Category Archives: منافقت

غزہ میں بہتا خون کیا کہتا ہے

اتنا تو ارزاں نہ تھا مسلماں کا لہو
آج جو ہر طرف وحشیانہ طریقہ سے مسلمانوں کے لہو سے خوفناک ہولی کھیلی جا رہی ہے اور بلاتمیز مرد یا عورت ۔ جوان یا بوڑھے یا بچے مسلمانوں کے جسموں کے چیتھڑے اُڑائے جا رہے ہیں اس کا بنیادی سبب تو ازل سے طاغوتی طاقتوں کا اللہ کے نام لیواؤں سے عناد ہے لیکن ان اللہ کے دشمنوں کے حوصلے بلند ہونے کی وجہ آج کے دور کے مسلمانوں کی اپنے دین سے دُوری ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے اللہ سے ڈرنے اور اللہ ہی سے مدد مانگنے کی بجائے طاغوتی طاقتوں سے ڈرنا اور مدد مانگنا شروع کر دیا ہے [نیچے غزہ میں اسرائیلی دہشتگری کی جھلکیاں]

خود کو انسانیت پرستار اور مسلمانوں کو دہشتگرد کہنے والا امریکہ فلسطین میں اسرائیل کے روا رکھے ہوئے قتلِ عام کے متعلق کیا کہتا ہے ۔ نیچے پڑھیئے ۔ اگر اب بھی مسلمانوں خصوصاً حکمرانوں کو ہوش نہ آیا تو پھر مسلمانوں کو اپنی تباہی کیلئے تیار ہو جانا چاہیئے

امریکی صدر جارج بش نے کہا ہے کہ تمام فریقین حماس پر زور دیں کہ وہ اسرائیل پر حملے روک دے۔ غزہ کی صورتحال پر پہلے بیان میں صدر بش کا کہنا تھا کہ غزہ میں اسمگل کئے گئے ہتھیاروں کی مانیٹر نگ تک جنگ بندی کا معاہدہ قبول نہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسی جنگ بندی قبول نہیں جس میں اسرائیل پر راکٹ حملے جاری رہیں۔صدر بش کا کہنا تھا کہ حماس کے حملے دہشتگردی ہیں۔صدر بش نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر حملے روکنے کیلئے دباؤ ڈالیں

وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی پریس سیکرٹری گورڈن جونڈرو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکا نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ چاہے فضائی حملہ کرے یا زمینی لیکن اس دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں فوجی جمع کرلیے ہیں۔ ادھر امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے کہا ہے کہ امریکا غزہ میں ایک ایسے سیزفائر کی کوشش کر رہا ہے جس کے بعد حماس غزہ سے باہر راکٹ حملے کرنے کے قابل نہ رہے۔

اگر پاکستانی مسلمانوں کا بھی حال ایسا ہی رہا جیسا ہے تو جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہی یا اُس سے بھی بھیانک حال پاکستان کا ہو سکتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ اس کی منصوبہ بندی کے بعد اس پر عمل شروع ہو چکا ہے ۔ اِبتداء امریکہ کے حُکم پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوجی کاروائی کر کے 1000 کے قریب بیگناہ انسانوں جن میں 600 سے زائد کم سٍن یتیم اور لاوارث بچیاں شامل تھیں کی ہلاکت سے ہوئی ۔ اسکے بعد امریکہ کے پاکستان کو کمزور کرنے کے منصوبہ کے تحت پاکستانی حکومت نے قبائلی علاقہ میں اپنی فوج کو اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرنے پر لگا رکھا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کی معیشت انتہائی کمزور ہو چکی ہے ۔ پھر بھی امریکہ کی طرف سے “ڈُو مَور” ہو رہا ہے ۔ اور اب امریکہ کی شہہ پر بھارت بھی اس راگ میں شامل ہو گیا ہے

مکمل تباہی سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ خودغرضیوں کو چھوڑ کر قومی بہتری کیلئے جد و جہد کی جائے ۔پاکستانی مسلمان اپنی بقاء اور اپنے اور اپنی آنے والی نسل کیلئے باعزت زندگی کی خواہش رکھتے ہیں تو ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی غلطیوں پر پشیمان ہو کر اپنے پیدا کرنے والے جو اس کائنات کا خالق و مالک ہے اور اس کے نظام کو چلا رہا ہے سے اپنی ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگیں اور آئیندہ اللہ کی ہدائت کے مطابق چلنے کی سچے دل سے بھرپور کوشش کریں ۔ انسانوں سے جو کہ ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں ڈرنے کی بجائے اللہ سے ڈریں

مت بھولیں کہ اللہ نے ہمیں بھیجی گئی کتاب میں ہر چیز واضح طور پر بیان کر دی ہوئی ہے اور ہم اس سے استفادہ نہیں کرتے ۔ خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔ نہ ہو جس کو خیال خُود اپنی حالت بدلنے کا ۔ علامہ اقبال نے اس شعر میں اس آیت کا مدعا پیش کیا ہے ۔
سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

اللہ ہمیں اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنے اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

بھارت اور بھارتی ۔ ایک واقعہ جس کا میں شاہد ہوں

اُن دنوں [1976ء سے 1983ء تک] میں حکومت پاکستان کی طرف سے لِبیا کا الخبِیر لِلمنشآت صناعیہ تعینات تھا انگریزی میں Advisor, Industrial Planning and Development ۔ اس دور میں مجھے اپنی حکومت کی طرف سے دو بلامعاوضہ ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں ۔
ایک ۔ لبیا میں موجود پاکستان کی تربیّتی ٹیموں اور لِبیا کے متعلقہ عہدیداران کے درمیان رابطہ افسر
دوسری ۔ لِبیا میں ذاتی طور پر آئے ہوئے پاکستانیوں کے مسائل اور کردار پر نظر رکھنا ۔ اُن کا تدارک کرنا اور سفیر صاحب کو باخبر رکھنا

جس لِیبی ادارے کے ساتھ میں کام کرتا تھا اُس میں بہت سے اہلکار مخابرات [Military Intelligence] سے تعلق رکھتے تھے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی خاص مہربانی ہوئی کہ اس ادارے میں مجھے ایک سال کے اندر ہی بہت عزت مل گئی باوجویکہ میں نے وہاں کے افسروں کے ساتھ کئی بار تکرار کر کے پاکستانی بھائیوں کے سرکاری اور ذاتی کام کروائے ۔ ایک لِیبی افسر جس کا تعلق مخابرات سے تھا سمجھدار ۔ ہوشیار اور باخبر تھا میرا دوست بن گیا

شائد 1978ء کا واقعہ ہے کہ اُس لِیبی افسر نے آ کر مجھے بتایا “میں نے سُنا ہے کہ ایک پاکستانی نرس ایک لِیبی جوان کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں پکڑی گئی ہے ۔ آپ سفارتخانہ کے ذریعہ کچھ کر لیں تاکہ معاملہ رفع دفع ہو جائے”۔
میں نے کہا “میں اس طرح منہ اُٹھائے تو سفیر کے پاس نہیں جاؤں گا ۔ مجھے کچھ تفصیلات لا کر دیں”۔
وہ افسر بولا “میں تو کسی ضروری کام سے شہر سے باہر جا رہا ہوں ۔ جس نے مجھے بتایا ہے اُسے آپ کے پاس بھیجتا ہوں”۔

کچھ دیر بعد ایک رئیس العُرفا جسے ہمارے ہاں صوبیدار میجر کہتے ہیں میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا کام ہے ۔ میں اُسے بھی جانتا تھا ۔ اُس کا بھی مخابرات سے تعلق تھا ۔ اُسے میں نے کہا کہ مجھے فوری طور پر اس نرس کا نام ۔ لبیا اور پاکستان میں اُس کا پتہ اور پاسپورٹ نمبر وغیرہ چاہئیں ۔ دوسرے دن وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا “میں کل اُسی وقت اُس پولیس افسر کے پاس گیا اور تمام تفصیل پوچھیں ۔ اُس نے بتایا کہ نرس اُن کی کسی بات کا جواب نہیں دیتی تھی پھر اُنہوں نے بھارت کے سفارتخانہ سے رابطہ کیا تو سفارتخانہ کے اہلکار نے کہا کہ نرس پاکستانی ہے ۔ اس کے بعد نرس بھی کہنے لگ گئی کہ وہ پاکستانی ہے اور لاہور کی رہنے والی ہے ۔ کل بعد دوپہر بڑی مشکل سے نرس نے طرابلس میں اپنی رہائش کا پتہ بتایا جس پر پولیس نے نرس کی رہائش گاہ کی تلاشی لی اور وہاں سے نرس کا پاسپورٹ مل گیا جس کے مطابق وہ جنوبی بھارت کی رہنے والی ہندو ہے”۔

میں ایک دن قبل سفیر صاحب کو اس افواہ کی خبر دے چکا تھا اسلئے اُسی وقت دفتر کی کار لے کر سفارتخانہ پہنچا جہاں سفیر صاحب کو اپنا مُنتظر پایا ۔ اُنہیں صورتِ حال بتا کر درخواست کی پاکستانی کرتا دھرتا لوگوں کو بُلا کر اس معاندانہ پروپیگنڈہ کا توڑ کیا جائے ۔ اگلے دن وہ لوگ سفارتخانہ آ گئے اور سفیر صاحب نے اُنہیں ہدایات دے دیں ۔ مگر ان تین دنوں میں پورے طرابلس میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ پاکستانی نرس ایک لِیبی کے ساتھ پکڑی گئی ۔ میرے علاوہ دوسرے کئی محبِ وطن پاکستانیوں نے اس کا شدت سے توڑ کیا اور ساتھ ہی افواہ کا منبع تلاش کرتے رہے ۔ جہاں جہاں سے بھی یہ غلط خبر ملی تھی اُس کی جڑ بھارتی سفارتخانہ ہی میں نکلی ۔

لِیبی مخابرات کے افسر کی بروقت اطلاع ۔ پاکستانی سفیر امیر علی شاہ صاحب کی ذاتی دلچسپی اور پاکستانیوں کی کوشش اور اللہ کے فضل و کرم سے لِبیوں کی نظر میں پاکستانی سُرخرُو ہوئے اور بھارتی نرسوں کی نگہداشت کی جانے لگی ۔

ممبئی دھماکے ۔ وہ ہمارا آدمی ہے

گذشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو بھارت کے تجارتی شہر ممبئی میں شاید 1947ء کے مسلمانوں کے قتلِ عام جس میں لاکھوں مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا کے بعد سب سے بڑاہلاکت خیز واقعہ ہوا ۔ اس میں 195 لوگ مارے گئے جن میں سے 80 مسلمان تھے ۔ بھارتی حکومت نے ہمیشہ کی طرح بغیر کسی تحقیق یا تفتیش کے پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ۔ لیکن انسان چاہے کتنا ہی شاطر ہو سچائی چھپانا ممکن نہیں ۔ زود یا بدیر سچ سامنے آ ہی جاتا ہے اور اس سلسلہ میں دس دن کے اندر ہی سچ کا تمانچہ بھارت کے منہ پر آ پڑا جو 6 اور 7 دسمبر کے اخبارات کی زینت بنا ۔ حاصل ہونے والے شواہد نے ثابت کر دیا کہ یہ ڈرامہ بھارت کا اندرونی ہے ۔ اور ہو سکتا ہے کہ خفیہ والوں نے کسی خاص بڑے مقصد کیلئے کھیلا ہو ۔ اس کے ساتھ ساتھ دھیان اس طرف بھی جاتا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں کشمیر میں کتنا بھیانک کھیل کھیلا جا رہا ہے

خبر یہ ہے کہ جو موبائل فون ممبئی میں دہشتگردوں نے استعمال کئے ان کی تشخیص کی مدد سے بھارتی پولیس متعلقہ موبائل فون کارڈ [Subscriber Identity Module – SIM] خریدنے والوں تک پہنچی اور انہوں نے کولکتہ میں دو آدمیوں کو گرفتار کیا جن کے نام توصیف رحمان اور مختار احمد ہیں ۔

مقبوضہ کشمیر کے ایک اعلٰی پولیس افسر نے کولکتہ کی پولیس سے کہا ہے کہ “مختار احمد ہمارا آدمی ہے ۔ وہ ایک نیم سرکاری دہشتگری مخالف تنظیم کا اہلکار ہے اس لئے اُسے رہا کر دیا جائے” ۔

دوسری طرف ہمارے حُکمرانوں کا حال یہ ہے امریکہ اور بھارت کی خواہش پوری کرنے کیلئے پہلے قبائلی علاقہ میں ہموطنوں کا خون کیا جا رہا تھا اب یہ سلسلہ آزاد جموں کشمیر تک بڑھا دیا گیا ہے اور شُنِید ہے کہ پورے پاکستان میں ان لوگوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی

کشمیراورپیپلزپارٹی

پچھلے ماہ صدرِ پاکستان اور معاون صدر پیپلز پارٹی آصف علی زرداری صاحب نے کہا کہ مسئلہ جموں کشمیر اُن کے لئے اول حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ مسئلہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اُجاگر کیا تھا ۔

ایک بات جو بہت سے ہموطن نہیں جانتے یا بھول چکے ہیں یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی عبدالرحیم تھے جنہوں نے اس کی صدارت کیلئے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا انتخاب کیا تھا اور بعد میں بھٹو صاحب نے عبدالرحیم صاحب کو بے عزت کر کے نکال باہر کیا ۔ خیر ۔ واپس آتے ہیں اصلی موضوع کی طرف کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے مسئلہ جموں کشمیر کو کتنا اُجاگر کیا ۔

آصف علی زرداری صاحب کیلئے مسئلہ جموں کشمیر کتنی حیثیت رکھتا ہے وہ تو اس سے ہی واضح ہو گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران صدر آصف علی زرداری نے جموں کشمیر کا نام تک نہ لیا ۔اور پھر کچھ دن بعد امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے  صدر آصف علی زرداری نے “ستم رسیدہ مقبوضہ جموں کشمیر کے باشندےجو اپنی آزادی کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں کو دہشتگرد قرار دے دیا”۔

جموں کشمیر میں ستمبر 1947ء میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد آزادی دسمبر 1947ء میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کو تھی ۔ آزادی کے متوالے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے جب کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے تو اُس وقت بھارت کے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو امریکہ دوڑے ۔ بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا جو ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو مہیا کیا تھا ۔ بھارت نے خطرے کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے اور خموں کشمیر کا قدرتی الحاق پاکستان سے ہو جائے گا چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی اور جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔ اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہ تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی ۔

آپریشن جبرالٹر جو اگست 1965ء میں کیا گیا یہ اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر اور جنرل ایوب خان کی ہدائت پر کشمیر سیل نے تیار کیا تھا ۔ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ پیسہ بٹور قسم کے چند لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے آفیسران کو دکھاتے اور بھاری رقوم وصول کرتے کہ وہ جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے کوشش کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔ اس کھیل کی وجہ سے مقبول بٹ پاکستان میں گرفتار ہوا لیکن بعد میں نمعلوم کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اسے رہا کروا لیا ۔

ذوالفقار علی بھٹو جب 1972ء میں پاکستان کا حکمران بنا تو شملہ معاہدہ کے تحت نہ صرف شمالی علاقہ جات کا کچھ حصہ بھارت کو دے دیا بلکہ جموں کشمیر کی جنگ بندی لائین کو لائین آف کنٹرول مان کر اسے ملکی سرحد کا درجہ دے دیا ۔

بےنظیر بھٹو نے 1988ء کے آخر میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر بھارت کے ظُلم و ستم کے باعث مقبوضہ جموں کشمیر سے سرحد پار کر کے آزاد جموں کشمیر آنے والے بے خانماں کشمیری مسلمانوں کی امداد بند کر دی ۔ اس کے علاوہ جن دُشوار گذار راستوں سے یہ لوگ مقبوضہ جموں کشمیر سے آزاد جموں کشمیر میں داخل ہوتے تھے اُن کی نشان دہی بھارت کو کر دی ۔ بھارتی فوج نے اُن راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی جس کے نتیجہ میں 500 سے زائد بے خانماں کشمیری شہید ہوئے اور اس کے بعد کشمیریوں کی اپنی جان بچا کر پاکستان آنے کی اُمید بھی ختم ہو گئی ۔

بینظیر بھٹو نے اپنے دونوں ادوارِ حکومت میں جموں کشمیر کے باشندوں سے اظہارِ یکجہتی تو کُجا اُلٹا بھارت سے محبت کی پینگیں بڑائیں اور موجودہ صدر آصف علی زرداری بھی بڑھ چڑھ کر بھارت سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں

یہ ہے وہ حمائت جو پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آج تک جموں کشمیر کے لوگوں کو تحفے میں دی ۔

خون کی ندیاں آج بھی بہتی ہیں

میرے وطن جموں کشمیر میں آج بھی آہنسا پرمودما کے پُجاری میرے مسلمان بھائوں کا خون بہا رہے ہے ۔ پچھلے دنوں ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کی سڑکوں اور گلیوں کو مسلمانوں کے خون سے رنگ دیا گیا

پیر اور منگل یعنی 11 اور 12 اگست 2008ء کے روز مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے “مظفر آباد چلو” مارچ میں حصّہ لیا ۔ بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں نے مظاہرین پر اشک آور گیس کے شیل پھنکے اور گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں مذاکرات کے ذریعہ معاملات کو حل کرنے کے حامی سرکردہ حریت رہنما شیخ عبدالعزیز اور ایک خاتون سمیت کم از کم 20 افراد شہید ہو گئے اور 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ۔ بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے طاقت کے استعمال اور مُظاہرین پر فائرنگ کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ حکومت کا یہ اقدام کسی منطق کا نہیں بلکہ سراسر بوکھلاہٹ نتیجہ ہے

تنازعہ کیسے شروع ہوا

ریاست جموّں و کشمیر کے مسلم اکثریتی صوبہ کشمیر میں ہندوٴوں کی ایک مقدس غار واقع ہے ۔ جسے “امرناتھ گھپا” کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ہر سال بھارت کی مختلف ریاستوں سے ہندو عقیدت مند امرناتھ غار کی یاترا کیلئے آتے ہیں مگر کبھی ان کی رہائش کلا مسئلہ پیدا نہیں ہوا ۔ حال ہی میں ایک ہندو نجی ادارہ تشکیل دیا گیا اور ریاست کی حکومت نے یاتریوں کی سہولت کے نام پر 800 کنال زمین اس نجی ادارے کے نام منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ زمین دراصل مسلمانوں کے مقدس مقامات کی ملکیت ہے ۔

حکومت میں شامل بھارت نواز پارٹی نے بھی اس فیصلہ سےمشتعل ہو کر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ۔ شدید دباؤ کے پیش نظر ریاستی حکومت نے زمین منتقل کئے جانے کا فیصلہ واپس لیا لیکن اس فیصلے کے خلاف ریاست کے صوبہ جموّں میں ہندوٴوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے شروع کئے گئے ۔ ہر گُذرتے دن کے ساتھ ریاستی وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد پر سیاسی دباؤ بڑھتا ہی چلا گیا اور بالآخر 7 جولائی 2008ء کو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ۔ مگر ہندو تنظیموں نے اسی پر بس نہ کی اور پندرہ بیس دن قبل 294 کلو میٹر طویل جموّں سے سری نگر قومی شاہراہ کی مکمل ناکہ بندی کردی اور اشیاء ضروری کی سپلائی کشمیر نہیں پہنچنے دی اور نہ ہی مسلمانوں کے باغوں میں پیدا ہونے والے پھل گذرنے دئیے جو کہ گل سڑ گئے ۔

باغات کے مالکان اور تاجران نے اس غیرقانونی اور غیر انسانی ناکہ بندی سے مجبور ہو کر اپنا مال مظفر آباد اور راولپنڈی کی منڈیوں میں فروخت کرنے کا ارادہ کیا ۔ اس پر “مظفر آباد چلو” کا نعرہ لگایا گیا ۔ مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے صوبہ کشمیر میں پھلوں کی پیداوار سے منسلک فروٹ گروئرز ایسوسی ایشن ۔ تاجروں کی انجمنوں ۔ سول سوسائٹی کے اتحاد [کولیشن آف سول سوسائٹی] ۔ کل جماعتی حریت کانفرنس ۔ یہاں تک کہ بھارت نواز جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے بھی مارچ کی حمایت کی گئی ۔

ایک طرف بھارت اور پاکستان کی حکومتیں سری نگر ۔ مظفر آباد روڑ سے تجارت شروع کرنے کی باتیں کررہے ہیں اور دوسری طرف مظفر آباد میں اپنا مال فروخت کرنے کی خواہش ظاہر کرنے پر بھارتی حکومت نے ہندوؤں کی طرف سے کی گئی غیرقانونی ناکہ بندی کو ختم کرانے کی بجائے کرفیو لگا کر علاقے کو فوج کے حوالے کر دیا ۔

یہ سب کچھ اس بھارتی حکومت کی ایماء پر اور سرپرستی میں ہو رہا ہے جو بھارت کو مذہبی تفریق سے آزاد جمہوریت قرار دیتی ہے اور امن امن کا راگ الاپتی رہتی ہے ۔

آج اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے ڈیڑھ ارب انسان کہاں ہیں ؟ انسان دوستی کے راگ گانے والے اربوں جمہوریت پسند کہاں ہیں جن کا دعوٰی ہے کہ وہ کسی جانور کو بھی مرتا نہیں دیکھ سکتے ؟

اپنے 16 کروڑ پاکستانی کہاں ہیں ؟

وہ ہموطن کہاں ہیں جو بھارتی ہندؤوں سے پیار کی پینگیں بڑھانے کے گیت گاتے رہتے ہیں ۔

وہ مظلوموں کے دُکھ کا ساتھی ہونے کا دعوٰی کرنے والا الطاف حسین کونسا برطانوی نشہ پی چکا ہے کہ اُسے مسلمان کا خون نظر نہیں آتا ؟

ایسا کیوں ؟

عیسائی راہبہ [Nun] سوائے چہرے کے اپنا سارا جسم کپڑوں میں ڈھانپ کر رکھے تو وہ قابلِ احترام ہے کیونکہ وہ پُجاری ہے
اگر کوئی مسلمان عورت اپنے دین کی پیروی میں اپنے جسم کو کپڑوں سے ڈھانپے تو اُسے مظلوم گردانا جاتا ہے

جب یہودی داڑھی رکھے تو یہ اُس کا مذہبی فریضہ کہا جاتا ہے
مسلمان داڑھی رکھے تو اُسے انتہاء پسند کہا جاتا ہے

اگر عیسائی یا یہودی عورت بچوں اور دوسرے گھریلو کاموں کی دیکھ بھال کیلئے گھر پر رہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر کو بنانے کیلئے قربانی دے رہی ہے
جب مسلمان عورت اسی مقصد کیلئے گھر پر رہے تو اُسے قید سے آزاد کرانے کی اشتہار بازی کی جاتی ہے

اگر عیسائی یا یہودی کسی کو قتل کر دے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے اور اس کا عیسائیت یا یہودیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا
اگر مسلمان کے ہاتھوں قتل ہو جائے تو موردِ الزام اس کا دین اسلام ٹھہرایا جاتا ہے

نعرہ اور عمل

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ چند صدیاں قبل نعرہ کسی شخص ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم کی شناخت ہوا کرتی تھی ۔ اپنے اس نعرے یا قول کی خاطر فرد ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم اپنی جان تک قربان کر دیتے تھے مگر یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ کوئی کہے “نعرہ کچھ ہے اور عمل کچھ اور”۔ نعرے اب بھی ہیں اور پرانے وقتوں کی طرح حِلم سے نہیں بلکہ ببانگِ دُہل لگائے جاتے ہیں مگر اب ان نعروں کا مقصد عام طور پر اپنے گھناؤنے عمل پر پرہ ڈالنا ہوتا ہے ۔

دورِ حاضر میں نان نہاد ترقی یافتہ دنیا کے سب سے بڑے نعرے ” امن” اور “انسان کی خدمت” ہیں جبکہ یہ نعرے لگانے والوں کے عمل سے ان کا نصب العین دنیا میں دہشتگری اور اپنی مطلق العنانی قائم کرنا ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن ہمیں غیروں سے کیا وہ ہمارے سجّن تو نہیں ہوسکتے ۔

آج ہماری قوم کی حالت یہ ہے کہ اللہ کی آیتوں کی بجائے شاعروں کے شعروں پر شاید زیادہ یقین ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ تْجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ۔ اسلئے کسی سے کُچھ کہا جائے تو وہ یہی جواب دیتا ہے ۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی نعروں کی ۔ افواجِ پاکستان یعنی مملکتِ خداد داد پاکستان کی فوج کا نعرہ ہے
ایمان ۔ تقوٰی اور جہاد فی سبیل اللہ

میں جب وطنِ عزیز میں کسی فوجی علاقہ کے سامنے سے گذرتے ہوئے یہ نعرہ لکھا پڑھتا تھا تو سوچا کرتا تھا کہ جس نعرے پر عمل نہیں کر سکتے وہ لکھا کیوں ہے ؟ لیکن پچھلے دو سال سے تو عمل اس نعرے کے بالکل خلاف ہے جس نے مجھے پریشان کر رکھا ہے ۔ کبھی باجوڑ کے قصبہ ڈماڈولا کے دینی مدرسے کے درجنوں معصوم کم عمر طالب علموں کی لاشیں نظر آکر تڑپاتی ہیں اور کبھی جامعہ حفصہ میں گولیوں اور گولوں سے ہلاک کی جانے والی اور سفید فاسفورس کے گولوں سے زندہ جلائی جانے والی 4 سال سے 17 سال کی سینکڑوں معصوم ۔ یتیم یا لاوارث طالبات کی یاد پریشان کرتی ہے ۔ تو کبھی اپنے وطن میں چلتے پھرتے یا گھر سے اُٹھا کر غائب کئے گئے ہموطنوں کی ماؤں کے نہ رُکنے والے آنسو اور ان کے بلکتے بچوں کے اُداس سپاٹ چہرے خُون کے آنسو رُلاتے ہیں ۔ کہیں بلوچستان آپریشن ہے تو کہیں سوات مالاکنڈ آپریشن ۔

سوچتا ہوں کہ اگر ہمارے فوجی جرنیلوں کو دین اور وطن سے کوئی محبت نہیں تو وہ یہ نعرہ ختم کیوں نہیں کر دیتے ۔ کیا اُنہیں احساس ہے کہ یہ نعرہ لکھ کر اور پھر اس کی خلاف ورزی کر کے وہ دوہرے جُرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ؟