Category Archives: منافقت

کیسے کیسے لوگ

بھیک مانگنے والوں میں کچھ واقعی مستحق ہوتے ہیں اور کچھ ظاہری طور پر مستحق لگتے ہیں ۔ ان کی امداد کرنا چاہئیے ۔ میں تیسری قسم کی بات کروں گا ۔ نیز بچوں کی بات نہیں کرنا کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں ۔ اُن کا کوئی قصور نہیں ۔

سڑک پر نکل جائیں ۔ اگر کار میں ہیں تو کسی چوراہے پر کار کھڑی ہوتے ہی عام طور پر کوئی لڑکی یا عورت [زیادہ تر جوان] اور کبھی کبھی آدمی آ کر ہاتھ پھیلا دیتے ہیں ۔ اگر کسی مارکیٹ میں ہوں تو کسی جگہ کھڑے ہوتے ہی وہی منظر نظر آتا ہے لیکن اس صورت میں اگر کھڑا اکیلا جوان مرد ہے تو مانگنے والی ہاتھ پھیلائے آہستہ آہستہ اس کے قریب ہوتی جاتی ہے ۔ ایسی صورتِ حال میں میں نے شریف جوانوں کو گھبراہٹ میں اُچھل کر پیچھے ہٹتے دیکھا ہے ۔ ان مانگنے والوں کی بھاری اکثریت اچھی خاصی صحتمند ہوتی ہے ۔

گھر پر گھنٹی بجی باہر نکلے تو ۔ ۔ ۔

ایک تھیلا اُٹھایا ہوا ہے ایک صاحب گویا ہوئے “میں مزدوری کیلئے آیا تھا ۔ مزدوری نہیں ملی ۔ واپس جانے کا کرایہ نہیں ہے گھر پر بچے بھی بھوکے ہوں گے ۔

ایک آدمی ہاتھ میں میلا کچیلا ڈاکٹر کا نسخہ ۔ کچھ لیبارٹری رپورٹیں اور ایکسرے ۔ رونی صورت بنا کر بولا “جی ۔ میں بہت بیمار ہوں ۔ ڈاکٹر نے یہ دوائیاں لکھ کر دی ہیں ۔ میں غیریب آدمی ہوں “۔ وہ ہر ماہ آتا اور میں نے جتنا ہو سکا اُس کی مدد کی ۔ دو سال ہونے کو آئے تو مجھے خیال آیا اس غریب کا میں صحیح طرح خود کیوں نہ کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کراؤں ۔ میں نے اُس کے ہاتھ سے نسخہ اور باقی کاغذات پکڑتے ہوئے اُس کا نام پوچھا ۔ اچانک میری نظر نسخہ پر لکھے ہوئے مریض کے نام پر میری نظر پڑی ۔ وہ کچھ اور تھا ۔ میں اُس سے پوچھا “یہ نسخہاور باقی سب کاغذ آپ کے ہی ہیں نا ؟” جواب ہاں میں ملا ۔ میں نے ایکسرے دیکھا تو وہ کسی عورت کا تھا پھر لیبارٹری رپوٹیں دیکھیں تو اُن پر کوئی اور مگر مختلف نام تھے ۔ میں نے کاغذات واپس کرتے ہوئے اُسے کہا “بابا جاؤ اور اب میرے دروازے پر نہ آنا کیونکہ آپ جھوٹے ہو”

چھوٹی چھوٹی داڑھیوں والے مرد جن میں سے ایک بولے “جناب ساتھ والی مسجد میں نمازی زیادہ آ گئے ہیں زیادہ صفوں کی ضرورت پر گئی ہے یا ساتھ والی مسجد میں بچے تعلیم پاتے ہیں ان کے اخراجات میں حصہ ڈالئے ۔ کارِ ثواب ہے” ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے سیکٹر میں 6 مساجد ہیں اور ان کیلئے کوئی کبھی چندہ لینے نہیں آیا کیونکہ اللہ کے فضل سے ان میں نماز پڑھنے والے تمام اخراجات پورے کرتے ہیں ۔

چھوٹی چھوٹی داڑھیوں والے آدمی یوں گویا ہوئے “اعلٰی حضرت خود آپ سے ملنے تشریف لائے ہیں “۔ پوچھا “جناب ۔ فرمائیے کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟” جواب ملا “جناب اعلٰی حضرت مدرسہ کے سربراہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ بھی اس کارِ خیر کے حصہ دار بن جائیں” ۔

اگر کوئی صحتمند عورت بھیک مانگنے آئے تو میری بیگم اُسے کہتی ہیں ” تم محنت مزدوری کیوں نہیں کرتیں ؟” ایک دن ایک بڑی عمر کی مگر صحتمند عورت بھیک مانگتے ہوئے کہنے لگی “میرا آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ جو مل جائے کھا لیتی ہوں ۔ سڑکوں کے کنارے زمین پر پڑ جاتی ہوں”۔ میری بیگم نے اُسے بھی کہہ دیا ” تم محنت مزدوری کیوں نہیں کرتیں ؟” کہنے لگی ” آپ دلا دیں مجھے کام”۔ میری بیگم نے کہا “میں رہنے کو کمرہ ۔ کھانا ۔ کپڑے اور جیب خرچ بھی دوں گی ۔ تم صرف میرے گھر کے اندر کی صفائی کر دیا کرنا”۔ وہ مان گئی ۔ رات ہوئی تو آ کر کہنے لگی ” میرے پاس تو بستر نہیں ہے”۔ جو بسترے ہم استعمال کرتے تھے ان میں سے ایک دری ۔ ایک گدیلا ۔ ایک رضائی ۔ ایک تکیہ ۔ دو چادریں اور دو تکیئے کے غلاف میری بیگم نے اُسے دے دیئے ۔ اگلی صبح وہ میری بیوی کے پاس آ کر اپنے رونے روتی رہی اور کوئی کام نہ کیا ۔ اس سے اگلے دن وہ نہ آئی ۔ میری بیوی نے اس کے کمرے میں جا کر دیکھا تو نہ وہ تھی نہ بستر ۔

پچھلے دو سال سے ایک جوان ہمارے دروازے پر بھیک مانگنے آتا رہا ہے اور میں نے اُسے کبھی خالی نہیں لوٹایا ۔ کمبلی سی لپیٹی ہوئی اور سر پر بھی لی ہوئی ۔ صورت مسکین ۔ کمزور اتنا کہ بات بہت مشکل سے کرتا ۔ گھنٹی بجا کر زمین پر بیٹھ جاتا اور مجھ سے پیسے لینے کے بعد بھی زمین پر بیٹھا رہتا ۔ مجھے اُس کی حالت پر ترس آتا ۔ ہمارے گھر کے سامنے چوڑی سڑک ہے اور بازو میں تنگ سڑک ۔ تین چار دن قبل میں نے اُسی جوان کو تنگ سڑک پر دیکھا ۔ اپنی کمبلی کندھے پر ڈالی ہوئی ۔ اچھے صحتمند جوانوں کی طرح چلتا جا رہا تھا ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا “کیسے کیسے لوگ پائے جاتے ہیں ہمارے معاشرہ میں”

دوست نما دشمن

ميں نے يکم مئی 1963 کوپاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں ملازمت شروع کی ۔ ہم اس عہدہ پر 9 لوگ بھرتی ہوئے تھے ۔ کام سے شناسائی کيلئے ہميں مختلف فيکٹريوں ميں بھيج ديا گيا ۔ تين ہفتے بعد ايک ساتھی کا ٹيليفون آيا کہ جلدی سے ميرے پاس آؤ ضروری کام ہے ميں خود آ جاتا مگر اس وقت ميرے علاوہ کوئی ميرا کام ديکھنے والا نہيں ۔ ميرے باس اُس وقت موجود نہ تھے سو میں نے دوسرے آفسر کو بتايا اور چلا گيا ۔ جونہی ميں وہاں پہنچا وہ شخص يہ کہہ کر اپنے دفتر سے تيزی سے نکل گيا کہ آپ بيٹھ کر چائے پئيں ميں دو منٹ ميں آيا۔ پانچ منٹ بعد ميں نے گھنٹی بجا کر چپڑاسی کو بلايا اور کہا جاؤ ديکھ کر آؤ [نام] صاحب کہاں ہيں ۔ اُس نے واپس آ کر بتايا ساتھ والے دفتر ميں ٹيليفون پر بات کر رہے ہيں ۔ تھوڑی دير بعد وہ صاحب آئے اور ميں ناراضگی کا اظہار کر کے بغير چائے پئے واپس آ گيا ۔

واپس پہنچنے پر پتہ چلا کہ ميرے باس آ گئے ہيں اور ياد فرمايا ہے ۔ ميں گيا تو اُنہوں نے پوچھا کہ کہاں تھے ؟ ميں نے بتايا کہ بيس منٹ پہلے ايک ساتھی [نام] نے بلايا تھا اُس کے پاس گيا تھا ۔ باس نے کہا کہ ديکھو اجمل اس کو دوست نہ سمجھنا ۔ دس منٹ بارہ پہلے مجھے تمہارے اسی دوست کا ٹیلیفون آيا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ميں ايک گھنٹے سے اجمل کو ڈھونڈ رہا ہوں مگر وہ مجھے نہيں ملا ۔ ميں نے اسے بہت ضروری پيغام دينا ہے ” ۔

امریکہ کی آرزو ۔ مُطیع پاکستان

پاکستان میں پرویز مشرف کی حکومت نے امریکہ کو نہ صرف پاکستان میں اڈے دیئے بلکہ مکمل لاجسٹک سپورٹ [logistic support] دینے کے علاوہ خفیہ معلومات کا بھی تبادلہ کیا مگر عرابی کے اُونٹ کی طرح امریکی حکومت چوڑی ہی ہوئی چلی جا رہی ہے ۔ اور اب تو نئے 11 مطالبات نے پاکستان کی وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ کے اہل کار وں جو آج تک امریکہ کے گُن گاتے تھے کو بھی پریشان کر دیا ہے ۔ جاپان ایک مفتوح مُلک تھا ۔ اس میں امریکی چھانی کے لئے امریکہ نے ان 11 میں سے 5 مطالبات منظور کرائے تھے جن کی وجہ سے جاپانی آج تک سخت پریشان ہیں ۔ امریکی جاپانی عورتوں کے ساتھ زبردستی بدکاری کر لیتے ہیں اور جاپانی حکومت صرف کفِ افسوس ملتی رہتی اور کچھ کر نہیں سکتی ۔ امریکہ نے 2001ء کے بعد پاکستان میں قائم کی گئی چھاؤنیوں ہی میں نہیں پورے پاکستان میں جو حقوق مانگے ہیں [5 نہیں 11] اُن کا نتجہ کیا ہو گا ؟

ڈاکٹر شیریں مزاری کا آنکھیں کھولنے والا مضمون یہاں کلک کر کے پڑھیئے ۔

امریکہ کی نفسیاتی دہشت گردی

ایک طرف تو امریکہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی تیار کردہ نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑیں اور دوسری طرف خود امریکہ کے اندر ایک بلوچ دہشتگرد گروہ کو سہارا دے کر ایران میں سیستان اور پاکستان میں بلوچستان کا توازن خراب کرنے میں مصروف ہے ۔ اس کے علاوہ افغانستان میں کرزئی حکومت کے کھولے ہوئے بدنامِ زمانہ بی ایل اے جس کا اب نام بلوچستان ریپبلیکن آرمی رکھ دیا گیا ہے کے دفاتر کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں باوجودیکہ برطانیہ انہیں دہشتگرد قرار دے چکا ہے ۔

پرویز مشرف کی سربراہی میں ہماری حکومت کا یہ حال ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کے بعد سے امریکہ کے سامنے اتنا جھُک چکی ہے کہ بلوچستان جیسے حساس صوبے اور صوبہ سندھ میں امریکہ کو اڈے دے رکھے ہیں ۔ اب تو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ امریکہ تربیلہ کے قریب بھی ایک ہوائی اڈا استعمال کر رہا ہے جہاں سے بغیر پائیلٹ کے جہاز [Predator] کی پروازیں بھیجی جاتی ہیں ۔

یہ سب کچھ نچھاور کر دینے کے بعد کہاں ہے امریکہ کی طرف سے پاکستان کی کوئی حمائت ؟ اگر ہم پاکستانیوں میں زرا سی بھی غیرت ہے تو امریکہ کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ سے ہمیں فوراً دستبردار ہو جانا چاہیئے ۔

یہ چھوٹا سا اقتباس ہے ڈاکٹر شیریں مزاری کی تحریر سے جو یہاں کلک کر کے مکمل پڑھی جا سکتی ہے ۔