Category Archives: پيغام

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ وقت

My Id Pak

گذرا وقت نہ لوٹایا جا سکتا ہے ۔ نہ پھر کبھی آتا ہے

جذبات عارضی ہوتے ہیں ۔ فیصلے مُستقل

ایسے وقت کوئی فیصلہ نہ کیجئے جب غُصے میں ہوں
ایسے وقت کوئی وعدہ نہ کیجئے جب بہت خُوش ہوں
اور نہ ہی فیصلہ کرتے ہوئے جلدبازی کیجئے

ووٹ دینے کیلئے اُمیدوار کا انتخاب کرتے ہوئے بھی ان عوامل کا خیال رکھیئے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء میں ورڈ پریس نے اسے 10 بہترین بلاگز میں سے ایک قرار دیا تھا اور بلاگ ابھی تک اپنی حثیت بحال رکھے ہوئے ہے ۔ مندرجہ ذیل عنوانات پر کلک کر کے پڑھیئے کہ دنیا کیا کہتی ہے
Barak Obama’s Tears
Palestine and US Humbug

ہم اور حقوق

73 سال قبل آج کے دن لاہور کے اس باغ میں جہاں آج مینارِ پاکستان ہماری حالتِ زار پر افسردہ کھڑا ہے ایک قرداد ”قرار دادِ مقاصد“ کے نام سے پیش کی گئی تھے جو ہمارے آباؤ اجداد کے خلوص اور محنت کے نتیجہ میں ”قرار دادِ پاکستان“ ثابت ہوئی اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اپنا یہ مُلک پاکستان عطا کیا تاکہ اس خطے کے مسلمان اپنے وہ حقوق حاصل کر سکیں جن کیلئے ہمارے آباؤ اجداد نے لاکھوں جانیں اور بے حساب املاک قربان کیں

اس آزادی اور حصول کا ہم نے غلط استعمال کرتے ہوئے اپنا جو حال بنا لیا ہے وہ محتاجِ بیان نہیں

کہاں ہمارے آباؤ اجداد کا خلوص و محنت اور عزم کہ جناب محمد علی جوہر لندن کی عدالت میں کہیں ”میرا وطن آزاد کر دیں ورنہ مجھے یہیں دفن کر دیں کہ میں غلام زمین پر واپس نہیں جانا چاہتا ۔ اُن کی رحلت کا وقت اللہ تعالٰی لندن ہی میں لے آئے

اب ہمارا حال یہ ہے کہ جو کہتے ہیں وہ ہوتا نہیں اور جو کرتے ہیں وہ کہنے کی جراءت نہیں

آیئے ۔ سب اپنے اپنے ساتھ سچا عہد کریں کہ آج سے

ہم اپنے حقوق کی بات اُس وقت کریں گے
جب
دوسرے کا حق پہچان کر اُسے اُس کا حق دلا دیں گے
کیونکہ
حقوق حاصل کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے

پاکستان پائندہ باد

معذرت

محترمات قاریات و محترمان قارئین
السلام علیکم
سائنس بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے (گو انسانیت تنزل پذیر ہے) چنانچہ میرے اس بلاگ کے خد وخال پرانے زمانے میں شمار ہونے لگے تھے ۔ میرے بڑے بیٹے زکریا کو میرا پرانا ہونا پسند نہیں اسلئے اپنی دوسری مژروفیات کت ساتھ ساتھ میرے بلاگ کی تجدید میں مصروف ہے

بایں وجوہ کوئی کوفت کا سامان پیدا ہو تو اس کیلئے پیشگی معذرت کر رہا ہوں

تُسی کی کِیتا

اگر آپ کے کمپیوٹر پر ریئل پلیئر انسٹال ہے تو آگے بڑھیئے ورنہ پہلے یہاں کلک کر کے ریئل پلیئر ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال کر لیجئے

اب اپنے کمپیوٹر کے سپیکر آن کر دیجئے

پھر نیچے دیئے گئے ربط پر کلک کرنے کے بعد ریئل پلیئر کے ذریعہ وِڈیو چلایئے
اور غور سے سُنیئے کہ ”بی مانو“ میرا کیا پیغام آپ کو دے رہی ہے

VID-20130214-WA0001

۔
۔
۔

قارئین کی فرمائش پر اُردو ترجمہ بھی لکھ دیا ہے

تُسی دُور گئے اَسی یاد کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ دُور گئے تو میں نے یاد کِیا
تُسی کول آئے اَسی پیار کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ پاس آئے تو میں نے پیار کِیا
تُسی رُس گئے اَسی راضی کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ خفا ہوئے تو میں نے منایا
تُسی یاد آئے اَسی مِس کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ یاد آئے تو میں نے مِس (miss) کِیا
مِس کِیتا راضی کِیتا پیار کِیتا یاد کِیتا ۔ ۔ مِس کِیا منایا پیار کِیا یاد کِیا
سب کُج اسی کِیتا ۔ تُسی کی کِیتا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ سب کچھ میں نے کِیا ۔ آپ نے کیا کِیا

میرا انگریزی میں بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is Often Bitter“ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ دنیا کے معاملات پر نظر رکھنے والے لکھاریوں کے مندرجہ ذیل مضامین باری باری کلک کر کے پڑھیئے
Barak Obama’s Tears by George Monbiot
Sanctions on Iran by Brian Cloughley
Palestine and US Humbug by Brian Cloughley

یومِ یکجہتیءِ کشمیر

انشاء اللہ العزيز
سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟ آزادی آزادی آزادی

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا

کوئی کراچی یا اسلام آباد میں رہتا ہے یاپشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تین قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے

رنگ لائے گا شہيدوں کا لہو اور ظُلم کی تلوار ٹوٹے گی
جموں کشمير ہو کر رہے گا آزاد اِن شاء اللہ اِن شاء اللہ

قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ

“جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں”
یا
“سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”

جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں
راہِ حق میں جد و جہد کرنے والوں کو موت کا خوف نہیں ہوتا بلکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایثار کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہلِ جموں کشمیر اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہلِ جموں کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی

اہلِ جموں کشمیر صرف جموں کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں ۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں ۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ؟
بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے اِن شاء اللہ ناکامی اس کا مقدّر ہے ۔ بھارت جموں کشمیر کے لوگوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔ بھارتی معاندانہ پروپيگنڈہ سے بھونچکا ہوئے ہموطن بھی دشمن کی بانسری بجانے لگے ہيں

یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے ؟
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا ۔ میں نے اپنے دوسرے يعنی انگريزی بلاگ پر ستمبر 2005ء میں لکھا تھاکہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت نے 5 فروری کو چھٹی قرار دیا اور اسے سرکاری طور پر منایا اور آج تک 5 فروری کو چھٹی ہوتی ہے

اہل جموں کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، جموں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ جموں کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمير کے باشندوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ جموں کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے رياست جموں کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں دلال [Middle Man] کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر جموں کشمير کے باشندوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے تین بڑے دریا راوی چناب اور جہلم بھارت کے قبضہ میں ہیں جن پر کئی ڈيم بنا کر بھارت انہيں خُشک کرنے کے در پۓ ہے

جموں کشمیر کی جد و جہد آزادی کا مختصر جائزہ لینے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

علامہ اقبال

علامہ اقبال کا یومِ پیدائش مناتے ہوئے آج پورے مُلک میں چھٹی کے مزے لئے گئے ۔ کوئی ہے جس نے سوچا ہو کہ جو مشعل علامہ اقبال دکھا گئے تھے اُس پر عمل کیا جائے ۔ ملاحظہ ہو چند ارشادات

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ۔ ۔ ۔ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہ کا ۔۔۔۔۔ اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا ۔۔۔۔۔ آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا ۔۔۔۔۔ زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئي ۔ اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر ۔ چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ ۔ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق ۔ عقل بے ربطیء افکار سے مشرق میں غلام

خودی کی موت سے مغرب کا اندرون بے نور ۔۔۔۔۔ خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذّام
خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب ۔۔۔۔۔ بدن عراق و عجم کا ہے بے عرق و عظّام
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر ۔۔۔۔۔ قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور ۔۔۔۔۔ کہ بیچ کھائے مسلمانون کا جامہء احرام

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ ۔۔۔۔۔ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو ۔۔۔۔۔ نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ
فروغ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے ۔۔۔۔۔ تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس ۔۔۔۔۔ چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا ۔۔۔۔۔ صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا ۔۔۔۔۔ ناز بھی کر تو باندازہء رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے ۔۔۔۔۔ پھر جہاں میں ہوس شوکت دلدائی کر

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو ۔۔۔۔۔ آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ۔۔۔۔۔ ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

حج و عيدالاضحٰے مبارک

عيد سے پچھلی رات مغرب کی نماز کے بعد سے عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک يہ ورد رکھنا چاہیئے اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار ۔ مزيد عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی يہ ورد رکھيئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک
اللہ ان کا حج قبول فرمائے

سب مسلمانوں کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر
اللہ سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے

جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کی ہے یا کرنے کا ارادہ اللہ اُن کی قربانی قبول فرمائے
ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے
قارئين سے بھی دعا کی درخواست ہے