پاکستان بننے کے بعد خبریں شروع کرنے سے پہلے جس طرح ہمارے ہاں کہتے تھے ”یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے“۔
ہمارے گھر میں 1953ء تک ریڈیو قاہرہ سے خبریں سُنی جایا کرتی تھیں ۔ خبریں شروع ہونے سے پہلے کہا جاتا تھا ”ھُنا القاہرہ“۔
سمجھ میں آ گیا ۔ نہیں آیا ؟
جی ۔ میرا مطلب ہے کہ اللہ کی مہربانی سے میں مع اپنی بیگم کے 2 دن قبل یعنی بروز ہفتہ 30 اپریل اپنی بیٹی اور چھوٹے بیٹے کے پاس دبئی پہنچ گیا تھا ۔ بیٹی ۔ بیٹا ۔ بہو بیٹی ۔ پوتا ۔ پوتی سب بہت خوش ہیں ۔ بہت شور مچایا ہوا تھا ”جلدی آئیں ۔ جلدی آئیں“۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں تو پوتی ناراض ہو گئی تھی کہ آتے کیوں نہیں
آپس کی بات ہے کہ ہم بھی بہت خوش ہیں ۔ بچوں کے ساتھ بالخصوص پوتا پوتی کے ساتھ وقت گذرتے محسوس ہی نہیں ہوتا
Category Archives: پيغام
بات ہے سمجھ کی
یہ سطور میرے ایک دوست نے بھیجیں ہیں ۔ یہ اُن کے ایک واقفِ کار کی خود نوشت آپ بیتی ہے ۔ سوچا کہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں
پچھلے دنوں اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک دوست کے ساتھ ایک کیفے جانے کا اتفاق ہوا ۔ کچھ کھانے کا مُوڈ نہیں تھا تو بس دو فریش لائم منگوا لئے
ایک سیون اَپ کین کی قیمت 50 روپے ہے ۔ ایک لیموں کی قمیت اگر مہنگا بھی ہو تو 5 روپے ہے ۔ سٹرا شاید 2 روپے میں پڑتا ہو گا ۔ ٹوٹل ملا کر 109 روپے بنتے ہیں ۔ بل آیا تو مجھ سے پہلے میرے دوست نے بل دیکھے بغیر ویٹر کو اپنا ویزا کارڈ تھما دیا ۔ میرا دوست واش روم گیا ۔ اتنے میں ویٹر کارڈ اور پرچی واپس لے آیا ۔ میں نے بل اٹھا کر دیکھا تو تفصیل یوں تھی
فریش لائم -/1200 ۔ جی ایس ٹی -/204 ۔ ٹوٹل -/1404
اس بل کو دیکھ کر نہ مجھے کوئی حیرت ہوئی اور نہ میرے دوست نے ایسا محسوس کیا
ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جہاں ہم بے دریخ پیسے خرچ کرتے ہیں
تین سال کی وارنٹی والا کوٹ دس ہزار میں خرید کر اگلے سال دو اور لیں گے
سال میں چار جوڑے جوتوں کے لیں گے
ہوٹلنگ پر ہزاروں روپے برباد کریں گے
انٹرنیٹ، تھری جی، موبائل سیٹس، ٹائی، شرٹس، گھڑیاں، پین، لائٹرز، گیجٹس، لیپ ٹاپس اور پتہ نہیں کیا کیا
لیکن ہم خرچ کرتے رہتے ہیں ۔ جب کماتے ہیں تو خرچ کرنے کے لئے ہی کماتے ہیں
لیکن کبھی غور کریں کہ فریش لائم کے یہ 1404 روپے کسی کی زندگی میں کتنے اہم ہیں
آج بارش میں ایک جگہ انتظار کرتے ہوئے درخت کے نیچے خاتون نظر آئیں ۔ ہم کہتے ہیں یہ ایک بھکاری ہے ۔ بھیک مانگنا ان کا پیشہ ہے
غور کریں تو یہ ماں ہے ۔ ستر سالہ بوڑھی ماں ۔ جھریوں سے بھرا چہره سفید بال ایک چادر میں سردی اور بارش سے بچنے کی کوشش میں جانے کس مجبوری اور کس آس میں یہاں بیٹھی انسانیت کا ماتم منا رہی تھی
کبھی اپنی ماں کی مجبوری کا تصور کیجئے اور پھر اپنے دل کو ٹٹولئے کہ کیا یہ ایک بھکاری ہے؟
میں اظہار سے قاصر ہوں کہ میں اس وقت کس کیفیت کا شکار ہوں ۔ میں نے ان اماں جی کو ایک نوٹ تھمایا ۔ بڑی حسرت اور کرب سے کہنے لگیں ”بیٹا اس کا کھلا ہوتا تو یہاں بیٹھ کر کیا کرتی“۔
میں نے کہا ”ماں جی بس رکھ لیں“۔ جانے کتنی بار انہوں بے یقینی سے مجھے دیکھا ۔ پھر ایک نگاہ نوٹ پر ڈالی ایک مجھ پر ڈالی اور ایک آسمان پر ڈالی ۔ اس ایک نگاہ میں خوشی، طمانیت، دعا، شکر اور پتہ نہیں کیا کیا تھا ۔ اس نگاہ نے مجھے جتنی خوشی دی میں بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔ اس ایک نگاہ نے مجھے اور ماں جی کو بیک وقت اپنے رب کے حضور جھکا دیا
فریش لائم ضرور پیجیے لیکن اگر پیسے فریش لائم سے ختم نہیں ہوتے تو کسی کی مدد کر کے اور خوشی دے کر بھی کبھی ختم نہیں ہوں گے ۔ اپنے آس پاس کے کمزور اور لاچار لوگوں پر ضرور نظر ڈالئے
آج خوشی کا ایک راز بتاتا ہوں ۔ کہیں بہت جلدی میں جاتے ہوئے ۔ کہیں ٹریفک میں پھنسے ہوئے ۔ کہیں بارش میں چلتے ہوئے ۔ کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے ۔ اپنے آس پاس دیکھیئے اور کوئی اس طرح کی اماں یا کوئی بھی ضرورت مند نظر آئے تو دوڑ کر جایئے اور اسے بس ایک نوٹ تھمایئے ۔ اور واپس آکر اپنے کام لگ جایئے ۔ پھر دیکھیئے کہ آپ کے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے
خواہش اور محنت
خواہش سے نہیں گِرتے پھل جولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہو گا
کچھ نہیں ہو گا اندھیروں کو بُرا کہنے سے
اپنے حصے کا دِیا ہر ایک کو خود ہی جلانا ہو گا
اپنے جوانوں کے نام
کچھ لوگ یہاں اَفسر بن کر ۔ لوگوں کے خدا بن جاتے ہیں
کچھ لوگ ترقی جب پائیں تو ۔ اور بھی سر کو جھُکاتے ہیں
یہ دونوں قِسمیں اِنساں کی ہیں ۔ روزِ اوّل سے دُنیا میں
کچھ مَر کے بھی زندہ رہتے ہیں ۔کچھ جیتے جی مَر جاتے ہیں
ہے میری دعا اے بچو ۔ تُم انسانوں کی اس قسم میں ہو
خوشبو کی طرح ہر دم مہکے رُوح جو تمہارے جسم میں ہو
دُنیا میں اچھے کام کرو ۔ اور جب دنیا سے جاؤ تُم
غیروں کی آنکھوں میں آنسو اپنوں سے بڑھ کر لاؤ تُم
یہ لوگ جو تُم سے جَلتے ہیں یہ جھُوٹی دار پہ چلتے ہیں
یہ وقت کے چڑھتے سورج ہیں تب دیکھو جب ڈَھلتے ہیں
کرو وعدہ ان سا مَت ہو نا ۔ تُم اپنے اصلی کو مَت کھونا
دُنیا ہے اصل میں کچھ پانا ۔ اور لینا اصلی کا گُم ہونا
جو لوگ اس دُنیا کے لالچ میں ۔ سجدہ گاہ بدلتے ہیں
پھُولوں کو سجا کر کالر میں اَن دیکھی آگ میں جلتے ہیں
ہے ایک ۔ بَس ایک ہی راہِ وفا ۔ وہ راہِ وفا ہے راہِ خدا
ہر دَم یہ رکھنا لب پہ دُعا ۔ یا رب مجھے سیدھی راہ دِکھا
وہ راہ کہ جس پر چلتے ہوئے حاصل ہو سنہرا انعام تیرا
نہیں چاہیئے مجھ کو وہ رَستہ جس پہ پھیلا ہے قہرِ خدا
اس دُنیا کی آسائشیں سب بے شک کرتا ہوں تُجھ سے طلب
ہو شامل جن میں رحم تیرا ۔ ہو دُور جن سے تیرا غضب“۔
بے پردہ لڑکی
اگر آپ کو کوئی مسلمان لڑکی نظر آئے جس نے لباس اسلامی شرع کے مطابق نہ پہن رکھا ہو تو ایک لمحہ کیلئے بھی یہ خیال نہ کریں کہ وہ اسلامی ترازو پر آپ سے کم وزن رکھتی ہے
اگر آپ نے ایسا کیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ آپ کا درجہ اُس لڑکی سے کم تر ہے
یقین کریں کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے
کیا معلوم اُس لڑکی کا اللہ سے آپ کی نسبت بہتر رابطہ ہو اور اُس کا دل آپ کے دل سے کہیں بہتر ہو کیونکہ آپ اس بارے میں نہیں جانتے
شاید غیر شرعی لباس ہی اُس کی واحد کمزوری ہو اور آپ میں اس لڑکی سے کہیں زیادہ خامیاں ہوں
مفتی اسمٰعیل منک
یہ ترقی ہے یا جہالت
کمپیوٹر اور پھر سمارٹ موبائل فون عام ہونے کے بعد پڑھے لکھے لوگ فیس بُک پر جو دیکھتے ہیں شیئر کر دیتے ہیں ۔ کتنے لوگ ہیں جو تصدیق کرتے ہیں کہ جو وہ شیئر کرنے لگے ہیں وہ حقیقت ہے یا اختراع ؟
میرا خیال کہ اگر تصدیق کرنے لگیں تو شاید کوئی بھی شیئر نہ کرے ۔ جبکہ کہا گیا ہے کہ ” کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغیر تصدیق کے آگے بیان کر دے“۔
جھوٹ کی قسمیں جس کے مرتکب اکثر لوگ ہوتے ہیں
لوگوں کو ہنسانے کیلئے غلط بیانی کرنا
کھانا مزیدار نہ بھی ہو تو کسی کو خوش کرنے کیلئے کہنا ”بہت مزیدار ہے“۔
کسی کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے بیماری کا دورہ پڑنا یا بیہوش ہو جانا
کسی کو بیوقوف بنانے کیلئے یا شُغل کی خاطر غلط بیانی کرنا ۔ اپریل فُول بھی اِسی میں آتا ہے
اپنے آپ کو مُشکل سے نکالنے کیلئے غلط بیانی کرنا
دوسرے کے سامنے چھوٹا ہونے کے ڈر سے غلط بیانی کرنا
ذاتی نفع کی خاطر غلط بیانی کرنا جیسے کوئی چیز خریدتے ہوئے کہنا کہ ”فلاں تو اتنی قیمت پر دے رہا ہے“۔
دوسرے کو نقصان پہنچانے کی خاطر غلط بیانی کرنا جیسے کوئی راستی پوچھے تو راستہ نہ معلوم ہوتے ہوئے یا جان بوجھ کر اُسے غلط راستہ بتانا
جس خبر کی سچائی کی تصدیق نہ کی ہو اُسے بیان کرنا (ابتداء میں اس کی مچال دی جا چکی ہے)۔
ذاتی مفاد کے تحت سچ بولنے کی بجائے چُپ رہنا
کسی کی توجہ یا محبت حاصل کرنے کیلئے غلط دعوٰی یا غلط بیانی کرنا
حقیقت معلوم نہ ہوتے ہوئے کسی کے حق میں گواہی دینا
اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینا
یومِ پاکستان
بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ مقاصد” تھا لیکن وہ قرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان پاکستان بننے کے بعد بطور یادگار قراردادِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا ۔ عوام نے اسے یادگارِ پاکستان کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا
مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 60 سال سے زائد عرصہ سے ہمارے ملک سے غائب ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ ہماری قوم کو سیدھی راہ پر گامزن کرے ۔ ان میں ملی یکجہتی قائم کرے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم دے ۔ آمین
میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں
آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف
ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات اتنے شدید اور تلخ ہیں کہ ان دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ انہیں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے
مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین
سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں“۔
قائد اعظم کے تصورات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اے کے فضل الحق جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی قرارداد مقاصد پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے
”کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر منسلک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں“۔
اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس (اب اُتر پردیش) سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی
مندرجہ بالا اصول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بنگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا
مسلم اکثریتی علاقے ۔ اس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے
مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی
۔
۔
۔
شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں
چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں
۔
۔
قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ