اِن چیزوں سے متاءثر نہ ہوں
x دولت
x x خوبصورت القابات
x x x اسناد
مگر
اِن کا اثر ضرور لیں
* سخاوت
* * دیانت
* * * عاجزی
اِن چیزوں سے متاءثر نہ ہوں
x دولت
x x خوبصورت القابات
x x x اسناد
مگر
اِن کا اثر ضرور لیں
* سخاوت
* * دیانت
* * * عاجزی
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے
اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی
پر نام تیری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر
مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
فریاد ہے اے کشتی اُمت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
کر حق سے دعا اُمت مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھِرا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال بُرا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے
حرم شریف مکّہ کی سیر پر کلِک کیجئے تو آپ اپنے آپ کو حرمِ شریف مکہ کے اندر پائیں گے ۔ پھر اگر دل چاہے کعبہ کے گِرد طواف کیجئے یا پورے حرم شریف کی سیر کیجئے
اگر آپ کے سامنے کمپیوٹر ہے تو چوہے کے نشانِ کار (Mouse pointer) کو مانیٹر کی سکرین پر داہنے یا بائیں یا اُوپر یا نیچے کی طرف حرکت دے کر حرم شریف کا نظارہ کیجئے
اگر آپ کے سامنے اینڈرائیڈ سکرین (Andriod) ہے یا آپ کے ہاتھ میں سمارٹ موبائل فون ہے تو سکرین پر اُنگلی رکھ کر اُنگلی کو داہنے یا بائیں یا اُوپر یا نیچے کی طرف حرکت دے کر حرم شریف کا نظارہ کیجئے
حرم شریف کے نظارہ کے دوران اگر تصویر پر کہیں تِیر کا نشان نظر آئے تو اس پر کلِک کر دیکھیئے کیا ہوتا ہے
اسی طرح اگر زنجیر کا ایک لِنک یعنی 8 کھڑا یا لیٹا ہوا نظر آئے تو اس پر کلِک کر کے دیکھیئے کہ کیا ہوتا ہے
یعنی ہر دَم فرق نظارہ ۔ سُبحان اللہ
انگریز حکمرانوں نے جواہر لال نہرو کے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان 14 اگست 1947ء کی بجائے 17 اگست کو کیا اور نہائت عیّاری سے گورداسپور جو کہ مسلم اکثریت والا ضلع تھا کو بھارت میں شامل کر دیا ۔ جس کے نتیجہ میں ایک تو گورداسپور میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور دوسرے بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے راستہ مہیا کر ہو گیا جہاں سے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہا سبھا اور اکالی دَل کے عسکری تربیت یافتہ مسلحہ دستے جموں میں داخل ہونا شروع ہو گئے
موہن داس کرم چند گاندھی ۔ جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل پٹھانکوٹ کٹھوعہ کے راستے جموں پہنچے اور مہاراجہ ہری
سنگھ پر مختلف طریقوں سے بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے دباؤ ڈالا ۔ مسلمانوں کی طرف سے قرارداد الحاق پاکستان پہلے ہی مہاراجہ کے پاس پہنچ چکی تھی ۔ راجہ ہری سنگھ نے مُہلت مانگی ۔ 3 دن کی متواتر کوشش کے بعد بھی ہاں نہ ہو سکی اور کانگرسی لیڈر بھارت واپس چلے گئے
بعد میں تمام فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی فوج سے لدھے ہوائی جہازوں نے بغیر اطلاع عید الاضحے کے دوسرے دن یعنی 27 اکتوبر 1947ء کو جموں ایئر پورٹ (ستواری) میں دھڑا دھڑ اُترنا شروع ہو گئے ۔ جلد ہی بھارتی فوج جموں میں پھیلنے کے علاوہ جموں کشمیر کی سرحدوں پر بھی پہنچ گئی ۔ اِن میں زیادہ تعداد گورکھا اور نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کی تھی جو انتہائی ظالم اور بے رحم مشہور تھے ۔ قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے
خُفیہ منصوبے کے تحت بارتی فوج کی پُشت پناہی میں راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھا اور اکالی دَل کے عسکری دستوں نے مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کیا ۔ 4 ہفتوں میں جو 6 نومبر 1947ء کی شام کو ختم ہوئے اِن مسلحہ ہندوؤں اور سِکھوں نے صوبہ جموں میں پونے دو لاکھ کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا جن میں مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے سب شامل تھے اور سینکڑوں جوان لڑکیاں اغواء کر لی گئیں ۔ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا
کچھ سال امن رہنے کے بعد بھارت کا جبر و استبداد پھر شروع ہوا جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر کے مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا اور آزادی کے نعرے لگانے شروع کئے ۔ بھارتی ریاستی ظُلم بڑھتا گیا اور مسلمانوں کا احتجاج بھی زور پکڑتا گیا ۔ 1987ء میں نیشل کانفرنس (آل انڈیا کانگرس کی شاخ) کے قومی اسمبلی میں مُنتخب نمائندے آزادی کیلئے لڑنے والے مجاہدین کے ساتھ مل گئے ۔ اس کے بعد بھارتی سکیورٹی فورسز نے جموں کشمیر کے مسلمانوں کا کھُلم کھُلا قتلِ عام شروع کر دیا ۔ اُنہیں دفن کر دیا جاتا اور کسی کسی کی قبر بنائی جاتی اور اُس پر فرضی نام کی تختی لگا کر نیچے پاکستانی دہشتگرد لکھ دیا جاتا ۔ ایسی قبر جب بھی عدالتی حُکم پر کھولی گئی تو میت لاپتہ کشمیری جوان کی نکلی
امسال 8 جولائی کو بُرہان وانی کے بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں قتل کے بعد پورے جموں کشمیر میں پُر زور احتجاج شروع ہو چکا ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز بھی ظُلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔ اس کی تفصیل سب قارئین روزانہ سُنتے ہیں ۔ متعدد وِڈیوز بھی اُپ لَوڈ ہو چکی ہیں جنہیں دیکھ کر رَونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
انسانی حقوق کے دعویدار امریکہ اور یورپ والوں کی آنکھوں پر بھارتی چشمے چڑھے ہوئے ہیں ۔ اسلئے وہ اس ظُلم و استبداد کے خلاف آواز اُٹھانا تو کیا اس کا ذکر کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے اور نہ اُن کا میڈیا ان حقائق کو دِکھاتا ہے
کہا جاتا ہے کہ مہنگے علاقہ کے گھروں میں رہنے والوں کو سب کچھ اُن کی دہلیز پر ملتا ہے
اسلام آباد میں سیکٹر ایف 8 اسی درجے میں آتا ہے اور سیکٹر ای 7 بننے سے قبل اسلام آباد کا سب سے بہتر معیار کا سیکٹر صرف یہی تھا
ایف 8 میں اکثر پلاٹ 2000 مربع گز کے ہیں ۔ کچھ 1000 سے 1500 مربع گز کے ہیں اور جغرافیائی وجہ سے بن جانے والے تھوڑے سے 500 مربع گز کے ہیں
اسلام آباد ہر سیکٹر کے 4 حصے ہوتے ہیں ۔ 1 ۔ 2 ۔ 3 اور 4
ہم سیکٹر ایف 8 کے حصہ 1 میں رہتے ہیں یعنی F–8/1 میں ۔ ہم پانی کی سپلائی کیلئے ہر 3 ماہ بعد 2300 روپے دیتے جو کہ باقاعدگی سے وصول کئے جا رہے ہیں لیکن ہمارے علاقے میں پچھلے 3 ماہ سے پانی نہیں آ رہا
جون 2016ء تک پانی کی سپلائی کیپِٹل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی کی ذمہ داری تھی ۔ جون 2016ء سے قبل کبھی سالوں بعد چند دِنوں کیلئے پانی کی سپلائی بند ہوتی تھی وہ بھی صرف دو تین گلیوں کی تو سی ڈی اے میں بھاگ دوڑ اُس وقت تک لگی رہتی تھی جب تک پانی کی سپلائی بحال نہ ہو جائے
سیاستدانوں کا شور تھا کہ اسلام آباد میں بھی مُنتخب لوکل گورنمنٹ ہونا چاہیئے ۔ چنانچہ 10 ماہ قبل انتخابات ہوئے اور اسلام آباد میونسپل کارپوریشن اور مضافاتی علاقوں کی یونین کونسلز بن گئیں ۔ اسلام آباد کے مکینوں کو پانی کی سپلائی یکم جولائی 2016ء سے نو مُنتخب میونسپل کارپوریشن نے اپنی عملداری میں لے لی ۔ اب ایف 8/1 میں پانی کی سپلائی پچھلے 3 ماہ سے بند ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کو پانی مہیاء کرنے والے تینوں ٹیوب ویل بند پڑے ہیں
سیاستدان 20 فٹ اُونچی سٹیج پر کھڑے ہو کر دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ عوام کے خادم ہیں اور عوام کیلئے آسمان سے چاند ستارے بھی توڑکر لے آئیں گے ۔ جب کرُسی مل جاتی ہے تو شکائت کے آٹھ دس دن بعد پیش رفت معلوم کرنے جائیں تو جواب ملتا ہے ”میں پتہ کر رہا ہوں“۔
ہمارے علاقے کا ممبر میونسِپل کارپوریشن اور ایم این اے اتفاق سے دونوں تحریکِ انصاف کے ہیں ۔ ایم این اے اسد عمر کا نام تو سُنا ہی ہو گا
شاید اسی قسم کا نیا پاکستان بنانے کا بار بار وعدہ کیا جا رہا ہے
ایک نیک بزرگ نے دیوار پر ایک بڑا سا سفید کاغذ لگا کر اس پر کالی سیاہی سے ایک نقطہ لگا دیا
پھر لوگوں کو بُلا کر پوچھا ”آپ کو دیوار پر کیا نظر آ رہا ہے ؟“
سب نے کہا ”کالا نُکتہ “۔
بزرگ بولے ”کمال ہے ۔ آپ میں سے کسی کو اتنا بڑا سفید کاغذ نظر نہیں آیا اور ایک کالا نُکتہ نظر آ گیا ہے“۔
یہی حال انسان کا ہے کہ کسی کو اُس کی ساری زندگی میں کی ہوئی ڈھیروں اچھائیاں نظر نہیں آتیں لیکن ایک چھوٹی سی بُرائی نظر آ جاتی ہے
کشمیر میں بھارتی مظالم نے واضح کر دیا ہے کہ حقوق انسانی اور حقوق نسواں کے نام پر لاکھوں ڈالر جیبوں میں ڈالنے والی این جی اوز صرف ایک ڈھکوسلا ہیں