Category Archives: گذارش

زندگی کی بنیاد

گھر میں پیار محبت کا ماحول زندگی کی بنیاد ہے

کبھی اٹل خواہش کا بھی پورا نہ ہونا بڑی خوش قسمتی ہوتا ہے

بہترین تعلق وہ ہے جس میں باہمی محبت باہمی ضرورت سے زیادہ ہو

بصیرت بغیر عمل کے صرف ایک خواب ہے

اور عمل بغیر بصیرت کے فقط وقت گذارنا ہے

مگر بصیرت کے ساتھ عمل دنیا بدل کر رکھ دیتا ہے

شفاف انتخابات

آنے والی حکومت آپ کی ہو گی اگر ۔ ۔ ۔

آپ خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیں

آپ تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کو ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کسی کو نہ بتائیں کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کوئی پوچھے تو جواب میں کہیں ” آپ بالکل فکر نہ کریں “

اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے عزیز و اقرب کو بھی اسی پر آمادہ کریں

چند تبصرے

پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم آرڈیننس پر بی بی سی اُردو سے نقل کئے چند تبصرے

جيو اور باقی چينلزکی بندش کے بعدانٹرنيٹ ہی واحد معلوماتی ذريعہ بچا تھا۔ ٹی وی چينلز تو آج کل صرف بسکٹ اور صابن کی تعريف کرتے نظر آتے ہيں ليکن اب لگتا ہے کہ بی بی سی اردو کا اگلا موضوع ہوگا کہ بينگن کا بھرتاکس طرح بنتا ہے۔ کيوں کہ سائبرکرائمز ميں لفظ ’ناپسنديدہ‘ وہ تمام موضوعات اور الفاظ ہو سکتے ہيں جو لوگ اپنے تبصروں ميں صدر اور حکومت کے خلاف استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان سائبرکرائم آرڈيننس سے پہلے باقی اسلامی مالک کی طرح بيہودہ ويب سائيٹز بلاک کرے جو نوجوان نسل ميں بيہودگی کو فروغ دے رہی ہيں۔
مشوانی [تجویز کنندہ 11 لوگ]

اب سانس بھی آہستہ اور محتاط ہو کر لیں ورنہ گہری سانسوں پر بھی آرڈیننس جاری کر دیا جائے گا۔
محمد ریاض خان ۔ ٹو رانٹو ۔ کینیڈا [تجویز کنندہ 3 لوگ]

صدر صاحب تو منتخب پارلیمان کی موجودگی میں آرڈیننس جاری کرتے رہے ہیں۔ اس لیے منتخب پارلیمان کی غیر موجودگی میں پہلے سے ہی متنازعہ نیا قانون نافذ کرنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ تاہم ان کی روشن خیالی کا بھانڈا بیچ چوراہے کے ضرور پھوٹ چکا ہے۔ یاد رکھیں کہ صدر پرویز مشرف ایسے تمام معلوماتی ذرائع پر پابندی لگائیں گے جس سے ان کے اقتدار اور ان کی چھتری تلے پرورش پانے والی ق لیگ کے لیے خطرہ ہو گا۔ کیونکہ بازی ہارے ہوئے لوگوں کا ہمیشہ سے یہی چلن رہا ہے۔
محمد نعیم فاروقی ۔ لاھور ۔ پاکستان [تجویز کنندہ 3 لوگ]

ناپسندیدہ، غیراخلاقی یا بے ہودہ ۔ اس جملے ميں لفظ ناپسندیدہ کی تعريف متعين کی جائے ورنہ يہ ہر ايک کے گلے میں پھندہ فٹ کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ قطع نظر اس کے کتنے لوگوں کی انٹرنيٹ تک رسائی ہے پھر بھی قوانين تو ہمہ گير ہونا چاہیے۔ ويسے ايک اور قانون کی زيادہ ضرورت ہے جس کے تحت لفظ ’رٹائرمنٹ‘ کی تعريف متعين کر دی جائے۔
سیّد ضیاء [تجویز کنندہ 5 لوگ]

پاکستان جہاں انٹر نیٹ کی صنعت ابھی ترقی کے مراحل پر ہے اس قسم کے آرڈیننس کا مقصد ڈوبتی ہوئی کشتی میں ایک اور سوراخ کرنے کے مترادف ہے۔ لگتا یوں ہے کہ گورنمنٹ کو صرف کچھ موضوع چاہیے جس پر ارڈینینس نافذ کیا جائے۔ قوم کا کیا جاتا ہے ان کی بلا سے۔ یہ سب کچھ صرف الیکٹر ونک میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ایک اور سازش ہے۔
عمر حیات کالس ۔ تھلہ متھرانی ۔ کوٹلی آزاد کشمیر [تجویز کنندہ 5 لوگ]

سائبر کرائمز کی روک تھام کے لۓ کوئی قانون تو ہونا چاہيے ليکن نگراں حکومت کو صرف انتخابات کے انعقاد پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہيے، قانون سازی اس کا مينڈيٹ نہيں ہے۔ ہاں اگر يہ کچھ کرنا ہی چاہے تو آٹے کی فراہمی اور قيمتوں پر کنٹرول کرنے جيسا بنيادی کام ہی کر لے تو بڑی بات ہوگی۔ آٹا ، بجلی اور گيس غائب ہے اور چلے انٹرنيٹ پر غور کرنے۔۔۔۔
محمد خالد جانگڈا ۔ کراچی ۔ پاکستان [تجویز کنندہ 10 لوگ]

دو دفعہ ريٹائرڈ جنرل مشرف اپنے اقتدار پر مسلط رہنے کی ہر ہر تدبير کو پاکستانی مفاد قرار ديتے ہيں مگر 16 کروڑ عوام کے مفاد کا انکو بالکل خيال نہيں ہے۔ ان کا يہ قانون انکی اپنے اقتدار سے چمٹے رہنے کے خونی کھيل ميں کسی تصويری ثبوت سے بچنے کی تدبير کے علاوہ کچھ نہيں۔ آجکی دنيا ميں اليکٹرونک کی ہيجان خيز ترقی کو روکنا کسی مشرف کے بس کام نہيں۔ آمر کا اس طرح اليکٹرونک صحافت کو باندھنا تو نظر آتا ہے مگر اب عوام کو الو بنانا آسان نہيں۔ ايسا کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
چاند بٹ جرمنی [تجویز کنندہ 4 لوگ]

اس سے ڈکٹیٹرشپ کے نقصانات مزید اجاگر ہو رہے ہیں۔ عوامی رائے کو نظر انداز کر کر کے ان حضرات نے ملک کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ کاش! یہ ابھی بھی ہوش کے ناخن لیں، بصورت دیگر جتنا نقصان پہلے سے ہوسکتا ہے اللہ نہ کرے کہ ہم اس سے بڑے نقصان سے دوچار ہو جائیں۔
ریاض شاہد ۔ لاہور ۔ پاکستان [تجویز کنندہ 2]

جس ملک ميں خواندگی کی شرح چالیس فیصد سے کم ھو، جہاں چالیس فیصد سے زيادہ لوگ خط افلاس سے نيچے زندگی گزار رھے ھوں، جہاں انٹرنٹ تک رسائی ہی بہت محدود تعداد لوگوں کی ھو، وھاں ايسی باتيں کرنا بےوقوفی سے زيادہ کچھ نہيں۔ انٹرنیٹ پر وھی جائيگا جو آٹا نہ ڈھونڈ رھا ھو اور يہ بھی ياد رکھنے کی بات ھے کہ انٹرنیٹ بجلی سے چلتا ھے۔
ظھور ۔ رياض ۔ سعودی عرب [تجویز کنندہ 2]

بد ترین آمریت کا نفاذ

پرویز مشرف کی حکومت نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم آرڈیننس [Prevention of Electronic Crime Ordinance] کے نام سے ایک متنازعہ قانون غیر اعلانیہ طور پر نافذ کر دیا ہے جس کا اطلاق 31 دسمبر 2007 ء سے ہو چکا ہے ۔ آرڈیننس کے نفاذ کا انکشاف جمعرات کو اس وقت ہوا جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نگراں وفاقی وزیر ڈاکٹر عبداللہ ریاڑ نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ’پریونشن آف ای کرائم آرڈیننس 31 دسمبر 2007ء سے نافذ العمل ہوچکا ہے۔ چند روز قبل پاکستان کے ایک مقامی اردو اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی کہ صدر پرویز مشرف نے سائبر کرائم کے خلاف آرڈیننس جاری کردیا ہے تاہم وفاقی حکومت کے محکمہ اطلاعات یا پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس سے لاعلمی ظاہر کی تھی۔ عام طور پر صدر جب کوئی آرڈیننس جاری کرتا ہے تو وفاقی حکومت پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے میڈیا کو اس کی نقول جاری کرتی ہے ۔

اس آرڈیننس کے تحت بغیر اجازت کسی کی تصویر کھینچنا ۔ انٹرنیٹ یا موبائل فون کی مدد سے کسی کو ایسا پیغام بھیجنا جسے ناپسندیدہ ۔ غیراخلاقی یا بے ہودہ سمجھا جائے اور مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کرنا جرم ہوگا اور اس پر سات سال تک قید یا تین لاکھ روپے تک سزا سنائی جاسکتی ہے حتٰی کہ کچھ جرائم میں موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے ۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی کابینہ نے تو اس کی منظوری بھی دے دی تھی لیکن بوجوہ یہ نافذ نہیں ہوسکا تھا ۔

بالخصوص موجودہ صورت حال میں جبکہ منتخب پارلیمان موجود نہیں ایک ایسے نئے قانون کا نفاذ جو پہلے سے ہی متنازعہ ہے کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ آخر ناپسندیدہ ۔ غیر اخلاقی اور بےہودہ جیسے الفاظ کی تعریف اور تعیّن کون کرے گا؟ کیا یہ معلومات تک رسائی کے حق کو محدود کرنے کی ایک کوشش نہیں ہے ؟

نجی ٹی وی کمپنیوں پرحکومت کی باقاعدہ اجازت کے بغیر کسی بھی عمل کو لائیو کاسٹ [live cast] کرنا تو پہلے ہی پیمرا آرڈیننس کے تحت ممنوع قرار دیا جا چکا ہے تاکہ حکومتی ناکامیاں اور چیرادستیاں عوام تک نہ پہنچ سکیں ۔ مزید اس قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر میری مرضی نہ ہو اور آپ نے گزرتے ہوئے میری فوٹو لے لی تو یہ الیکٹرانک کرائم ہے ۔ پھر تو الیکٹرانک جرنلزم تو ختم ہوگئی ۔ یہ تو آزادی صحافت پر بھی ایک خطرناک وار ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کو انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے قوانین سے لیس کرنا ہے لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ افراد اور دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ اس قانون میں صرف انٹرنیٹ ہی نہیں بلکہ موبائل فون ۔ کیمرہ اور تصویر کشی اور پیغام رسانی کے لئے استعمال ہونے والے دوسرے برقی آلات کے استعمال کا بھی احاطہ کیا گیا ہے اور اسکے نفاذ سے فائدہ کے بجائے نقصان کا خطرہ ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عالمی قوانین پر دسترس رکھنے والے قانون دان زاہد جمیل کہتے ہیں کہ اس قانون کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے اور مجموعی طور پر ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے غیرملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال کرکے کسی کے خلاف بھی ایف آئی آر داخل کرائی جاسکتی ہے ۔ کسی بھی قانون میں جرم کی پوری طرح وضاحت کی جاتی ہے اس قانون کو اس طرح ڈیفائن کیا گیا ہے کہ یہ دوسرے ملکوں کے قوانین کے بالکل برعکس ہے ۔ زاہد جمیل کے بقول یہ ایک نئی مثال ہے۔ دنیا کے مہذب ممالک میں مثلاً امریکہ ۔ برطانیہ وغیرہ میں اس طرح کے جرائم کے لئے سزائے موت کہیں بھی نہیں ہے ۔

یہ حکمنامہ بظاہر اتنا مُہلک نظر نہیں آتا لیکن اس کا استعمال انتہائی مُہلک ہو سکتا ہے ۔ 3 نومبر 2007 سے آئین میں دئیے گئے اصولوں کی جارحانہ خلاف ورزی کرتے ہوئے جو تبدیلیاں کی گئیں ان کے مطابق صدر اور صدر کے مقرر کردہ افسران کے کسی حکم کے خلاف کوئی عدالت کوئی کسی درخواست پر غور بھی نہیں کر سکتی ۔ موجودہ حکومت نے تو پچھلے 6 سال میں کسی قانون کی پرواہ نہیں کی ۔ بغیر کسی ثبوت ۔ عدالتی چارہ جوئی یا تحقیقات کے کمسن بچوں سمیت ہزاروں پاکستانیوں کو ہلاک کیا گیا اور سینکڑوں پاکستانیوں کو اُٹھا کر غائب کر دیا گیا ۔ اب اس قانون میں تو کھُلی چھُٹی ہے کہ کسی بھی بات یا عمل کو ناپسندیدہ ۔ غیراخلاقی یا بے ہودہ قرار دیا جا سکتا ہے اور کسی بھی شخص کو پھانسنے کیلئے جھوٹا الزام لگانا اس حکمران کیلئے کیا مشکل ہے جو ملک کے آئین اور قانون کی آئے دن دھجیاں اُڑاتا رہتا ہے اور انصاف مہیا کرنے والے 60 سینئر ترین جج صاحبان کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہٹا کر پابندِ سلاسل کیا ۔ ان حالات میں کوئی شخص انصاف کیسے حاصل کرے گا ؟

یہاں کلک کر کے پڑھئے عوام کا ردِ عمل

حکومت کا میں نہ مانوں

گاڑی کے سن روف کے لیور سے ٹکرا کر قاتل زخم والی بات تو زخم کی نوعیت نے ہی مسترد کر دی تھی ۔ 30 دسمبر کو آصف علی زرداری نے بتا کہ گاڑی کے سن روف کے لیور ربڑ کے ہیں ۔ ڈاکٹر مصدق اور ساتھیوں کی لکھی میڈیکل رپورٹ نامکمل ہے ۔ ریٹائرڈ برگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا تھا کہ آٹوپسی آصف زرداری نے نہیں کرنے دی جو کہ جھوٹ نکلا ۔ آٹوپسی راولپنڈی کے پولیس چیف نے نہیں کرنے دی تھی ۔ بینظیر کے قتل کی وڈیو کے متعلق ریٹائرڈ برگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا “یہ کون ثابت کرے گا کہ یہ وڈیو بینظیر ہی کے قتل کی ہے ؟” نیچے ملاحظہ کیجئے مختلف کیمرہ مینوں کی لی ہوئی وڈیوز جن سے واضح ہے کہ بینظیر گولی لگنے کے بعد گاڑی کے اندر گر گئیں پھر دھماکہ ہوا ۔ چینل 4 کی وڈیو میں نظر آتا ہے کہ گولی چلنے کے بعد بینظیر کا دوپٹہ اور بال اُوپر کو اُچھلے اور وہ نیچے گاڑی میں گر گئی پھر دھماکہ ہوا ۔

قاتل کون ؟

نشر ہونے والے بیانات

پروفیسر ڈاکٹر مصدق نے جمعرات 27 دسمبر کی شام کہا کہ موت گردن میں گولی لگنے سے ہوئی جو سانس کی نالی کو کاٹتے ہوئے نکل گئی ۔

بینظیر کے انتہائی قریبی ساتھی ڈاکٹر بابر اعوان نے جمعرات کی شام کو کہا کہ بینظیر پر نشانہ لیکر گولیاں چلائی گئیں جس کے نتیجہ میں ہلاکت ہوئی ۔

نگران وزیرِ داخلہ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل حامد نواز نے کہا کہ بینظیر کی موت بم کا ٹکڑا کنپٹی پر لگنے سے ہوئی جو کھوپڑی کو توڑتا ہوا نکل گیا ۔

جمعہ 28 دسمبر کی شام کو پریس کانفرنس میں وزارتِ داخلہ کے ترجمان ریٹائرڈ بریگیڈئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا کہ 3 گولیاں چلیں مگر بینظیر کو کوئی نہ لگی ۔ بینظیر ڈر کر ایکدم نیچے ہونے لگی تو اس کی کنپٹی گاڑی کے کھلے چھت کے لیور سے ٹکرائی جس سے اس کی موت واقع ہوئی ۔

پروفیسر ڈاکٹر مصدق نے جمعہ 28 دسمبر کی شام کہا کہ موت کنپٹی لیور سے ٹکرانے کے باعث ہوئی ۔

دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک شخص نے کہا “میں صرف چند فٹ کے فاصلہ پر تھا ۔ محترمہ پر ایک نوجوان شخص نے کلاشنکوف سے فائرنگ کی “۔

ایک اور عینی شاہد نے کہا ” محترمہ پر فارنگ پولیس کی گاڑی سےکی گئی”۔

ایک اور عینی شاہد کا کہنا ہے کہ تھوڑا دور کسی اُونچی جگہ سے محترمہ پر فائرنگ کی گئی ۔ [یعنی زمین سے نہیں کی گئی]

پیپلز پارٹی کے اسلام آباد سے مستقل اُمیدوار سیّد نیّر بخاری جن کی گاڑی بینظیر کی گاڑی کے بالکل قریب تھی نے کہا کہ بینظیر پر تین گولیاں چلائی گئیں ۔

بینظیر کے قانونی مشیر فاروق نائیک نے جمعہ کی شام کو کہا “حکومت کا مسلک جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ ایک گولی محترمہ کے سر میں اور ایک پیٹ میں لگی ۔ خون بہہ رہا تھا جب اسے ہسپتال لے کر گئے ۔ محترمہ کی گاڑی میں ناہید خان اور اور امین فہیم تھے اور انہوں نے دیکھا کیا ہوا “۔

میں نے نہیں دیکھا لیکن مجھے کچھ قابلِ اعتبار لوگوں نے بتایا ہے کہ اے آر وائی ون کے مطابق امین فہیم نے کہا “دھماکے کی آواز پر محترمہ باہر نکلیں اور ایکدم نیچے گر گئیں”۔

تجزیہ

اُوپر لکھے گئے بیانات کے علاوہ میرے علم میں کچھ مصدقہ اطلاعات ہیں ۔ بینظیر کے سر کا زخم جس سے خون بہتا رہا کسی کُند دھاتی ٹکڑے کا لگایا ہوا تھا جو سر سے اتنی قوت سے ٹکرایا کہ سطح 16 ملی میٹر اندر دھنس گئی ۔ انسان اگر اپنا سر کسی ساکن چیز سے ٹکرائے تو اس سے کھوپڑی کی ہڈی کا اتنا اندر دھنس جانا بعید از قیاس ہے ۔ چنانچہ سرکاری بیان غلط ہے ۔

خود کش بمبار اتنا اور اس طرح لدا ہوا ہوتا ہے کہ وہ صحیح نشانہ نہیں لے سکتا ۔ اسلئے گولی چلانے والا شخص کوئی اور تھا ۔

ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ ایک ٹی وی کیمرہ میں ایک پستول جس کا رُخ بینظیر کی طرف ہے سے گولیاں چلتی نظر آتی ہیں جبکہ ایک عینی شاہد نے خودکار بندوق سے گولیاں چلتی دیکھیں ۔ اسی شاہد کے مطابق پہلے گولیاں چلیں پھر دھماکہ ہوا جبکہ امین فہیم کے بیان کے مطابق بعد میں چلنے والی گولیوں سے بینظیر گر گئیں ۔

مختلف بیانات میں بظاہر تضاد لگتا ہے لیکن گولی چلانے والے دو مختلف اشخاص ہوں تو تضاد ختم ہو جاتا ہے ۔ اگر یوں کہا جائے کہ پہلے گولیاں چلیں پھر دھماکہ ہوا اس کے بعد پھر گولیاں چلیں تو سوائے حکومتی بیان کے سب بیان صحیح لگتے ہیں ۔ تعجب خیز حکومت کا یہ عمل ہے کہ اول تو فلم پوری نہیں دکھائی گئی ۔ دوسرے اس فلم کی رفتار کم [Slow motion] کر کے کیوں نہیں دکھایا گیا ؟

بینظیر کو سکیورٹی اور حادثہ کی صورت میں فوری امداد حکومت کا فرض تھا اور وعدہ بھی مگر یا تو سکیورٹی تھی نہیں یا یہ کارستانی ہے ہی سکیورٹی والوں کی ۔ بینظیر کے بھائی مرتضٰی بھٹو کا قتل قارئین کو یاد ہو گا ۔ فوری طبی امداد کا بھی کوئی بندوبست نہ تھا ۔

راولپنڈی میں حادثات سے نبٹنے کیلئے رسکیو 1122 پولیس ہے جو کہ ایک فعال ادارہ ہے ۔ اسے کام نہیں کرنے دیا گیا ۔

لیاقت باغ کی ایک تہائی حدود کے ساتھ لیاقت روڈ ہے جسے سکیورٹی پروٹوکال کے تحت خالی رکھا گیا تھا ۔ حادثہ لیاقت باغ کے گیٹ کے قریب ہوا ۔ لیاقت باغ کے گیٹ سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کا فاصلہ جوکہ لیاقت روڈ کے دوسرے سرے پر ہے ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے درمیان ہے ۔ حادثات کا بنیادی مرکز بھی یہی ہسپتال ہے ۔ اگر بینظیر کو اس ہسپتال لیجایا جاتا تو آدھے منٹ میں ہسپتال پہنچ جاتی اور اس کا علاج شروع ہو جاتا کیونکہ سڑک خالی تھی لیکن اسے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ۔ اسلام آباد لیجانے کی کوشش کی گئی جو کہ وہاں سے 16 کلومیٹر دور ہے ۔ پھر مری روڈ پر ٹریفک بھی بہت تھی اور جلوس بھی تھا ۔ مری روڈ پر راولپنڈی جنرل ہسپتال لیاقت باغ سے کوئی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ اس سے آگے گذرنے کے بعد یو ٹرن کر کے واپس آئے اور جنرل ہسپتال لے گئے ۔ اس طرح 35 قیمتی منٹ ضائع ہو گئے جس دوران بیشمار خون بہہ چکا تھا ۔

ان حقائق کی روشنی میں قارئین آسانی سے تعین کر سکتے ہیں کہ قاتل کون ہے ۔

ایک اچھا مشورہ

میں نے اک عمر گذاری ہے گردشِ دوراں کے ساتھ لیکن میرے خالق و مالک نے مجھے اس سَیلِ رواں کے ساتھ بہہ جانے سے ہمیشہ بچایا ۔ میں اپنے اللہ الرحمٰن الرحیم کا جتنا بھی شکر بجا لاؤں کم ہے ۔ میرے پرانے قارئین جانتے ہونگے کہ میں نے بینظیر کے جس مسلک کو غلط سمجھا اس کی کھُل کر مخالفت کی ۔ میں اس کا کبھی ووٹر بھی نہیں رہا ۔

میری تمام مسلمان قارئین سے درخواست ہے کہ صرف اپنی بہتری اور اپنی اچھی عاقبت کیلئے کسی بھی مرنے والے کے خلاف کوئی کلمہ لکھنا یا زبان پر لانا تو کیا سوچیں بھی نہیں کیونکہ روح قفسِ عنصری سے پرواز کرتے ہی مرنے والے کا حساب کتاب اللہ کے ہاں شروع ہو جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں اس کی اچھائی بیان کرنا یا اس کیلئے مغفرت کی دعا کرنا نیک عمل ہے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو بیشک گنہگار ہو مگر اس کی برائی بیان کرنا اپنے گناہوں میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے ۔ اسلئے اب جبکہ کہ بینظیر عالمِ برزخ میں پہنچ چکی ہے اس کی برائیاں بیان نہ کریں ۔

وما علینا الالبلاغ