Category Archives: معلومات

تنازعہ جموں کشمیر کی بنیاد ؟ ؟ ؟

جب برطانوی حکمرانوں نے مسلمانانِ ہِند کا مطالبہ مان لیا اور ہندوؤں کی نمائندہ سیاسی جماعت آل انڈیا کانگریس بھی راضی ہو گئی تو فیصلہ ہوا کہ ہندوستان کی تقسیم صوبوں کی بنیاد پر ہو گی جس کے مطابق 5 صوبے جہاں مسلمان اکثریت میں تھے (پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد ۔ بلوچستان اور بنگال) پاکستان میں شامل ہوں گے اور ریاستیں اپنی اپنی آبادی کی بنیاد پر فیصلہ کریں گی ۔ بعد میں برطانوی حکومت نے ہندوؤں کا مطالبہ مانتے ہوئے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا اعلان کر دیا
کافی بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ ہوا کہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کیلئے کم از کم اکائی ضلع ہو گی

انگریز حکمرانوں نے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان (ریڈ کلِف ایوارڈ) عیّاری کرتے ہوئے 14 اگست 1947ء کو نہ کیا بلکہ 3 دن بعد 17 اگست 1947ء کو کیا جس میں طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقہ جس میں ضلع گورداسپور کا بڑا علاقہ مع تحصیل پٹھانکوٹ شامل تھا بھارت کا حصہ بنا دیا ۔ اس طرح جواہر لال نہرو کی خواہش پوری ہو گئی اور بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے زمینی راستہ مہیا ہو گیا ۔ اس کا دوسرا بُرا نتیجہ یہ ہوا کہ متعلقہ مُسلم اکثریتی علاقوں میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا
پٹھان کوٹ کٹھوعہ کے راستے بھارتی فوج کی سرپرستی میں راشٹریہ سیوک سَنگ ۔ ہِندُو مہاسِبھا اور اکالی دَل کے تربیت یافتہ مسلّح دستے بھاری تعداد میں جموں میں داخل ہونا شروع ہو گئے
سُنا گیا تھا کہ متفقہ اصول کے خلاف اس غلط فیصلہ کا سبب ہندوستان میں آخری وائسرائے لارڈ مؤنٹ بیٹن کی بیوی اور جواہر لال نہرو کی گہری دوستی تھی جس کی جھلکیاں یہاں کلِک کر کے دیکھی جا سکتی ہیں

کچھ تاریخی حقائق ۔
1947ء سے قبل ہونے والی مردم شماری کے مطابق صوبہ پنجاب کے 7 ایسے شہر تھے جن کی آبادی 100000 سے زیادہ تھی ۔ لاہور 630000 ۔ امرتسر 390000 ۔ راولپنڈی ۔ ملتان ۔ سیالکوٹ ۔ لُدھیانہ اور جالندھر کی آبادی 100000 اور 200000 کے درمیان تھی ۔ punjab-religions-19411 ان سب میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔ صرف راولپنڈی شہر اور جالندھر شہر میں سارے غیر مُسلموں کو جمع کیا جائے تو اُن کی اکثریت بن جاتی تھی ۔ یہ شہروں کے اعداد و شمار ہیں ضلعوں کے نہیں ۔ ان سب ضلعوں میں مسلمان بھاری اکثریت میں تھے

پورے صوبہ پنجاب میں مسلمان 53 فیصد ۔ ہندو 30 فیصد ۔ سکھ 6ء14 فیصد ۔ عیسائی 4ء1 فیصد اور باقی 1 فیصد تھے

صوبہ پنجاب کو 5 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا تھا ۔ (1) مغربی حصہ (سبز اور گہرا سبز) 80 سے 90 فیصد مسلمان ۔ (2) وسط مغربی حصہ (سیاہی مائل سبز) 60 فیصد کے قریب مسلمان اور سکھ بڑی اقلیت تھے ۔ (3) وسطی مشرقی حصہ (نیلا اور گہرا نسواری) مسلمان اکثریت میں تھے لیکن تمام غیر مُسلموں کو جمع کیا جائے تو 50 فیصد سے کچھ زیادہ ہو جاتے تھے ۔ (4) جنوب مشرقی حصہ ( براؤن اور سرخی مائل براؤن) ۔ اب ہریانہ کہلاتا ہے ۔ اس میں ہندو معمولی اکثریت میں تھے اور سکھ بہت کم تھے ۔ دہلی بھی اس میں شامل ہے ۔ (5) شمال مشرقی حصہ (سُرخ اور گہرا سُرخ) ۔ اب ہماچل پردیش کہلاتا ہے ہندو اکثریتی علاقہ تھا ۔
greater-punjab-religions-today
ریڈ کلِف ایوارڈ جس کا اعلان 14 اگست کے چند دن بعد (17 اگست ) ہوا کے ذریعہ تمام متفقہ اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل تقسیم کی گئی
(1) مغربی پنجاب جو پاکستان کو دیا گیا (سبز)
(2) مشرقی پنجاب جو بھارت کو دیا گیا (سبز چھوڑ کر باقی سارا)
مصنّف لکھتا ہے
“To my eyes, this looks like an extremely favorable result for India. No Hindu/Sikh majority district went to Pakistan, while several swaths of Muslim majority territory ended up in Indian hands.”
تفصیل یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

تین سوال

پہلا سوال ۔ بُلَیٹ پروف جیکٹ ۔ آگ بجھانے والوں کے آگ سے بچنے والے کپڑے ۔ کار کے شیشے پر لگے وائیپر اور لیزر پرنٹر میں قدرِ مُشترک کیا ہے ؟
دوسرا سوال ۔ کھانے کی کونسی چیز ہے جو خراب نہیں ہوتی ؟
Third Qustion. If you were to spell out numbers, how far would you have to go until you would find the letter ‘A’ ?
۔
۔
۔
۔
۔

جوابات
1 ۔ سب عورتوں نے ایجاد کئے
2 ۔ قدرتی شہد
A 3. One thousand

خوش اخلاق و سمجھدار لوگ

٭ محتاط
٭٭ مُنفَرَد مُشتاق
٭٭٭ کھُلے ذہن والے
٭٭٭٭ متحمّل مزاج اور رحمدِل
٭٭٭٭٭ خوش اُمید (Optimistic)

(مُنفَرَد مُشتاق ۔ انفرادی طور پر شوق رکھنے والے)

قائد اعظم محمد علی جناح

آج قائد اعظم کو فوت ہوئے 2 دن کم 68 سال ہو گئے ہیں ۔ ان 68 سالوں میں ہم نے اپنے مُلک پاکستان کا 10881693_10204444453364797_1140897710962626287_n جو حال کیا ہے اور ہمارا جو ایک دوسرے کے ساتھ سلوک ہے اگر اللہ قائد اعظم کو معائنہ کیلے بھیج دے تو وہ دیکھتے ہی غش کھا کر گِر پڑیں
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
ہر سمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی
ملک اپنا غیروں کے ہاتھوں میں تھی شاہی
ایسے میں اٹھا دین محمد کا سپاہی
اور نعرہ تکبیر سے دی تو نے گواہی
اسلام کا جھنڈا لئے آیا سر ِمیدان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
دیکھا تھا جو اقبال نے اِک خواب سہانا
اس خواب کو اِک روز حقیقت ہے بنانا
یہ سوچا جو تُو نے تَو ہنسا تُجھ پہ زمانہ
ہر چال سے چاہا تُجھے دشمن نے ہرانا
مارا وہ تو نے داؤ کہ دشمن بھی گئے مان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
لڑنے کا دشمنوں سے عجب ڈھنگ نکالا
نہ توپ ۔ نہ بندوق ۔ نہ تلوار ۔ نہ پھالا
سچائی کے اَنمول اصولوں کو سنبھالا
پنہاں تیرے پیغام میں جادو تھا نرالا
ایمان والے چل پڑے سُن کر تیرا فرمان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
پنجاب سے بنگال سے جوان چل پڑے
سندھی ، بلوچی ، سرحدی پٹھان چل پڑے
گھر بار چھوڑ ۔ بے سرو سامان چل پڑے
ساتھ اپنے مہاجر لئے قرآن چل پڑے
اور قائد ملت بھی چلے ہونے کو قربان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
نقشہ بدل کے رکھ دیا اس ملک کا تُو نے
سایہ تھا اللہ کا ۔ محمد کا تیرے سر پہ
دنیا سے کہا تُو نے کوئی ہم سے نہ الُجھے
لکھا ہے اِس زمیں پہ شہیدوں نے لہو سے
آزاد ہیں ۔ آزاد رہیں گے یہ مسلمان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
ہے آج تک ہمیں وہ قیامت کی گھڑی یاد
میت پہ تیری چیخ کے ہم نے جو کی فریاد
بولی یہ تیری روح ۔ نہ سمجھو اسے بیداد
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
گر وقت پڑے ملک پہ ہو جایئے قربان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

پروپیگنڈہ اور حقیقت

جب سال 1964ء میں پاکستان میں ٹی وی کی ابتداء ہوئی تو کسی سیانے نے کہا تھا کہ ”شیطانی چرخا آ گیا“۔ اس پر مُسکرایا تو میں بھی تھا لیکن میں ٹھہرا 2 جماعت پاس ۔ پڑھے لکھے لوگوں نے اُس سیانے کو جاہل قرار دیا تھا ۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ شخص واقعی سمجھدار اور دُور اندیش تھا ۔ شیطان غیرمحسوس طور پر انسان کے دل و دماغ پر قبضہ جماتا ہے اور جس کے دل و دماغ کو قابو کر لے اُس کیلئے بُرائی اور بھلائی کی پہچان مُشکل ہو جاتی ہے ۔ ٹی وی کے بعد انٹر نیٹ نے شیطان کا کام اور بھی آسان بنا دیا ہے ۔ لوگ جو کچھ ٹی وی پر اور انٹر نیٹ پر دیکھتے ہیں اُسے صرف حقیقت ہی نہیں حرفِ آخر سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ اب تو سیاسی شعبدہ بازوں نے بھی انٹرنیٹ کو اپنا تختہءِ مشق بنا لیا ہے جس کے نتجے میں لوگ حقائق سے بے بہرا ہو چکے ہیں

اب ملاحظہ کیجئے قائد اعظم کی تقاریر اور خطابات سے صرف ایک درجن اقتباسات اور دیکھیئے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان بنانا چاہتے تھے اور قوم کس ڈگر پر چل نکلی ہے

1 ۔ آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942ء میں قائد اعظم نے وہ بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا جس کی ضیا باری سے آج بھی تاریخ پاکستان روشن ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا ”مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا ؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا ۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا

2 ۔ 6 دسمبر 1943ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائد اعظم نے فرمایا ”وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟”
پھر خود ہی جواب دیا ”وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے ۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآن مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک اُمت“۔

3 ۔ قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا ”قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے ۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں“۔

4 ۔ 10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا ”ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے ۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں ۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی“۔

5 ۔ 1947ء میں انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا
”میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں“۔
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا ”وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے ۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے ۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے“۔

6 ۔ 2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا ”اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں ۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی ۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے“۔

7 ۔ 14 فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے ۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو”۔

8 ۔ 13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں

9 ۔ یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا ”میں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں ۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے ۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سر پر منڈلا رہی ہے ۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے“۔
مغرب کے اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہوئے
اسی خطاب میں آپ نے فرمایا ”اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی ۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی ۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو ۔ ایسا نظام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے ۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے ۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے ۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے

25 جنوری 1948 ء کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت 10 ۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہءِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں ۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی

11 ۔ میں آخر میں قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاؤٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا ”میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی ۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں ۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تنظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا“۔

12 ۔ یہاں کلِک کر کے پڑھیئے ” قائد اعظم کا خطاب ۔ 15 اگست 1947ء“

آزادی مبارک

تمام ہموطنوں کو (دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں) آزادی کی سالگرہ مبارک my-id-pakاللہ ہمیں آزادی کے صحیح معنی سمجھنے اور اپنے مُلک کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

یہ وطن ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا تھا کہ مسلمان اسلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے مل جل کر اپنی حالت بہتر بنائیں ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں البتہ پاکستانی نہیں بنے ۔ کوئی سندھی ہے کوئی پنجابی کوئی بلوچ کوئی پختون کوئی سرائیکی کوئی پاکستان میں پیدا ہو کر مہاجر ۔ کوئی سردار کوئی مَلک کوئی خان کوئی وڈیرہ کوئی پیر ۔ اس کے علاوہ مزید بے شمار ذاتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں

بڑے بڑے روشن خیال بھی پیدا ہو گئے ہیں جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا صرف ایک فقرہ سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک اسلامی نہیں سیکولر ریاست بنایا تھا ۔ ان روشن خیالوں سے کوئی پوچھے کہ کیا قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کی باقی ساری تقریریں اور اقوال بھول جائیں ؟ ایک نعرہ جو تحریک پاکستان کا لازمی جزو تھا ”پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ“۔ وہ بھی ان روشن خیالوں نے کہیں نہیں پڑھا ؟

قائداعظم 1942ء میں الہ آباد میں تھے تو وکلاء کے ایک وفد کی ملاقات کے دوران ایک وکیل نے پوچھا ”پاکستان کا دستور کیسا ہوگا اور کیا آپ پاکستان کا دستور بنائیں گے ؟“
قائداعظم نے جواب میں فرمایا ”پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو برس پہلے بن گیا تھا“۔

قائداعظم کی 11 اگست 1947 کا خطاب بھی رسول اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے خطبہ الوداع کے ان الفاظ کی غمازی کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہتر ہو

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
برسوں کے بعد پھر اُڑے پرچم ہلال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دیکھو کہیں اُجڑے نہ ہمارا یہ باغیچہ ۔ ۔ ۔ اس کو لہو سے اپنے شہیدوں نے ہے سینچا
اس کو بچانا جان مصیبت میں ڈال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دنیا کی سیاست کے عجب رنگ ہیں نیارے ۔ ۔ ۔ چلنا ہے مگر تم کو تو قرآں کے سہارے
ہر اک قدم اُٹھانا ذرا دیکھ بھال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
تُم راحت و آرام کے جھُولے میں نہ جھُولو ۔ ۔ ۔ کانٹوں پہ ہے چلنا میرے ہنستے ہوئے پھُولو
لینا ابھی کشمیر ہے یہ بات نہ بھُولو ۔ ۔ ۔ کشمیر پہ لہرانا ہے جھنڈا اُچھال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے ۔ ۔ ۔ ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے