ اسی جان کی خاطر اپنے منہ بند کئے کونوں کھَدروں مین دبکی بیٹھی ہے ۔ ہماری قوم کی بھاری اکثریت کو معلوم ہی نہیں کہ پی سی او کے تحت کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صدر ۔ چیف آف سٹاف ۔ افواج ۔ اور حکومتی نمائندوں کے خلاف یا ان کے احکام کے خلاف کسی کو بولنے یا مقدمہ دائر کرنے کی اجازت ہو گی اور نہ پہلے سے دائر ایسے مقدموں کے سلسلہ میں مدعیان یعنی عوام کو انصاف ملے گا ۔

کسی کو یہ بھی خبر نہیں کہ آئین معطل ہونے کی صورت میں ۔ ۔ ۔>

کسی بھی شخص یعنی بوڑھا ۔ جوان ۔ بچہ ۔ عورت یا مردکو کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے گرفتار کیا جا سکتا ہے اور اسے ہر قسم کی سزا بشمول اذیت اور موت کے دی جا سکتی ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چارا جوئی نہیں کر سکے گی

کسی بھی شخص کی زمین ۔ مکان یا دکان پر کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے اور بغیر معاوضہ ادا کئے قبضہ کیا جا سکتا ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چاراجوئی نہیں کر سکے گی

کسی بھی شخص کے کاروبار پر کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے اور بغیر معاوضہ ادا کئے قبضہ کیا جا سکتا ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چاراجوئی نہیں کر سکے گی

کسی بھی شخص کا بنک اکاؤنٹ کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے منجمد کیا جا سکتا ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چاراجوئی نہیں کر سکے گی

اسلئے ہوش میں آؤ میرے بھائیو ۔ بہنوں ۔ بھتیجو ۔ بھتیجیو ۔ بھانجو ۔ بھانجیو ۔

ہماری قوم کی بقاء کیلئے عوام کا مطالبہ ہے کہ

ایمرجنسی فوری طور پر اُٹھائی جائے
اُن تمام جج صاحبان کو جنہوں نے پی سی او تحت حلف نہیں اُٹھایا فوری طور پر اپنی اپنی جگہوں پر بحال کیا جائے
پاکستان کا آئین 12 اکتوبر 1999ء سے پہلے والی حالت میں فوری طور پر بحال کیا جائے
تمام گرفتار وکلاء ۔ سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے
جنرل پرویز مشرف 15 نومبر 2007 سے پہلے ریٹار ہو جائیں اور آرمی ہاؤس خالی کر دیں
پاکستان کے تمام جج صاحبان اور تمام اعلٰی افسران بشمول تمام جرنیلوں اور ان کے مساوی ہوائی اور بحری فوج کے افسران کے متذکرہ بالا آئین کے مطابق حلف اُٹھائیں ۔

اس وقت کی سرکاری ڈنڈے بازوں کے ہاتھوں تھوڑی تکلیف میرا ۔ آپ کا اور ہم سب کے بچوں کا مستقبل نہ صرف محفوظ کر سکتی ہے بلکہ اس کو ماضی سے بہتر بنا سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ نے ہماری قوم کو آزمانے کا یہ آخری موقع دیا ہو ۔ اسے کھو دیا تو پھر سوائے پچھتانے کے کچھ نہ رہے گا اور پچھتانے سے سوائے اپنا خون جلانے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔

احتجاج کے محتاط طریقے یہ ہیں ۔

1 ۔ احتجاج میں حصہ لینے والے اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کو ای میل یا خط بھیجیں جس میں ان کے کردار کو سراہتے ہوئے اپنے احتجاج کو مشتہر کرنے کی درخواست کریں ۔ اُنہیں لمبے خط نہ لکھیں بلکہ اپنا احتجاج بہت مختصر اور جامع الفاظ میں لکھیں ۔

جیو ٹی وی
gzks@geo.com

دی نیوز اور جنگ
editor@jang.com.pk
http://jang.net/features/comments/default.asp?camefrom=the%20news%20for%20editor

نوائے وقت
editor@nawaiwaqt.com.pk
webmaster@nawaiwaqt.com.pk

دی نیشن
editor@nation.com.pk
http://nation.com.pk/daily/nov-2007/9/feedback.php

ڈان
letters@dawn.com

2۔ عام لوگوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرتے ہوئے بتائیں کہ حقوق نہ ہونے کی وجہ سے کیا ہو سکتا ہے اور انہیں حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کی ترغیب دیں
3 ۔ سٹکر یا ہینڈ بل جس پر مقاصد مختصر طور پر لکھے ہوں عوام میں تقسیم کریں
4 ۔ مختصر نعروں کی وال چاکنگ کریں
5 ۔ کالا بِلا پہنیں
6 ۔ ممکن ہو تو اپنے مکان ۔ اپنی دکان ۔ اپنی گلی میں کالا جھنڈا لگائیں
7 ۔ احتجاج کی منصوبہ بندی کرنے والی یونین ۔ ایسوسی ایشن وغیرہ سے رابطہ رکھیں تا کہ احتجاج اجتماعی اور مؤثر بنایا جا سکے
8 ۔ اپنے محلہ یا کالج کی قریبی عوامی جگہ پر درجن دو درجن افراد اچانک اکٹھے ہو کر مظاہرہ کریں اور دس پندرہ منٹ بعد غائب ہو جائیں تاکہ پولیس کاروائی نہ کر سکے
9 ۔اپنے مظاہرہ کا ایک دن سے زیادہ پہلے اعلان نہ کریں اور صرف جگہ اور دن بتائیں ۔ وقت کا اعلان صرف ایک گھنٹہ پہلے کریں ۔ نجی ٹی وی اور اخبارات کے کسی نمائندہ تک رسائی ہو تو اسے ضرور بُلائیں تاکہ وہ ٹی وی اور اخبار آپ کے مظاہرہ کی تشہیر کر سکیں ۔

پس ثابت ہوا کہ ۔ ۔ ۔

مندرجہ ذیل حقائق بالخصوص ان قارئین کیلئے جنہیں حکومت نے نجی ٹی وی چینلز کو بلاک کر کے حقائق جاننے سے محروم کر دیا ہے ۔

جنرل پرویز مشرف نے 2 نومبر کو امریکی اور برطانوی حکومتوں کے اہلکاروں سے ٹیلیفون پر بات چیت کی اور پھر 3 نومبر کو ایمرجنسی کا نام دے کر مارشل لاء نافذ کر دیا ۔

جب ساری دنیا کے عوام اور ان کی اپوزیشن پارٹیوں احتجاج کیا تو ان کی حکومتیں احتجاج کرنے پر مجبور ہوئیں بالخصوص امریکہ اور برطانیہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے ۔

پرویز مشرف نے اس خیال سے کہ امریکی احتجاج صرف “گونگلوآں تو مِٹی چاڑنا اے” احتجاج مسترد کر دیا ۔ [معذرت ۔ اس پنجابی ضرب المثل تشریح لمبی ہے اس لئے جو قاری نہ سمجھ سکیں کسی بڑی عمر کے پنجابی سے پوچھ لیں]

یقینی بات ہے کہ امریکہ کے سلسلہ میں بینظیر بھٹو نے بھی پاؤں دبایا ہو گا ۔

بدھ 8 نومبر صدر بُش نے پرویز مشرف کو ٹیلفون کرنے کے بعد بتایا “میں نے بے تکلف پرویز مشرف کے ساتھ بات کی اور اسے کہا کہ وردی اُتارے کیونکہ آرمی چیف اور صدر دونوں عہدے رکھنا درست نہیں اور الیکشن کے شیڈول کا اعلان کرے

بُش کا ٹیلیفون آنے کے 3 گھنٹے کے اندر اسلام آباد میں پرویز مشرف کی بنائی ہوئی سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس شروع ہو گیا جس کے اختتام پر پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ اسمبلیوں کے انتخابات 15 فروری 2008 تک کسی ایک ہی دن ہوں گے اور عدالتِ عظمٰی جب صدر کے انتخابی نتائج کے اعلان کی اجازت دے گی تو وہ وردی اُتار دیں گے ۔

اس اعلان کے فوراً بعد وائٹ ہاؤس سے نیگرو پونٹے نے پرویز مشرف کے اعلان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنا مؤقف دہرایا کہ پرویز مشرف نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا قریبی دوست ہے

متذکرہ بالا اور اس سے قبل کے کئی دوسرے واقعات سے پوری طرح سے ثابت ہو گیا ہے کہ

پرویز مشرف امریکہ کے بل پر ہے
گر امریکہ کی پُشت پناہی نہیں
تو پرویز مشرف کچھ بھی نہیں

انسان دوست ہیں تو آگے بڑھیئے

ہمارے ملک میں انسانیت کے غم خوار تو سب ہی ہیں اور رفاہِ عام یا بہبودِ عامہ [welfare] کا ڈھنڈورہ بھی بہت پیٹا جاتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ایک محفل کے ارکان اور قارئین کو آسان سی بہبودِ عامہ کی دعوت دی تھی جو انہوں نے میرے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے کرنا تھی لیکن کسی ایک نے بھی حامی نہ بھری ۔ آج میں انسانیت کے سینے پر ایک رِستے ناسُور کو لے کے حاضر ہوا ہوں ۔ بنیادی طور پر میرے مخاطب راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہنے والے ہیں البتہ دوسرے شہروں میں بسنے والوں کو بھی دل و جان سے خوش آمدَید کہا جائے گا ۔

کسی جگہ گاڑی روکیں تو کوئی بچی یا بچہ اپنے منہ کی طرف اشارہ کر کے ہاتھ پھیلا دیتا ہے ۔ اُس کے چہرے سے اس کا خالی پیٹ عیاں ہوتا ہے ۔ انسانیت دوستی کے علمبردار سامراجی مُلک بچوں سے مزدوری کے خلاف مہم چلا کر اس بہانے پاکستان سے اپنے ملکوں میں درآمدات پر تو پابندی لگا دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ بچے اپنا پیٹ کیسے بھریں ؟ کہاوت مشہور ہے کہ کسی نے ایک بھوکے سے کہا کہ ایک اور ایک کتنے ہوتے ہیں تو اُس نے جواب دیا “دو روٹیاں”۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کاروں والے ایک پھول تو دس روپے میں خرید لیتے ہیں مگر ان محروم بچوں کو دھتکار دیتے ہیں ۔ ایسے بچوں کو کوڑے سے گلی سڑی اشیاء اُٹھا کر کھاتے بھی دیکھا گیا ہے ۔

ایک اہلِ دِل نوجوان نے خود ہی اپنے ذمہ لیا کہ وہ ان بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرے گا اور ان بچوں کے کوائف اکٹھا کرنا شروع کئے جن سے ظاہر ہوا کہ حقیقی محروم بچوں کی اکثریت اُن بے کس افغان مہاجرین کی اولاد ہے جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے کنارے خیمہ بستیوں میں آباد ہیں اور مزدوری کرتے ہیں ۔ یہ نوجوان ان بچوں کے والدین تک پہنچا اور انہیں سمجھایا کہ اگر یہ بچے پڑھ لکھ لیں گے تو ان کا مستقبل اچھا ہو گا اور انہیں بھیک نہیں مانگنا پڑے گی ۔ والدین کا خدشہ تھا کہ جو روکھی سوکھی روٹی ان بچوں کو مل رہی ہے وہ اس سے بھی محروم نہ ہو جائیں ۔ اس نوجوان نے انہیں قائل کیا کہ بچوں کی تعلیم کے دوران ان کی روٹی کا بھی بندوبست کیا جائے گا ۔ پھر اپنی محنت اور کوشش سے اس نوجوان نے چند بچوں کی تعلیم کا بندوبست اسلام آباد کے ایک افغانی سکول میں کیا ۔ ایک بچے کی ماہانہ فیس 350 روپے ہے اور بس کا کرایہ 200 روپے ۔ان بچوں کو روزانہ ایک وقت کے کھانے کے طور پر ایک روٹی اور پاؤ دودھ کی ڈبیہ دی جائے تو خرچ 550 روپے ماہانہ آتا ہے ۔ یعنی فی بچہ کُل خرچ 1100 روپے ماہانہ ہے ۔

اس جوان کی اَن تھک محنت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو پسند آئی اور اب ایسے 47 بچے جمع ہو گئے ہیں جن کی تعلیم کے خرچہ کے علاوہ انہیں کم از کم ایک وقت کا کھانا بھی مہیا کرنے کا بندوبست کیا جانا ہے تاکہ یہ ننھے پھول سڑکوں کی گرد و غُبار سے مرجھانے کی بجائے پڑھ لکھ کر کسی گلستان کی زینت بنیں ۔ اگر اس منصوبہ کو احسن طریقہ سے چلایا جائے تو بچوں کی تعداد اور بڑھے گی ۔ متذکرہ نوجوان اس ایک نجی کمپنی میں معمولی ملازم ہے اور دو چار بچوں سے زیادہ کا انتظام کرنے سے قاصر ہے ۔

مجھ سے جو کچھ ہو سکتا ہے میں کروں گا ہی ۔ میری تمام قارئین سے التماس ہے کہ آگے بڑھیں اور اس رفاہِ عام کے کام میں عملی حصہ لے کر انسانیت دوستی کا ثبوت دیں ۔ امدادکے مختلف پہلو ہیں ۔

اوّل ۔ کوئی رفاہی ادارہ کم از کم ان بچوں کی تعلیم کا مناسب بندوبست اپنے ذمہ لے لے ۔ ویسے تو صرف اسلام آباد میں این جی او کے نام سے 40 سے زائد ادارے ہیں لیکن وہ غیر مُلکی امداد جمع کرنے کے ماہر ہیں ۔ ایدھی ٹرسٹ جیسے اداروں کے پاس پہلے ہی بہت کام ہے اسلئے اُن پر مزید بوجھ ڈالا مناسب نہیں ۔

دوم ۔ تعلیم کا کوئی سستا بندوبست ہو سکے لیکن خیال رہے یہ بچے فارسی اور پشتو بولتے ہیں ۔

سوم ۔ انفرادی طور پر قارئین سے جو کچھ بھی ہو سکے جسمانی یا مالی یا دونوں طرح امداد کریں

میں یہ کام کرنے والے نیک دل نوجوان کا پتہ نہیں لکھ رہا کہ اپنی ملازمت کے علاوہ وقت نکال کر وہ رفاہِ عام میں مصروف ہے ۔ اس کے پاس ای میل پڑھنے کا بھی وقت نہیں ہو گا ۔ خواہش مند قارئین تبصرہ کے خانے میں اپنے کوائف لکھ سکتے ہیں یا مجھے بذریعہ ای میل مطلع کر سکتے ہیں ۔ ای میل پتہ معلوم کرنے کیلئے اُوپر رابطہ پر کلِک کیجئے ۔

دہشتگرد کون ہے ؟ خود فیصلہ کیجئے

ایپی گاؤں پر بمباری 1937ء میں بھی ہوئی تھی ۔ اُس وقت برطانوی ایئر فورس کے طیاروں نے بمباری کی تھی ۔ 2007ء میں پاکستان ایئر فورس نے بمباری کی لیکن فرق یہ ہے کہ برطانوی ایئر فورس نے پہلے اشتہار گرائے اور خبردار کیا کہ 12 اپریل کو کھجوری اور سیدگی کے درمیان بمباری ہو گی لہذا مقامی لوگ کہیں اور چلے جائیں جبکہ 7 اکتوبر 2007ء کو میر علی اور آس پاس کے علاقوں پر پاکستان ایئر فورس نے بغیر کسی اطلاع کے اچانک بمباری کی ۔

پاکستان کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس بمباری کا مقصد غیر ملکی دہشت گردوں کو ہلاک کرنا تھا لیکن کسی ایک غیر ملکی کی لاش میڈیا کے سامنے نہیں لائی گئی ۔

وزیرستان میں بھڑکائی جانے والی آگ کو لاہور اور کراچی تک پھیلنے سے روکنا آسان نہ ہو گا   :?: 

مشہور صحافی حامد میر جنہوں نے عید الفطر کوہاٹ میں وزیرستان کی بمباری سے زخمی ہونے والے شہریوں میں گذاری لکھتے ہیں ۔

عید کا دوسرا دن تھا۔ بنّوں شہر کے ایک اسکول کی عمارت میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان کے مہاجرین مجھے اپنی تباہی کی داستانیں سنا رہے تھے۔ اکثر مہاجرین کا تعلق شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی سے تھا۔ عید سے چند دن پہلے میر علی کے مرکزی بازار اور آس پاس کے قصبوں پر ہونے والی بمباری سے سیکڑوں لوگ مارے گئے اور ہزاروں لوگ خوف و ہراس کے عالم میں محفوظ مقامات کی طرف بھاگے۔ دس اکتوبر کو میر علی کے قریب ایک گاؤں ایپی میں پچاس افراد کی نمازہ جنازہ پڑھی گئی۔ ایپی کا ایک زخمی بچّہ مجھے بنّوں کے ڈسٹرکٹ ہاسپیٹل میں ملا۔ چھ سات سال کے اس بچّے کا چہرہ بم کا ٹکڑا لگنے سے بُری طرح متاثر ہوا تھا۔ ساتھ والے بستر پر ایک زخمی بزرگ پڑا ہوا تھا۔ اس بزرگ نے مجھے بتایا کہ اس بچّے کا نام عبداللہ ہے اور یہ بول چال سے قاصر ہے۔ اس بچّے کا باپ بمباری میں مارا گیا، زخمی ماں اسے اٹھا کر یہاں تک پہنچی اور چند گھنٹوں کے بعد چل بسی۔

اس بزرگ نے کپکپاتے ہونٹوں اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ کہا کہ 1937ء میں وہ اس معصوم بچّے کی عمر کا تھا اس وقت بھی ایپی گاؤں پر بمباری ہوئی تھی، اس وقت بھی کئی لوگ مارے گئے تھے لیکن فرق یہ ہے کہ 1937ء میں ایپی گاؤں پر برطانوی ایئر فورس کے طیاروں نے بمباری کی اور گاؤں والوں نے بڑے حوصلے اور فخر سے اپنے شہداء کو دفن کیا لیکن 2007ء میں ایپی گاؤں پر پاکستان ایئر فورس نے بمباری کی اور جب شہداء کو دفن کیا جا رہا تھا تو جذباتی نوجوان برطانوی سامراج کی بجائے پاکستانی فوج کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

بنّوں شہر کے مختلف علاقوں میں شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی حالت زار دیکھنے اور ہاسپیٹل میں زخمیوں کی عیادت کے دوران مجھے بار بار لبنان یاد آتا رہا۔ پچھلے سال جولائی میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو عذر پیش کیا کہ حزب اللہ کے گوریلے جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں سے اسرائیلی فوج پر حملے کرتے ہیں لہذا اسرائیل نے پورے جنوبی لبنان کو بمباری سے تباہ و برباد کر دیا۔ جنوبی لبنان کے مہاجرین اپنے ہی وطن میں بے گھر ہو کر بیروت کے مغربی اور مشرقی علاقوں میں پہنچے جہاں انہوں نے اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ لی۔ ان اسکولوں میں پناہ لینے والے لبنانی مہاجرین کی کہانیوں اور بنّوں کے اسکولوں میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی کہانیوں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ لبنانی مہاجرین اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں تباہ ہوئے اور شمالی وزیرستان والے پاکستانی فوج اور مقامی طالبان کی لڑائی میں تباہ ہو رہے ہیں۔ بیروت کے اسپتالوں میں زخمی عورتوں اور بچّوں کی دیکھ بھال کرنے والوں میں ریڈ کراس کے علاوہ عبدالستار ایدھی بھی نظر آتے تھے لیکن بنّوں میں شمالی وزیرستان کے تباہ حال مہاجرین کی خبر گیری کرنے والوں میں جماعت اسلامی اور الرحمت ٹرسٹ کے علاوہ کوئی تیسرا نظر نہیں آیا۔ جماعت اسلامی والوں نے بنّوں شہر میں مہاجرین کے تین کیمپ قائم کئے۔

جماعت اسلامی ضلع بنّوں کے امیر مطیع اللہ جان ایڈووکیٹ سے میں نے پوچھا کہ شمالی وزیرستان کے منتخب رکن قومی اسمبلی کا تعلق جمعیت علماء اسلام (ف) سے ہے لیکن ان کی جماعت کہیں نظر نہیں آ رہی۔ یہ سوال سن کر مطیع اللہ جان نے نظریں جھکا لیں اور موضوع بدلتے ہوئے کہنے لگے کہ ان متاثرین کا تعلق شمالی وزیرستان کے داوڑ قبیلے سے ہے جو میر علی کے گرد و نواح میں آباد ہے، یہ بڑے غیرت مند لوگ ہیں اور مشکل ترین حالات میں بھی کسی سے مدد نہیں مانگتے، لہذا یہ بمشکل دو تین دن ہمارے کیمپوں میں ٹھہرتے ہیں اور پھر اپنا انتظام کر کے آگے کوہاٹ اور کرک کی طرف چلے جاتے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں بمباری کے متاثرین کی اکثریت یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھی کہ ان کی تباہی کے ذمہ دار غیر ملکی عسکریت پسند یا طالبان ہیں۔ یہ سب متاثرین اپنی تباہی کی ذمہ داری امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر ڈال رہے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کا نام بہت کم سننے میں آیا۔ کافی دیر کے بعد مجھے پتہ چلا کہ داوڑی لوگ اپنے اصلی دشمن کا نام زبان پر لانا پسند نہیں کرتے۔

ڈگری کالج میر علی میں فورتھ ایئر کے ایک طالب علم نے کہا کہ سات اکتوبر سے پہلے وہ عسکریت پسندی کے سخت خلاف تھا اور دن رات اپنی تعلیم میں مگن تھا لیکن سات اکتوبر کی بمباری کے بعد اسے تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں رہی کیونکہ اب اسے اپنے چھوٹے بھائی کے قتل کا بدلہ لینا ہے جو بمباری میں مارا گیا۔ اس نے چیختے ہوئے کہا کہ میرا بھائی صبح سحری کے وقت میر علی بازار میں دہی لینے گیا تھا اور بمباری سے مارا گیا، وہ غیر ملکی دہشت گرد نہیں تھا صرف بارہ سال کا سٹوڈنٹ تھا جو ہر وقت کرکٹ کھیلتا تھا اور شاہد آفریدی کی تصاویر جمع کرتا تھا، میرے بھائی کے قتل کا ذمہ دار سب سے بڑا دہشت گرد ہے اور اب میں اس سے بھی بڑا دہشت گرد بن کر دکھاؤں گا۔ یہ سن کر میرے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور میں سوچنے لگا کہ کیا لاہور اور کراچی کے دانشور نفرت کی اس نئی آگ کا ادراک رکھتے ہیں جس پر آئے دن مزید تیل ڈالا جا رہا ہے؟

بنّوں میں شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی دکھ بھری کہانیاں سننے کے بعد میں بکا خیل کی طرف روانہ ہوا۔ بکا خیل سے شمالی وزیرستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ میر علی میں کرفیو ختم ہونے کے باوجود میرانشاہ بنّوں روڈ پر مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ مہاجرین میر علی سے نہیں بلکہ دتّہ خیل سے آ رہے تھے۔ دتّہ خیل سے آنے والے بتا رہے تھے کہ ان کے علاقے میں پاکستانی فوج بکتر بند گاڑیاں اور توپیں لیکر پہنچ گئی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ میر علی کے بعد اگلا آپریشن دتّہ خیل میں ہو گا۔ کچھ لوگ بنّوں سے واپس میر علی بھی جا رہے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا سامان لیکر واپس جائیں گے۔ اب انہیں کسی امن معاہدے پر اعتماد نہیں کیونکہ حکومت اپنی ضرورت کے مطابق معاہدہ کرتی ہے اور ضرورت کے مطابق توڑتی ہے، ہمارے مفاد کا کسی کو خیال نہیں۔

بکا خیل میں کھلے آسمان تلے ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے تباہ حال خاندان کے ایک فرد نے کہا کہ ہمارے بزرگ انگریزوں کے ظلم کی جو داستانیں ہمیں سناتے تھے اب تو وہ بھی ماند نظر آتی ہیں۔ انگریز ہمیشہ بمباری سے قبل اعلان کرتے، ہوائی جہاز سے ہینڈ بل گراتے اور بمباری کا وقت اور جگہ بھی بتاتے تھے تاکہ فقیر ایپی کے مجاہدین کے ساتھ لڑائی میں عام لوگوں کا نقصان نہ ہو۔ فقیر ایپی پر ڈاکٹر فضل الرحمان کی کتاب میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ 9 اپریل 1937ء کو برطانوی ایئر فورس نے دتّہ خیل اور میر علی کے آس پاس اشتہار گرائے اور خبردار کیا کہ 12 اپریل کو کھجوری اور سیدگی کے درمیان بمباری ہو گی لہذا مقامی لوگ کہیں اور چلے جائیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وزیرستان میں آج بھی انگریزوں کے طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں لیکن انداز انگریزوں والا نہیں ہے۔

سات اکتوبر 2007ء کو میر علی اور آس پاس کے علاقوں پر کسی اطلاع کے بغیر بمباری کی گئی۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس بمباری کا مقصد غیر ملکی دہشت گردوں کو ہلاک کرنا تھا لیکن کسی ایک غیر ملکی کی لاش میڈیا کے سامنے نہیں لائی گئی ۔ 1937ء کی بمباری نے انگریزوں کے خلاف فقیر ایپی کی تحریک کو مزید آگے بڑھایا تھا اور 2007ء کی بمباری نے شمالی وزیرستان کے عسکریت پسندوں کو غصّے اور نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے نوجوانوں کی ایک نئی کھیپ مہیا کی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار شمالی وزیرستان میں وہی غلطیاں کر رہے ہیں جو امریکہ نے عراق اور بھارت نے کشمیر میں کیں۔ نجانے ان ارباب اختیار نے لال مسجد آپریشن سے کوئی سبق کیوں نہیں سیکھا؟ چند لبرل فاشسٹوں کی خوشی کیلئے لال مسجد آپریشن کیا گیا جس نے مزید تشدد اور خودکش حملہ آور پیدا کئے۔ لبرل فاشسٹوں کو خوش کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو شمالی وزیرستان میں بھڑکائی جانے والی آگ کو لاہور اور کراچی تک پھیلنے سے روکنا آسان نہ ہو گا