Category Archives: منافقت
بھارتی ظُلم و سِتم کے 69 سال
انگریز حکمرانوں نے جواہر لال نہرو کے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان 14 اگست 1947ء کی بجائے 17 اگست کو کیا اور نہائت عیّاری سے گورداسپور جو کہ مسلم اکثریت والا ضلع تھا کو بھارت میں شامل کر دیا ۔ جس کے نتیجہ میں ایک تو گورداسپور میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور دوسرے بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے راستہ مہیا کر ہو گیا جہاں سے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہا سبھا اور اکالی دَل کے عسکری تربیت یافتہ مسلحہ دستے جموں میں داخل ہونا شروع ہو گئے
موہن داس کرم چند گاندھی ۔ جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل پٹھانکوٹ کٹھوعہ کے راستے جموں پہنچے اور مہاراجہ ہری
سنگھ پر مختلف طریقوں سے بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے دباؤ ڈالا ۔ مسلمانوں کی طرف سے قرارداد الحاق پاکستان پہلے ہی مہاراجہ کے پاس پہنچ چکی تھی ۔ راجہ ہری سنگھ نے مُہلت مانگی ۔ 3 دن کی متواتر کوشش کے بعد بھی ہاں نہ ہو سکی اور کانگرسی لیڈر بھارت واپس چلے گئے
بعد میں تمام فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی فوج سے لدھے ہوائی جہازوں نے بغیر اطلاع عید الاضحے کے دوسرے دن یعنی 27 اکتوبر 1947ء کو جموں ایئر پورٹ (ستواری) میں دھڑا دھڑ اُترنا شروع ہو گئے ۔ جلد ہی بھارتی فوج جموں میں پھیلنے کے علاوہ جموں کشمیر کی سرحدوں پر بھی پہنچ گئی ۔ اِن میں زیادہ تعداد گورکھا اور نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کی تھی جو انتہائی ظالم اور بے رحم مشہور تھے ۔ قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے
خُفیہ منصوبے کے تحت بارتی فوج کی پُشت پناہی میں راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھا اور اکالی دَل کے عسکری دستوں نے مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کیا ۔ 4 ہفتوں میں جو 6 نومبر 1947ء کی شام کو ختم ہوئے اِن مسلحہ ہندوؤں اور سِکھوں نے صوبہ جموں میں پونے دو لاکھ کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا جن میں مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے سب شامل تھے اور سینکڑوں جوان لڑکیاں اغواء کر لی گئیں ۔ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا
کچھ سال امن رہنے کے بعد بھارت کا جبر و استبداد پھر شروع ہوا جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر کے مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا اور آزادی کے نعرے لگانے شروع کئے ۔ بھارتی ریاستی ظُلم بڑھتا گیا اور مسلمانوں کا احتجاج بھی زور پکڑتا گیا ۔ 1987ء میں نیشل کانفرنس (آل انڈیا کانگرس کی شاخ) کے قومی اسمبلی میں مُنتخب نمائندے آزادی کیلئے لڑنے والے مجاہدین کے ساتھ مل گئے ۔ اس کے بعد بھارتی سکیورٹی فورسز نے جموں کشمیر کے مسلمانوں کا کھُلم کھُلا قتلِ عام شروع کر دیا ۔ اُنہیں دفن کر دیا جاتا اور کسی کسی کی قبر بنائی جاتی اور اُس پر فرضی نام کی تختی لگا کر نیچے پاکستانی دہشتگرد لکھ دیا جاتا ۔ ایسی قبر جب بھی عدالتی حُکم پر کھولی گئی تو میت لاپتہ کشمیری جوان کی نکلی
امسال 8 جولائی کو بُرہان وانی کے بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں قتل کے بعد پورے جموں کشمیر میں پُر زور احتجاج شروع ہو چکا ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز بھی ظُلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔ اس کی تفصیل سب قارئین روزانہ سُنتے ہیں ۔ متعدد وِڈیوز بھی اُپ لَوڈ ہو چکی ہیں جنہیں دیکھ کر رَونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
انسانی حقوق کے دعویدار امریکہ اور یورپ والوں کی آنکھوں پر بھارتی چشمے چڑھے ہوئے ہیں ۔ اسلئے وہ اس ظُلم و استبداد کے خلاف آواز اُٹھانا تو کیا اس کا ذکر کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے اور نہ اُن کا میڈیا ان حقائق کو دِکھاتا ہے
کچھ سُنا آپ نے ؟
کہا جاتا ہے کہ مہنگے علاقہ کے گھروں میں رہنے والوں کو سب کچھ اُن کی دہلیز پر ملتا ہے
اسلام آباد میں سیکٹر ایف 8 اسی درجے میں آتا ہے اور سیکٹر ای 7 بننے سے قبل اسلام آباد کا سب سے بہتر معیار کا سیکٹر صرف یہی تھا
ایف 8 میں اکثر پلاٹ 2000 مربع گز کے ہیں ۔ کچھ 1000 سے 1500 مربع گز کے ہیں اور جغرافیائی وجہ سے بن جانے والے تھوڑے سے 500 مربع گز کے ہیں
اسلام آباد ہر سیکٹر کے 4 حصے ہوتے ہیں ۔ 1 ۔ 2 ۔ 3 اور 4
ہم سیکٹر ایف 8 کے حصہ 1 میں رہتے ہیں یعنی F–8/1 میں ۔ ہم پانی کی سپلائی کیلئے ہر 3 ماہ بعد 2300 روپے دیتے جو کہ باقاعدگی سے وصول کئے جا رہے ہیں لیکن ہمارے علاقے میں پچھلے 3 ماہ سے پانی نہیں آ رہا
جون 2016ء تک پانی کی سپلائی کیپِٹل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی کی ذمہ داری تھی ۔ جون 2016ء سے قبل کبھی سالوں بعد چند دِنوں کیلئے پانی کی سپلائی بند ہوتی تھی وہ بھی صرف دو تین گلیوں کی تو سی ڈی اے میں بھاگ دوڑ اُس وقت تک لگی رہتی تھی جب تک پانی کی سپلائی بحال نہ ہو جائے
سیاستدانوں کا شور تھا کہ اسلام آباد میں بھی مُنتخب لوکل گورنمنٹ ہونا چاہیئے ۔ چنانچہ 10 ماہ قبل انتخابات ہوئے اور اسلام آباد میونسپل کارپوریشن اور مضافاتی علاقوں کی یونین کونسلز بن گئیں ۔ اسلام آباد کے مکینوں کو پانی کی سپلائی یکم جولائی 2016ء سے نو مُنتخب میونسپل کارپوریشن نے اپنی عملداری میں لے لی ۔ اب ایف 8/1 میں پانی کی سپلائی پچھلے 3 ماہ سے بند ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کو پانی مہیاء کرنے والے تینوں ٹیوب ویل بند پڑے ہیں
سیاستدان 20 فٹ اُونچی سٹیج پر کھڑے ہو کر دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ عوام کے خادم ہیں اور عوام کیلئے آسمان سے چاند ستارے بھی توڑکر لے آئیں گے ۔ جب کرُسی مل جاتی ہے تو شکائت کے آٹھ دس دن بعد پیش رفت معلوم کرنے جائیں تو جواب ملتا ہے ”میں پتہ کر رہا ہوں“۔
ہمارے علاقے کا ممبر میونسِپل کارپوریشن اور ایم این اے اتفاق سے دونوں تحریکِ انصاف کے ہیں ۔ ایم این اے اسد عمر کا نام تو سُنا ہی ہو گا
شاید اسی قسم کا نیا پاکستان بنانے کا بار بار وعدہ کیا جا رہا ہے
عوام کے دوست یا دُشمن ؟
یہ جو 3 نومبر 2016ء کو اسلام آباد بند کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ کیا یہ عوام کے دوست ہیں یا دُشمن ؟
2014ء میں جب عمران خان ۔ طاہر القادری ۔ شیخ رشید اور اُن کے پیروکار اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر دھرنا دیئے ہوئے تھے ۔ میرے کئی کام اُن دفاتر میں نہ جا سکنے کی وجہ سے رُکے رہے جن کے راستے پر وہ بیٹھے تھے
اُن علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے بچے تین چار ماہ سکول نہ جا سکے اور خواتین گھروں میں قید ہو کر رہ گئیں
اُن علاقوں کے دکانداروں کا کاروبار بند رہا ۔ کھوکھے ۔ ریڑھی اور خوانچے والوں کے بیوی بچے فاقوں تک پہنچ گئے تھے
عمران خان شام کو آ کر لڑکیوں کو نچا کر گھر چلا جاتا تھا
خیبر پختونخوا کے وزیر اور اراکین اسمبلی سرکاری گاڑیوں پر آتے سرکاری خرچ پر رہتے اور شام کو میلہ سجانے شاہراہِ دستور پر پہنچ جاتے
طاہر القادری کے پیروکار وہاں 24 گھنٹے موجود رہتے تھے ۔ عمران خان اور شییخ رشید کے مقامی پیروکار شام کو میلہ سجانے آتے تھے البتہ خیبر پختونخوا سے لائے گئے عوام وہاں موجود رہتے تھے
ایسے جلسوں میں آنے والے زیادہ تر 3 قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ سرکاری خرچ پر آئے ہوئے لوگ ۔ کرائے کے لوگ اور تماش بین جو ہر جلسے میں پہنچے ہوتے ہیں
شاہراہِ دستور کے طویل دھرنے پر کروڑوں روپیہ خرچ کیا گیا تھا ۔ ناجانے وہ پیسہ کہاں سے آیا تھا ۔ لوگوں کی شوکت خانم ہسپتال کیلئے دی ہوئی زکوٰۃ اور صدقات کا تھا یا کسی پاکستان دُشمن غیرمُلکی ایجنسی نے دیا تھا
اپنی حلال کی کمائی تو کوئی ایسے ضائع نہیں کرتا
اب عمران خان اور شیخ رشید اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں گویا اسلام آباد کے 6 لاکھ لوگ جن میں بوڑھے ۔ عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں کو قید کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہزاروں لوگ جو روزانہ روزگار کے سلسلہ میں اسلام آباد آتے ہیں اُن کا روزگار بند کرنا چاہتے ہیں
جس الزام کی بنیاد پر عمران خان اسلام آباد بند کرنا چاہتا ہے اُسی کا مقدمہ سپریم کورٹ اورالیکشن کمیشن میں کیا ہوا ہے جن پر کاروائی کیلئے یکم اور 2 نومبر کو حاضر ہونے کے نوٹس عمران خان اور نواز شریف کے ساتھ باقی متعلقہ لوگوں کو پہنچ چکے ہیں ۔ پھر سڑکوں پر احتجاج اور اسلام آباد بند کرنے کا کیا جواز ہے ؟
جو آدمی دفتر نہ جائے ۔ دفتر کا کام نہ کرے ۔ کیا اُسے تنخواہ ملتی ہے ؟ کیا وہ تنخواہ کا حقدار ہوتا ہے ؟
عمران خان کا انصاف اور دیانتداری یہ ہے کہ جس اسمبلی کو وہ نہیں مانتا اور جس میں وہ کبھی کبھار صرف رُونمائی کیلئے جاتا ہے ۔ اُس کی ہر ماہ پوری تنخواہ لیتا ہے اور اُس کی ساری مراعات بھی لیتا ہے
اپنے اس کردار کے ساتھ عمران خان دوسروں پر بد دیانتی کے الزامات لگاتا ہے
شاید اِسی لئے پرانے زمانے میں جو شخص بہت چالباز ہو اُسے ”سیاستدان“ کہتے تھے
احساسِ کمتری یا وطن دُشمنی ۔ بیکن ہاؤس سکول سِسٹم
میرے عِلم میں یہ بات آئی ہے کہ بیکن ہاؤس سکول سِسٹم نے طلباء کے والدین کو ایک خط بھیجا جس پر 22 اگست 2016ء کی تاریخ ہے
یہ خط طالب عِلموں کے نظم و نسق کے متعلق ہے
اس خط کا پانچواں نقطہ یہ ہے
Foul language is NOT ALLOWED within and outside the school premises, in the morning, during the school hours and after home time. Foul language includes taunts, abuses, Punjabi and the hate speech.
پنجابی زبان کو گندھی زبان کے تحت لکھا گیا ہے اور طنز ۔ گالی ۔ نفرت انگریز تقریر کے برابر کہا گیا ہے
اس طرح ایک طرف مُلک کی قومی زبان کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان کی توہین کی گئی ہے تو دوسری طرف دُنیا کے 9 کروڑ پنجابی بولنے والوں کی توہین کی گئی ہے
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سکول کے کرتا دھرتا شدید قسم کے احساسِ کمتری میں مُبتلاء ہیں ۔ جس زبان کو آجکل پنجابی کہا جاتا ہے یہ صرف صدیوں پرانی ہی نہیں بلکہ پنجابی ادب کا معیار بہت اُونچا ہے اور پرانے زمانہ میں اس زبان میں بہت سا صوفیانہ کلام بھی لکھا گیا ہے ۔ بابا فرید ۔ بابا بھُلہے شاہ اور اُستاد محمد بخش کے صوفیانہ کلام بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں
میں بہت پہلے لکھ چکا ہوں کہ جس زبان کا نام 200 سال قبل اُردو رکھا گیا اس نے اُسی لاہور میں جنم لیا جسے آج پنجابی کا گھر کہا جاتا ہے اور پنجابی کو اُردو کی ماں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ پنجابی دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں گیارہویں نمبر پر ہے
1 ۔ چینی ۔ ایک ارب 10 کروڑ
2 ۔ انگریزی ۔ 33 کروڑ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ۔ ہسپانوی ۔ 30 کروڑ
4 ۔ اُردو ۔ 25 کروڑ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 ۔ عربی ۔ 20 کروڑ
6 ۔ بنگالی ۔ 18 کروڑ 50 لاکھ ۔ ۔ ۔ ۔ 7 ۔ ولندیزی ۔ 16 کروڑ
8 ۔ روسی ۔ 16 کروڑ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 ۔ جاپانی ۔ 12 کروڑ 50 لاکھ
10 ۔ جرمن ۔ 10 کروڑ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 ۔ پنجابی ۔ 9 کروڑ
12 ۔ جاوانیز ۔ 8 کروڑ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13 ۔ فرانسیسی ۔ 7 کروڑ 50 لاکھ
۔
حیرت تو یہ ہے کہ پنجابی بیکن ہاؤس سکول سِسٹم کے مالکوں کے آباؤ اجداد کی زبان بھی ہے
بیکن ہاؤس سکول سِسٹم نے اپنی آفِیشِیئل ویب سائٹ پر وضاحت اِن الفاظ میں کی ہے
We are NOT going to disown the circular that has been shared on social media, but we need to STRONGLY clarify (which anyone who reads English can easily understand from context) that our School Head in Sahiwal was referring to a ban on profanity and cursing in Punjabi,
گویا پڑھنے والوں کو انگریزی کی سمجھ نہیں آئی ۔ بیکن ہاؤس سکول سِسٹم کے کارپرادزوں کی آنکھ سے دیکھتے تو اُنہیں Punjabi کی بجائے Punjabi cursesلکھا ہوا نظر آتا جبکہ curses کا لفظ وہاں موجود ہی نہ تھا ۔
اس وضاحت سے ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ ”کیا گالی صرف پنجابی میں ہی گندی ہوتی ہے کسی اور زبان میں نہیں ؟“
اس پاکستانیوں سے اربوں روپے کمانے والے سکول سِسٹم کی فاؤنڈر اور ڈائریکٹر ہیں بیگم نسرین محمود قصوری جو قوم کی سب سے زیادہ ہمدرد ہونے کی دعویدار سیاسی جماعت تحریکِ انصاف کے ایک اہم راہنما خورشید محمود قصوری کی بیوی ہیں
کہاں ہیں این جی اوز ؟
کشمیر میں بھارتی مظالم نے واضح کر دیا ہے کہ حقوق انسانی اور حقوق نسواں کے نام پر لاکھوں ڈالر جیبوں میں ڈالنے والی این جی اوز صرف ایک ڈھکوسلا ہیں
تنازعہ جموں کشمیر کی بنیاد ؟ ؟ ؟
جب برطانوی حکمرانوں نے مسلمانانِ ہِند کا مطالبہ مان لیا اور ہندوؤں کی نمائندہ سیاسی جماعت آل انڈیا کانگریس بھی راضی ہو گئی تو فیصلہ ہوا کہ ہندوستان کی تقسیم صوبوں کی بنیاد پر ہو گی جس کے مطابق 5 صوبے جہاں مسلمان اکثریت میں تھے (پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد ۔ بلوچستان اور بنگال) پاکستان میں شامل ہوں گے اور ریاستیں اپنی اپنی آبادی کی بنیاد پر فیصلہ کریں گی ۔ بعد میں برطانوی حکومت نے ہندوؤں کا مطالبہ مانتے ہوئے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا اعلان کر دیا
کافی بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ ہوا کہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کیلئے کم از کم اکائی ضلع ہو گی
انگریز حکمرانوں نے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان (ریڈ کلِف ایوارڈ) عیّاری کرتے ہوئے 14 اگست 1947ء کو نہ کیا بلکہ 3 دن بعد 17 اگست 1947ء کو کیا جس میں طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقہ جس میں ضلع گورداسپور کا بڑا علاقہ مع تحصیل پٹھانکوٹ شامل تھا بھارت کا حصہ بنا دیا ۔ اس طرح جواہر لال نہرو کی خواہش پوری ہو گئی اور بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے زمینی راستہ مہیا ہو گیا ۔ اس کا دوسرا بُرا نتیجہ یہ ہوا کہ متعلقہ مُسلم اکثریتی علاقوں میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا
پٹھان کوٹ کٹھوعہ کے راستے بھارتی فوج کی سرپرستی میں راشٹریہ سیوک سَنگ ۔ ہِندُو مہاسِبھا اور اکالی دَل کے تربیت یافتہ مسلّح دستے بھاری تعداد میں جموں میں داخل ہونا شروع ہو گئے
سُنا گیا تھا کہ متفقہ اصول کے خلاف اس غلط فیصلہ کا سبب ہندوستان میں آخری وائسرائے لارڈ مؤنٹ بیٹن کی بیوی اور جواہر لال نہرو کی گہری دوستی تھی جس کی جھلکیاں یہاں کلِک کر کے دیکھی جا سکتی ہیں
کچھ تاریخی حقائق ۔
1947ء سے قبل ہونے والی مردم شماری کے مطابق صوبہ پنجاب کے 7 ایسے شہر تھے جن کی آبادی 100000 سے زیادہ تھی ۔ لاہور 630000 ۔ امرتسر 390000 ۔ راولپنڈی ۔ ملتان ۔ سیالکوٹ ۔ لُدھیانہ اور جالندھر کی آبادی 100000 اور 200000 کے درمیان تھی ۔ ان سب میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔ صرف راولپنڈی شہر اور جالندھر شہر میں سارے غیر مُسلموں کو جمع کیا جائے تو اُن کی اکثریت بن جاتی تھی ۔ یہ شہروں کے اعداد و شمار ہیں ضلعوں کے نہیں ۔ ان سب ضلعوں میں مسلمان بھاری اکثریت میں تھے
پورے صوبہ پنجاب میں مسلمان 53 فیصد ۔ ہندو 30 فیصد ۔ سکھ 6ء14 فیصد ۔ عیسائی 4ء1 فیصد اور باقی 1 فیصد تھے
صوبہ پنجاب کو 5 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا تھا ۔ (1) مغربی حصہ (سبز اور گہرا سبز) 80 سے 90 فیصد مسلمان ۔ (2) وسط مغربی حصہ (سیاہی مائل سبز) 60 فیصد کے قریب مسلمان اور سکھ بڑی اقلیت تھے ۔ (3) وسطی مشرقی حصہ (نیلا اور گہرا نسواری) مسلمان اکثریت میں تھے لیکن تمام غیر مُسلموں کو جمع کیا جائے تو 50 فیصد سے کچھ زیادہ ہو جاتے تھے ۔ (4) جنوب مشرقی حصہ ( براؤن اور سرخی مائل براؤن) ۔ اب ہریانہ کہلاتا ہے ۔ اس میں ہندو معمولی اکثریت میں تھے اور سکھ بہت کم تھے ۔ دہلی بھی اس میں شامل ہے ۔ (5) شمال مشرقی حصہ (سُرخ اور گہرا سُرخ) ۔ اب ہماچل پردیش کہلاتا ہے ہندو اکثریتی علاقہ تھا ۔
ریڈ کلِف ایوارڈ جس کا اعلان 14 اگست کے چند دن بعد (17 اگست ) ہوا کے ذریعہ تمام متفقہ اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل تقسیم کی گئی
(1) مغربی پنجاب جو پاکستان کو دیا گیا (سبز)
(2) مشرقی پنجاب جو بھارت کو دیا گیا (سبز چھوڑ کر باقی سارا)
مصنّف لکھتا ہے
“To my eyes, this looks like an extremely favorable result for India. No Hindu/Sikh majority district went to Pakistan, while several swaths of Muslim majority territory ended up in Indian hands.”
تفصیل یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے