الزام ۔ 1 ۔ الیکشن ٹربیونلز دھاندلی کے متعلق درخواستوں کا فیصلہ کرنے میں ناکام ہو گئے
حقیقت ۔ مئی 2013 کے الیکشن کے بعد ہارنے والے امیدواروں میں سے 410 نے 14 الیکشن ٹربیونلز میں پٹیشنز دائر کیں ۔ جولائی تک 292 پٹیشنز جو کُل درخواستوں کا 73 فیصد بنتا ہے پر فیصلے دے دیئے گئے تھے ۔ ماضی کے الیکشنز کے مقابلہ میں موجودہ الیکشن ٹربیونلز کی یہ کارکردگی بہترین ہے
الزام ۔ 2 ۔ الیکشن ٹربیونل کے متعصب ججوں کو الیکشن کمیشن نے ناقص طریقہ کار کے ذریعہ تعینات کیا
حقیقت ۔ ماضی میں ہائی کورٹ کے جج حضرات کو ہی انتخابی دھاندلی سے متعلق درخواستیں نمٹانے کا فریضہ سونپا جاتا تھا جس کے لئے وہ اپنے معمول کے مقدمات سننے کے بعد ٹائم نکالتے تھے۔ اس بار ریٹائرڈ ججوں کو الیکشن ٹربیونلز کا جج مقرر کیا گیا اور ان کا کام صرف اور صرف الیکشن پٹیشنز کو سننا ہے تا کہ فیصلے جلدی ہوں ۔ ان ججوں کو چُننے میں الیکشن کمیشن کا کوئی کردار نہ تھا بلکہ متعلقہ صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس حضرات کی سفارش پر انہیں الیکشن ٹربیونلز کا جج مقرر کیا گیا
الزام ۔ 3 ۔ الیکشن ٹربیونلز جان بوجھ کر سست روی کا شکار ہیں
حقیقت ۔ یہ حقیقت ہے کہ الیکشن ٹربیونل مقررہ 120 دن میں اپنا کام مکمل نہ کر سکے مگر اس کی ایک اہم وجہ ہارنے والے امیدواروں کا اپنا رویہ ہے ۔ مثال کے طور پرتحریک انصاف کے عثمان ڈار بمقابلہ خواجہ آصف کیس میں ٹربیونل نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ درخواست گزار (عثمان ڈار) عدالت کے سامنے پیش ہونے سے کتراتے رہے ۔ عدالتی احکامات کے جواب میں وہ بیرون ملک کاروباری دوروں کا بہانہ بنا کر پیش نہ ہوئے ۔ اس پر عدالت نے محسوس کیا کہ درخواست گزار کی کیس میں دلچسپی باقی نہیں۔ اس بنا پر عدالت نے درخواست گزار کو 30000 روپے جرمانہ جمع کرانے کا کہا مگر یہ رقم بھی جمع نہ کرائی گئی ۔ درخواست گزار کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اس درخواست کو الیکشن کمیشن نے خارج کر دیا
الزام ۔ 4 ۔ اگر الیکشن ٹربیونل پی ٹی آئی کے کیسوں کا فیصلہ دے دیں تو ن لیگ کی حکومت ختم ہو جائے گی
حقیقت ۔ قومی و صوبائی انتخاب ہارنے والے تحریک انصاف کے امیدواروں میں سے صرف 58 امیدواروں نے الیکشن ٹربیونلز میں دھاندلی کی درخواستیں دائر کیں۔ ان درخواستوں میں سے 39 کیسوں میں الیکشن ٹربیونل فیصلہ دے چکے ہیں اور کسی ایک بھی کیس میں تحریک انصاف کا کوئی بھی امیدوار اپنا الزام ثابت نہ کر سکا ۔ تحریک انصاف کی صرف 19 درخواستوں کا فیصلہ آنا باقی ہے اور اگر ان تمام کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں بھی ہو جائے تو بھی سیاسی صورت حال بدلنے کا کوئی امکان نہیں
الزام ۔ 5 ۔ چار حلقوں میں بے مثال قسم کی دھاندلی ہوئی
حقیقت ۔ حلقہ این اے 110 ان چار حلقوں میں شامل ہے ۔ فیفن کے مطابق اس حلقہ میں کوئی ایک بھی انتخابی خلل اندازی نہیں ہوئی ۔ اس کے برعکس حلقہ این اے 1 میں جہاں سے عمران خان جیتے تھے فیفن کے مطابق 58 انتخابی خلل اندازیاں ریکارڈ کی گئیں
مزید یہ کہ اب تک الیکشن پیٹیشنز کے جو فیصلے ہو چکے ہیں ان کے مطابق صرف دو ارکان اسمبلی کے الیکشن کو دھاندلی کی بناء پر کلعدم قرار دیا گیا ہے اور یہ دونوں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے
الف ۔ صوبائی اسمبلی سندھ کے حلقے پی ایس 93 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتنے والے حفیظ الدین منتخب ہوئے تھے ۔ جماعتِ اسلامی کے عبدالرزاق نے الیکشن ٹربیونل میں پٹیشن داخل کی کہ حفیظ الدین الیکشن میں دھاندلی کی بنیاد پر جیتے ہیں ۔ دھاندلی ثابت ہو گئی اور الیکشن ٹربیونل نے حفیظ الدین کے انتخاب کو کلعدم قرار دے کر عبدالرزاق کو مُنتخب قرار دے دیا
ب ۔ این اے 19 ہری پور سے پی ٹی آئی کے ڈاکٹر راجہ میر زمان جیتے تھے ۔ ہارنے والے نے ڈاکٹر راجہ میر زمان پر دھاندلی۔ جعلی ووٹوں اور جعلی پیلٹ پیپروں کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن ٹربیونل میں پیٹیشن دائر کی ۔ ٹربیونل نے صرف دوبارہ گنتی کا حُکم دیا تو پٹیشنر کو کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ پٹیشنر نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی کہ ووٹ اور بیلٹ پیپر چیک کئے جائیں جو کہ جعلی ہیں اور ان کا کوئی سرکاری رہکارڈ نہیں ۔ ثابت ہوا کہ 6 پولنگ سٹیشنوں پر لاتعداد جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے ۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر راجہ میر زمان کی رُکنیت معطل کر دی اور ان 6 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا حُکم دیا
الزام ۔ 6 ۔ الیکشن ٹربیونل مسلم لیگ ن کے حق میں فیصلے دے رہے ہیں
حقیقت ۔ اب تک الیکشن درخواستوں کے نتیجے میں ن لیگ کے 10 اراکین کو ناکام قرار دیا جا چکا ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں کسی بھی سیاسی جماعت کے اراکین کو انہیں ناکام قرار نہیں دیا گیا ۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کے صرف 3 اراکین کے خلاف فیصلے دے کر انہیں ناکام قرار دیا گیا ۔ ان فیصلوں سے سب سے زیادہ فائدہ آزاد امیدواروں کو ہوا جن کی تعداد 8 ہے جبکہ اس کے بعد پی پی پی کے 6 درخواست گزاروں کے حق میں فیصلے کئے گئے
جیسا کہ الزام ۔ 5 میں لکھا ہے ۔ پی ایس 93 میں الیکشن ٹریبیونل نے ووٹوں میں دھاندلی کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے اُمیدوار کا الیکشن کلعدم قرار دے کر پٹیشنر جو پی ٹی آئی کی ساتھی جماعت اسلامی کا ہے کو کامیاب قرار دے دیا ۔ جبکہ این اے 19 ہری پور میں جہاں پٹیشنر مسلم لیگ ن کا ہے ووٹوں میں دھاندلی کے باوجود الیکشن ٹربیونل نے پی ٹی آئی کے اُمیدوار کا الیکشن کلعدم قرار نہیں دیا اور سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کلعدم قرار نہ دیا اور صرف 6 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا حُکم دیا ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار نے پی ایس 93 کے تمام پولنگ سٹیشنوں پر دھاندلی کی تھی
الزام ۔ 7 ۔ اگر دال میں کچھ کالا نہیں تو حکومت تحریک انصاف کی طرف سے 4 حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ پورا کیوں نہیں کرتی
حقیقت ۔ ان 4 حلقوں کا معاملہ پہلے ہی عدلیہ کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں الیکشن ٹربیونل ہی عدالتی انکوائری کے ذریعہ کوئی فیصلہ دے سکتے ہیں یا الیکشن ٹربیونل کے بعد سپریم کورٹ فیصلہ دے سکتی ہے ۔ حکومت اس معاملہ میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی
الزام ۔ 8 ۔ ن لیگ نے دھاندلی کر کے تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کو ہرا دیا
حقیقت ۔ جہانگیر ترین کا حلقہ 154 متنازعہ 4 حلقوں میں شامل ہے ۔ اگرچہ الزام ن لیگ پر لگایا گیا کہ اُس نے دھاندلی کر کے جہانگیر ترین کو ہرایا مگر دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس حلقہ سے ن لیگ کا امیدوار ہارنے والوں میں بھی تیسرے نمبر پر رہا جبکہ جیتنے والے آزاد امیدوارمحمد صدیق بلوچ ہیں
الزام ۔ 9 ۔ پی پی پی نے بھی 4 حلقوں کو کھولنے کے مطالبہ کی حمایت کی
حقیقت ۔ پی پی پی اس بات پر خوش ہے کہ تحریک انصاف کی دھاندلی سے متعلق تمام تر توجہ پنجاب میں ہے جہاں گزشتہ انتخابات میں
پیپلز پارٹی بُری طرح ناکام ہوئی ۔ متنازعہ 4 حلقوں میں پی پی پی کو ملنے والے کل ووٹوں کی تعداد ایک فیصد ۔ 1 اعشاریہ 6 فیصد ۔ 2 اعشاریہ 9 فیصد اور 5 فیصد تھی جس کی بنا پر اس کے امیدواروں کی ضمانت بھی ضبط کر دی گئی ۔ ان حالات میں پی پی پی کیوں نہ چاہے گی کہ ان حلقوں میں الیکشن کے نتائج کو کالعدم قرار دے دیا جائے
الزام ۔ 10 ۔ احتجاجی تحریک شروع کرنے سے پہلے تحریک انصاف نے تمام قانونی و آئینی تقاضے پورے کر لئے
حقیقت ۔ قانون کے مطابق الیکشن سے متعلق دھاندلی کا مسئلہ صرف الیکشن ٹربیونل کے سامنے اٹھایا جا سکتا ہے ۔ الیکشن میں دھاندلی سے متعلق کل درخواستوں کے 73 فیصد کیسوں کا فیصلہ ٹربیونل دے چکے ۔ ان فیصلوں کے خلاف کوئی بھی پارٹی قانونی طور پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتی ہے
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پچھلے 2 ہفتوں سے روزانہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری صاحب کے خلاف جس قدر تضحیک اور ذلّت آمیز زبان استعمال کر رہا ہے اور جو بے بنیاد گٹیا الزامات اُن پر لگا رہا ہے وہ کوئی ڈھکی چھُپی بات نہیں ہے ۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری صاحب کی طرف سے بھیجے گئے ہتکِ عزت اور ہرجانہ کے قانونی نوٹس کے جواب میں عمران خان نے جو لکھا ہے واضح کرتا ہے کہ عمران خان کتنا سچا اور کس کردار کا مالک ہے ۔ ملاحظہ ہو جواب کی نقل ۔ ۔ ۔
عمران خان نے لکھا ہے ”عدلیہ کے خلاف کوئی توہین آمیز یا بدنیتی پر مبنی الفاظ استعمال نہیں کئے ۔ جو کچھ کہا وہ صرف مایوسی کا اظہار تھا کیونکہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے کوئی انصاف نہیں مل سکا۔ امید ہے آپ (افتخار محمد چوہدری) ذاتی مقدمہ بازی کے فیصلے پر نظرثانی کریں گے۔ آپ کے عہد ساز فیصلوں کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ الفاظ کے چناؤ میں غلطی ہوئی “۔
عمران خان نے مقدمہ بعنوان ”سندھ ہائی کورٹ بار بنام وفاق پاکستان“ کے فیصلے کی تعریف بھی کی اور لکھا ”مستقبل میں جب کبھی کسی فوجی بلکہ کسی سولین مُہِم جُو کے دل میں اقتدار پر شب خون مارنے کی خواہش اُٹھے گی ۔ آپ کا وہی فیصلہ اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہو گا ۔ جس طرح آپ نے اپنی متحرک عدالتی قیادت کے ذریعے مُلک کے پس ماندہ طبقوں کو سستا اور فوری انصاف دلانے کی بھرپور کوششیں کیں ہم آج اس کا بھی اعتراف کرتے ہیں ۔ آپ کی عظیم خدمات کے معترف ہیں“ ۔
مزید لکھا ہے ” آپ نے ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی اورعدلیہ کی آزادی کیلئے کام کیا ہے ۔ 9 مارچ اور 3 نومبر 2007ء کو آپ ایک ایسے شخص سے لڑے جو ملک کے اقتدار پر غیر آئینی اور غیر قانونی حربوں سے قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لڑائی میں پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی تھی ۔ آپ نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور فوجی آمر کا مقابلہ کیا ۔ پوری قوم آپ کو سلام پیش کرتی ہے ۔ میں بھی اس پر آپ کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ اس کے علاوہ آپ یقیناً ان تمام اعزازات اور تمغوں کے شایان شان ہیں جو آپ کو ملے ۔ بلاشبہ آج بھی پوری قوم کا سر آپ کے کارہائے نمایاں پر فخر سے بلند ہے ۔ الفاظ کے چناؤ میں غلطی ہوئی ہے مگر اُمید ہے کہ آپ درگزرسے کام لیں گے اوربردباری کا ثبوت دیں گے“۔