Category Archives: پيغام

ہم کيا کر سکتے ہيں ؟

شگفتہ صاحبہ نے پوچھا ” کیا کوئی ہے جو پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہے ، اپنے معاشرے کے لیے کچھ کرنا چاہے ، اپنے لیے کچھ کرنا چاہے

سب سے پہلے تو ہر فرد کو يہ سمجھنا ہے کہ جب ہم اپنے ملک يا معاشرے کيلئے کچھ کرتے ہيں تو دراصل وہ ہم اپنے لئے اور اپنی اولاد کيلئے ہی کرتے ہيں اور اگر ملکی املاک کو کوئی نقصان پہنچاتے ہيں يا معاشرہ ميں کوئی گڑبڑ کرتے ہيں تو دراصل اپنا ہی نقصان يا بگاڑ کرتے ہيں

بہت کچھ ہے جو ہر فرد اپنی سطح پر بغير زيادہ مشقت اُٹھائے کر سکتا ہے ۔ مُشکل يہ ہے کہ ايک تو ہم لوگوں کی اکثريت باتوں کے شير اور عمل ميں ڈھير ہيں ۔ دوسرے ہم صرف حقوق کی بات کرتے ہيں جو خواہ ہوں يا نہ ہوں مگر ذمہ داری سے دُور بھاگتے ہيں حالانکہ جب تک ذمہ داری نہيں نبھائيں گے حق نہيں ملے گا بلکہ يوں کہنا چاہيئے کہ اگر ہر کوئی اپنی ذمہ داری نبھائے گا تو کسی کی حق تلفی ہو گی ہی نہيں

اوّل اور لازم عمل يہ ہے کہ جو کوئی بھی پاکستان کی شہريت رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو پاکستانی سمجھے کہے اور لکھے ۔ اگر وہ پنجابی يا سندھی يا پٹھان يا بلوچ يا اُردو سپيکنگ يا حق پرست ہے تو اپنے گھر پر ہو گا ۔ يہ پہچان صرف اُس کے خاندان يا محلہ کيلئے ہے مُلک کيلئے نہيں

اپنے گھر کا کوڑا کباڑ گلی يا سڑک کے کنارے پھينکنے کی بجائے ايک تھيلے يا ٹوکری يا بالٹی ميں ڈال کر اس کيلئے رکھے گئے کنٹينر کے اندر ڈاليں ۔ کنٹينر کے باہر نہ پھينکيں ۔ گاڑی ميں جاتے ہوئے گاڑی سے باہر کچھ نہ پھينکيں ۔ اسے ايک تھيلے ميں ڈال کر رکھيں اور جہاں اسے ڈالنے کا ڈبہ ملے اس ميں ڈاليں

جب بھِيڑ ہو تو قطار بنائيں اور صبر سے اپنی باری کا انتظار کريں ۔ سڑک پر گاڑی پر جارہے ہوں تو ہر وقت آگے نکلنے کی کوشش نہ کريں بلکہ دوسروں کا حق پہچانيں ۔ بالخصوص پيدل سڑک پار کرنے والے کو راستہ ديں

کسی کا مذاق نہ اُڑائيں

اپنی بڑھائی دکھانے کيلئے بڑی بڑی گاڑياں خريدنا اور گھر کے گرد بيش قيمت اور بڑے بڑے قمقمے جلانا بند کر ديں

فضول ضيافتوں جيسے مہندی تيل وغيرہ کو خير باد کہيں اور اس طرح ہونے والی بچت کو قومی يا اپنے خاندان کی بہتری ميں لگائيں

ميکڈونلڈ ۔ کے ايف سی ۔ وِيليج ۔ سَب وے وغيرہ پر صرف اس وقت جائيں جب کسی مجبوری کے تحت گھر ميں کھانا نہ پکايا جا سکا ہو ۔ يہ بچت آپ کے ہی کام آئے گی ۔ گھر کے سادہ کھانے صحت کيلئے بھی مفيد ہوتے ہيں

اگر آپ کے پاس فالتو کھانا ہے تو اپنے گلی محلے پر نظر رکھيں کہ کوئی سفيد پوش بھوکا نہ رہے

اگر آپ کے پاس فالتو پيسے ہيں تو کسی ايسے بچے کی تعليم کا خرچ اپنے ذمہ لے ليں جس کے والدين يہ خرچ برداشت نہيں کر سکتے

رازق و مالک اللہ ہے فانی مخلوق کی بجائے پيدا کرنے اور مارنے والے مالک کُل پر بھروسہ رکھيں اور ہر قسم کی رشوت لينا اور دينا چھوڑ ديں

سب سے بڑی بات کہ جھوٹ کبھی نہ بوليں سوائے اس کے کہ کوئی گردن پر چھُری رکھ کر جھوٹ بولنے پر مجبور کرے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہميں دين کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے

[ميں نے صرف وہ عوامل لکھے ہيں جن پر ميں اور ميرے بيوی بچے عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہيں اور اللہ کی دی ہوئی توفيق سے عمل کر رہے ہيں]

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اعلٰی معیار

جو محنت کرتا ہے ۔ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے
جو دیانتداری کرتا ہے ۔ وہ قابلِ اعتماد بنتا ہے
جو اچھائی کرتا ہے ۔ وہ مقبول ہوتا ہے
جو درگذر کرتا ہے ۔ وہ موافقت حاصل کرتا ہے
جو عاجزی اختیار کرتا ہے ۔ وہ بڑھائی پاتا ہے
جو استقامت یا استقلال اختیار کرتا ہے ۔ وہ قناعت و اطمینان پاتا ہے
جو اللہ پر ایمان یا یقین رکھتا ہے ۔ وہ سب کچھ پا لیتا ہے

چنے بوئیں گے تو گندم نہیں کاٹ سکتے
نہ ہی تھور بیجیں تو گلاب اُگتا ہے
جو زندگی کو دیں گے وہی زندگی لوٹائے گی
اسلئے وہی کریں جس کے نتیجہ میں بعد میں پریشانی یا پشیمانی نہ ہو

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” جو ساڑھے پانچ سال سے زائد عرصہ سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر

اظہارِ تشکر اور يک نہ شُد دو شُد

جن حضرات نے [پھپھے کُٹنی بھی حضرت ہے] ميرے ساتھ ہمدردی کی ہے اُن کا ميں ممنونِ احسان ہوں ۔ ميں جو کہ اُوندھا پڑا تھا ۔ ان کی حوصلہ افزائی سے اپنے پاؤں پر واپس کھڑا ہو گيا ہوں ۔ اس حادثہ سے ايک بار پھر ثابت ہو گيا ہے کہ اللہ کے کرم سے ميرے سے ناراض رہنے والے صرف چند ايک ہيں جبکہ ہمدرد بہت زيادہ ہيں ۔ اللہ سب کو خوش رکھے ۔ اللہ اُن کو بھی خُوش رکھے جو مجھ سے خُوش نہيں

جناب ۔ ميں نے ہر چيز کا بيک اَپ رکھا ہوتا ہے ۔ آج سے 20 سال پہلے کی بات کچھ اور تھی ۔ اُس وقت ميرا کمپيوٹر کا تجربہ صرف 5 سال تھا ۔ اب يہ ہوا کہ 21 مارچ کو ہم اسلام آباد چلے گئے ۔ واپس آئے تو کراچی اور برطانيہ سے باری باری قريبی عزيز مہمان ہوئے ۔ اس پر طُرّہ يہ کہ بجلی 12 سے 16 گھنٹے بند ہوتی رہی اور ميں بيک اَپ نہ لے سکا ۔ ان پندرہ دنوں کا مجھے اتنا دُکھ نہيں ہے ۔ آؤٹ لُک ايکسپريس ميں پڑی ميری ساری ای ميلز ضائع ہو گئی ہيں جن ميں بہت کچھ تھا

ابھی ميں اپنا سِسٹم بحال کر رہا تھا تو ميرا وائرليس انٹر نيٹ EVO جواب دے گيا ۔ جس کی وجہ سے ميں کچھ بھی نہ کر پايا ۔ آج ورڈ کا ڈی ايس ايل لگوايا ہے اور کام شروع کيا ہے

اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہی پڑے گی

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ خوشی اور صحت کاراز

خاميوں سے پاک صرف اللہ کی ذات ہے ۔ اس کے بعد اللہ کے برگزيدہ بندے يعنی انبیاء عليہم السلام ہيں ۔ باقی ہر انسان ميں خامياں موجود ہوتی ہيں ۔ اگر غور کيا جائے تو اکثر انسانوں ميں خوبياں اُس کی خاميوں سے زيادہ بلکہ بہت زيادہ ہوتی ہيں

نجانے کيوں انسان کی عادت ہے کہ دوسرے انسانوں کی خاميوں پر نظر رکھتا ہے اور اس کے نتيجہ ميں پریشان ہوتا ہے ۔ فرض کريں کہ انسان کی کُل خواص 100 ہيں ۔ اب اگر ایک آدمی ميں 15 خامياں ہيں تو ان 15 کی وجہ سے پريشان ہونے کی بجائے اُس آدمی کی 85 خُوبيوں پر توجہ مرکوز کی جائے تو اس کا نتيجہ ايک خوشگوار احساس ہو گا جس کا صحت پر اچھا اثر پڑے گا اور ساتھ ہی اچھے تعلقات بھی استوار ہوں گے

خوشی اور صحت دوسروں کی خاميوں کی بجائے اُن کی خوبيوں پر نظر رکھنے سے حاصل ہوتی ہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

بشر ۔ عتاب اور ڈرامہ باز

ابھی سے ہے يہ حال تو آگے جانے کيا ہوئے

دوتين ہفتوں سے ميرا يہ بلاگ ميری قوم کی طرح اپنی مرضی کا مالک بنا ہوا تھا ۔ کبھی کھُلتا کبھی نہ کھُلتا ۔ وجہ سمجھ نہيں آ رہی تھی ۔ پانچ چھ روز قبل سرور کے مالک سے رابطہ کيا ۔ اُس نے بتايا کہ يہ مسئلہ ڈی اين ايس رُوٹِنگ [DNS Routing ] کا ہے ۔ امريکا ميں سارے سرور اَپ گريڈ کر ديئے گئے ہيں اور تمام آئی ايس پيز نے ڈومين کے سلسلہ ميں کچھ اپ گريڈ کرنا تھا ۔ جنہوں نے نہيں کيا اُنہيں استعمال کرنے والوں کو يہ مسئلہ درپيش ہے ۔ بہرحال اُس کے بعد دو دن ميرا بلاگ کھُلتا رہا پھر وہی ہَٹ ۔ ميں نے بہت سے دوستوں کو ای ميل ميں مدد کی درخواست کی تھی جس سے يہ بات سامنے آئی ہے کہ جن کا آئی ايس پی ہے پی ٹی سی ايل يا وہ جو پی ٹی سی ايل سے روٹ ہوتی ہے مثال کے طور پر ورڈ کال۔ آج صبح 7 بجے نہيں کھُلا تو رابطہ کيا تو اُسی وقت چالو ہو گيا ۔ مگر ۔ ۔ ۔ بجلی کا آوا گوَن شروع ہو گيا

جمعہ اور ہفتہ کی درميانی رات سے لاہور پر عتاب نازل ہو چکا ہے ۔ پيپکو ہی بجلی بند کرنے کيلئے کم نہ تھی کہ مرکزی حکومت کا ايک ہتھيار نيشنل پاور کنٹرول سينٹر نے لاہور شہر کے 18 اور لاہور کے مضافات کے 9 گرڈ سٹيشنوں کو بجلی کی سپلائی باوجود پيپکو کے منع کرنے کے بند کر دی ہوئی ہے جس کے نتيجہ ميں لاہور شہر ميں 24 گھنٹوں میں سے 18 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے وجہ بجلی کی کمی بتائی گئی ہے جبکہ اسلام آباد ميں 24 گھنٹوں ميں صرف 5 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے ۔ حالت يہ ہے کہ ايک گھنٹہ بجلی ہوتی ہے جس کے بعد ايک يا 2 يا 3 يا 4 گھنٹے بجلی نہيں ہوتی

شايد اسی سے عوام کی نظر ہٹانے کيلئے پچھلے ہفتے  کو مشہور ڈرامہ بازوں نے ايک منظر پيش کيا کہ اٹھارہويں آئينی ترميم پيش کی جا رہی ہے اور صدر صاحب جائنٹ سيشن سے خطاب کريں گے ۔ اس پر نواز شريف نے پريس کانفرنس کر ڈالی اور تمام توپوں کا رُخ نواز شريف کی طرف ہو گيا ۔ بادل چھٹے ہيں تو معلوم ہوا کہ اٹھارويں ترميم تو ابھی تيار ہی نہيں ہوئی کيونکہ مختلف سياسی جماعتوں کی طرف سے اُٹھائے گئے نقاط کا ابھی فيصلہ ہونا باقی ہے ۔ اٹھارويں ترميم اسمبلی ميں پيش کرنے اور صدر کے خطاب کی سمری وزيراعظم نے صدر کو بھيجنا ہوتی ہے اور وزيراعظم نے ايسی کوئی سمری نہيں بھيجی تھی

ہم عوام صرف اتنا ہی صدر صاحب اور اُن باقی اداکاروں سے کہہ سکتے ہيں ” اس دل سے کھيلتے ہو بار بار کس لئے “

یومِ پاکستان

Flag-1 آج يومِ پاکستان ہے ۔ بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ لاہور” تھا لیکن وہ minar-i-pakistan قرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان بطور یادگار قراردادِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا ۔ عوام نے اسے یادگارِ پاکستان کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 55 سال سے زائد ہمارے ملک سے غائب رہنے کے بعد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے مارچ 2009ء میں کافی حد تک بحال ہوئی ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ یہ ملی یکجہتی نہ صرف قائم رہے بلکہ مزید بڑھے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم کے دے ۔ آمین
میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں

آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات اتنے بشدید اور تلخ ہیں کہ ان دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ انہوں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں

قائد اعظم کے تصورات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اے کے فضل الحق جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی قرارداد مقاصد پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے

کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر منسلک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں

اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس [اب اُتر پردیش] سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی

مندرجہ بالا اصول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا

مسلم اکثریتی علاقے ۔ muslim-majority-mapاس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے

۔

۔

۔

۔

۔
مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی
m-l-working-committee

شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں
welcome-addr-22-march-1940

چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں
seconding-reson-march-1940

۔قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ
quaid-liaquat-mamdot

پابندی ختم

اوّل میں اپنے اللہ کا شکر گذار ہوں جو مالک و قادر ہونے کے ساتھ مہربان اور رحم و کرم کرنے والا ہے
پھر تاخير کی معذرت کے ساتھ ميں اپنے مہربانوں کا شکرگذار ہوں جنہوں نے ميری مدد کی جن میں بالخصوص محمد اظہرالحق ۔ حيدرآبادی ۔ خرم شہزاد خرم ۔ عمر احمد بنگش ۔ ڈاکٹر ارشاد علی اور محمد سعید پالن پوری صاحبان شامل ہيں

وسط دسمبر 2009ء میں ميرے اس بلاگ پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں پابندی لگا دی گئی تھی ۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کسی بارسُوخ مہربان نے شکائت کی تھی کہ ميرا بلاگ پورنوگرافک ہے ۔ محمد اظہرالحق صاحب نے نہ صرف اُنہیں لکھا بلکہ ٹيليفون پر بھی متعلقہ اہلکار سے بات کی جو بے نتيجہ رہی ۔ اُنہوں نے مجھے لکھا تو میں نے کئی بار اتصالات متحدہ عرب امارات کو لکھا اور عمر احمد بنگش صاحب نے بھی لکھا مگر بے سود ۔ اسی دوران سعودی عرب سے حيدرآبادی صاحب نے مجھے اطلاع دی کہ ميرا بلاگ سعودی عرب میں نہیں کھُل رہا ۔ سعودی عرب کے ادارہ کو حيدرآبادی صاحب نے درخواست کی اور مجھے بھی ايسا کرنے کا مشورہ دیا پھر محمد سعید پالن پوری صاحب نے عربی میں سعودی عرب کے ادارہ کو درخواست لکھ بھیجی ۔ اللہ کے فضل سے سعودی عرب میں وسط جنوری میں پابندی ختم کر دی گئی مگر متحدہ عرب امارات میں پابندی قائم رہی ۔ ڈاکٹر ارشاد علی صاحب نے اتصالات متحدہ عرب امارات کا کام اپنے ذمہ ليا اور بھرپور کوشش کی ۔ بالآخر الحمدللہ کچھ روز قبل متحدہ عرب امارات میں بھی ميرے بلاگ پر پابندی ختم ہوئی ۔ ڈاکٹر ارشاد علی صاحب کا نام ہی ميں نے اُس وقت سُنا بلکہ پڑھا جب اُنہوں نے اس سلسہ میں ميری مدد کی پیشکش کی ۔ سُبحان اللہ

اَنت بھلا سو بھلا

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے