Category Archives: پيغام

یومِ یکجہتی کشمیر

ستم شعار سے تجھ کو ہم چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
کرتا نہیں کیوں دوسرا اس پہ کچھ بات چیت
دیکھتا ہوں میں جسے وہ چپ تیری محفل میں ہے
اے شہیدِ مُلک و ملت میں تیرے اُوپر نثار
اب تیری ہمت کا چرچہ غیر کی محفل میں ہے
کھینج کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی اُمید
عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچۂ قاتل میں ہے
ہے لئے ہتھیار دشمن تاک میں بیٹھا اُدھر
اور ہم تیار ہیں کھُلا سینہ لئے اپنا اِدھر
ہاتھ جن میں ہو جنُوں کٹتے نہیں تلوار سے
سر جو اُٹھ جاتے ہیں وہ جھُکتے نہیں للکا ر سے
زندگی تو اپنی مہمان موت کی محفل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دل میں طوفانوں کی تولی اور نسوں میں انقلاب
ہوش دشمن کے اُڑا دیں گے ہمیں روکو نہ آج

کلام ۔ بِسمِل عظیم آبادی

کشمیری کیا سوچ رہے ہیں ؟

ہندوستان کی مودی سرکار کی نئی جارحیت اور پاک بھارت سرحد پر کشیدگی کے تناظر میں گزشتہ دنوں جموں و کشمیر کے حالات سے آگاہی کے لئے متعلقہ لوگوں سے براہ راست مکالمے کا قصد کیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر تو جا نہیں سکتے اس لئے آزاد کشمیر جانے کا پروگرام بنایا۔ یہاں بچوں سے بھی بات چیت ہوئی، جوانوں سے بھی، بوڑھوں سے بھی اور دنیا کے اس حسین ترین علاقے کے حسین نظاروں کا لطف بھی اٹھایا۔ اس پورے سفر میں جو کچھ دیکھا اور سنا، اس کا خلاصہ یہاں بیان کرنا اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ مظفرآباد اور وادی نیلم دونوں جگہ وکلا اور صحافی بھائیوں سے وعدہ کیا تھا کہ میں ان کے احساسات اپنی استطاعت کے مطابق دنیا تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔
پہلی چیز جو میں نے محسوس کی وہ آزاد جموں و کشمیر کے باسیوں اور بالخصوص نوجوانوں میں ایک عجیب قسم کی بے چینی اور اضطراب تھا۔ ہم پاکستانی بھی مقبوضہ کشمیر کے حالات پر پریشان ہیں لیکن آزاد جموں و کشمیر لوگوں کا دکھ اور کرب بہت گہرا ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں کی خاطر لڑنا اور مرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں اور کیسے کریں؟ دوسری چیز میں نے یہ محسوس کی کہ وہاں کی سیاسی قیادت، پاکستانی قیادت کے رویئے سے خوش نہیں ہے جبکہ کشمیری نوجوان پاکستانی قیادت سے بھی خوش نہیں ہیں اور اپنی سیاسی قیادت سے بھی۔ وہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ وسوسے گھوم رہے ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر درپردہ کوئی ڈیل ہوئی ہے یا ہو رہی ہے لیکن انہیں بے خبر رکھا جارہا ہے۔ یہ وسوسہ یا احساس بہت خطرناک ہے اور پاکستانی قیادت کو چاہئے کہ وہ پہلی فرصت میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نوجوانوں اور رائے عامہ کے نمائندوں کو اعتماد میں لے۔ انہیں یہ خدشہ ہے کہ کشمیر کے قضیے کو تقسیمِ کشمیر کی طرف لے جایا جا رہا ہے جو سردست انہیں کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں اور بجا اٹھاتے ہیں کہ اگر کشمیر کی تقسیم پر راضی ہونا تھا تو پھر اتنی قربانیاں کیوں دی گئیں کیونکہ ماضی میں تو ہندوستان اس سے بہت بہتر پیکیج دینے کو تیار تھا۔ مقبوضہ کشمیر کو تو مودی سرکار نے جہنم بنا رکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کنٹرول لائن کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کی زندگی بھی کسی عذاب سے کم نہیں جس کی طرف عالمی برادری توجہ دے رہی ہے اور نہ پاکستانی حکومت۔ یہ لوگ گزشتہ کئی دہائیوں سے چوبیس گھنٹے اس خوف میں زندگی گزار رہے ہیں کہ کسی بھی وقت بندوق یا توپ کا گولہ آسکتا اور ان کی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ دونوں طرف پہاڑوں پر دشمن کی فوجیں بیٹھی ہیں اور درمیان میں یہ لوگ زندگی گزار رہے ہیں جبکہ درجنوں مرتبہ وہ مکمل جنگ اور ہزاروں مرتبہ فائرنگ اور شیلنگ کی زد میں آچکے ہیں۔ ان لوگوں کو موسم کی سختیوں سے بھی لڑنا پڑتا ہے اور جب فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں تو پھر معمول کا روزگار بھی ٹھپ ہوکر رہ جاتا ہے۔ وادی نیلم کے باسیوں نے ہمیں بتایا کہ گزشتہ دنوں کے فائرنگ کے واقعات کے بعدان کا روزگار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ ایک شکایت کشمیریوں کو یہ ہے کہ چونکہ کشمیر ان کا ہے اس لئے اس سے متعلق بات بھی ان کو کرنا چاہئے۔ ایک کشمیری نوجوان نے بجا طور پریہ شکوہ کیا کہ کشمیر ان کا ہے، قربانیاں ان کے بہن بھائی دے رہے ہیں، ہندوستانی افواج کی شیلنگ کی زد میں وہ ہیں اور ان کے نام پر اس وقت فواد چوہدری فرانس میں، شہریار آفریدی جرمنی میں اور شیخ رشید لندن میں مزے لوٹ رہے ہیں۔ وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ قومی اور بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا کیس کشمیریوں کو پیش کرنے کا موقع دیا جائے کیونکہ اپنے کیس کو ان سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا اور جب کشمیری قیادت خود اپنا کیس بیان کرے گی تو دنیا بھی زیادہ توجہ دے گی۔ ان کو یہ بھی شکایت ہے کہ کشمیری قیادت کو ایک چھتری تلے اور ایک بیانیے پر جمع کرنے کے لئے بھی پاکستان کماحقہ کردار ادا نہیں کررہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم عمران خان ہمارے وکیل ہیں تو وہ ہم مدعیوں سے ہمارا کیس بھی تو سمجھیں۔ دنیا میں یہ کہیں نہیں ہوتا کہ وکیل اپنی طرف سے مدعی کے مستقبل کے فیصلے کرتا پھرے اور مدعی کو آگاہ بھی نہ کرے کہ ان کا کیس کس طرف جا رہا ہے۔ آزاد کشمیر کے صحافیوں کو بھی ملک کے دیگر پسماندہ علاقوں کی طرح میڈیا سے شکایت ہے وہ جانوں پر کھیل کر علاقے کی خبریں اکٹھی کرتے ہیں لیکن پاکستانی میڈیا میں ان کو جگہ نہیں ملتی اور سارا وقت پاکستان کے سیاسی ڈراموں کی نذر ہوتا ہے۔ یہاں کے اہل صحافت، دانشور اور نوجوان پاکستان کے سیاسی حالات پر بھی دکھی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جب پاکستان میں یہ سیاسی انتشار ہو گا اور نفرتیں اس قدر زوروں پر ہوں گی تو پھر کیوں کر پاکستان کشمیریوں کی وکالت بہتر انداز میں کر سکے گا۔

تحریر سلیم صافی

آزادی مبارک

تمام ہموطنوں کو (دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں) آزادی کی سالگرہ مبارک my-id-pakاللہ ہمیں آزادی کے صحیح معنی سمجھنے اور اپنے مُلک کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

یہ وطن ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا تھا کہ مسلمان اسلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے مل جل کر اپنی حالت بہتر بنائیں ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں البتہ پاکستانی نہیں بنے ۔ کوئی سندھی ہے کوئی پنجابی کوئی بلوچ کوئی پختون کوئی سرائیکی کوئی پاکستان میں پیدا ہو کر مہاجر ۔ کوئی سردار کوئی مَلک کوئی خان کوئی وڈیرہ کوئی پیر ۔ اس کے علاوہ مزید بے شمار ذاتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں

بڑے بڑے روشن خیال بھی پیدا ہو گئے ہیں جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا صرف ایک فقرہ سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک اسلامی نہیں سیکولر ریاست بنایا تھا ۔ ان روشن خیالوں سے کوئی پوچھے کہ کیا قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کی باقی ساری تقریریں اور اقوال بھول جائیں ؟ ایک نعرہ جو تحریک پاکستان کا لازمی جزو تھا ”پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ“۔ وہ بھی ان روشن خیالوں نے کہیں نہیں پڑھا ؟

قائداعظم 1942ء میں الہ آباد میں تھے تو وکلاء کے ایک وفد کی ملاقات کے دوران ایک وکیل نے پوچھا ”پاکستان کا دستور کیسا ہوگا اور کیا آپ پاکستان کا دستور بنائیں گے ؟“
قائداعظم نے جواب میں فرمایا ”پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو برس پہلے بن گیا تھا“۔

قائداعظم کی 11 اگست 1947 کا خطاب بھی رسول اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے خطبہ الوداع کے ان الفاظ کی غمازی کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہتر ہو

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
برسوں کے بعد پھر اُڑے پرچم ہلال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دیکھو کہیں اُجڑے نہ ہمارا یہ باغیچہ ۔ ۔ ۔ اس کو لہو سے اپنے شہیدوں نے ہے سینچا
اس کو بچانا جان مصیبت میں ڈال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دنیا کی سیاست کے عجب رنگ ہیں نیارے ۔ ۔ ۔ چلنا ہے مگر تم کو تو قرآں کے سہارے
ہر اک قدم اُٹھانا ذرا دیکھ بھال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
تُم راحت و آرام کے جھُولے میں نہ جھُولو ۔ ۔ ۔ کانٹوں پہ ہے چلنا میرے ہنستے ہوئے پھُولو
لینا ابھی کشمیر ہے یہ بات نہ بھُولو ۔ ۔ ۔ کشمیر پہ لہرانا ہے جھنڈا اُچھال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے ۔ ۔ ۔ ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے

عیدالاضحٰے مبارک

کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر

سب مسلمان بہنوں اور بھائیوں جہاں کہیں بھی ہوں عیدالاضحٰے مبارک
ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک ۔ اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار يہ کہنا چاہیئے
البتہ عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر يہ ورد رکھنا چاہیئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَهَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَهُ
لَهُ الّمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلهَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلهَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیراً والحمدُللہِ کثیِراً و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا
اللّھم صلی علٰی سیّدنا محمد و علٰی آل سیّدنا محمد و علٰی اصحاب سیّدنا محمد و علٰی ازواج سیّدنا محمد و سلمو تسلیماً کثیراً کثیرا

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے
جنہوں نے حج ادا کیا ہے اللہ کریم اُن کا حج قبول فرمائے
جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کرنا ہے ۔ اللہ عِزّ و جَل اُن کی قربانی قبول فرمائے
اللہ کریم ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے اور امن کا گہوارہ بنا دے ۔ آمین ثم آمین

کُلُ عام انتم بخیر

میں اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے آپ کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو عيد مبارک
الله کریم آپ سب کو کامِل ایمان کے ساتھ دائمی عمدہ صحت ۔ مُسرتوں اور خوشحالی سے نوازے ۔ آمين ثم آمين
اُنہیں نہ بھولیئے جنہیں الله نے آپ کے مقابلہ میں کم نوازہ ہے ۔ ایسے لوگ دراصل آپ کی زیادہ توجہ کے حقدار ہیں

رمضان کا مبارک مہینہ بخیر و عافیت گزر گیا ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی سب کے روزے اور عبادتيں قبول فرمائے
عیدالفطر کی نماز سے قبل اور بہتر ہے کے رمضان المبارک کے اختتام سے پہلے فطرانہ ادا کر دیا جائے ۔ کمانے والے کو اپنا اور اپنے زیرِ کفالت جتنے افراد ہیں مع گھریلو ملازمین کے سب کا فطرانہ دینا چاہیئے
عید کے دن فجر کی نماز سے مغرب کی نماز تک یہ ورد جاری رکھیئے ۔ نماز کیلئے جاتے ہوئے اور واپسی پر بلند آواز میں پڑھنا بہتر ہے
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْا الله وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
ا اللهُ اکبر کبِیرہ والحمدُللهِکثیِرہ و سُبحَان اللهُ بکرۃً و أصِیلا

آیئے سب انکساری ۔ رغبت اور سچے دِل سے دعا کریں
اے مالک و خالق و قادر و کریم و رحمٰن و رحیم و سمیع الدعا
رمضان المبارک میں ہوئی ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگذر فرما اور ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرما
اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ہموطنوں کو آپس کا نفاق ختم کر کے ایک قوم بننے کی توفیق عطا فرما
ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھ
جدِ امجد سیّدنا ابراھیم علیه السّلام کی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ ہمارے مُلک کو امن کا گہوارہ بنا دے اور سب کے رزقِ حلال میں کُشائش عطا فرما
ہمیں ۔ ہمارے حکمرانوں اور دوسرے رہنماؤں کو سیدھی راہ پر چلا
ہمارے ملک کو صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے
آمین ثم آمین یا رب العالمین

وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارۡزُقۡ اَهۡلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡهُمۡ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ؕ قَالَ وَمَنۡ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِيۡلًا ثُمَّ اَضۡطَرُّهٗۤ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ‌ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ ۔ (سُوۡرَةُ البَقَرَة ۔ آیة 126)
اور یہ کہ ابراہیمؑ نے دعا کی: “اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلو ں کا رزق دے” جواب میں اس کے رب نے فرمایا ”اور جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تومیں اُسے بھی دوں گا مگر آخرکار اُسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے“۔

رمضان کریم

سب مُسلمانوں کو رمضان کريم مبارک
اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو اور مجھے بھی اپنی خوشنودی کے مطابق رمضان المبارک کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے
روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے ۔ اللہ ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے احتساب کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت سے نوازے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم
سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيات 183 تا 185
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
چند روز ہیں گنتی کے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دِنوں سے اور جن کو طاقت ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو
‏ مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اسکے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دِنوں سے اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم احسان مانو

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے رمضان کی فضيلت سورت ۔ 97 ۔ القدر ميں بيان فرمائی ہے
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے
شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حُکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اُترتے ہیں
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے

یومِ اِسلامی جمہوریہ پاکستان

flag-1
ہمارے وطن پاکستان میں 23 مارچ کو یومِ اِسلامی جمہوریہ پاکستان منایا جاتا ہے
جنتری کے مطابق بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک مُتفِقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان” قراردادِ مقاصد“ تھا لیکن وہ minar-i-pakistanقرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت
ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان پاکستان بننے کے بعد بطور ”یادگار قراردادِ پاکستان“ تعمیر کیا گیا تھا ۔ کچھ لوگوں نے اِسے ”یادگارِ پاکستان“ کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 5 دہائیوں سے ہمارے ملک سے غائب ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ ہماری قوم کو سیدھی راہ پر گامزن کرے ۔ اِن میں مِلّی یکجہتی قائم کرے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم دے ۔ آمین

میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں

آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اِجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اِس کے ساتھ اِسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اِختلافات اِتنے شدید اور تلخ ہیں کہ اِن دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ اِنہیں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں“۔

قائد اعظم کے تصَوّرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ابُو القاسم فضل الحق (المعروف اے کے فضل الحق جن کے نام پر اسلام آباد بلیو ایریا میں جناح ایوَینِیو کے متوازی سڑک کا نام رکھا گیا ہے) جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی ” قراردادِ مقاصد“ پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے

” کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر مُنسلِک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اِسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں“۔

اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس (اب اُتر پردیش) سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال muslim-majority-map اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اِس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی

مندرجہ بالا اصُول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بنگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا

مسلم اکثریتی علاقے ۔ اس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے ۔ اِس نقشے میں ہلال کے ساتھ 10 ستارے دکھائے گئے ہیں یعنی پاکستان کی مملکت 10 مُسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل دکھائی گئی ہے جس میں (1) مغربی پاکستان (جسے پاکستان لکھا گیا ہے) ۔ (2) مشرقی پاکستان (جسے بنگالستان لکھا گیا ہے) ۔ (3) جنوبی پاکستان (جس میں ریاست حیدر آباد اور ملحقہ مُسلم علاقے شامل ہیں) ۔ (4) گجرات کاٹھیا واڑ اور منادور وغیرہ ۔ اور مزید 6 چھوٹے چھوٹے علاقے شامل ہیں
m-l-working-committee

مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی

۔

۔
welcome-addr-22-march-1940
شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں

چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں
seconding-reson-march-1940

۔

۔
quaid-liaquat-mamdot
قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ