پہلی قسط یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے
جب وسط نومبر 1947ء میں سیالکوٹ سے ایک قریبی عزیز کا تار میرے والدین کو موصول ہوا جس میں لکھا تھا ”بڑے پہنچ گئے ہیں بچے نہیں پہنچے“۔ تو میرے والد صاحب سخت پریشان ہوئے ۔ کوشش کے باوجود اپنی پریشانی میری والدہ سے چھپا نہ سکے ۔ والدہ کا بُرا حال ہو گیا ۔ میرے بڑے ماموں والد صاحب کے ساتھ ہی ہوتے تھے ۔ والد صاحب کو کچھ نہیں سُوجھ رہا تھا ۔ سب کچھ ماموں جان کے حوالے کیا اور چند دن بعد صبح سویرے صرف کھانے پینے کا سامان کار میں رکھا اور میری والدہ اور میرے 2 بھائیوں (7 سال اور 8 ماہ) کو اپنی کار میں ساتھ لے کر فلسطین سے بصرہ (عراق) کی طرف چل پڑے ۔ فلسطین کے اندر جب یہودیوں کا علاقہ قریب آتا تو ہَیٹ پہن لیتے ۔ جب وہاں سے نکلتے تو پھر سر پر رومال باندھ لیتے ۔ اللہ سے خیریت کی دعائیں مانگتے وہاں سے نکل کر تبوک کے قریب سعودی عرب میں داخل ہوئے تو جان کو خطرہ ٹلا
اُس زمانہ میں سعودی عرب کی سڑکیں تنگ تھیں جو کہیں ٹوٹی پھوٹی اور کہیں کچی تھیں ۔ 1200 سے 1300 کلو میٹر کے درمیان فاصلہ طے کرنا تھا ساتھ شیر خوار بچہ مگر کھانے پینے کا سامان بھی زیادہ نہ تھا کیونکہ جو کچھ خُشک خوراک گھر میں تھی وہی اُٹھائی تھی ۔ کار کی رفتار اُس زمانہ میں 60 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ نہ تھی ۔ رات کو راستہ میں قیام کرتے 4 دن اور 3 راتوں میں یمن پہنچے ۔ اُس زمانہ میں جدّہ کی بندرگاہ پر بحری جہاز لنگر انداز نہیں ہوتے تھے اور ساری نقل و حمل یمن کی بندرگاہ عدن سے ہوتی تھی ۔ معلوم ہوا کہ اگلا بحری جہاز ایک ہفتہ بعد کراچی کیلئے روانہ ہو گا ۔ ٹکٹیں لے کر ہوٹل میں قیام کیا ۔ ہفتہ بعد بندرگاہ پہنچ کر کار کو وہیں چھوڑا ۔ صرف اپنے کپڑے ساتھ لئے اور جہاز میں سوار ہوگئے
جہاز یمن سے بمبئی گیا اور وہاں چند دن قیام کے بعد کراچی روانہ ہوا ۔ کراچی میں ایک رشتہ دار عبدالکرم صاحب جو سینٹرل ہوٹل کے مالک تھے اُنہیں والد صاحب نے چلنے سے قبل اطلاع دے دی تھی سو وہ بندرگاہ پر استقبال کیلئے پہنچے ہوئے تھے ۔ عبدالکریم صاحب نے ملتے ہی میرے والدین سے کہا ”مبارک ہو ۔ اللہ کے فضل سے بچے بخیریت سیالکوٹ پہنچ گئے ہیں“۔ (آجکل عبدالکریم صاحب کا پوتا طارق سلیم مالک ہے)
اگلے روز ریلوے سٹیشن گئے تو معلوم ہوا کہ ٹرین 3 دن بعد روانہ ہو گی اور وزیر آباد تک جائے گی ۔ پیشگی بُکنگ نہ تھی ۔ ٹکٹ خرید کر چلے گئے ۔ 3 دن عبدالکریم صاحب کے ہاں ہی قیام کیا پھر روانہ ہو کر شاید 3 دن میں وزیرآباد پہنچے ۔ بھاپ سے چلنے والا انجن تھا اور بھاپ بائلر کے نیچے کوئلے جلا کر حاصل کی جاتی تھی ۔ ٹرین راستہ میں ہر چھوٹے بڑے سٹیشن پر رُکتی رہی ۔ وزیر آباد پہنچ کر معلوم ہوا کہ کوئی بس سیالکوٹ نہیں جاتی ۔ ایک ٹانگہ لیا اور جنوری 1948ء کے پہلے ہفتے میں سیالکوٹ پہنچے
فلسطین میں والد صاحب کی رہائش طُولکرم میں تھی اور کاروبار حیفہ میں ۔ طُولکرم مسلمانوں کا علاقہ تھا اور حیفہ میں یہودیوں کی اکثریت تھی ۔ والدین کے آ جانے کے کچھ ماہ بعد صیہونی دہشتگردوں نے جن کے سربراہ میناخم بیگِن اور موشے دایان تھے والد صاحب کے کاروبار پر قبضہ کر لیا اور میرے ماموں جان بچا کر مصر چلے گئے ۔ گویا ہم دوہرے مہاجر ہوئے ۔ فلسطین سے کاروبار کے لحاظ سے اور ریاست جموں کشمیر سے وطنیت اور جائیداد کے لحاظ سے