Category Archives: گذارش

ہمتِ کرے انسان

سب ہموطنوں کو نویدِ صبح مبارک ہو ۔ اللہ کرے کہ اب ہر ہموطن پورے خلوص اور استقلال کے ساتھ خود اپنے نفس کے خلاف تحریک چلا کر اپنے اندر پیدا شدہ تمام قباہتوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے ۔

الحمدللہ ۔ وکلاء ۔ سول سوسائیٹی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے ثابت کر دیا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

جب 3 نومبر 2007ء کے بعد وکلاء کی تحریک نے زور پکڑا اور اپنی تحریک کو اپنے خُون سے سیراب کرنے کے باوجود انہوں نے شرافت کا ساتھ نہ چھوڑتے ہوئے اپنی جد و جہد جاری رکھی تو جمہور خود بخود اُن کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئی ۔ میں تو دعا اور دوا کر ہی رہا تھا ۔ وہ لوگ جو احتجاج کو بدامنی حتٰی کہ بدتمیزی تک کہتے تھے اُن میں اس تحریک کی خبریں ٹی وی سے سننے اور اخبار میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور پھر تحریک سے اُن کی دلچسپی بڑھنا شروع ہوئی ۔ تمام استعماری طاقتوں نے پھر دیکھ لیا کہ نہتے جمہور کی طاقت کیا ہوتی ہے ۔ لاہور جی پی او چوک پر پہنچنے والوں کو لگائی گئی کئی رکاوٹیں نہ روک سکیں ۔ نہ پولیس کی بھاری نفری اُن پر لاٹھیاں برسا کر اور اشک آور گیس کے 200 کے قریب گولے پھینک ان کے جذبہ کو کم کر سکی ۔ نواز شریف کے ساتھ حق کی راہ پر نکلنے والا جلوس ماڈل ٹاؤن سے کالا شاہ کاکو تک سات رکاوٹیں جو بڑے بڑے سامان سے بھرے کنٹینر لگا کر بنائی گئی تھیں ہٹاتے ہوئے گوجرانوالہ تک پہنچے ۔ مگر   آمر کی ضد گوجرانوالہ پہنچنے سے کچھ قبل دم توڑ گئی تھی

پاکستان بننے کے بعد یہ تحریک ہر لحاظ سے منفرد تھی ۔ اسے شروع کرنے والے نہ صرف تعلیم یافتہ تھے بلکہ قانون دان تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک جتنی تحاریک چلیں سوائے تحریک ختمِ نبوّت کے اُن سب کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق کسی شخص یا جماعت سے تھا جبکہ اس تحریک کا فائدہ تحریک شروع کرنے والوں کو ہوتا یا نہ ہوتا اصل فائدہ جمہور کو اور ملک کو ہونا تھا عدل کی صورت میں اور عدل قائم ہونے کے نتیجہ میں ملک و قوم کی ترقی کی صورت میں کیونکہ کسی قوم کی ترقی کی اوّلین شرط ملک میں عدل ہونا ہے ۔

یہ کسی کی شکست نہیں ۔ یہ فتح ہے جمہور کی اور جمہور کی فتح سب کی فتح ہوتی ہے ۔ یہ بھنگرے ڈالنے کا وقت نہیں بلکہ اپنے گناہوں اور اپنی غلطیوں پر پشیمان ہو کر اللہ سے معافی مانگنے کا ہے ۔ سچ کہا تھا کسی نے

سدا نہ باغ وِچ بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ باغ میں بُلبُل چہکے
سدا نہ رہن بہاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ رہیں بہاریں
دُشمن مرے تو خوشی نہ کریئے ۔ ۔ ۔ مرے دُشمن تو خوشی نہ کریں ہم
سجناں وی ٹُر جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ پیارے بھی چلے جائیں گے اک دن

عین اُس وقت جب قوم کو آنے والی خوشی کی بہار کی خوشبو آ رہی تھی چند ناعاقبت اندیشوں نے جن میں پیر پی پی پی کے مظہرالحق اور ایم کیو ایم کے رہنما شامل تھے قوم کے دماغ پراگندہ کرنے کیلئے کراہت آمیز آواز اُٹھائی ۔ اللہ ان لوگوں کو نیک ہدائت دے اور ہمارے پیارے وطن کو ایسے خودغرض لوگوں سے بچائے

پچھلی دو دہائیوں میں پڑھے لکھے ہموطنوں نے مجھے بہت مایوس کیا ۔ اکثر ان جملوں کا سامنا ہوتا لیکن کوئی خود کچھ کرنے کیلئے تیار ہوتا ۔
سب چور ہیں
ہماری قوم مردہ ہے
میں اکیلا کیا کروں ؟
اس مُلک میں کچھ نہیں ہو سکتا
غریب یا شریف آدمی کی کون سُنتا ہے ؟
وہی ہو گا جو امریکہ کرے گا

پہلے دو جملوں پر میں اُن سے کہتا کہ اگر میں آپکے جملے کو دہراؤں تو آپ خود وہ ہو جائیں گے جو آپ دوسروں کیلئے کہہ رہے ہیں مگر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا

پۓ در پۓ مُطلق العنانی نے ہمارے ہموطنوں کو بے حِس بنا دیا تھا یا پھر وہ حوادثِ روزگار میں پھنس کر رہ گئے تھے کہ کسی قومی معاملہ میں دِلچسپی کھو بیٹھے تھے ۔ میرا عقیدہ ۔ مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ اگر ذاتی غرض کی بجائے اجتمائی فائدے یا مقصد کیلئے جد و جہد کی جائے تو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں ۔ میں نے اور کئی دوسرے محبِ وطن حضرات نے متعدد بار اس کا اظہار اپنی تحاریر میں کیا

میں نے پچھلی چار دہائیوں میں مختلف قومی سطح کی محافل میں ہموطنوں کو استقلال کے ساتھ جد و جہد کی تلقین کی جس کی بنیاد میری اپنی زندگی کی جہدِ مسلسل تھی ۔آج مجھے 1973ء کے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب ہر طرف سے مجھے رُوپوش ہوجانے کا مشورہ اس بناء پر دیا جاتا تھا کہ مجھے خُفیہ والے کسی بھی وقت اُٹھا کر ایسی جگہ لے جائیں گے جہاں سے میری کوئی خبر نہ آئے گی ۔ وجہ سچ بولنا ۔ برائی کے خلاف اور اپنے ادارے کے ملازمین کے حقوق کیلئے آواز اُٹھانا تھی ۔ اللہ کی مہربانی ہوئی اور خُفیہ کے اعلٰی عہدیداروں نے نہ صرف مجھ سے معافی مانگی بلکہ آئیندہ کئی سال اپنے مسائل میں مجھ سے مشورہ کرتے رہے

وہ دن بھی یاد آئے ہیں جب پاکستان کے تمام سرکاری اداروں کے انجنیئرز کے حقوق کیلئے تحریک چلی تو میں فیڈریشن آف انجیئرز ایسوسی ایشنز آف پاکستان کا سینئر وائس پریزیڈنٹ ہونے کی حثیت سے اُن تین انجیئرز میں شامل تھا جنہوں نے 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے وقت نہ دیا اور کئی دن ضائع کرنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ وزیرِ مالیات سے رابطہ کریں وزیرِ مالیات نے وقت دینے کے بعد ہمیں اپنے دفتر کے بغلی کمرہ میں صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک بھوکا پیاسا بٹھائے رکھا اور بات نہ کی ۔ ہم گھروں کو نہ گئے اور دوسرے دن پھر پہنچ گئے ۔ وزیر مالیات نے ہمیں لاٹھیوں ۔ قید خانے اور چکی پیسنے سے ڈرایا لیکن پورے پاکستان میں انجنیئرز کی ہڑتال کا اعلان کرنے کے بعد نمونے کے طور پر صرف ایک گرڈ سٹیشن پر انجنیئرز نے کام چھوڑ دیا تو حکومت نے تمام انجنیئرز کو تنخواہ کا سکیل 17 اور سب سے جونیئر انجنیئرز کو پانچ پانچ اکنریمنٹ دینے کا اعلان کر دیا ۔ خیال رہے کہ میں مقابلہ کا امتحان پاس کر کے سکیل 17 سے بھی زیادہ تنخواہ پر بھرتی ہوا تھا ۔ اسلئے متذکرہ تحریک میں میرا ذاتی فائدہ بالکل نہ تھا ۔ ہم سب تحریک میں اپنی اپنی جیبوں سے خرچ کر رہے تھے

میں سب واقعات لکھنا شروع کروں تو کتاب بن جائے گی ۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ “ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا”۔ لیکن جد و جہد میں کوئی خود غرضی نہیں ہونا چاہیئے ۔ میں نے 22 جنوری 2008ء کو “شفاف انتخابات” کے عنوان سے جو لکھا تھا کاش اس پر کم از کم میری قوم کے سب پڑھے لکھے ہی عمل کرتے ۔ اب بھی سب کا بھلا ہو گا کہ ان صولوں کو یاد کر لیں اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرائیں ۔ اسی لئے نیچے نقل کر رہا ہوں

آنے والی حکومت آپ کی ہو گی اگر ۔ ۔ ۔

آپ خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیں

آپ تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کو ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کسی کو نہ بتائیں کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کوئی پوچھے تو جواب میں کہیں ” آپ بالکل فکر نہ کریں ”

اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے عزیز و اقرب کو بھی اسی پر آمادہ کریں

ربط مانگنے والوں [بالخصوص ڈفر صاحب] کیلئے

میری کل کی تحریر “شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان پر بُہتان تراشی” پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈفر صاحب نے لکھا ہے
“آپ نے بھی جاوید صاحب کی طرح صرف اپنے علم سے ہی ہمیں نوازا اور کسی بات کے حق میں کوئی ریفرنس نہیں نظر آ رہا۔ دونوں میں سے کون صحیح کہہ رہا ہے؟ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے”

میں مندرجہ ذیل وضاحت کر رہا ہوں تاکہ ان حضرات کیلئے فیصلہ کرنا آسان ہو جائے ۔

اگر میری تحریر کو توجہ سے پڑھا جائے تو اس میں مطلوبہ حقائق کے ربط موجود ہیں ۔ اول ربط اس طرح لکھا گیا ہے
اس سلسلہ میں یہاں کلک کر کے پڑھیئے 10 نومبر 1951ء کو لکھا گیا ایک تار

پھر انگریزی والے حصے کے شروع میں لکھا ہے
All the following documents have been found in declassified CIA papers:
1. Extract from an article published on October 24, 1951 in an Indian magazine
اس میں اگر declassified CIA papers پر کلک کیا جائے تو ایک ایسی جگہ کھُلتی ہے جہاں قائدِ مِلت کی متعلق مختلف مصدقہ حوالوں سے ایک طویل مضمون لکھا ہوا ہے ۔

میں نے قارئین کی مزید سہولت کیلئے انگریزی کے اقتباس [Extract] کے نیچے چار عدد تاروں [telegrams] کا حوالہ دیا تھا لیکن کسی وجہ سے ان کے ربط فعال نہ ہو ئے جو کہ اب فعال کر دیئے گئے ہیں

اُمید ہے میں واضح کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں گا ۔ اس وضاحت میں کوئی ربط نہیں دیا گیا ۔ ربط میری آج صبح کی متذکرہ تحریر میں ہیں

عید الفطر مبارک

کُلُ عام انتم بخیر

سب قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک

آیئے ہم سب مل کر مکمل خلوص اور یکسوئی کے ساتھ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم کے حضور عاجزی سے اپنی دانستہ اور نادانستہ غلطیوں کی معافی مانگیں اور استدعا کریں کہ مالک و خالق و قادر و کریم رمضان المبارک میں ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرما اور ہم پر اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے اور اسے صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے ۔ آمین ثم آمین

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
اے دُعا ہاں عرض کر عرشِ الہی تھام کے
اے خدا اب پھیر دے رُخ گردشِ ایام کے
ڈھونڈتے ہیں اب مداوا سوزشِ غم کے لئے
کر رہے ہیں زخمِ دل فریاد مرہم کے لئے
صلح تھی کل جن سے اب وہ بر سر پیکار ہیں
وقت اور تقدیر دونوں درپئے آزار ہیں
اے مددگار ِ غریباں، اے پناہ ِ بے کـَساں
اے نصیر ِ عاجزاں، اے مایۂ بے مائیگاں
رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا
اک نظر ہو جائے آقا ۔ اب ہمارے حال پر
ڈال دے پردے ہماری شامت اعمال پر
خلق کے راندے ہوئے، دنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں اب تیرے در پر ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں، بدکار ہیں، ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی اُمت میں ہیں
حق پرستوں کی اگر کی تُو نے دِلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بُت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں
کلام ۔ آغا حشر (1879ء)

تصحیح

میں میلادُ النّبی پر اپنی تحریر میں ایک غَلَطِی کر گیا تھا اور عبات کو دوہرانے کے باوجود غَلَطِی کا احساس نہ ہوا ۔ اللہ الرحمٰن الرحیم میری خطائیں معاف کرے ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ اسے درجنوں قارئین نے پڑھا لیکن غَلَطِی کی نشان دَہی نہ کی شاید میرے احترام میں یا مجھے مُعتبر سمجھتے ہوئے یا شاید تحریر پر خاص توجہ نہ دی ۔

میں انسان ہوں اور انسان سے کسی بھی وقت خطا ہو سکتی ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی میری رہنمائی فرمائے ۔ بہر حال اب میں نے تصحیح کر دی ہے اور صحیح صورتِ حال یہ ہے

فجر کی نماز کے بعد سے اشراق یعنی سورج اچھی طرح نکلنے تک ۔ سورج نصف النہار پر پہنچنے سے لے کر 30 منٹ بعد تک اور عصر کی نماز کے بعد سے مغرب کی نماز تک ا وقات میں نوافل نہ پڑھیئے ۔

پٹرول ۔ روٹی ۔ بھرا خزانہ اور جگا ٹیکس

میں کہتا ہوں کہ پاکستان میں پٹرول بہت مہنگا ہو گیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ساری دنیا میں مہنگا ہو گیا ہے ۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جب پرویز مشرف نے پاکستان پر ناجائز قبضہ کیا تھا تو پاکستان میں 90 اَوکٹن پٹرول کے ایک لیٹر کی قیمت 22.63 روپے تھی جو کہ اب اسلام آباد میں 62.88 روپے ہے باقی شہروں میں کچھ زیادہ ہے ۔ موجودہ قیمت مختلف پیمانوں سے اور سِکّوں میں مندرجہ ذیل ہے ۔

قیمت بحساب ۔ پاکستانی روپے ۔ ہندوستانی روپے ۔ برطانوی پاؤنڈ ۔ امریکی ڈالر
فی لیٹر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 62.88 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 38.58 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0.50 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1.00
فی امپیریل گیلن ۔ 285.85 ۔ ۔ ۔ ۔ 175.37 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2.28 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.55
فی امریکی گیلن ۔ ۔ 238.03 ۔ ۔ ۔ ۔ 146.03 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1.90 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3.79

پاکستانی عوام کی طاقتِ خرید کا اندازہ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے ہوتا ہے ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان ۔ ۔ ہندوستان ۔ ۔ ۔ برطانیہ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکہ
فی کس سالانہ آمدن ۔ ۔ 690 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 720 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 37600 ۔ ۔ ۔ 43740
غربت کی سطح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 140 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 137 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6

اُمید کرتا ہوں کہ قارئین جو پاکستان سے باہر رہائش پذیر ہیں وہاں 90 اَوکٹین پٹرول کی قیمت سے آگاہ فرمائیں تاکہ موازنہ کیا جا سکے ۔ [پٹرول کو گیسولین یا موٹر سپرٹ بھی کہا جاتا ہے] ۔ قیمت فی لیٹر یا فی امپیریل گیلن یا فی امریکن گیلن بتائی جا سکتی ہے ۔ جو قارئین ہندوستان ۔ برطانیہ یا امریکہ کے علاوہ کسی ملک میں رہائش پذیر ہیں وہ قیمت امریکی ڈالر میں لکھیں ۔

روٹی

روٹی جو جنوری 2000ء میں ڈیڑھ روپے کی تھی اب 5 روپے کی ہے ۔ ڈبل روٹی 13 روپے کی تھی اب 36 روپے کی ہے ۔ آٹا چکی کا پسا ہوا 10 روپے کلو تھا اب 25 روپے کا ہے ۔ بہترین چاول 32 روپے کلو تھے اب 90 روپے کے ہیں ۔ بناسپتی گھی 56 روپے کلو تھا اب 130 روپے کا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔

بھرا ہوا خزانہ

پچھلے 8 سال میں پرویز مشرف نے اپنے وزیرِ اعظم شوکت عزیز اور آقا امریکہ کے مشوروں سے خزانہ بھرنے کا فن سیکھا کہ قرضے جو 2001ء کے آخر تک لئے تھے اُن کی واپسی 5 سال کیلئے متأخر اور مزید قرضے لو ۔ مُلک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں نے امریکہ کے ہاتھوں ساری عمر کی کمائی منجمد ہو جانے کے ڈر سے اپنے حسابات پاکستان منتقل کر دیئے تو اس زرِ مبادلہ کو بھی حکومتی خزانہ میں شمار کر لیا گیا ۔ باقی قصر عوام کے استعمال کی ہر چیز پر ٹیکس لگا کر پوری کی گئی ۔ یہ قرضے اب 18 فروری 2008ء کو منتخب ہونے والی حکومت کو “سر منڈاتے ہی اَولے پڑے” کے مصداق ادا کرنا ہوں گے ۔

جگا ٹیکس

اِس زُمرے کے ٹیکس جو میرے علم میں ہیں ۔

ہر چیز جو خریدی جائے اس پر 15 فیصد بکری ٹیکس [sales tax] ہے ۔ یہ کئی اشیاء پر 65 فیصد تک ہو جاتا ہے اس طرح کہ کارخانہ دار یا درآمد کنندہ نے دیا پھر تھوک فروش نے دیا پھر پرچون فروش نے دیا پھر استعمال کرنے والے نے دیا ۔
بِکری ٹیکس خدمات پر بھی ہے ۔ اگر کسی کو آمدن ہو تو اس سے آمدن ٹیکس بھی لیا جاتا ہے ۔ اسلئے مریض ڈاکٹر کی فیس اور دوا دونو میں علیحدہ علیحدہ بکری ٹیکس دیتا ہے اور ڈاکٹر کے آمدن ٹیکس کا بھی حصہ دار بنتا ہے ۔
نام سے تو یہی ظاہر ہے کہ آمدن ٹیکس [income tax] آمدن پر ہوتا ہے لیکن بجلی ۔ ٹیلیفون اور گیس کے بِل جو اخراجات ہیں آمدن نہیں اِن پر صارفین سے بِکری ٹیکس اور آمدن ٹیکس دونو لئے جاتے ہیں ۔
اگر کوئی بنک میں اپنے حساب سے ایک لاکھ روپے نکلوائے تو اس کے حساب میں سے 200 روپے آمدن ٹیکس کٹ جاتا ہے ۔ زیادہ نکلوائے تو اِسی حساب سے کٹیں گے ۔
جنوری 2008 کے ایک حکمنامہ کے تحت اگر آپ کا نادرا کا شناختی کارڈ ایک شہر کا بنا ہوا ہو اور آپ اس کی کاپی کسی دوسرے شہر میں کسی حکومتی دفتر میں پیش کریں تو وہ اس وقت تک قبول نہیں کی جائے گی جب تک آپ نادرا سے تصدیق [verification] نہ لے کر آئیں ۔ اس کیلئے آپ کو ایک دن ضائع کرنا پڑے گا اور 50 روپے نادرا کو ادا کرنا ہوں گے ۔
جب مُلک میں ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے کوئی پاکستانی کسی دوسرے مُلک میں ملازمت تلاش کر لے تو وہ ہوائی جہاز پر نہیں بیٹھ سکتا جب تک وہ پاسپورٹ پر محافظ مُہر [protector stamp] نہ لگوائے ۔ اس کیلئے سرکار نے وکیل [agent] مقرر کر رکھے ہیں ۔ انہیں پانچ سات ہزار روپیہ دے کر کام کروایا جا سکتا ہے ۔ اگر خود کروانا ہو تو کئی چکر لگوائے جاتے ہیں ۔ اور پھر بھی ترجمہ کے 500 روپے فی صفحہ ۔ بہبود کے 1050 روپے ۔ انشورنس کے 650 روپے اور مُہر کے 2500 روپے دینا پرتے ہیں ۔

انتخابات کے دن اور اسکے بعد ؟ ؟ ؟

نعمان صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ صبح اگر جلدی ووٹ ڈال دیا جائے تو بہت آسانی رہتی ہے اور ووٹر اطمینان سے اپنا ووٹ ڈال لیتا ہے ۔ دوپہر تک عموما رش بھی بڑھتا جاتا ہے اور سیاسی کارکنوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے جو ووٹر کو آخری وقت تک لبھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کسی پولنگ اسٹیشن پر بدنظمی یا لڑائی جھگڑا بھی ہوجائے تو اس سے بھی بچت ہوجاتی ہے ۔

ہمارا خاندان ہمیشہ سے صبح پولنگ شروع ہوتے ہی پولنگ سٹیشن پہنچ جاتا رہا ہے اور پندرہ بیس منٹ میں ہم ووٹ ڈال کر گھر کی راہ لیتے رہے ہیں ۔

ووٹ صرف اُس کو دیجئے جس کے صحیح کام نہ کرنے پر آپ اُس کا محاسبہ کر سکیں

ایسے شخص کو ووٹ نہ دیجئے جو منتخب ہو جانے کے بعد قومی دولت یعنی آپ سے مختلف ذرائع سے وصول کیا ہوا ٹیکس ذاتی یا بیکار کاموں میں استعمال کرے

ووٹ اُس کو دیجئے جس کے منتخب ہو جانے کے بعد آپ اُس سے ملاقات کر کے قومی مسائل پر تبادلہ خیال کر سکیں

ایسے شخص کو ووٹ نہ دیجئے کہ منتخب ہو جانے کے بعد اس کے پاس آپ کو ملنے کا وقت ہی نہ ہو

انتخابات سے پہلے ؟

انتخابات کھیل تماشہ نہیں اور نہ ہی چھٹی آرام کرنے کیلئے دی جاتی ہے ۔ ملک کے 15 کروڑ عوام جن میں بوڑھے ۔ جوان ۔ بچے ۔ عورتیں ۔ لڑکیاں ۔ مرد اور لڑکے سب شامل ہیں کی قسمت کا اختیار کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ۔ گویا نہ صرف اپنے ماں ۔ باپ ۔ بہن ۔ بھائی ۔ خاوند یا بیوی ۔ بیٹا ۔ بیٹی بلکہ خود اپنی گردن بھی کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ۔ اسلئے یاد رکھیئے کہ :

خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیں

تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

کسی کو نہ بتائیں کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کوئی پوچھے تو جواب میں کہیں ” آپ بالکل فکر نہ کریں ”

اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے عزیز و اقارب کو بھی اسی طريقہ پر آمادہ کریں