Category Archives: معلومات

فلسطین سے ہجرت ۔ آخری حصہ

پہلی قسط یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

جب وسط نومبر 1947ء میں سیالکوٹ سے ایک قریبی عزیز کا تار میرے والدین کو موصول ہوا جس میں لکھا تھا ”بڑے پہنچ گئے ہیں بچے نہیں پہنچے“۔ تو میرے والد صاحب سخت پریشان ہوئے ۔ کوشش کے باوجود اپنی پریشانی میری والدہ سے چھپا نہ سکے ۔ والدہ کا بُرا حال ہو گیا ۔ میرے بڑے ماموں والد صاحب کے ساتھ ہی ہوتے تھے ۔ والد صاحب کو کچھ نہیں سُوجھ رہا تھا ۔ سب کچھ ماموں جان کے حوالے کیا اور چند دن بعد صبح سویرے صرف کھانے پینے کا سامان کار میں رکھا اور میری والدہ اور میرے 2 بھائیوں (7 سال اور 8 ماہ) کو اپنی کار میں ساتھ لے کر فلسطین سے بصرہ (عراق) کی طرف چل پڑے ۔ فلسطین کے اندر جب یہودیوں کا علاقہ قریب آتا تو ہَیٹ پہن لیتے ۔ جب وہاں سے نکلتے تو پھر سر پر رومال باندھ لیتے ۔ اللہ سے خیریت کی دعائیں مانگتے وہاں سے نکل کر تبوک کے قریب سعودی عرب میں داخل ہوئے تو جان کو خطرہ ٹلا

اُس زمانہ میں سعودی عرب کی سڑکیں تنگ تھیں جو کہیں ٹوٹی پھوٹی اور کہیں کچی تھیں ۔ 1200 سے 1300 کلو میٹر کے درمیان فاصلہ طے کرنا تھا ساتھ شیر خوار بچہ مگر کھانے پینے کا سامان بھی زیادہ نہ تھا کیونکہ جو کچھ خُشک خوراک گھر میں تھی وہی اُٹھائی تھی ۔ کار کی رفتار اُس زمانہ میں 60 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ نہ تھی ۔ رات کو راستہ میں قیام کرتے 4 دن اور 3 راتوں میں یمن پہنچے ۔ اُس زمانہ میں جدّہ کی بندرگاہ پر بحری جہاز لنگر انداز نہیں ہوتے تھے اور ساری نقل و حمل یمن کی بندرگاہ عدن سے ہوتی تھی ۔ معلوم ہوا کہ اگلا بحری جہاز ایک ہفتہ بعد کراچی کیلئے روانہ ہو گا ۔ ٹکٹیں لے کر ہوٹل میں قیام کیا ۔ ہفتہ بعد بندرگاہ پہنچ کر کار کو وہیں چھوڑا ۔ صرف اپنے کپڑے ساتھ لئے اور جہاز میں سوار ہوگئے

جہاز یمن سے بمبئی گیا اور وہاں چند دن قیام کے بعد کراچی روانہ ہوا ۔ کراچی میں ایک رشتہ دار عبدالکرم صاحب جو سینٹرل ہوٹل کے مالک تھے اُنہیں والد صاحب نے چلنے سے قبل اطلاع دے دی تھی سو وہ بندرگاہ پر استقبال کیلئے پہنچے ہوئے تھے ۔ عبدالکریم صاحب نے ملتے ہی میرے والدین سے کہا ”مبارک ہو ۔ اللہ کے فضل سے بچے بخیریت سیالکوٹ پہنچ گئے ہیں“۔ (آجکل عبدالکریم صاحب کا پوتا طارق سلیم مالک ہے)

اگلے روز ریلوے سٹیشن گئے تو معلوم ہوا کہ ٹرین 3 دن بعد روانہ ہو گی اور وزیر آباد تک جائے گی ۔ پیشگی بُکنگ نہ تھی ۔ ٹکٹ خرید کر چلے گئے ۔ 3 دن عبدالکریم صاحب کے ہاں ہی قیام کیا پھر روانہ ہو کر شاید 3 دن میں وزیرآباد پہنچے ۔ بھاپ سے چلنے والا انجن تھا اور بھاپ بائلر کے نیچے کوئلے جلا کر حاصل کی جاتی تھی ۔ ٹرین راستہ میں ہر چھوٹے بڑے سٹیشن پر رُکتی رہی ۔ وزیر آباد پہنچ کر معلوم ہوا کہ کوئی بس سیالکوٹ نہیں جاتی ۔ ایک ٹانگہ لیا اور جنوری 1948ء کے پہلے ہفتے میں سیالکوٹ پہنچے

فلسطین میں والد صاحب کی رہائش طُولکرم میں تھی اور کاروبار حیفہ میں ۔ طُولکرم مسلمانوں کا علاقہ تھا اور حیفہ میں یہودیوں کی اکثریت تھی ۔ والدین کے آ جانے کے کچھ ماہ بعد صیہونی دہشتگردوں نے جن کے سربراہ میناخم بیگِن اور موشے دایان تھے والد صاحب کے کاروبار پر قبضہ کر لیا اور میرے ماموں جان بچا کر مصر چلے گئے ۔ گویا ہم دوہرے مہاجر ہوئے ۔ فلسطین سے کاروبار کے لحاظ سے اور ریاست جموں کشمیر سے وطنیت اور جائیداد کے لحاظ سے

کون کہتا ہے پاکستان غریب ہے ؟

اُمید ہے کہ آپ ” اے اہلِ وطن ۔ کبھی سوچا آپ نے ؟“ پڑھ چکے ہوں گے ۔ اسی حوالے سے ایک اور

پاکستان کو اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ نے ہر نعمت سے مالا مال کیا ہے ۔ جس میں سب سے اہم ذہانت اور کام کرنے کی صلاحیت ہے ۔ ہمارے پیارے وطن پاکستان میں ایک بچے کا اپنے گاؤں میں بنایا ہوا سول انجنیئرنگ کا ماڈل دیکھیئے اور اس بچے کی ذہانت اور سوچ کی داد دیجئے
Bright Boy

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” I Am Just A Kid “

یومِ شہداء

آج کے دن سیکولرزم کا پرچار کرنے والوں نے دنیا کی تاریخ کی بدترین خونی تاریخ رقم کی ۔ ریاست جموں کشمیر کے ضلع جموں کے صرف ایک ضلع جموں توی میں ایک لاکھ کے لگ بھگ مسلمان مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے صرف چند گھنٹوں میں تہہ تیغ کر دئیے اور نعرہ لگایا کہ ہم نے ان کا پاکستان بنا دیا ہے

ستمبر 1947 ء کے آخری ہفتہ میں مجھے (10 سال) اور میری دو بہنوں (12 سال اور 15 سال) کو ہمارے ہمسایہ کے خاندان والے اپنے ساتھ جموں چھاؤنی ستواری لے گئے تھے ۔ ہمارے ساتھ اس کوٹھی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا تھا ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئے 6 نومبر 1947ء کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ جونہی کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا ۔ سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا ۔

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔ نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947ء کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947ء کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا

تین دن بعد يعنی 9 نومبر کو ایک ادھیڑ عمر اور ایک جوان خاتون اور ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی آئے ۔ جوان خاتون کی گردن میں پچھلی طرف ایک انچ لمبا اور کافی گہرا زخم تھا جس میں پیپ پڑ چکی تھی ۔ یہ لوگ جموں میں ہمارے محلہ دار تھے ۔ لڑکی میرے ہم جماعت لڑکے ممتاز کی بڑی بہن تھی جوان خاتون اُس کی بھابھی اور بڑی خاتون اُس کی والدہ تھیں ۔ اُن کا پورا خاندان 6 نومبر والے قافلہ میں تھا ۔ انہوں نے دیکھا کہ جوان لڑکیوں کو اُٹھا کر لے جا رہے ہیں ۔ وہ بس سے نکل بھاگے ۔ ممتاز کی بھابھی اور دونوں بہنوں نے اغواء سے بچنے کے لئے نہر میں چھلانگیں لگائیں ۔ چھلانگ لگاتے ہوئے ایک کافر نے نیزے سے وار کیا جو بھابھی کی گردن میں لگا ۔ خون کا فوارہ پھوٹا اور وہ گر کر بیہوش ہوگئی ۔ پھر گولیاں چلنی شروع ہو گئیں ۔ ممتاز کی والدہ گولیوں سے بچنے کے لئے زمین پر لیٹ گئیں اس کے اُوپر چار پانچ لاشیں گریں اُس کی ہڈیاں چٹخ رہی تھیں مگر وہ اُسی طرح پڑی رہی ۔ اُس نے دیکھا کہ ایک بلوائی نے ایک شیرخوار بچے کو ماں سے چھین کر ہوا میں اُچھالا اور نیزے سے ہلاک کر دیا ۔

شور شرابا ختم ہونے پر اُس خاتون کو خیال ہوا کہ بلوائی چلے گئے ۔ بڑی مشکل سے اُس نے اپنے آپ کو لاشوں کے نیچے سے نکالا اور اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگی ۔ لاشوں پر اور اپنی بے چارگی پر آنسو بہاتی رہی ۔ اچانک بہو اور بیٹیوں کا خیال آیا اور دیوانہ وار نہر کی طرف بھاگی ۔ بہو نہر کے کنارے پڑی ملی اس کے منہ میں پانی ڈالا تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ تھوڑی دیر بعد بڑی بیٹی آ کر چیختی چلّاتی ماں اور بھابھی کے ساتھ لپٹ گئی ۔ اُس نے بتایا کہ چھوٹی بہن ڈوب گئی ۔ وہ نہر کی تہہ میں تیرتی ہوئی دور نکل گئی تھی اور واپس سب کو ڈھونڈنے آئی تھی ۔

ماں بیٹی نے زخمی خاتون کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اس کے بازو اپنی گردنوں کے گرد رکھ کر چل پڑے ۔ ایک نامعلوم منزل کی طرف ۔ رات ہو گئی تو جنگلی جانوروں سے بے نیاز وہیں پڑ رہیں ۔ صبح ہوئی تو پھر چل پڑیں ۔ چند گھنٹے بعد دور ایک کچا مکان نظر آیا ۔ بہو اور بیٹی کو جھاڑیوں میں چھپا کر بڑی خاتون مکان تک گئی ۔ کھانے کو کچھ نہ لائی ۔ جیب خالی تھی اور مانگنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ جموں چھاؤنی کا راستہ پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی تک سارا سفر غلط سمت میں طے کیا تھا ۔ چاروناچار اُلٹے پاؤں سفر شروع کیا ۔ بھوک پیاس نے ستایا تو جھاڑیوں کے سبز پتے توڑ کے کھا لئے اور ایک گڑھے میں بارش کا پانی جمع تھا جس میں کیڑے پڑ چکے تھے وہ پی لیا ۔ چلتے چلتے پاؤں سوج گئے ۔ مزید ایک دن کی مسافت کے بعد وہاں پہنچے جہاں سے وہ چلی تھیں ۔ حد نظر تک لاشیں بکھری پڑی تھیں اور ان سے بدبو پھیل رہی تھی ۔ نہر سے پانی پیا تو کچھ افاقہ ہوا اور آگے چل پڑے ۔ قریب ہی ایک ٹرانسفارمر کو اُٹھائے ہوئے چار کھمبے تھے ۔ ان سے ایک عورت کی برہنہ لاش کو اس طرح باندھا گیا تھا کہ ایک بازو ایک کھمبے سے دوسرا بازو دوسرے کھمبے سے ایک ٹانگ تیسرے کھمبے سے اور دوسری ٹانگ چوتھے کھمبے سے ۔ اس کی گردن سے ایک کاغذ لٹکایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا یہ ہوائی جہاز پاکستان جا رہا ہے ۔

چار ہفتوں میں جو 6 نومبر 1947 کی شام کو ختم ہوئے بھارتی فوج ۔ راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہا سبھا اور اکالی دل کے مسلحہ لوگوں نے صوبہ جموں میں دو لاکھ کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا جن میں مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے سب شامل تھے ۔ سینکڑوں جوان لڑکیاں اغواء کر لی گئیں اور لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا ۔ تیس ہزار سے زائد مسلمان صرف نومبر کے پہلے چھ دنوں میں ہلاک کئے گئے

بچوں کی باتیں ۔ میری پوتی ھناء

ماشاء اللہ میری 2 پوتیاں (10 سال اور ڈھائی سال) اور ایک پوتا (5 سال) ہیں ۔ بڑی پوتی بڑے بیٹے زکریا کی بیٹی ہے اور اٹلانٹا ۔ جارجیا ۔ امریکہ میں ہے ۔ ہمیں 11 ستمبر 2001ء کے بعد سے ویزہ نہیں دیتے کہ آرڈننس فیکٹری میں ملازمت کی تھی کہیں وائٹ ہاؤس کو بھک سے نہ اُڑا دوں ۔ وہ لوگ 3 سال بعد آتے ہیں ۔ پوتا اور چھوٹی پوتی چھوٹے بیٹے فوزی کے بچے ہیں جو پونے 7 سال سے دبئی میں ہے ۔ تینوں بچے بہت پیار کرنے والے ہیں اور دادا ۔ دادی سے بہت لگاؤ رکھتے ہیں ۔ دراصل یہ والدین کی تربیت کا اثر ہوتا ہے

تینوں بچوں کے پیار کا طریقہ فرق فرق ہے ۔ چھوٹی پوتی ھناء سب سے زیادہ بے باک ہے ۔ 2 واقعات بیان کرتا ہوں

پہلا واقعہ ۔ جنوری تا اپریل 2014ء ہم دبئی میں تھے ۔ ھناء اپنی امی کے کام میں مُخل ہو رہی تھی ۔ میں سنگل صوفہ پر بیٹھتا تھا ۔ ھناء عام طور پر آ کر میری گود میں یا مجھے ایک طرف کر کے میرے ساتھ بیٹھ جاتی تھی ۔ اس دن میں نے اُس کا دھیان اپنی امی سے ہٹانے کی کوشش کیIMG-20131015-WA0004
میں ”ھناء ۔ آؤ دادا کے پاس بیٹھ جاؤ“
ھناء ”نہیں“
میں ”ھناء دادا سے پیار کرتی ہے“
ھناء ”نہیں“
میں ”دادا ھناء سے پیار کرتے ہیں“
ھناء ”نہیں“
میں ”ھناء دادا سے باتیں کرو“
ھناء ”نہیں“
میں ”دادا ھناء سے بات کرنا چاہتے ہیں“
ھناء ”نہیں نہیں نہیں“

جب نہیں کی کچھ زیادہ ہی گردان ہوگئی تو میں نے ایک کرتب سوچا اور کہا ”ابراھیم ۔ آپ دادا سے پیار کرتے ہو ۔ آؤ دادا کے پاس بیٹھ جاؤ“
ابراھیم کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے ھناء میری گود میں بیٹھ کر مجھ سے لپٹ گئی ۔ ایک ہاتھ سے بھائی کو پیچھے کرتی جائے اور کہتی جائے ”میرے دادا ۔ میرے دادا“

دوسرا واقعہ ۔ پچھلی عیدالاضحےٰ پر بچے اسلام آباد آئے ہوئے تھے ۔ کھانے کی 4 فٹ چوڑی 8 فٹ لمبی میز کے ایک سِرے پر ایک کرسی ہے جس پر میں بیٹھتا ہوں اور باقی سب کی بھی کرسیاں مقرر ہیں ۔ میز کی لمبائی کے ساتھ چار چار کرسیاں ہیں اور دوسرے سرے پر 3 کرسیاں ۔ ھناء ہمیشہ ہر ایک کو اُس کی کرسی پر بٹھاتی تھی ۔ ایک دن ھناء میری کرسی پر بیٹھ گئی

میں نے کہا ”ھناء ۔ یہ دادا کی کرسی ہے“
پھر بہو بیٹی نے کہا “ھناء ۔ دادا کو بیٹھنے دو“
ھناء میرے داہنے ہاتھ والی لمبائی کے ساتھ آخری کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ”دادا ۔ وہاں بیٹھ جائیں“
میں وہاں نے بیٹھ کر کہا ”ھناء دادا سے پیار کرتی ہے“
ھناء ”نہیں“
ھناء کی دادی نے کہا ”ھنا دادی سے پیار کرتی ہے“
ھناء ”نہیں ۔ میں دادا سے پیار کرتی ہوں“
میں نے کہا ”میں کھانا کیسے کھاؤں ؟“
ھناء نے اپنی امی سے کہا”دادا کو کھانا دیں“
بہو بیٹی نے کہا ”میں نہیں دیتی ۔ آپ خود جا کر دو“
ھناء مجھ سے مخاطب ہو کر قریب والی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے”یہاں آ جائیں“

کھانا کھانے کے بعد ھناء اپنی امی سے چاکلیٹ کا ڈبہ لے کر آئی سب سے اچھی چاکلیٹ نکال کر مجھے دی پھر دادی کو دی ۔ اپنے والدین اور پھوپھو کو ایک ایک چاکلیٹ دے کر پھر ہمیں ایک ایک چاکلیٹ اور دی ۔ اس کے بعد میری گود میں بیٹھ گئی ۔ کبھی میرے ساتھ بغل گیر ہو کبھی چومے اور دادا یہ دادا وہ باتیں کرتی جائے جیسے مجھے راضی کر رہی ہو

انسان بمقابلہ جانور

انسان دوسرے انسان کے ساتھ بالخصوص جب اُس کا تعلق بالکل مختلف قبیلہ اور رنگ و نسل سے ہو ۔ ”کیسا سلوک کرتا ہے“ کا نقشہ ذہن میں قائم کر لیجئے پھر
مندرجہ ذیل ربط پر کلِک کر دیکھیئے کہ کون بہتر ہے ؟

انسان یا جانور ؟

کیا پردہ صرف مسلمان عورتیں کرتی ہیں ؟

Jew Women
متصل تصویر دیکھ کر اگر آپ سمجھیں کہ یہ مسلمان ہیں تو آپ غلطی پر ہیں

یہ حقیقت ہے کہ قرآن کے علاوہ اللہ کی اُتاری ہر کتاب توریت ہو یا انجیل یا زبور سب میں پردہ کا حُکم موجود تھا ۔ جس طرح آج مسلمانوں کی بڑی تعداد دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر پردے کو تَج چکی ہے اسی طرح پہلے والے اہلِ کتاب نے بھی کیا

اُوپر والی تصویر میں 2 مرد اور 2 عورتیں اور نچلی تصویر میں 2 عورتیں یہودی ہیں ۔ یہ مسلمانوں کی طرح پردہ کے پابند ہیں اور مسلمانوں ہی کی طرح اپنی عورتوں کو درمیان میں بٹھایا ہے کہ کوئی غیر مرد قریب نہ آنے پائے ۔ یہ پردے کی پابند یہودی Jew women-2عورتیں ماضی سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ آجکل کے جدید زمانے کی عورتیں ہیں جو پردے پر فخر محسوس کرتی ہیں

بہت سے یہودی اپنے خاندان کی ہر عمر کی لڑکیوں کو اسی طرح مکمل پردہ کرانے لگے ہیں سوائے اس کے کہ چھوٹی بچیاں چہرہ نہیں ڈھانپتیں ۔ اسرائیل میں بھی ایسی پردے والی یہودی عورتیں کافی تعداد میں ہیں ۔ اِن یہودی عورتوں کا اعتقاد ہے کہ عورت کے جسم کو غیر مردوں کی نظروں سے بچانا ضروری ہے چنانچہ وہ اپنے پورے جسم کو اچھی طرح سے اس طرح ڈھانپتی ہیں کے جسم کے خد و خال بالکل ظاہر نہ ہونے پائیں

مندرجہ ذیل ربط کی دوسری سطر پر کلِک کر ایک وڈیو دیکھیئے جس میں دکھایا گیا ہے کہ پردہ کرنے والی یہودی عورتیں گلی بازار میں کس طرح جاتی ہیں ۔ عورت کے ساتھ 2 چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو ننگے سر نہیں ہیں ۔ یہودی مذہب کے مطابق اُنہیں ٹوپیاں پہنائی گئی ہیں
//www.dailymotion.com/embed/video/xzfb69
The new ultra-Orthodox Jewish woman by old-mcdonald

یہودی عورتوں کا یہ لباس جو مسلمانوں کے برقعہ اور نقاب کی مانند ہے فرُمّکا (frumka) کہلاتا ہے جو فرُمّ یعنی عابد (devotee) اور لفظ ” بُرقعہ“ سے بنا ہے ۔ ربی داؤد بنِظری (Rabbi David Benizri) کے مطابق یہ تحریک یہودیوں میں 6 یا 7 سال قبل 100 عورتوں نے شروع کی جو مقبول ہونا شروع ہوئی اور اب ایسی عورتوں کی تعداد 30000 سے بڑھ چکی ہے ۔ ربی داؤد بنِظری مزید کہتے ہیں کہ عورت کی حیاء کی بگڑتی صورتِ حال نے یہودی عورتوں کے ذہنوں میں بیداری اور اپنے جسم کی حفاظت کا جذبہ پیدا کیا

ایک 22 سالہ یہودی عورت ساری رَوتھبرگ (Saari Rothberg)۔ نے پردے کے فوائد بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہمارے جسم ہمارے خاوندوں کی امانت ہیں انہیں غیر کیوں
دیکھیں
یہاں کلِک کر کے اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں

اب مسئلہ صرف یہ ہے مسلم خواتین اپنے دین کی پیروی کرتے ہوئے جسم کو اچھی طرح ڈھانپیں تو دنیا کے نام نہاد ترقی پسند اور آزادی کے علمبردار اُنہیں ” انتہاء پسند“ یا ”مجبور و مظلوم“ قرار دیتے ہیں اور اُنہیں اس پردے سے آزاد کرانے کیلئے آسمان سر پر اُٹھا لیا جاتا ہے لیکن جب یہودی عورتیں پردہ کریں تو اسے اُن کی خوبی اور اپنے مذہب سے لگاؤ قرار دیا جاتا ہے

یہی نہیں کچھ ممالک نے قانون بنا کر مُسلم عورتوں کیلئے پردہ کرنا ممنوع قراد دے دیا ہے اور یورپ کے باقی ممالک اور کئی امریکی ریاستوں میں پردہ میں مُسلم خاتون نظر آئے تو اُسے تنگ اور پریشان کیا جاتا ہے

یہی اصل چہرہ ہے انسانی حقوق کی علمبردار آزاد خیال دنیا کا