Category Archives: پيغام

ایک پُکار

میرے وطن کا جنت نظیر علاقہ جو آگ اور خُون کا دریا بن چکا ہے وہاں سے اپنے سر کے سائے اور اپنے جگر گوشوں کے لاشے چھوڑ کر نکلنے والے پندرہ لاکھ کے قریب بے خانماں میرے ہموطن میں سے ہر ایک کہہ رہا ہے ۔ کاش کہ مقتدر ایوانوں میں اس کی گُونج پہنچے

ملی خاک میں عزت ۔ اُجڑا میرا ہے گھرانہ
جو تھی آج تک حقیقت وہی بن گئی فسانہ
یہ بہار کیسی آئی ۔ جو خزاں بھی ساتھ لائی
میں کہاں رہوں وطن میں نہیں کوئی ٹھکانہ
اس گولے مردم کُش سے کوئی آکے تو پوچھے
کریں اپنوں کے ٹکڑے ۔ کس کاہے شاخسانہ

ہمتِ کرے انسان

سب ہموطنوں کو نویدِ صبح مبارک ہو ۔ اللہ کرے کہ اب ہر ہموطن پورے خلوص اور استقلال کے ساتھ خود اپنے نفس کے خلاف تحریک چلا کر اپنے اندر پیدا شدہ تمام قباہتوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے ۔

الحمدللہ ۔ وکلاء ۔ سول سوسائیٹی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے ثابت کر دیا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

جب 3 نومبر 2007ء کے بعد وکلاء کی تحریک نے زور پکڑا اور اپنی تحریک کو اپنے خُون سے سیراب کرنے کے باوجود انہوں نے شرافت کا ساتھ نہ چھوڑتے ہوئے اپنی جد و جہد جاری رکھی تو جمہور خود بخود اُن کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئی ۔ میں تو دعا اور دوا کر ہی رہا تھا ۔ وہ لوگ جو احتجاج کو بدامنی حتٰی کہ بدتمیزی تک کہتے تھے اُن میں اس تحریک کی خبریں ٹی وی سے سننے اور اخبار میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور پھر تحریک سے اُن کی دلچسپی بڑھنا شروع ہوئی ۔ تمام استعماری طاقتوں نے پھر دیکھ لیا کہ نہتے جمہور کی طاقت کیا ہوتی ہے ۔ لاہور جی پی او چوک پر پہنچنے والوں کو لگائی گئی کئی رکاوٹیں نہ روک سکیں ۔ نہ پولیس کی بھاری نفری اُن پر لاٹھیاں برسا کر اور اشک آور گیس کے 200 کے قریب گولے پھینک ان کے جذبہ کو کم کر سکی ۔ نواز شریف کے ساتھ حق کی راہ پر نکلنے والا جلوس ماڈل ٹاؤن سے کالا شاہ کاکو تک سات رکاوٹیں جو بڑے بڑے سامان سے بھرے کنٹینر لگا کر بنائی گئی تھیں ہٹاتے ہوئے گوجرانوالہ تک پہنچے ۔ مگر   آمر کی ضد گوجرانوالہ پہنچنے سے کچھ قبل دم توڑ گئی تھی

پاکستان بننے کے بعد یہ تحریک ہر لحاظ سے منفرد تھی ۔ اسے شروع کرنے والے نہ صرف تعلیم یافتہ تھے بلکہ قانون دان تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک جتنی تحاریک چلیں سوائے تحریک ختمِ نبوّت کے اُن سب کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق کسی شخص یا جماعت سے تھا جبکہ اس تحریک کا فائدہ تحریک شروع کرنے والوں کو ہوتا یا نہ ہوتا اصل فائدہ جمہور کو اور ملک کو ہونا تھا عدل کی صورت میں اور عدل قائم ہونے کے نتیجہ میں ملک و قوم کی ترقی کی صورت میں کیونکہ کسی قوم کی ترقی کی اوّلین شرط ملک میں عدل ہونا ہے ۔

یہ کسی کی شکست نہیں ۔ یہ فتح ہے جمہور کی اور جمہور کی فتح سب کی فتح ہوتی ہے ۔ یہ بھنگرے ڈالنے کا وقت نہیں بلکہ اپنے گناہوں اور اپنی غلطیوں پر پشیمان ہو کر اللہ سے معافی مانگنے کا ہے ۔ سچ کہا تھا کسی نے

سدا نہ باغ وِچ بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ باغ میں بُلبُل چہکے
سدا نہ رہن بہاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ رہیں بہاریں
دُشمن مرے تو خوشی نہ کریئے ۔ ۔ ۔ مرے دُشمن تو خوشی نہ کریں ہم
سجناں وی ٹُر جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ پیارے بھی چلے جائیں گے اک دن

عین اُس وقت جب قوم کو آنے والی خوشی کی بہار کی خوشبو آ رہی تھی چند ناعاقبت اندیشوں نے جن میں پیر پی پی پی کے مظہرالحق اور ایم کیو ایم کے رہنما شامل تھے قوم کے دماغ پراگندہ کرنے کیلئے کراہت آمیز آواز اُٹھائی ۔ اللہ ان لوگوں کو نیک ہدائت دے اور ہمارے پیارے وطن کو ایسے خودغرض لوگوں سے بچائے

پچھلی دو دہائیوں میں پڑھے لکھے ہموطنوں نے مجھے بہت مایوس کیا ۔ اکثر ان جملوں کا سامنا ہوتا لیکن کوئی خود کچھ کرنے کیلئے تیار ہوتا ۔
سب چور ہیں
ہماری قوم مردہ ہے
میں اکیلا کیا کروں ؟
اس مُلک میں کچھ نہیں ہو سکتا
غریب یا شریف آدمی کی کون سُنتا ہے ؟
وہی ہو گا جو امریکہ کرے گا

پہلے دو جملوں پر میں اُن سے کہتا کہ اگر میں آپکے جملے کو دہراؤں تو آپ خود وہ ہو جائیں گے جو آپ دوسروں کیلئے کہہ رہے ہیں مگر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا

پۓ در پۓ مُطلق العنانی نے ہمارے ہموطنوں کو بے حِس بنا دیا تھا یا پھر وہ حوادثِ روزگار میں پھنس کر رہ گئے تھے کہ کسی قومی معاملہ میں دِلچسپی کھو بیٹھے تھے ۔ میرا عقیدہ ۔ مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ اگر ذاتی غرض کی بجائے اجتمائی فائدے یا مقصد کیلئے جد و جہد کی جائے تو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں ۔ میں نے اور کئی دوسرے محبِ وطن حضرات نے متعدد بار اس کا اظہار اپنی تحاریر میں کیا

میں نے پچھلی چار دہائیوں میں مختلف قومی سطح کی محافل میں ہموطنوں کو استقلال کے ساتھ جد و جہد کی تلقین کی جس کی بنیاد میری اپنی زندگی کی جہدِ مسلسل تھی ۔آج مجھے 1973ء کے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب ہر طرف سے مجھے رُوپوش ہوجانے کا مشورہ اس بناء پر دیا جاتا تھا کہ مجھے خُفیہ والے کسی بھی وقت اُٹھا کر ایسی جگہ لے جائیں گے جہاں سے میری کوئی خبر نہ آئے گی ۔ وجہ سچ بولنا ۔ برائی کے خلاف اور اپنے ادارے کے ملازمین کے حقوق کیلئے آواز اُٹھانا تھی ۔ اللہ کی مہربانی ہوئی اور خُفیہ کے اعلٰی عہدیداروں نے نہ صرف مجھ سے معافی مانگی بلکہ آئیندہ کئی سال اپنے مسائل میں مجھ سے مشورہ کرتے رہے

وہ دن بھی یاد آئے ہیں جب پاکستان کے تمام سرکاری اداروں کے انجنیئرز کے حقوق کیلئے تحریک چلی تو میں فیڈریشن آف انجیئرز ایسوسی ایشنز آف پاکستان کا سینئر وائس پریزیڈنٹ ہونے کی حثیت سے اُن تین انجیئرز میں شامل تھا جنہوں نے 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے وقت نہ دیا اور کئی دن ضائع کرنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ وزیرِ مالیات سے رابطہ کریں وزیرِ مالیات نے وقت دینے کے بعد ہمیں اپنے دفتر کے بغلی کمرہ میں صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک بھوکا پیاسا بٹھائے رکھا اور بات نہ کی ۔ ہم گھروں کو نہ گئے اور دوسرے دن پھر پہنچ گئے ۔ وزیر مالیات نے ہمیں لاٹھیوں ۔ قید خانے اور چکی پیسنے سے ڈرایا لیکن پورے پاکستان میں انجنیئرز کی ہڑتال کا اعلان کرنے کے بعد نمونے کے طور پر صرف ایک گرڈ سٹیشن پر انجنیئرز نے کام چھوڑ دیا تو حکومت نے تمام انجنیئرز کو تنخواہ کا سکیل 17 اور سب سے جونیئر انجنیئرز کو پانچ پانچ اکنریمنٹ دینے کا اعلان کر دیا ۔ خیال رہے کہ میں مقابلہ کا امتحان پاس کر کے سکیل 17 سے بھی زیادہ تنخواہ پر بھرتی ہوا تھا ۔ اسلئے متذکرہ تحریک میں میرا ذاتی فائدہ بالکل نہ تھا ۔ ہم سب تحریک میں اپنی اپنی جیبوں سے خرچ کر رہے تھے

میں سب واقعات لکھنا شروع کروں تو کتاب بن جائے گی ۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ “ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا”۔ لیکن جد و جہد میں کوئی خود غرضی نہیں ہونا چاہیئے ۔ میں نے 22 جنوری 2008ء کو “شفاف انتخابات” کے عنوان سے جو لکھا تھا کاش اس پر کم از کم میری قوم کے سب پڑھے لکھے ہی عمل کرتے ۔ اب بھی سب کا بھلا ہو گا کہ ان صولوں کو یاد کر لیں اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرائیں ۔ اسی لئے نیچے نقل کر رہا ہوں

آنے والی حکومت آپ کی ہو گی اگر ۔ ۔ ۔

آپ خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیں

آپ تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کو ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کسی کو نہ بتائیں کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کوئی پوچھے تو جواب میں کہیں ” آپ بالکل فکر نہ کریں ”

اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے عزیز و اقرب کو بھی اسی پر آمادہ کریں

نجومی کون ہے ؟

فرانس کے حکمران لوئی ششم [1423ء تا 1483ء] ۔ جو علم نجوم پر بہت یقین رکھتا تھا ۔ کو ایک دِن کسی نجومی نے بتایا کہ ملکہ کا اگلے آٹھ دِنوں میں انتقال ہو جائے گا۔ جب واقعی ایسا ہو گیا تو بادشاہ گھبراگیا کہ نجومی تو انتہائی خطرناک ہے یا تو اس نے اپنی پیش گوئی سچ ثابت کرنے کیلئے خود ملکہ کو قتل کیا ہے یا پھر وہ اس طرح کی پیش گوئیاں بیان کرتا ۔ وہ مستقبل میں اُسکی بادشاہت بھی ختم کرسکتا ہے

بادشاہ نے نجومی کو گرفتار کرواکر قلعہ کی چھت سے اُلٹا لٹکا کر نیچے پھینکنے کا حکم دیا ۔ آخری لمحات میں نجومی سے پوچھا ”مرنے سے پہلے اتنا بتاجاؤ کہ میں یعنی بادشاہ کب تک زندہ رہوں گا“

نجومی نے انتہائی ادب سے جواب دیا “حضور ۔ میری موت آپ سے صرف تین دِن پہلے لکھی ہے“

حُکم پر تعمیل روک دی گئی اور بادشاہ اگلے کئی برس خود سے زیادہ اُس نجومی کی حفاظت کرتا رہا اور پھر بادشاہ کے انتقال کے کئی برس بعد تک نجومی قہقہے لگا کر یہ قصہ سناتا کہ

”طاقت کے حصول سے زیادہ اُسے برقرار رکھنے کی خواہش اور طاقت چھِن جانے کا ڈر حکمرانوں سے غلطیوں کا سبب بن جایا کرتا ہے”

یہ واقع کچھ دن قبل ڈاکٹر شاہد مسعود نے پروگرام “میرے مطابق” میں سنایا ۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے مُلک میں نجومی کون ہے اور اُس نے آصف علی زرداری سے کیا کہہ رکھا ہے ؟

افسوس صد افسوس

صرف صد بار بلکہ ہزاروں بار افسوس ہے اپنی قوم کے ہر اُس فرد پر جو دوسروں کی کوتاہیاں ۔ غلطیاں اور بُرائیاں بیان کرتے تھکتے نہیں ہیں لیکن اپنا عمل یہ ہے کہ چند منٹ لگا کر اسرائیلی ظلم و دہشتگردی کے شکار فلسطینیوں کے حق میں ووٹ بھی نہیں ڈال سکتے

کل جب میں نے تمام بلاگرز اور قارئین سے ووٹ کی درخواست کی اس وقت فلسطین کے حق میں 56 فیصد سے زائد ووٹ ڈالے جا چکے تھے اور اسرائیل کے ووٹ 44 فیصد سے کم تھے ۔ اب حال یہ ہے کہ کہ فلسطین کے 49.1 فیصد ووٹ ہیں اور اسرائیل کے 50.9 فیصد

چاہیئے تو تھا کہ اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے قارئین اور عزیز و اقارب کو بھی فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالنے کا کہا جاتا لیکن محسوس یوں ہوتا ہے کہ بہت سے خواتین و حضرات نے اپنا ووٹ بھی نہیں ڈالا یا پھر فلسطینیوں کو دہشتگرد سمجھ کر اسرائیل کے حق میں ووٹ ڈال دیا ہے

عید الاضحٰے

کل وطنِ عزیز میں عید ہے ۔
سب مسلم بہنوں اور بھائيوں کو عيد الاضحٰی کی خوشياں مبارک ۔
سنتِ ابراہيم پر عمل کرنے والوں کو قربانی مبارک ۔ اللہ سب کی قربانی قبول فرمائے ۔
حج کرنے والوں کو حج مبارک ۔ اللہ سب کا حج اور متعلقہ عبادات قبول فرمائے ۔
اُميد ہے حرمين شريفين ميں پاکستانی زائرين نے دعا کی ہو گی کہ اللہ ہمارے ملک کے لوگوں کو سيدھی راہ پر چلائے اور ہمارے ملک پر صالح اور سمجھدارحکمران فائز فرمائے ۔ آمين ثم آمين يا رب العالمين

جاننے کی ضرورت

ذو الحجہ کی وطنِ عزیز ميں آج پہلی تاريخ ہے ۔ اللہ سُبْحَانُہُ و تعالٰی نے اس ماہ کے پہلے عشرہ ميں عبادت کا بہت زيادہ اجر رکھا ہے ۔ مُختلف احاديث کے مطابق اللہ تعالٰی نے سورت الفجر ميں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے يہ دس راتيں ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہی ہے ۔ ذوالحجہ کے پہلے نو دن روزے رکھنا بہت ثواب کا سبب بنتا ہے بالخصوص يومِ عرفات اور اس سے پچھلے دو دن کے روزے دوسرے دنوں ايک سال کے روزے رکھنے کے برابر کہے جاتے ہيں ۔ روزے نہ رکھ سکيں تو تلاوتِ قرآن اور دوسری عبادات کيجئے ۔ اگر کچھ اور نہ کر سکيں تو يکم سے بارہ ذوالحجہ تک مندرجہ ذيل تسبيح کا ورد کرتے رہيئے ۔

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد

اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا