ہر شخص کی 10 فیصد زندگی حقیقی ہوتی ہے ۔ 90 فیصد اُس کی سوچ ہوتی ہے یعنی بجائے اِس کے کہ کہنے والے کی بات کو صاف ذہن کے ساتھ سُنا جائے اگر ذہن میں ہے کہ دوسرا آدمی یہ چاہتا ہے اور وہ بات جو بھی کر رہا ہے اُس کا مطلب یہ ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بات سُننے والا اپنی سوچ کے مطابق سمجھ لیتا ہے وہ کہنے والے نے کہی ہی نہیں ہوتی اور نہ کہنے والے کے وہم و گمان میں ہوتی ہے
چنانچہ اگر سوچ 100 فیصد مَثبَت ہو تو زندگی 100 فیصد حقیقی ہوتی ہے اور دُنیا حسین لگتی ہے بصورتِ دیگر دوسروں میں عیب نظر آتے ہیں اور یہ عیب اپنی سوچ کی وجہ سے ہمیشہ قائم رہتے ہیں
اب سُنیئے ایک شخص کا واقعہ جس نے اُس کی زندگی کو خوشگوار بنا دیا
میں ایک دن گھر سےکسی کام کیلئے نکلا ۔ ٹیکسی لی اور منزلِ مقصود کی طرف چل پڑا ۔ ٹیکسی شاہراہ کے بائیں حصے پر دوڑتی جا رہی تھی کہ بائیں طرف سے شاہراہ میں شامل ہونے والی ایک پَتلی سڑک سے ایک گاڑی بغیر رُکے اچانک ٹیکسی کے سامنے آ گئی ۔ ٹیکسی ڈرائیور نے پوری قوت سے بریک دباتے ہوئے ٹیکسی کو داہنی طرف گھمایا اور ہم بال بال بچ گئے گو میرا کلیجہ منہ کو آ گیا تھا
بجائے اس کے کہ دوسری گاڑی کا ڈرائیور اپنی غلطی کی معافی مانگتا ۔ کھُلے شیشے سے سر باہر نکال کر ہمیں کوسنے لگا ۔ میرا خیال تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور اُسے تُرکی بہ تُرکی جواب دے گا لیکن اس نے مُسکرا کر بڑے دوستانہ طریقہ سے ہاتھ ہلایا
میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا ” اُس نے تو تمہاری ٹیکسی کو تباہ کرنے اور ہم دونوں کو ہسپتال بھیجنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور تم نے مُسکرا کر اُسے الوداع کہا “۔
ٹیکسی ڈرائیور کہنے لگا “کچھ لوگ محرومیوں یا ناکامیوں یا کُوڑ مغز ہونے کی وجہ سے بھرے ہوئے کُوڑے کے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں ۔ جب اُن کے دماغ میں بہت زیادہ کُوڑا اکٹھا ہو جاتا ہے تو جہاں سے گذرتے ہیں گندگی بکھیرتے جاتے ہیں ۔ اور بعض اوقات اچھے بھلے لوگوں پر بھی یہ گندگی ڈال دیتے ہیں ۔ ایسا ہونے کی صورت میں ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنے اُوپر بُرا اثر لئے بغیر گذر جانا چاہیئے ۔ ورنہ آپ بھی اُس سے لی ہوئی گندگی اپنے ساتھیوں پر اُنڈیلنے لگیں گے“۔
میں نے اُس دن سے ایسے لوگوں کے بے جا سلُوک پر کُڑھنا چھوڑ دیا ہے اور میرے دن اب بہتر گذرتے ہیں ۔ یہ مجھ پر اُس ٹیکسی ڈرائیور کا احسان ہے
Category Archives: معلومات
رِشتہءِ ازدواج
اُن دنوں ميں پرنسِپل ٹيکنيکل ٹريننگ انسٹيٹيوٹ تھا ۔ چند رحمدل حضرات ميرے پاس تشريف لائے اور فرمائش کی کہ معاشرہ کی صورتِ حال کے پيشِ نظر ميں تعليم يافتہ خواتين و حضرات کی مجلس ميں میاں اور بیوی کے رشتہ بارے تقرير کروں ۔ مجلس ميں نہ صرف نوجوان يا ميرے ہم عمر بلکہ مجھ سے کافی بڑی عمر کے خواتين و حضرات شامل تھے ۔ ميری 5 مارچ 1984ء کی تقرير کا متن
گراں قدر خواتين و حضرات ۔ السلام عليکم
خالقِ حقيقی نے اس کائنات کی تخليق کے بعد حضرتِ انسان کو پيدا کيا اور چرِند پرِند کو بھی ۔ اور سب کے جوڑے بنائے ۔ تا کہ انسان کو اس مُختصر زندگی ميں جس امتحان سے گذرنا ہے اس کی زندگی آسائش کے ساتھ بسر ہو ۔ رشتۂِ اِزدواج کو اگر موضوع بنايا جائے تو انسان ايک نہ ختم ہونے والی بحث ميں مُبتلا ہو سکتا ہے ۔ ليکن اس کو اگر صرف مياں بيوی کے تعلقات ميں محدود کر کے غور کيا جائے اور بيرونی اثرات يعنی عزيز و اقارب کے ساتھ تعلقات اور دوسری حاجات کو شامل نہ بھی کيا جائے تو ايک ايسا پہلو نکلتا ہے جس پر عام طور پر توجہ نہيں دی جاتی جس کے نتیجہ میں میاں بیوی کے مابین ناچاقی جنم لیتی ہے ۔ وہ ہے نفسياتی پہلو جو کہ مياں بيوی کے باہمی تعلقات کی جڑوں سے براہِ راست مُنسلِک ہے
عقدالنِّکاح ۔ جِسے عام طور پر شادی يا بياہ کہا جاتا ہے ۔ ايک پاکيزہ اور نہائت اہم رشتہ ہے جو غالباً نام کی تبديلی اور ہِندوانا رسم و رواج ميں گُم ہو کر رہ گيا ہے ۔ خاوند بيوی کا رشتہ دراصل باہمی اعتماد کا رشتہ ہے ۔ يہ ايک ايسا راستہ ہے جس پر دو جی مِل کر ايک نئی زندگی کا آغاز کرتے ہيں اور درحقيقت ساتھ ساتھ چلنے کا اقرار کرتے ہيں ۔ ايک گاڑی کے دو پہيّوں کی طرح ۔ ايک پہيّہ کمزور یا ناقص ہو جائے تو دوسرا گاڑی کو آگے نہيں بڑھا سکتا ۔ عقدالنّکاح خلوص اور پيار کا ايک وعدہ ہے جو مياں بيوی کو ساتھ ساتھ چلنے کيلئے ايک دِل ايک جان بنا ديتا ہے
نئی نويلی دُلہن جب اپنے خاوند کے گھر آتی ہے تازہ دودھ کی مانند ہے ۔ جس طرح خالص دودھ پر جراثيم حملہ کرتے ہيں نئی نويلی دُلہن پر وسوسے اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہيں ۔ دودھ کو آگ پر رکھا جائے تو دودھ کھولنے لگتا ہے اور حرارت زيادہ ملنے پر اُبل کر برتن سے باہر آگ پر گِر کر جلنے لگتا ہے ۔ خاوند کی عدم توجہی سے عورت بالخصوص نئی دُلہن عام طور پر شک و وہم ميں پڑ کر وسوسوں کا شکار ہو جاتی ہے ۔ وسوسے ايک ايسی خطرناک آگ ہے جو نظر نہيں آتی ليکن اس کی آنچ دل ميں اُبال پيدا کرتی ہے اور وہ اندر ہی اندر سے انسان کو جلا کر بھسم کر ديتی ہے ۔ خاوند کی عدم توجہی بعض اوقات غیر ارادی بھی ہوتی ہے ۔ کچھ عورتیں اردگرد کے ماحول کے سبب شک اور وہم سے گريز نہيں کر سکتی اور وہ وسوسوں کی آگ ميں جلتی رہتی ہیں ۔ ابتداء چاہے خاوند سے ہو یا بیوی سے يہ آگ پورے گھرانے کو اپنی لپيٹ ميں لے ليتی ہے
وسوسے صرف عورت ہی پيدا نہيں کرتی بلکہ بہت سے مرد بھی اس کا شکار ہوتے ہيں ۔ محبت بھرے افسانے تو بہت سُننے اور پڑھنے ميں آتے ہيں مگر گرہستی چلانے کيلئے عقل ۔ تحمل اور بُردباری کی ضرورت ہوتی ہے ۔ حقيقی دنيا ميں افسانوی کرداروں کيلئے کوئی جگہ نہيں ۔ الله نے عورت کو جذبات کا پُتلا بنایا ہے لیکن مرد کو اس پر حَکم اسلئے دیا ہے کہ مرد کا کام جذبات میں بہنے کی بجائے تحمل اور بُردباری سے چلنا ہے
عورت بيوی بننے سے پہلے کسی کی بيٹی ہوتی ہے ۔ اُس کا خاوند کا گھر بسانا ايک فطری عمل ہے ۔ يہ سلسلہ ازل سے چلتا آ رہا ہے ۔ شوہر کا گھر ہی عورت کا گھر کہلاتا ہے ۔ ليکن پھر بھی عورت جب ماں باپ کا گھر چھوڑ کر شوہر کے گھر پہنچتی ہے تو اُس کے دل ميں نفسياتی اور جذباتی خلاء پيدا ہوتا ہے ۔ يہ خلاء صرف اُس سے خاوند کی محبت اور مناسب توجہ سے پُر ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ خاوند کيلئے يہ موزوں نہيں کہ بيوی کو غلام سمجھے بلکہ خاوند کو چاہيئے کہ بيوی کی عزت کو اپنی عزت سمجھے اور اسکی ضروريات اور خواہشات کا حتی المقدُور خيال رکھے ۔ بالکل اسی طرح بيوی کو بھی چاہيئے کہ اپنی خواہشات کو خاوند کے وسائل تک محدود رکھے اور خاوند کی عزت کو اپنی عزت سمجھے ۔ خاوند کے والدین اور بہن بھائیوں کا اسی طرح احترام کرے جیسے خاوند کرتا ہو اور دونوں میں سے کوئی حد سے تجاوز نہ کرے
ديکھا گيا ہے کہ کچھ مرد سارا سارا دن دوستوں کے ساتھ گھومتے اور قہقہے لگاتے رہتے ہيں ۔ کسی نے چوکڑی جما کر تاش کھيلتے آدھی رات گذار دی تو کوئی کلب ميں بيٹھ کر نان کباب تکّے اُڑاتا رہا ۔ اُن کو ذرّہ برابر خيال نہيں آتا کہ اپنے لاڈ اور پيار کرنے والے والدين کو چھوڑ کر آئی ہوئی کوئی خاتون اپنی محبتيں نچھاور کرنے کيلئے اُس کی انتظار ميں دروازے پہ نظريں لگائے بيٹھی ہے اور اُس نے کچھ کھايا پيا بھی ہے يا نہيں ۔ گھر پہنچے بيوی جلدی سے کھانا گرم کر کے لائی تو مياں صاحب ۔ ميں تھک گيا ہوں ۔ کہہ کر بستر پر دراز ہو گئے ۔ بيوی نے کہا کھانا تو کھا ليجئے ۔ جواب ملا ميں نے کھاليا تھا اور وہ بيچاری اپنے سينے پر بوجھ لئے بھوکی سو گئی ۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو گھر میں ہوتے ہوئے بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کی بیوی بھی ہے ۔ بے شک والدین اور بہن بھائیوں کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی فرض ہے لیکن ایک بات جو عام طور پر بھُلا دی جاتی ہے یہ ہے کہ والدین اور بہن بھائیوں کا رشتہ ٹوٹ نہیں سکتا لیکن بیوی کا رشتہ کانچ سے زیادہ نازک ہوتا ہے
کئی گھرانوں ميں ديکھا گيا ہے کہ مرد دن بھر کا تھکا ہارا گھر لوٹا اور ابھی سانس بھی نہ لينے پايا کہ سوالات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔ اتنی دير کيوں لگا دی ؟ کہاں چلے گئے تھے ؟ کس کے پاس چلے گئے تھے ؟ يہ تو ہوئے بڑے گھرانوں کے سوال ليکن يہ مُصيبت چھوٹے گھرانوں ميں بھی موجود ہے صرف سوال بدل جاتے ہيں ۔ گھر ميں آٹا نہيں ہے ۔ دال نہيں ہے ۔ بچے کو بُخار ہے ۔ وغيرہ وغيرہ
ذرا سوچئے تو اگر بيوی روزانہ خاوند پر بندوق کی گوليوں کی طرح برستی رہے تو اس کا نتيجہ کيا ہو گا ؟ گھر گھر نہيں رہے گا ۔ جہنم بن جائے گا ۔ اس روزانہ کی يلغار سے مرد تنگ آ کر سکون کی تلاش ميں گھر سے باہر رہنے لگے گا جہاں وہ کئی قباحتوں کا شکار ہو سکتا ہے ۔ ليکن اس حقيقت کو جھٹلايا نہيں جا سکتا کہ مرد اپنا گھر اپنی بيوی کو چھوڑ کر کبھی سُکھی نہيں رہ سکتا ۔ دس جگہ دھکے کھا کر پھر وفادار جانور کی طرح گھر آ جائے گا ۔ اگر پھر بھی بيوی بلاجواز وسوسوں ميں پڑی رہے اور معاملہ فہمی نہ کرے تو ايک دن خاوند ايسا جائے گا کہ لوٹ کے واپس نہيں آئے گا ۔ اُس وقت اپنا سر پيٹنا اور بال نوچنا بيکار ہو گا
مياں بيوی ميں اگر کھچاؤ ہو تو اس کا اثر نہ صرف ان کے باہمی تعلقات پر پڑتا ہے بلکہ ان کی جسمانی اور دماغی صحت بھی متاءثر ہوتی ہے ۔ والدين ميں تناؤ بچوں کے ذہنوں پر بھی بُرا اثر ڈالتا ہے ۔ بسا اوقات والدين کی چپقلش اولاد کے اذہان کو اتنا مجروح کر ديتی ہے کہ وہ اطمينان کھو بيٹھتے ہيں اور اپنی قدرتی صلاحيّتوں سے پورا فائدہ اُٹھانے سے قاصر رہتے ہيں ۔ والدين کی پند و نصائح اُنہيں کھوکھلی محسوس ہونے لگتی ہيں ۔ چنانچہ مياں بيوی کو نہ صرف اپنی خاطر بلکہ اولاد کی خاطر بھی رواداری اور سوجھ بوجھ کی زندگی اختيار کرنا چاہيئے
کيوں نہ اپنے آپ کا استحصاب شروع ہی سے کيا جائے اور مياں بيوی ايک دوسرے کو مُوردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے اپنی اپنی اصلاح کريں ۔ اپنے اندر برداشت اور رواداری پيدا کريں ۔ صبر اور بُردباری سے کام ليں ۔ ايک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کريں ۔ ايک دوسرے کے احساسات و جذبات کی قدر کريں ۔ مياں بيوی اگر ايک دوسرے کی بات کو خلوصِ نيّت سے سُنيں تو اُن کی زندگی بہت خوشگوار بن سکتی ہے
ہم الحمدلله مُسلمان ہيں اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہميشہ قرآن الحکيم سے رہنمائی حاصل کريں
سورت البقرہ کی آيت 263 ۔ ايک ميٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خيرات سے بہتر ہے جس کے پيچھے دُکھ ہو ۔ الله بے نياز ہے اور برد باری اُس کی صفت ہے ۔
سُورت فُصِّلَت يا حٰم السَّجْدَہ ۔ آيات 34 تا 36 ۔ اور نيکی اور بدی يکساں نہيں ہيں ۔ تم بدی کو اُس نيکی سے دور کرو جو بہترين ہو ۔ تم ديکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گيا ہے ۔ يہ صفت نصيب نہيں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہيں ۔ اور يہ مقام حاصل نہيں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصيب والے ہوتے ہيں
سورت البقرہ ۔ آيت 228 آخری حصہ ۔ عورتوں کيلئے بھی معروف طريقے پر ويسے ہی حقوق ہيں جيسے مردوں کے حقوق اُن پر ہيں البتہ مردوں کو اُن پر ايک درجہ حاصل ہے
سُورت النِّسَآء ۔ آيت 34 ۔ مرد عورتوں پر قوّام ہيں ۔ اس بناء پر کہ الله نے ايک کو دوسرے پر فضيلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہيں ۔ پس جو عورتيں صالح ہيں وہ اطاعت شعار ہوتی ہيں اور مردوں کے پيچھے الله کی حفاظت اور نگرانی ميں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہيں
سُبحان الله ۔ کتنا بلند درجہ ہے درگذر کرنے والوں کا ۔ کتنے خوش نصيب ہيں وہ لوگ جو الله تعالٰی کے اس فرمان پر عمل کرنے کا شرف حاصل کرتے ہيں ۔ یہ بھی واضح ہوا کہ بیوی کے تمام اخراجات خاوند کے ذمہ ہیں ۔ انسان سے غَلَطی سر زد ہو سکتی ہے ۔ اس کا ازالہ يہی ہے کہ اگر ايک سے غَلَطی ہو جائے تو دوسرا درگذر کرے اور جس سے غَلَطی ہو اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے ۔ اگر صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑا جائے اور رواداری اور درگذر سے کام ليا جائے تو اوّل جھگڑے پيدا ہی نہيں ہوتے اور اگر کسی وقتی غَلَطی يا غَلَط فہمی کے باعث جھگڑا ہو بھی جائے تو احسن طريقہ سے مسئلہ حل کيا جا سکتا ہے ۔ اس طرح باہمی تعلقات خوشگوار ماحول ميں پرورش پاتے ہيں
وَما علَینا اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ
ہوسکے تو میرے لئے دعائے خیر کیجئے
دوسرے کا مذاق اُڑانا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فِسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں
(سُوۡرَةُ 49 الحُجرَات آية 11)
سچے قائد کی یاد میں
آج 11 ستمبر ہے ۔ 72 سال قبل یہی تاریخ تھی کہ ہند و پاکستان کے مسلمانوں کا عظیم رہنما اس دارِ فانی سے ملکِ عدم کو کوچ کر گیا
مجھے وہ وقت یاد ہے جب اپنے عظیم قائد کی رہنمائی میں مسلمانانِ ہند کی جد و جہد میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے میں نے 1947ء میں تیسری جماعت کا طالب علم ہوتے ہوئے کالج کے لڑکوں کے جلوس میں شامل ہو کر نعرے لگائے تھے
بن کے رہے گا پاکستان
لے کے رہیں گے پاکستان ۔
What do you want – Pakistan
پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الاللہ
مسلم لیگ کے راہنماؤں کی طرف سے یہ خصوصی اجازت ہمیں صرف ایک دن کیلئے ایک مخصوص علاقہ کے اندر دی گئی تھی ۔ ہر بچے نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ نعرے لگائے تھے
کابینہ کااجلاس تھا، اے ڈی سی نے پوچھا سر اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی، چونک کر سر اٹھایا اورسخت لہجے میں فرمایا ”یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے، اے ڈی سی گھبرا گیا، آپ نے بات جاری رکھی ”جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر واپس گھر جا کر پیئے قوم کا پیسہ قوم کے لئے ہے وزیروں کے لئے نہیں۔“ اس حکم کے بعد کابینہ کے اجلاسوں میں سادہ پانی کے سوا کچھ پیش نہ کیا گیا۔ گورنر جنرل ہاؤس کے لئے ساڑھے 38 روپے کا سامان خریدا گیا آپ نے حساب منگوا لیا ، کچھ چیزیں محترمہ فاطمہ جناح نے منگوائی تھیں حکم دیا یہ پیسے ان کے اکاؤنٹ سے کاٹے جائیں، دو تین چیزیں ان کے ذاتی استعمال کیلئے تھیں فرمایا یہ پیسے میرے اکاؤنٹ سے لے لئے جائیں۔ باقی چیزیں گورنر جنرل ہاؤس کے لئے تھیں فرمایا ٹھیک ہے یہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کر دی جائے لیکن آئندہ احتیاط کی جائے
برطانوی شاہ کا بھائی ڈیوک آف گلوسٹر پاکستان کے دورے پر آ رہا تھا برطانوی سفیر نے درخواست کی ”آپ اسے ایئر پورٹ پر خوش آمدید کہہ دیں ، ہنس کر کہا ”میں تیار ہوں لیکن جب میرا بھائی لندن جائے گا تو پھر برٹش کنگ کو بھی اس کے استقبال کے لئے ایئر پورٹ آنا پڑے گا“۔
ایک روز اے ڈی سی نے ایک وزٹنگ کارڈ سامنے رکھا ۔ آپ نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا اور فرمایا ”اسے کہو آئندہ مجھے شکل نہ دکھائے“۔
یہ شخص آپ کا بھائی تھا اور اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنے کارڈ پر نام کے نیچے ”برادر آف قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان“ لکھوا دیا تھا
زیارت میں سردی پڑ رہی تھی کرنل الٰہی بخش نے نئے موزے پیش کر دیئے دیکھے تو بہت پسند فرمائے ریٹ پوچھا بتایا 2 روپے، گھبرا کر بولے یہ تو بہت مہنگے ہیں ۔ عرض کیا سر یہ آپ کے اکاؤنٹ سے خریدے گئے ہیں ۔ فرمایا ”میرا اکاؤنٹ بھی قوم کی امانت ہے ۔ ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہئے“۔ موزے لپیٹے اور کرنل الٰہی بخش کو واپس کرنے کا حُکم دے دیا
زیارت ہی میں ایک نرس کی خدمت سے متاثر ہوئے اور اس سے پوچھا ”بیٹی میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں؟“
نرس نے عرض کیا ”سر میں پنجاب سے ہوں ۔ میرا سارا خاندان پنجاب میں ہے ۔ میں اکیلی کوئٹہ میں نوکری کر رہی ہوں ۔ آپ میری ٹرانسفر پنجاب کر دیں“۔
اُداس لہجے میں جواب دیا ”سوری بیٹی یہ محکمہ صحت کا کام ہے گورنر جنرل کا نہیں“۔
اپنے طیارے میں رائٹنگ ٹیبل لگوانے کا آرڈر دے دیا ۔ فائل وزارت خزانہ پہنچی تو وزیر خزانہ نے اجازت تو دے دی لیکن یہ نوٹ لکھ دیا ”گورنر جنرل اس قسم کے احکامات سے پہلے وزارت خزانہ سے اجازت کے پابند ہیں“۔
آپ کو معلوم ہوا تو وزارت خزانہ سے تحریری معذرت کی اور اپنا حُکم منسوخ کردیا
اور رہا پھاٹک والا قصہ تو کون نہیں جانتا ، گُل حسن نے آپ کی گاڑی گزارنے کے لئے ریلوے کا پھاٹک کھلوا دیا تھا آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا پھاٹک بند کرانے کا حکم دیا اور فرمایا ”اگر میں ہی قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟“
یہ آج سے 72 برس پہلے کا پاکستان تھا۔ وہ پاکستان جس کے سربراہ محمد علی جناح تھے ۔ لیکن پھر ہم ترقی کرتے کرتے اس پاکستان میں آگئے جس میں پھاٹک تو ایک طرف رہے، سربراہ مملکت کے آنے سے ایک گھنٹہ پہلے سڑکوں کے تمام سگنل بند کر دیئے جاتے ہیں ۔ دونوں اطراف ٹریفک روک دی جاتی ہے اور جب تک شاہی سواری نہیں گزرتی ٹریفک نہ کھُلتی ہے اور نہ ہی اشارے ۔ جس ملک میں سربراہ مملکت وزارت خزانہ کی اجازت کے بغیر جلسوں میں پانچ پانچ کروڑ روپے کا اعلان کر دیتے ہیں وزارت خزانہ کے انکارکے باوجود پورے پورے جہاز خرید لئے جاتے ہیں جس میں صدر اور وزیر اعظم کے احکامات پر سیکڑوں لوگ بھرتی کئے گئے ۔ اتنے ہی لوگوں کے تبادلے ہوئے ۔ اتنے لوگ نوکریوں سے نکالے گئے اور اتنے لوگوں کو ضابطے اور قانون توڑ کرترقی دی گئی ۔ جس میں موزے تو رہے ایک طرف ، بچوں کے پوتڑے تک سرکای خزانے سے خریدے گئے ۔ جس میں آج ایوان صدر کا اور وزیر اعظم ہاؤس کا بجٹ اربوں روپے تک پہنچ گیا ہے ۔ جس میں ایوان اقتدارمیں عملاً بھائیوں بھتیجوں بھانجوں بہنوں بہنوئیوں اور خاوندوں کا راج ہے ۔ جس میں امریکا کے نائب وزیر کے استقبال کے لئے پوری کی پوری حکومت ایئر پورٹ پرکھڑی دکھائی دیتی ہے اور جس میں چائے اور کافی تو رہی دور ، کابینہ کے اجلاس میں پورا لنچ اور ڈنر دیا جاتا ہے اور جس میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے کچن ہر سال کروڑوں روپے دھواں بنا دیتے ہیں یہ پاکستان کی وہ ترقی یافتہ شکل ہے جس میں اس وقت 20 کروڑ غریب لوگ رہ رہے ہیں
جب قائد اعظم گورنر جنرل ہاؤس سے نکلتے تھے تو ان کے ساتھ پولیس کی صرف ایک گاڑی ہوتی تھی اس گاڑی میں صرف ایک انسپکٹر ہوتا تھا اور وہ بھی غیر مسلم تھا اور یہ وہ وقت تھاجب گاندھی قتل ہو چکے تھے اور قائد اعظم کی جان کو سخت خطرہ تھا ۔ قائد اعظم اس خطرے کے باوجود سیکورٹی کے بغیر روز کھلی ہوا میں سیر کرتے تھے لیکن آج کے پاکستان میں سربراہ مملکت ماڈرن بلٹ پروف گاڑیوں، ماہر سیکورٹی گارڈز اور انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کے بغیر چند کلو میٹر کا فاصلہ طے نہیں کر سکتے ۔ ہم اس ملک میں مساوات رائج نہیں کر سکے
قائدِ اعظم کی خواہشات اور ارادوں کے مطابق
نہ ہم اپنے ملک پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنا سکے
نہ ہم اپنے ملک پاکستان کو ایک خودار ۔ باوقار اور ایماندار قیادت دے سکے
نہ ہم اپنے ملک پاکستان کو جدید ۔ ترقی یافتہ اور پُرامن ملک بنا سکے
کوئی ہے جو ہم سے نام نہاد ترقی اور تبدیلی کے کھوکھلے نعرے لے لے ؟
کوئی ہے جو ہم سے بدامنی اور مذہب یا روشن خیالی کے نام پر کی جانے والی انتہاء پسندی لے لے ؟
کوئی ہے جو ہمیں ہمارا 1948ء والا غیر ترقی یافتہ لیکن خلوص بھرا پاکستان واپس کر دے ؟
کوئی ہے جو ہمیں قائد اعظم کا پاکستان واپس کر دے ؟
کوئی ہے ؟ کوئی ہے ؟ کوئی ہے ؟
ہمیں 1948 کا پاکستان چاہئیے
یومِ دفاع پاکستان
بھارتی فوجوں نے 6 ستمبر کو نمازِ فجر کے وقت سے پہلے اچانک لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں پر بھرپور حملے کر دیئے ۔ صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان سلِیپنگ سُوٹ ہی میں جی ایچ کیو کے آپریشن رُوم پہنچ گئے
اُنہوں نے 6 ستمبر کی صبح تقریر کی جس میں واقع بتانے کے بعد کہا ”وہ نہیں جانتے کہ اُنہیں کس قوم سے واسطہ ہے ۔ پاکستان کے فوجی جوان جن کے لَبوں پر کلمہ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ کا ورد ہے سرحدوں کی حفاظت کیلئے روانہ ہو چکے ہیں“۔
جب 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو آزاد جموں کشمیر کے میرپور سیکٹر میں جنگی حکمتِ عملی جنرل محمد یحیٰ خان نے تیار کی تھی جس کے مطابق پہلے کمان جنرل اختر ملک نے کرنا تھی اور پھر جنرل محمد یحیٰ خان نے کمان سنبھال لینا تھی ۔ جب جنرل محمد یحیٰ خان کمان سنبھالنے گئے تو جنرل اختر ملک کمان اُس کے حوالے کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ اس طرح چند اہم دِن ضائع ہو گئے
جنرل اختر ملک (مرزائی) اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھَمب جَوڑیاں میں موجود چند آفیسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی تَوی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور تَوی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمانڈر (جنرل اختر ملک) کی طرف سے اکھنور سے پہلے تَوی کے کنارے رُک جانے کا حُکم دیا گیا تھا ۔ اگر پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور پاکستانی فوجی کٹھوعہ پہنچ کر جموں کشمیر کو بھارت سے ملانے والے واحد راستہ پر قبضہ کر لیتے جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا
کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر 2 دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتے رہے کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے لیکن وہ غائب تھے ۔ الله جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔ ہمارے ملک میں کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا
جنرل عتیق الرحمٰن نے اپنی کتاب بیک ٹو پیولین میں ستمبر 1965 کی جنگ کے متعلق لکھا ہے ۔ “جب پاکستانی فوج نےکئی محاذوں پر بھارتی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔ لاہور محاذ سے بھارتی فوج بیاس جانے کی منصوبہ بندی کر چکی تھی اور سیالکوٹ محاذ پر بھارتی سینا بعض مقامات پر کئی کئی میل پیچھے دھکیل دی گئی تھی ۔ ان خالی جگہوں کے راستے پاکستانی فوج نے بھرپور جوابی حملے کی منصوبہ بندی کر لی ۔ جوابی حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ عین اس وقت جنگ بندی کرا دی گئی ۔ یہ جنگ بندی امریکہ اور روس کے دباؤ کے تحت ہوئی تھی” ۔
آزادی کا اعلان
اگست 1947ء کی 14 اور 15 تاریخ کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر ریڈیو پر آواز گونجی ”یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے“۔ اس کے ساتھ ہی فضا ”نعرہءِ تکبیر ۔ اللهُ اکبر“۔ ”پاکستان زندہ باد“۔ ”پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا اِلهَ اِلالله“کے نعروں سے گونج اُٹھی
15 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک 1366ھ بروز جمعہ سر زمینِ پاکستان پر آزادی کا پہلا سورج طلوع ہوا ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی نے ہمیں اپنے آزاد ملک کا تحفہ ایک مقدس دن کو عنائت کیا
قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں جو پیغام دیا تھا نہائت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آسودگی حاصل ہوتے ہی قوم دولت کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے لگ گئی اور اپنے قائد و محسن کا پیغام ہی نہیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو یکسر فراموش کر دیا ۔
قائداعظم کی تقریر نقل کرنے سے پہلے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں کہ برطانیہ کے نمائیندہ ریڈ کلِف نے جواہر لال نہرو کے ساتھ مِلی بھگت کر کے نہائت عیّاری کی اور پاکستان کی حدُود کا اعلان 17 اگست 1947ء کو کیا جس سے معلوم ہوا کہ کسی ضلع کو تقسیم نہ کرنے کے طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مُسلم اکثریتی ضلع گورداسپور کی تقسیم کر کے نارو وال کا مشرقی علاقہ بشمول ڈیرہ بابا نانک ۔ بٹالہ ۔ گورداسپور شہر ۔ دینا نگر ۔ پٹھانکوٹ ۔ مادھوپور راجپورہ بھارت میں شامل کر دیا جس سے بھارت کو کٹھوعہ کے راستہ جموں میں آسانی سے داخل ہونے کا زمینی راستہ مہیاء کر دیا ۔ اس ”تاخیری اعلان“ کی وجہ سے قائداعظم کی تقریر میں مسئلہ جموں کشمیر کا ذکر نہیں ہے
قائداعظم کا خطاب 15 اگست 1947ء
میں انتہائی مسرت اور جذبات کے احساس کے ساتھ آپ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ 15 اگست پاکستان کی آزاد اور خود مختار ریاست کا جنم دن ہے ۔ یہ مسلم قوم کی منزل کی تکمیل کی علامت ہے جس نے اپنے وطن کے حصول کیلئے پچھلے چند سالوں میں بھاری قربانیاں دیں ۔ اس اعلٰی لمحے میں میرے ذہن میں اس مسلک کیلئے جد و جہد کرنے والے شجاع لوگ ہیں
ایک نئی ریاست کی تخلیق نے پاکستان کے شہریوں پر بھاری ذمہ داری ڈال دی ہے ۔ اس تخلیق نے یہ ثابت کرنے کا موقع دیا ہے کہ کس طرح متعدد عناصر پر مشتمل قوم ذات اور عقیدہ سے قطع نظر کرتے ہوئے امن اور بھائی چارے کے ساتھ تمام شہریوں کی بہتری کیلئے کام کر سکتی ہے
ہمارا مقصد اندرونی اور بیرونی امن ہونا چاہیئے ۔ ہم امن میں رہنا چاہتے ہیں اور اپنے قریبی ہمسایہ ملکوں اور دنیا کے ممالک کے ساتھ خوشگوار دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم کسی کے خلاف بھی جارحانہ عزائم نہیں رکھتے ۔ ہم اقوامِ متحدہ کے منشور کی حمائت کرتے ہیں اور دنیا میں امن اور خوشحالی کیلئے اپنا پورا حصہ ڈالیں گے
ہندوستان کے مسلمانوں نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ ایک متحد قوم ہیں اور ان کا مطالبہ انصاف اور حقائق پر مبنی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ آیئے آج اس دن ہم عاجزی کے ساتھ اس عطیہ کیلئے الله کا شکر ادا کریں اور دعا کریں کہ ہم اپنے آپ کو اس کا مُستحِق ثابت کر سکیں
آج کا دن ہماری قومی تاریخ کے ایک تکلیف دہ دور کے اختتام کی علامت ہے اور اسے نئے باعزت دور کا آغاز بھی ہونا چاہیئے ۔ آیئے ہم اقلیتوں کو عمل ۔ گفتار اور سوچ سے باور کرائیں کہ اگر وہ بحیثیت وفادار پاکستانی اپنے فرائض اور ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں تو اُنہیں کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیئے
ہم اپنی سرحدوں پر بسنے والے آزادی پسند قبائل اور ہماری سرحدوں سے باہر ریاستوں کو مبارکباد دیتے ہیں اور اُنہیں یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان اُن کی حیثیت کا احترام کرے گا اور امن قائم رکھنے کیلئے دوستانہ تعاون کرے گا ۔ ہمیں کوئی ہوّس نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم باعزت زندگی گذاریں اور دوسروں کو بھی باعزت زندگی گذارنے دیں
آج جمعۃ الوداع ہے ۔ رمضان کے مقدس مہینہ کا آخری جمعہ ۔ ہم اس وسیع برِ عظیم میں جہاں کہیں بھی ہوں اور اسی سبب پوری دنیا میں بھی ہم سب کیلئے خوشی کا دن ہے ۔ تمام مساجد میں ہزاروں مسلمانوں کے اجتماعات قادرِ مطلق کے سامنے عاجزی سے جھُکیں ۔ اُس کی دائمی مہربانی اور فراخدلی کا شکریہ ادا کریں اور پاکستان کو ایک طاقتور ملک اور اپنے آپ کو اس کے مُستحِق شہری بنانے کیلئے اُس کی رہنمائی اور مدد کے طلبگار ہوں
میرے ہموطنو ۔ میں آخر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان بڑے زبردست وسائل کی زمین ہے ۔ لیکن اسے مسلمانوں کے لائق ملک بنانے کیلئے ہمیں اپنی قوت و ہمت کا بھرپور استعمال کرنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ایسا پوری دلجمعی کے ساتھ کیا جائے گا
پاکستان زندہ باد ۔ یومِ آزادی مبارک
یہ تقریر انگریزی میں تھی ۔ میں نے حتی الوسع اس کا درست ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے
جس نے حرمین شریفین توسیع کا ڈیزائن کیا
وہ ایک مصری انجینئر اور آرکیٹیکٹ ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل (1908ء تا 2008ء) تھا جس نے ظاہری دنیاوی بُود و باش سے دُور اور نامعلوم رہنے کو ترجیح دی
وہ مصر کی تاریخ کا سب سے کم عمر شخص تھا جس نے ہائی سکول سرٹیفکیٹ حاصل کیا
پھر رائل سکول آف انجینئرنگ کا سب سے کم عمر طالب علم جس نے وہاں سے گریجوئیشن کی
پھر سب سے کم عمر جس کو یورپ سے اسلامک آرکیٹیکچر میں ڈاکٹریٹ کی 3 ڈگریاں لینے کے لئے بھیجا گیا
اس کے علاوہ وہ سب سے کم عمر نوجوان تھا جس نے بادشاہ سے ”نائل“۔ ”سکارف“ اور ” آئرن“ کے خطابات حاصل کئے
وہ پہلا انجینئر تھا جس نے حرمین شریفین کے توسیعی منصوبے کی تعمیر اور عمل درآمد کے لئے اختیارات سنبھالے
اس نے شاہ فہد اور بن لادن کمپنی کے باربار اصرار کے باوجود انجینیرنگ ڈیزائن اور آرکیٹچرل نگرانی کیلئے کسی قسم کا معاوضہ لینے سے انکار کردیا اور کہا ”میں دو مقدس مساجد کے کاموں کیلئے کیوں معاوضہ لوں ۔ قیامت کے دن الله تعالٰی کا کیسے سامنا کروں گا“۔
اس نے 44 سال کی عمر میں شادی کی اور اس کی بیوی نے بیٹا جنم دیا اور زچگی کے بعد فوت ہو گئی اس کے بعد وہ مرتے دم تک عبادت الٰہی میں مصروف رہا ۔ اس نے 100 سال سےزیادہ عمر پائی ۔ اُس نے دنیا اور میڈیا کی چکا چوند سے ہٹ کر گمنام رہ کر حرمین شریفین کی خدمت کی
اس عظیم آدمی کی حرمین شریفین میں نصب کئے گئے سفید پتھر کے حصول کی بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے ۔ یہ وہ پتھر ہے جو حرم الشریف مکہ میں مطاف ۔ چھت اور باہر صحن میں لگا ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ گرمی کو جذب کرکے فرش کی سطح کو ٹھنڈا رکھتا ہے یہ پتھر ملک یونان میں ایک چھوٹے سے پہاڑ میں دستیاب تھا ۔ وہ سفر کرکے یونان گیا اور حرم کیلئے کافی مقدار میں تقریباً آدھا پہاڑ خریدنے کا معاہدہ کیا ۔ معاہدہ پر دستخط کرکے وہ واپس مکہ لوٹا ۔ سفید پتھر سٹاک میں آگیا تو حرمِ مکہ میں پتھر کی تنصیب مکمل کرائی
پندرہ سال بعد انجینئر محمد کمال کو سعودی بادشاہ نے مسجد نبوی الشریف میں ویسا ہی ماربل لگانے کا کہا تو وہ بہت پریشان ہوا کیونکہ کرہ ارض پر واحد جگہ یونان ہی تھی جہاں یہ پتھر دستیاب تھا جو کہ آدھا پہاڑ تو وہ پہلے ہی خرید چکا تھا ۔ انجینئر محمد کمال بتاتا ہے کہ وہ یونان میں اسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کے پاس گیا اور ماربل کی بقایا مقدار جو بچ گئی تھی اس کے بارے میں پوچھا تو چیف ایگزیکٹو نے بتایا ”وہ ماربل تو ہم نے آپ کے جانے کے بعد بیچ دیا تھا اب تو 15 سال ہو گئے ہیں“۔ کمال بہت افسردہ ہوا ۔ جاتے ہوئے وہ آفس سیکرٹری سے ملا اور گزارش کی کہ مجھے اس شخص کا اتہ پتہ بتاؤ جس نے بقیہ ماربل خریدا ۔ اس نے کہا ”پرانا ریکارڈ تلاش کرنا بہت مشکل ہے لیکن آپ مجھے اپنا فون نمبر دے جائیں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہوں“۔ اس نے اپنا نمبر اور ہوٹل کا پتہ دیا اور اگلے دن آنے کا وعدہ کرکے چلا
گیا۔
اگلے دن ایرپورٹ جانے سے چند گھنٹے قبل اسے فون کال آئی کہ ماربل کے خریدار کا ایڈریس مل گیا ہے ۔ کمال دفتر پہنچا تو سیکرٹری نے کمپنی کا پتہ دیا جس نے ماربل خریدا تھا ۔ کمال نے پتہ دیکھا ۔ کمپنی جس نے ماربل خریدا تھا وہ سعودی تھی ۔ کمال نے سعودیہ کی فلائیٹ پکڑی اور سعودی عرب پہنچا ۔ سیدھا اس کمپنی کے دفتر پہنچ کر ڈائریکٹر ایڈمن کو ملا اور پوچھا ” آپ نے اس ماربل کا کیا کیا جو گریس سے خریدا تھا ؟“ اس نے کہا ”مجھے یاد نہیں“۔ پھر اس نے سٹاک روم سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ وہ سفید ماربل جو گریس سے منگوایا تھا کدھر ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ساری مقدار موجود ہے ۔ کمال ایک بچے کی طرح رونے لگا اور کمپنی کے مالک کو پوری کہانی سنائی ۔ اس نے کمپنی کے مالک کو بلَینک چیک دیا اور کہا اس میں جتنی رقم بھرنی ہے بھر لو اور ماربل کی تمام مقدار میرے حوالے کردو ۔ جب کمپنی کے مالک کو پتہ چلا کہ یہ تمام ماربل مسجد نبوی میں استعمال ہونا ہے تو اس نے کہا ”میں ایک ریال بھی نہیں لوں گا ۔ الله نے یہ ماربل مجھ سے خرید کروایا اور پھر میں بھول گیا ۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ یہ ماربل مسجد نبوی الشريف میں استعمال ہونا ہے“۔
الله سُبحانُهُ و تعالٰی انجینئر محمد کمال کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین