Category Archives: معلومات

قرآن شریف کا قدیم ترین نُسخہ برمنگھم یونیورسٹی میں دریافت

سُبحان اللہ ۔ نہ مُلک مسلمانوں کا ۔ نہ یونیورسٹی مسلمانوں کی ۔ نہ محقق مُسلم ۔ اور ثبوت کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے زمانہ سے آج تک قرآن کی عبارت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ تفصیل کچھ یوں ہے

اتحادیوں کی سلطنت عثمانیہ پر 1908ء سے 1918ء تک یلغار کے نتیجہ میں شرق الاوسط (مشرقِ وسطہ) اتحادیوں کے قبضہ میں چلا گیا ۔ آج کا عراق اُن دنوں تعلیم کا گڑھ تھا ۔ 1920ء میں کلدائی قوم کا ایک پادری (بابل کا باشندہ) الفانسو مِنگانا (Alphonse Mingana) مُوصل سے عربی کے 3000 قلمی نُسخے برطانیہ لے کر گیا تھا ۔ یہ نُسخے 95 سال سے مِنگانا کا ذخیرہ (Mingana Collection) کے نام سے برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری میں گُمنام حیثیت میں پڑے تھے اور کسی کے عِلم میں نہ تھا کہ ان میں قرآن شریف کا دنیا کا قدیم ترین نُسخہ بھی ہے

قرآن شریف کے اس نُسخے کی عمر کا تعین ریڈیو کاربن ڈیٹنگ (Radiocarbon dating) یعنی جدید سائنسی طریقہ کے ذریعہ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ نسخہ کم از کم 1370 سال پرانا ہے ۔ چنانچہ یہ قرآن شریف کے دنیا میں اب تک حاصل کئے گئے قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے ۔ برطانیہ کے لائبریری ماہر ڈاکٹر محمد عیسٰے والے کا کہنا ہے کہ یہ ایک حیران کُن دریافت ہے جس سے مسلمانوں کو مُسرت ہو گی
1یہ اوراق بھیڑ یا بکرے کی کھال کے ہیں

پرانے ترین نُسخے
جب پی ایچ ڈی کرنے والے محقق البا فیڈیلی (Alba Fedeli) ان اوراق کی باریک بینی کی تو ان کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور نتیجہ حیران کن نکلا ۔ ٹیسٹ کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلریٹر یونٹ (Oxford University Radiocarbon Accelerator Unit) نے بتایا کہ بھیڑ اور بکرے کی کھال پر لکھے گئے قرآن شریف کے نسخے بہت پرانے ہیں ۔ یونیورسٹی کے مخصوص مخازن کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ یہ نسخہ اتنا پرانا ہو گا
2

برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس (Prof David Thomas) جو اسلام اور عیسائیت کے پروفیسر ہیں نے کہا ”جس کسی نے بھی اسے لکھا ہو گا وہ ضرور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو قریب سے جانتا ہو گا اور اُس نے اُنہیں بولتے ہوئے بھی سُنا ہو گا ۔ ان ٹیسٹوں سے جو 95 فیصد درست ہوتے ہیں قرآن شریف کے نسخے کے مختلف اوراق کی تاریخیں 568ء اور 645ء کے درمیان نکلتی ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اس کی لکھائی طلوعِ اسلام کے چند سال کے اندر شروع ہوئی“۔

پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے مزید کہا ”مسلمانوں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پر قرآن شریف کا نزول 610ء اور 632ء کے درمیان ہوا جبکہ 632 اُن کے وصال کا سال ہے“۔
3

پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے بتایا کہ قرآن شریف کے کچھ حصے کھال کے بنے کاغذ ۔ پتھر ۔ کھجور کے پتوں اور اونٹ کے کشانے کی چوڑی ہڈی پر بھی لکھے گئے تھے ۔ ان سب کو کتابی شکل لگ بھگ 650ء میں دی گئی تھی ۔ متذکرہ نسخے کی عبارت تقریباً وہی ہے جو آج کے قرآن شریف کی ہے ۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے قرآن شریف میں کوئی تحریف نہیں ہوئی یا بہت ہی کم تبدیلی ہوئی ہے“۔

حجازی رسم الخط میں لکھا ہوا قرآن شریف کا نسخہ سب سے پرانے نسخوں میں سے ایک ہے ۔ برمنگھم یونیورسٹی میں موجود نسخہ زیادہ سے زیادہ 645ء کا ہو سکتا ہے

یہ معلومات سین کوفلان (Sean Coughlan) کے 22 جولائی 2015ء کو شائع ہونے والے مضمون سے لی گئیں

بادشاہی مسجد لاہور

میری ڈائری میں 27 جنوری 1957ء کی تحریر
زمین سے مسجد کے صحن کے فرش تک 24 سیڑھیاں ہیں
مینار کی 183 سیڑھیاں ہیں

بادشاہی مسجد لاہور مُغل بادشاہ ابو المظفر محی الدین محمد اورنگ زیب (1658ء تا 1707ء) نے تعمیر کرائی ۔ اس کی تعمیر 1671ء میں شروع ہوئی اور 1673ء میں مکمل ہوئی ۔ یہ پاکستان اور جنوبی ایشیا میں دوسری سب سے بڑی اور دنیا میں پانچویں سب سے بڑی مسجد ہے ۔ حکومتِ پاکستان نے 1993ء میں اسے دنیا کے ورثہ میں شامل کرنے کیلئے یونیسکو کو درخواست کی ۔

سکھوں کے دورِ حکومت (1799ء تا 1849ء) میں اسے فوج کے گھوڑوں کا اصطبل بنا دیا گیا تھا ۔ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1849ء میں لاہور کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس کے استعمال میں تبدیلی نہ کی اور ملحقہ شاہی قلعے کو ملٹری گیریزن کے طور پر استعمال میں رکھا ۔ مسجد کی چار دیواری میں سے تین میں 80 ہُجرے جو طُلباء کے مطالعہ کیلئے تھے انہیں سکھوں نے ملٹری سٹور کے طور پر استعمال کیا ۔ برطانوی حکومت نے اس خدشے پر انہیں مسمار کر دیا کہ کہیں انہیں برطانیہ مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال نہ کیا جائے اور وہاں کھُلے دلان بنوا دیئے تھے جو آج تک موجود ہیں ۔ مسجد کے غلط استعمال سے عمارت کو کافی نقصان پہنچا تھا ۔ انگریزوں نے مسمانوں میں پھیلتے غم و غصے کو بھانپ کر 1852ء میں ایک بادشاہی مسجد بحالی اتھارٹی بنائی ۔ 1852ء کے بعد کبھی کبھی تھوڑی تھوڑی مرمت کا کام ہوتا رہا ۔ جب 1939ء میں سکندر حیات خان وزیرِ اعلٰی پنجاب بنا تو اُس نے مسلمانوں سے مرمت کیلئے چندہ اکٹھا کیا اور مرمت کے کام میں تیزی آئی تھی ۔ مرمت اور زیبائش کا زیادہ کام پاکستان بننے کے بعد ہوا

قومی زبان اور ہم

پیش لفظ از بلاگر
ہم کیسے لوگ ہیں کہ ہمیں اپنی کوئی چیز پسند نہیں ۔ اپنے مُلک میں بنی اشیاء کو ہم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ کمال یہ کہ اپنے مُلک کی بنی اشیاء دھوکہ کھا کر مہنگے داموں خریدتے ہیں ۔ اپنی قومی زبان بولنا شاید ہتک خیال کرتے ہیں ۔ قومی زبان بولتے ہوئے انگریزی کا تڑکا لگانا شاید ترقی کا نشان سمجھا جاتا ہے

1973ء میں اُردو کو 20 سال میں مُلک کے تمام اداروں میں ہر سطح پر رائج کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ہوا یہ کہ وعدہ کرنے والوں نے اس پر پہلا قدم بھی نہ اُٹھایا ۔ ضیاء الحق کی آمریت کے دوران اس پر زور دیا گیا اور تمام قوانین اور دستاویزات کا اُردو میں ترجمہ کرنے کیلئے مقتدرہ قومی زبان کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا ۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کے سینیئر پروفیسر صاحبان کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے ذمہ تمام غیر مُلکی زبانوں میں موجود تدریسی کُتب کا اُردو میں ترجمہ کرنا لگایا گیا ۔ جنہوں نے احسن طریقہ سے کام شروع کر دیا
میں نے 1984ء میں دائرہ معارف الاسلامیہ اور فقہ اربعہ مذاہب خریدی تھیں اور میرے پاس ہیں یہ دو مجموعے اس کمیٹی کی قابلیت اور محنت کا ثبوت ہیں ۔ دائرہ معارف الاسلامیہ جو اینسائیکلوپیڈیا آف اسلام کا ترجمہ تھا کو مکمل بھی کیا گیا تھا چنانچہ 8 جلدوں کی 22 جلدیں بن گئیں تھیں
ضیاء الحق کی حکومت کے بعد تدریسی کُتب کا ترجمہ کرنے والی کمیٹی کو ختم کر دیا گیا ۔ مقتدرہ قومی زبان کا ادارہ یتیم کر دیا گیا اور اب شاید موجود ہی نہیں ہے

اب پڑھیئے تازہ خبر
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اُردو اور مقامی زبانوں میں قوانین اورزبانوں کی ترویج سے متعلق مقدمے کی سماعت کی
وفاق کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
صدر، وزیر اعظم اور وفاقی وزراء سرکاری تقریبات میں اندرون اور بیرونِ مُلک اُردو زبان میں تقاریر کریں گے،
تمام سرکاری ادارے 3 ماہ کے اندر اپنی پالیسیوں اور قوانین کا اُردو ترجمہ شائع کریں گے
الیکشن کمیشن، ڈرائیونگ لائسنسنگ اتھارٹی کےفارم ا اوریوٹیلیٹی بلوں سمیت اس نوع کی تمام تر دستاویزات 3 ماہ کے اندر صارفین کو اُردو میں فراہم کی جائیں گی
پاسپورٹ کے تمام تر مندرجات انگریز ی کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی منتقل کئے جائیں گے
تمام وفاقی ادارے اپنی ویب سائٹس بھی 3 ماہ کے اندر اندر اُردو میں منتقل کریں گے
پورے ملک میں تمام شاہراہوں پر نصب سائن بورڈ بھی انگریزی کے ساتھ اُردو میں لکھے جائیں
تمام سرکاری تقریبات، استقبالیوں کی کارروائی بھی مرحلہ وار اُردو میں شروع کی جائے
اُردو کے نفاذ و ترویج کے سلسلہ میں ادارہ فروغ قومی زبان کو مرکزی حیثیت دی جائے گی تاکہ اس قومی مقصد کی بجا آوری کے راستے میں رکاوٹوں کو مؤثر طریقے سے جلد از جلد دور کیا جاسکے

بات ہے سوچ کی

سوچ آدمی کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہے
اور
پستی کی گہرائیوں میں بھی پہنچا سکتی ہے
سوچ
درست ہو تو دُشمن بھی دوست بن سکتا ہے
اور
بیمار ہو تو اچھی چیز بھی بُری لگتی ہے
سوچ ایسی نازک چیز ہے جس کے بیمار ہو جانے کا بہت زیادہ خدشہ ہوتا ہے

جانور بھی عقل رکھتے ہیں

مجھے بچپن سے سیر و سیاحت کا شوق رہا جسے پورا کرنے کیلئے میں بڑے شہروں کی بجائے دیہات ۔ پہاڑوں اور جنگلات کا رُخ کیا کرتا تھا ۔ اس سیر سیاحت کے دوران میں جانوروں اور ان کی عادات کا مطالعہ بھی کرتا رہا ۔ اس مطالعے کے دوران ہر لمحے دل سے نکلتا رہا ”سُبحان اللہ سُبحان اللہ“ ۔ عام انسانوں کا خیال ہے کہ انسان جانور سے اسلئے افضل ہے کہ انسان عقل رکھتا ہے ۔ عملی مشاہدے سے یہ خیال غلط نظر آتا ہے

کبھی آپ نے پرندوں کو گھونسلہ بناتے متواتر دیکھا اور اُس پر غور کیا ہے ؟ خاص کر ایک چھوٹے سے پرندے بیہا کو جو اپنا گھونسلہ درخت کی ٹہنی سے لٹکا ہوا بناتا ہے ۔ یہ بیضوی شکل کا ہوتا ہے اور اس میں ایک طرف گول سوراخ ہوتا ہے
ایک چوپایا ہے جسے شاید لُدھڑ (Beaver) کہتے ہیں وہ درختوں کی ٹہنیوں سے پانی کے اوپر اپنا گھر بناتا ہے ۔ چھوٹی ندیوں پر بند (dam) بنا کر پانی کی سطح بلند کرتا ہے تاکہ پانی کے بہاؤ کی رفتار کم ہو اور اسے خوراک حاصل کرنے میں بھی آسانی ہو

مندرجہ بالا پرندہ اور چوپایا تو ہر جگہ نہیں ملتے ۔ گائے تو ہر علاقے میں پائی جاتی ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں ۔ گائے اپنے کمرے سے باہر نکلنے کیلئے کُنڈی کیسے کھولتی ہے ؟ بجلی سے چلنے والا دروازہ کیسے کھولتی ہے ؟ پانی پینے کیلئے ہینڈ پمپ کیسے چلاتی ہے ؟
یہاں کلِک کر کے وڈیو دیکھیئے

شاہی قلعہ ۔ لاہور

میری ڈائری میں 27 جنوری 1957ء کی تحریر

جھروکہ (جائے نشست شاہانِ مُغلیہ) 1566ء میں جلال الدین اکبر بادشاہ نے تعمیر کرایا
دولت خانہ بھی اکبر بادشاہ نے 1566ء میں تعمیر کرایا
مکاتیب خانہ (دفتر) نورالدین محمد سلیم جہانگیر (1569ء تا 1627ء) نے تعمیر کرایا
موتی مسجد شہاب الدین محمد شاہجہاں 1628ء تا 1629ء میں اور احاطہءِ شاہجہاں (Quadrangle) اور دیوانِ خاص 1645ء میں تعمیر کرایا

شاہی قلعہ میں پڑی توپ جو 1863ء میں امیر شیر علی افغان نے بنائی تھی کے مادہ کا تجزیہ مندرجہ ذیل ہے
تانبا ۔ 84.87 فیصد
جست ۔ 12.28 فیصد
سکہ ۔ 1.4 فیصد
قلعی ۔ 1.18 فیصد
لوہا ۔ 0.1 فیصد
نکل ۔ 0.03 فیصد

شرم و حیاء کیا ہوتی ہے

عمران اقبال صاحب کے بلاگ پر ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے“ کے عنوان سے مانو بلی کے نام سے ایک مضمون لکھا گیا ۔ میں عمران اقبال صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ اُن کی مہمان لکھاری کی معلومات پر اعتراض کی جسارت کر رہا ہوں ۔ اگر عُمر میں لکھاری محترمہ مجھ سے بڑھی ہیں تو اُن سے بھی معذرت ۔ مجھے لکھنے کی جراءت محترمہ کی تحریر کے آخر میں مرقوم اِس ”نوٹ“ سے ہوئی ۔ ۔ ۔ ” اگر کسی دوست کو اختلاف ہو یا ذہن میں کوئی سوال آئے تو میں جواب دینے کیلئے حاضر ہوں ۔ اگر میں نے کہیں کوئی واقعہ مسخ کرکے لکھا ہو تو نشاندہی ضرور کیجیئے گا”۔

محترمہ نے دعوٰی کیا ہے ۔ ۔ ۔ ” اتنا دعوی ضرور کرتی ہوں کہ جو تاریخی حقائق بیان کرونگی من و عن کرونگی“۔
محترمہ شاید بے پَر کے اُڑتی خبروں سے محسور ہو گئی ہیں اور پاکستان کی تاریخ کا علم بھی کم عُمری کے باعث کم ہی رکھتی ہیں

قارئین اور بالخصوص محترمہ کے عِلم کیلئے عرض کر دوں کہ تاریخ کچھ یوں ہے
قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے ۔ ایک گہری سازش کے تحت 16 اکتوبر 1951ء کو قائدملت لیاقت علی خان کو قتل کروا دیا گیا ۔ خواجہ ناظم الدین کو بہلا پھُسلا کر وزیراعظم بنا دیا گیا اور سابق سیکریٹری فنانس غلام محمد (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) گورنر جنرل بنا جو سازش کی ایک کڑی تھی ۔ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ نے آئین کا مسؤدہ تیار کر لیا اور پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی پاکستان کیلئے منتخب کردہ اسمبلی میں پیش ہوا ہی چاہتا تھا کہ غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے پاکستان کے امریکہ میں سفیر محمد علی بوگرہ (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) کو وزیراعظم بنا دیا ۔ محمد علی بوگرہ نے آئین کا ایک متبادل مسؤدہ تیار کرایا جو اسمبلی کو منظور نہ تھا ۔ فیصلہ کیا گیا کہ قائداعظم کی ھدایات کی روشنی میں تیار کیا گیا آئین وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی مرضی کے بغیر اسمبلی سے منظور کرا لیا جائے ۔ جسے روکنے کیلئے غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954ء کو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی توڑ دی ۔ سپیکر مولوی تمیزالدین نے چیف کورٹ (اب ہائی کورٹ) میں اس کے خلاف درخواست دی جو منظور ہوئی مگر غلام محمد نے فیڈرل کورٹ (اب سپریم کورٹ) میں اپیل دائر کی جہاں غلام محمد کا ہم نوالہ و ہم پیالہ چیف جسٹس منیر احمد (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) تھا ۔ اُس نے ملک کے مستقبل پر اپنی یاری کو ترجیح دی ۔ نظریہءِ ضرورت ایجاد کیا اور اپیل منظور کر لی ۔ نظریہءِ ضرورت پہلا مرض ہے جو پاکستان کو لاحق ہوا ۔ محمد علی بوگرہ نے غلام محمد کی منشاء کے مطابق نام نہاد ٹیکنوکریٹ حکومت تشکیل دی اور فوج کے سربراہ (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) کو وردی میں وزیر دفاع بنا دیا یعنی پاکستان کا عنانِ حکومت مکمل طور پر سفید اورخاکی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں چلا گیا ۔ یہ دوسرا مرض ہے جو پاکستان کو لاحق ہوا ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل عنوان پر کلِک کر کے ایک دستاویزی ثبوت کا حوالہ دیکھیئے
خُفیہ کتاب کا ایک ورق

غلام محمد پر فالج کا حملہ ہوا ۔ سیکریٹری دفاع سکندر مرزا (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ جسے قائداعظم محبِ وطن نہیں جانتے تھے) ڈپٹی گورنر جنرل بن گیا ۔ عملی طور پر وہ گورنر جنرل ہی تھا کیونکہ غلام محمد کچھ لکھنے یا بولنے کے قابل نہ تھا ۔ سکندر مرزا جب سیکریٹری دفاع تھا خود ہی نوٹیفیکیشن جاری کر کے میجر جنرل کا لاحقہ لگا لیا تھا ۔ 8 اگست 1955ء کو غلام محمد کو برطرف کر کے سکندر مرزا پکا گورنر جنرل اور پھر صدر بن گیا ۔ سکندر مرزا نے 11 اگست 1955ء کو چوہدری محمد علی کو وزیراعظم بنا دیا ۔ 30 ستمبر 1955ء کو مغربی پاکستان کو وَن یونٹ بنا کر مغربی پاکستان کا سربراہ ڈاکٹر عبدالجبّار خان المعروف ڈاکٹر خان صاحب (عبدالغفّار خان کے بڑے بھائی یعنی اسفندیار ولی کے دادا کے بھائی) کو بنا دیا گیا جو کانگرسی اور نظریہ پاکستان کا مخالف تھا ۔ پاکستان بننے سے پہلے جب پاکستان کیلئے ووٹنگ ہوئی تھی تو ڈاکٹر خان صاحب شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب خیبر پختونخوا) کا قابض حکمرانوں کی طرف سے حاکم تھا اور اس نے پوری کوشش کی تھی کہ صوبے کے مسلمان کانگریس کے حق میں ووٹ ڈالیں لیکن ناکام رہا تھا ۔ مگر اسے سکندر مرزا کا اعتماد حاصل تھا ۔ ڈاکٹر خان صاحب نے بتدریج مُخلص مسلم لیگیوں کو فارغ کر کے اُن کی جگہ دوغلے یا اپنے ساتھی رکھ لئے ۔ چوہدری محمد علی نے بوگرہ کے تیار کروائے ہوئے آئین کے مسؤدے میں کچھ ترامیم کر کے 23 مارچ 1956ء کو آئین منظور کرا لیا۔ ڈاکٹر خان صاحب کی مہربانی سے حکومت میں اکثریت نظریہ پاکستان کے مخالفین کی ہو چکی تھی جس کے نتیجہ میں چوہدری محمد علی 8 ستمبر 1956ء کو مجبوراً مُستعفی ہو گئے

حسین شہید سہروردی ڈاکٹر خان صاحب کی پارٹی سے اتحاد کر کے 12 ستمبر 1956ء کو وزیراعظم بنے لیکن بیوروکریسی کی سازشوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور عزت بچانے کیلئے 10 اکتوبر 1957ء کو مُستعفی ہو گئے ۔ ان کی جگہ آئی آئی چندریگر کو قائم مقام وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ وہ صرف 2 ماہ رہے ۔ 16 دسمبر 1957ء کو ملک فیروز خان نون وزیراعظم بنے ۔ اُس وقت تک مُلکی حالات نے مغربی پاکستان میں خان عبدالقیوم خان کی سربراہی میں مسلم لیگ اور مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہرودری کی سربراہی میں عوامی لیگ کو مضبوط کر دیا تھا ۔ یہ دونوں بڑی جماعتیں متحد ہو گئیں اور ملک فیروز خان نون کو سہارا دیا جس سے سکندر مرزا کو اپنی کرسی خطرے میں نظر آئی اور اُس نے جون 1958ء میں کانگرسی لیڈر خان عبدالغفار خان (جو نہ صرف پاکستان بنانے کے مخالف تھے بلکہ قائداعظم کے بھی مخالف تھے) سے مدد کی درخواست کی اور مشرقی پاکستان میں گورنر کے ذریعہ حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔ آخر 7 اور 8 اکتوبر 1958ء کی درمیانی رات سکندر مرزا نے فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع جنرل محمد ایوب خان کو آگے بڑھنے کا کہا ۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہیں

محترمہ مزید لکھتی ہیں ”پاکستان میں فرقہ وارا نہ دہشتگردی کو فروغ اور عوام خاص طور پر پنجاب میں انتہاپسندی کا جو بیج ضیا نے بویا اسکی آبیاری کے علاوہ تو مجھے ‘شہید’ کا کوئی اور مشن سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ یہی ایک کام میاں صاحب نے بخوبی کیا۔ آج بھی دہشتگرد تنظیموں کو پیغام بھیجے جاتے ہیں کہ پنجاب کو چھوڑ کر کہیں بھی دہشتگردی پر انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا“۔

محترمہ کا مندرجہ بالا بیان بے بنیاد اور لَغو ہے ۔ محترمہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ پورے پاکستان میں ہر قسم کے دہشتگردوں کے خلاف بلاامتیاز فوجی کاروائی کا فیصلہ نواز شریف ہی نے کیا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے دہشتگردی کے واقعات تو 1972ء سے ہوتے چلے آرہے تھے جن میں کچھ اضافہ 1977ء کے بعد ہوا جب 2 نام ”ہتھوڑا گروپ“ اور ”الذوالفقار“ زبان زدِ عام ہوئے تھے ۔ الذوالفقار والے پی آئی اے کا ایک جہاز اغواء کر کے افغانستان لے گئے تھے اور اس جہاز میں سوار ایک شخص کو ہلاک بھی کیا تھا
دہشتگردی کے بڑے واقعات ستمبر 2001ء کے بعد شروع ہوئے جب پرویز مشرف نے پاکستان کی بجائے امریکہ کی مکمل تابعداری اختیار کی ۔ ان میں شدت اُس وقت آئی جب 13 جنوری 2006ء کو امریکی ڈرون نے باجوڑ کے علاقہ ڈماڈولا میں ایک مدرسے کو میزائل مار کر درجنوں معصوم بچوں کو ہلاک کر دیا اور پرویز مشرف نے کہا کہ ”یہ حملہ ہمارے گن شپ ہیلی کاپٹر نے کیا ہے“۔ اگر بات کراچی کی ہے تو وہاں کے رہنے والے ہی اس کا سبب ہیں
ضیاء الحق نے 3 ماہ کا کہہ کر حکومت سنبھالی اور پھر 11 سال چپکا رہا اس وجہ سے وہ مجھے پسند نہیں لیکن ضیاء الحق پر جس فرقہ واریت ۔ دہشتگردی ۔ کلاشنکوف کلچر اور افغانستان میں دخل اندازی کا الزام لگایا جاتا ہے اُس کی پنیری ذوالفقار بھٹو نے لگائی تھی ۔ ملاحظہ ہو

1 ۔ صوبہ سندھ میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے بے بنیاد زہرآلود تقاریر کیں اور وہ سندھی جنہوں نے قائد اعظم کا ساتھ دیا تھا اور پاکستان کیلئے ہونے والی ووٹنگ میں شاہنواز بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو کے والد) کے خلاف قائداعظم کے نام زد کردہ سکول ٹیچر کو جتوا دیا تھا اُن کو پنجابی اور اُردو بولنے والوں کا دشمن بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ مزید کالا باغ ڈیم بنانے کی مکمل تیاری ہو چکی تھی ۔ کنسٹرکشن کمپنی کا چناؤ ورلڈ بنک نے کرنا تھا اسلئے کسی پاکستانی کی جیب میں ناجائز پیسہ جانے کی اُمید نہ تھی ۔ مال کمانے کی خاطر ذوالفقار علی بھٹو نے صوبہ سندھ سوکھنے کا شوشہ چھوڑ کر کالا باغ کے خلاف سندھ میں فضا ہموار کی اور پاکستان انجنیئرنگ کانگرس (جس میں اراکین کی اکثریت صوبہ سندھ سے تھی) کی مخالفت کے باوجود تربیلہ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے آج تک پاکستان کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے

2 ۔ فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) بنائی جس میں جیب کُترے ۔ جوئے باز اور دیگر آوارہ جوانوں کو بھی بھرتی کر کے اُنہیں آٹومیٹک رائفلیں دے دیں ۔ انہیں نہ صرف سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا بلکہ اپنی ہی پارٹی میں جس نے اختلاف کیا اُسے بھی پٹوایا یا ھلاک کیا گیا ۔ اس کی اہم مثال احمد رضا قصوری کے والد کی ہلاکت ہے جو بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لے گئی

3 ۔ آئی ایس آئی پاکستان کا مُخلص اور محافظ ادارہ تھا ۔ اس میں سیاسی شاخ بنا کر آئی ایس آئی کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جو بعد میں رواج پکڑ گیا اور آئی ایس آئی سیاست میں بھرپور طور پر ملوّث ہو گئی

مزید مندرجہ ذیل عنوانات پر کلِک کر کے پڑھیئے
4 ۔ دہشتگردی کا ذمہ دار کون
5 ۔ سرکاری دفاتر میں دھونس اور دھاندلی کیسے شروع ہوئی

محترمہ نے آگے چل کر لکھا ہے ”نواز شریف ایک اوسط درجے کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انکے والد صاحب کی ایک چھوٹی سی فاؤنڈری تھی جو بھٹو کے زمانے میں قومیائی گئی اور ضیاالحق نے واپس دی ۔ اس کی تفصیلات اگلے مضمون میں لکھوں گی

مجھے نواز شریف نے نہ کچھ دیا ہے اور نہ کچھ ملنے کی کبھی اُمید ہوئی ۔ لیکن سچ لکھنا میرا حق ہے ۔ نواز شریف کے والد میاں محمد شریف اور برادران (کُل 6 بھائی) نے 1930ء میں فاؤنڈری بنائی ۔ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو 1958ء یا 1959ء میں ہماری کلاس کو اتفاق فاؤنڈری کے مطالعاتی دورے پر لیجایا گیا تھا ۔ اُن دنوں بھی یہ فاؤنڈری چھوٹی نہ تھی ۔ ہمارے پروفیسر صاحب نے اتفاق فاؤنڈری جاتے ہوئے ہمیں بتایا تھا کہ ”پہلا بڑا کام اس فاؤنڈری نے پاکستان بننے کے چند سال بعد کیا کہ جن شہروں میں ہندو جاتے ہوئے بجلی گھروں کو آگ لگا گئے تھے اُن کیلئے چھوٹے چھوٹے بجلی گھر تیار کر کے ان شہروں میں نصب کئے ۔ اگر یہی پاور سٹیشن درآمد کئے جاتے تو دوگُنا خرچ ہوتا“۔ اُس دور میں پاکستان میں کوئی فاؤنڈری سوائے اس کے نہ تھی ۔ چھوٹا چھوٹا ڈھالنے کا کام ہو تو اُسے بھی فاؤنڈری کہہ دیا جاتا ہے مگر ان میں نہ تو پیداوار کا خاص معیار ہوتا ہے اور نہ ہی یہ بڑا کام کر سکتی ہیں
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دورِ حکومت سے قبل اتفاق فاؤنڈری کی جگہ اتفاق گروپ آف انڈسٹریز لے چکا تھا جو بغیر معاوضہ قومیا لیا گیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جن کارخانہ داروں نے چارہ جوئی کی اُنہیں اُن کے کارخانے واپس دے دیئے گئے تھے کیونکہ وہ خسارے میں جا رہے تھے

محترمہ نے مزید لکھا ہے ”بینظیر کی حکومت گرانے کیلئے اسامہ بن لادن سے پیسے لینے والے میاں صاحب
یہ خبر کسی محلہ اخبار میں چھپی ہو تو معلوم نہیں البتہ کسی قومی سطح کے اخبار میں نہیں چھپی اور نہ ہی پیپلز پارٹی (جو مسلم لیگ نواز کی مخالف سب سے بڑی اور پرانی جماعت ہے) کے کسی سرکردہ لیڈر کے منہ سے سُنی گئی ہے ۔ پکی بات ہے کہ کم از کم 2001ء تک اوسامہ بن لادن افغانستان میں تھا ۔ اگر امریکہ نے 2 مئی 2011ء کو اُسے ایبٹ آباد میں ہلاک کیا تو وہاں وہ پرویز مشرف یا آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں آیا اور رہائش رکھی ۔ اس لحاظ سے تو پرویز مشرف اور آصف علی زرداری اوسامہ بن لادن کے دوست ہوئے

بینظیر بھٹو صاحبہ سیاسی لحاظ سے جو کچھ تھیں وہ ایک طرف لیکن میں اُن کا احترام اسلئے کرتا ہوں کہ اُنہیں اپنے مُلک کی مٹی سے پیار تھا اور اسی وجہ سے میں محمد نواز شریف کو بھی اچھا سمجھتا ہوں
ایک اہم حقیقت جسے ہمارے ذرائع ابلاغ نے اہمیت نہیں دی یہ ہے کہ لیاقت علی خان ۔ ضیاء الحق اور بینظیر بھٹو کو ہلاک کرانے کے پیچھے ایک ہی ہاتھ تھا اور ہماری ناعاقبت اندیشی کہیئے یا بدقسمتی کہ میرے پڑھے لکھے ہموطنوں کی اکثریت اُس دُشمنِ پاکستان کو اپنا دوست بنانے یا کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے ناجائز قتل کی وجہ سے دوسرے واقعات میڈیا نے پسِ پُشت ڈال دیئے تھے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے قبل محمد نواز شریف پر کامیاب قاتلانہ حملہ ہوا ۔ ابھی اُن کی موت نہیں لکھی تھی اسلئے بچ گئے تھے ۔ ہوا یوں تھا کہ اسلام آباد آتے ہوئے جب وہ روات پہنچے تو چوہدری تنویر نے محمد نواز شریف کو زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا لیا تھا ۔ جب حملہ ہوا تو محمد نواز شریف کی گاڑی میں بیٹھے اُن کے سب محافظ ہلاک ہو گئے تھے ۔ چنانچہ ہلاک کروانے والا دراصل پاکستان کا دشمن ہے