نشر ہونے والے بیانات
پروفیسر ڈاکٹر مصدق نے جمعرات 27 دسمبر کی شام کہا کہ موت گردن میں گولی لگنے سے ہوئی جو سانس کی نالی کو کاٹتے ہوئے نکل گئی ۔
بینظیر کے انتہائی قریبی ساتھی ڈاکٹر بابر اعوان نے جمعرات کی شام کو کہا کہ بینظیر پر نشانہ لیکر گولیاں چلائی گئیں جس کے نتیجہ میں ہلاکت ہوئی ۔
نگران وزیرِ داخلہ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل حامد نواز نے کہا کہ بینظیر کی موت بم کا ٹکڑا کنپٹی پر لگنے سے ہوئی جو کھوپڑی کو توڑتا ہوا نکل گیا ۔
جمعہ 28 دسمبر کی شام کو پریس کانفرنس میں وزارتِ داخلہ کے ترجمان ریٹائرڈ بریگیڈئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا کہ 3 گولیاں چلیں مگر بینظیر کو کوئی نہ لگی ۔ بینظیر ڈر کر ایکدم نیچے ہونے لگی تو اس کی کنپٹی گاڑی کے کھلے چھت کے لیور سے ٹکرائی جس سے اس کی موت واقع ہوئی ۔
پروفیسر ڈاکٹر مصدق نے جمعہ 28 دسمبر کی شام کہا کہ موت کنپٹی لیور سے ٹکرانے کے باعث ہوئی ۔
دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک شخص نے کہا “میں صرف چند فٹ کے فاصلہ پر تھا ۔ محترمہ پر ایک نوجوان شخص نے کلاشنکوف سے فائرنگ کی “۔
ایک اور عینی شاہد نے کہا ” محترمہ پر فارنگ پولیس کی گاڑی سےکی گئی”۔
ایک اور عینی شاہد کا کہنا ہے کہ تھوڑا دور کسی اُونچی جگہ سے محترمہ پر فائرنگ کی گئی ۔ [یعنی زمین سے نہیں کی گئی]
پیپلز پارٹی کے اسلام آباد سے مستقل اُمیدوار سیّد نیّر بخاری جن کی گاڑی بینظیر کی گاڑی کے بالکل قریب تھی نے کہا کہ بینظیر پر تین گولیاں چلائی گئیں ۔
بینظیر کے قانونی مشیر فاروق نائیک نے جمعہ کی شام کو کہا “حکومت کا مسلک جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ ایک گولی محترمہ کے سر میں اور ایک پیٹ میں لگی ۔ خون بہہ رہا تھا جب اسے ہسپتال لے کر گئے ۔ محترمہ کی گاڑی میں ناہید خان اور اور امین فہیم تھے اور انہوں نے دیکھا کیا ہوا “۔
میں نے نہیں دیکھا لیکن مجھے کچھ قابلِ اعتبار لوگوں نے بتایا ہے کہ اے آر وائی ون کے مطابق امین فہیم نے کہا “دھماکے کی آواز پر محترمہ باہر نکلیں اور ایکدم نیچے گر گئیں”۔
تجزیہ
اُوپر لکھے گئے بیانات کے علاوہ میرے علم میں کچھ مصدقہ اطلاعات ہیں ۔ بینظیر کے سر کا زخم جس سے خون بہتا رہا کسی کُند دھاتی ٹکڑے کا لگایا ہوا تھا جو سر سے اتنی قوت سے ٹکرایا کہ سطح 16 ملی میٹر اندر دھنس گئی ۔ انسان اگر اپنا سر کسی ساکن چیز سے ٹکرائے تو اس سے کھوپڑی کی ہڈی کا اتنا اندر دھنس جانا بعید از قیاس ہے ۔ چنانچہ سرکاری بیان غلط ہے ۔
خود کش بمبار اتنا اور اس طرح لدا ہوا ہوتا ہے کہ وہ صحیح نشانہ نہیں لے سکتا ۔ اسلئے گولی چلانے والا شخص کوئی اور تھا ۔
ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ ایک ٹی وی کیمرہ میں ایک پستول جس کا رُخ بینظیر کی طرف ہے سے گولیاں چلتی نظر آتی ہیں جبکہ ایک عینی شاہد نے خودکار بندوق سے گولیاں چلتی دیکھیں ۔ اسی شاہد کے مطابق پہلے گولیاں چلیں پھر دھماکہ ہوا جبکہ امین فہیم کے بیان کے مطابق بعد میں چلنے والی گولیوں سے بینظیر گر گئیں ۔
مختلف بیانات میں بظاہر تضاد لگتا ہے لیکن گولی چلانے والے دو مختلف اشخاص ہوں تو تضاد ختم ہو جاتا ہے ۔ اگر یوں کہا جائے کہ پہلے گولیاں چلیں پھر دھماکہ ہوا اس کے بعد پھر گولیاں چلیں تو سوائے حکومتی بیان کے سب بیان صحیح لگتے ہیں ۔ تعجب خیز حکومت کا یہ عمل ہے کہ اول تو فلم پوری نہیں دکھائی گئی ۔ دوسرے اس فلم کی رفتار کم [Slow motion] کر کے کیوں نہیں دکھایا گیا ؟
بینظیر کو سکیورٹی اور حادثہ کی صورت میں فوری امداد حکومت کا فرض تھا اور وعدہ بھی مگر یا تو سکیورٹی تھی نہیں یا یہ کارستانی ہے ہی سکیورٹی والوں کی ۔ بینظیر کے بھائی مرتضٰی بھٹو کا قتل قارئین کو یاد ہو گا ۔ فوری طبی امداد کا بھی کوئی بندوبست نہ تھا ۔
راولپنڈی میں حادثات سے نبٹنے کیلئے رسکیو 1122 پولیس ہے جو کہ ایک فعال ادارہ ہے ۔ اسے کام نہیں کرنے دیا گیا ۔
لیاقت باغ کی ایک تہائی حدود کے ساتھ لیاقت روڈ ہے جسے سکیورٹی پروٹوکال کے تحت خالی رکھا گیا تھا ۔ حادثہ لیاقت باغ کے گیٹ کے قریب ہوا ۔ لیاقت باغ کے گیٹ سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کا فاصلہ جوکہ لیاقت روڈ کے دوسرے سرے پر ہے ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے درمیان ہے ۔ حادثات کا بنیادی مرکز بھی یہی ہسپتال ہے ۔ اگر بینظیر کو اس ہسپتال لیجایا جاتا تو آدھے منٹ میں ہسپتال پہنچ جاتی اور اس کا علاج شروع ہو جاتا کیونکہ سڑک خالی تھی لیکن اسے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ۔ اسلام آباد لیجانے کی کوشش کی گئی جو کہ وہاں سے 16 کلومیٹر دور ہے ۔ پھر مری روڈ پر ٹریفک بھی بہت تھی اور جلوس بھی تھا ۔ مری روڈ پر راولپنڈی جنرل ہسپتال لیاقت باغ سے کوئی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ اس سے آگے گذرنے کے بعد یو ٹرن کر کے واپس آئے اور جنرل ہسپتال لے گئے ۔ اس طرح 35 قیمتی منٹ ضائع ہو گئے جس دوران بیشمار خون بہہ چکا تھا ۔
ان حقائق کی روشنی میں قارئین آسانی سے تعین کر سکتے ہیں کہ قاتل کون ہے ۔