Category Archives: معلومات

جموں کشمیر کے جوانون نے ہتھیار کیوں اُٹھائے

my-id-pak


To see the informative video, click on the above image
جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے تیسری سیاسی تحریک جو 1931ء میں شروع ہوئی تھی وہ آج تک مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری ہے ۔ دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی وہ پاکستان کی حکومت کی مدد کے بغیر آج تک جاری ہے ۔ اس دوسری مسلح تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کے ایماء پر شروع کی گئی ۔ حقیقت کچھ اس طرح ہے

ایک طرف بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور دوسری طرف سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی ۔ بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی ۔ دسمبر 1988ء میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے جہاں کہیں “کشمیر بنے گا پاکستان” یا ویسے ہی جموں کشمیر کا نام لکھا تھا وہ مِٹوا دیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا

بے غيرتی يہاں تک پہنچی کہ ملاقات يا مذاکرات کے بعد بھارت اور پاکستان کے وقت کے حاکموں راجيو گاندھی اور بينظير بھٹو نے مشتکہ پريس کانفرنو کی جس ميں ايک صحافی نے جموں کشمير کے بارے ميں سوال کيا ۔ راجيو گاندھی نے اُسے غصہ ميں ڈانتتے ہوئے کہا “جموں کشمير بھارت کا اٹُوٹ اَنگ ہے”۔ اور بينظير بھٹو دوسری طرف منہ کر کے ہنستی رہيں

اُسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے حکمرانوں نے اُن راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی جن سے جموں کشمیر کے لوگ سرحد کے آر پار جاتے تھے ۔ مقبوضہ علاقہ کے ظُلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے ۔ جوتے ۔ کمبل وغیرہ لے کر انہی راستوں سے جاتے تھے ۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ اس طرح جموں کشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی

بوڑھے جوانوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے ۔ جب بوڑھوں کے پاس جوانوں کو دلاسہ دینے کے لئے کچھ نہ رہا تو جوانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھانی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ بھارتی فوجیوں نے ایک گاؤں کو محاصرہ میں لے کر مردوں پر تشدّد کیا اور کچھ خواتین کی بے حُرمتی کی ۔
یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا تھا مگر اس دفعہ ایک تو نوجوان بدلہ لینے کا فیصلہ کر چکے تھے اور دوسرے بھارتی فوجی اتنے دلیر ہو چکے تھے کہ انہوں نے خواتین کی بےحرمتی ان کےگاؤں والوں کے سامنے کی ۔ اس گاؤں کے جوانوں نے اگلے ہی روز بھارتی فوج کی ایک کانوائے پر اچانک حملہ کیا ۔ بھارتی فوجی کسی حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے مسلمان نوجوانوں کا یہ حملہ کامیاب رہا اور کافی اسلحہ ان کے ہاتھ آیا ۔ پھر دوسرے دیہات میں بھی جوابی کاروائیاں شروع ہو گئیں اور ہوتے ہوتے آزادی کی یہ مسلحہ تحریک پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھیل گئی

آزادی مبارک

تمام ہموطنوں کو (دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں) آزادی کی سالگرہ مبارک my-id-pakاللہ ہمیں آزادی کے صحیح معنی سمجھنے اور اپنے مُلک کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

یہ وطن ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا تھا کہ مسلمان اسلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے مل جل کر اپنی حالت بہتر بنائیں ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں البتہ پاکستانی نہیں بنے ۔ کوئی سندھی ہے کوئی پنجابی کوئی بلوچ کوئی پختون کوئی سرائیکی کوئی پاکستان میں پیدا ہو کر مہاجر ۔ کوئی سردار کوئی مَلک کوئی خان کوئی وڈیرہ کوئی پیر ۔ اس کے علاوہ مزید بے شمار ذاتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں

بڑے بڑے روشن خیال بھی پیدا ہو گئے ہیں جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا صرف ایک فقرہ سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک اسلامی نہیں سیکولر ریاست بنایا تھا ۔ ان روشن خیالوں سے کوئی پوچھے کہ کیا قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کی باقی ساری تقریریں اور اقوال بھول جائیں ؟ ایک نعرہ جو تحریک پاکستان کا لازمی جزو تھا ”پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ“۔ وہ بھی ان روشن خیالوں نے کہیں نہیں پڑھا ؟

قائداعظم 1942ء میں الہ آباد میں تھے تو وکلاء کے ایک وفد کی ملاقات کے دوران ایک وکیل نے پوچھا ”پاکستان کا دستور کیسا ہوگا اور کیا آپ پاکستان کا دستور بنائیں گے ؟“
قائداعظم نے جواب میں فرمایا ”پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو برس پہلے بن گیا تھا“۔

قائداعظم کی 11 اگست 1947 کا خطاب بھی رسول اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے خطبہ الوداع کے ان الفاظ کی غمازی کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہتر ہو

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
برسوں کے بعد پھر اُڑے پرچم ہلال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دیکھو کہیں اُجڑے نہ ہمارا یہ باغیچہ ۔ ۔ ۔ اس کو لہو سے اپنے شہیدوں نے ہے سینچا
اس کو بچانا جان مصیبت میں ڈال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دنیا کی سیاست کے عجب رنگ ہیں نیارے ۔ ۔ ۔ چلنا ہے مگر تم کو تو قرآں کے سہارے
ہر اک قدم اُٹھانا ذرا دیکھ بھال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
تُم راحت و آرام کے جھُولے میں نہ جھُولو ۔ ۔ ۔ کانٹوں پہ ہے چلنا میرے ہنستے ہوئے پھُولو
لینا ابھی کشمیر ہے یہ بات نہ بھُولو ۔ ۔ ۔ کشمیر پہ لہرانا ہے جھنڈا اُچھال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے ۔ ۔ ۔ ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے

پاکستان کیوں بنا ؟ کیسے بنا ؟

my-id-pak
آئیندہ کل یعنی 14 اگست کو پاکستان میں بہترواں یومِ آزادی منایا جائے گا ۔ پاکستان میں آنے والے علاقے کی آزادی کا اعلان 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر کیا گیا تھا ۔ اُس رات ہند و پاکستان میں رمضان المبارک 1366ھ کی ستائیسویں تاریخ تھی

آج کے دور میں کچھ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی

اب مستند تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟

برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زير استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات

ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے

ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے عوام کے دباؤ کے تحت بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير ميں فوج کشی بھی کی گئی

انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا

حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا

صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔

کيبنٹ مشن کے سيکرٹری (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ” مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟ (Mr. Jinnah! Is it not a step forward for a greater Pakistan?)”۔
قائد اعظم نے کہا ” بالکل ۔ آپ درست سمجھے (Exactly, you have taken the point)”
مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا

مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنيف (INDIA WINS FREEDOM) کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا موقف مضبوط تھا

کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔

کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں

یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ عوام ہی کے ووٹ سے پاکستان کی حکومت آج اُن لوگوں یا جماعتوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی خواہ وہ سرحدی گاندھی کہلانے والے عبدالغفار خان کی اولاد کی جماعت ہو یا قائد اعظم کی مخالفت کرنے والے شاہنواز بھٹو کی اولاد کی یا کانگرسی مولوی مفتی محمود کی اولاد کی یا بھارت جا کر برملا کہنے والے الطاف حسین کی کہ “پاکستان بنانا فاش غلطی تھی”۔

پاکستان کیوں بنا ؟

فی زمانہ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اِس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی ۔ اب مُستنَد تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟
برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زيرِ استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات
ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير پر فوج کشی کی گئی تھی
انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پَرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا
حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔

کيبنٹ مشن کے سيکرٹری (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ” مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟”
قائد اعظم نے کہا ”بالکل ۔ آپ درست سمجھے“۔
مگر جیسا کہ اُوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنیف (INDIA WINS FREEDOM) کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا مؤقف مضبوط تھا
کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔
کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں

طبعیت میں نرمی

بہت سے میاں بیوی ذرا سی لچک یا نرمی نہ دکھانے کی وجہ سے اپنا بُرا حال بنا لیتے ہیں ہمیں اپنے ساتھی کو اپنی توسیع نہیں سمجھنا چاہیئے ۔ اُس کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے اور اپنی پسند یا ناپسند ہوتی ہے ۔ ہمایں باہمی حقوق کو تسلیم کرنا چاہیئے جب تک کہ اس کا دین پر بُرا اثر نہ پڑے ۔ انفرادی معاملات میں اپنی اکڑ قائم رکھےا اور ساتھی کا لحاط نہ رکھے سے گھر کا ماحول بہت کشیدہ اور ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے

درگزر کرنا

خوشگوار زندگی کا اہم جُزو یہ ہے کہ ازواج ایک دوسرے کی بات کو درگزر کریں ۔ بُغزنہ رکھیں ۔ ناقد نہ بنیں
باہمی تعلقات اور اکٹھے رہنے کے دوران بعض اوقات ایسا موقع آ جاتا ہے جب آدمی کوئی ایس بات یا حرکت کر بیٹھتا ہے جو اُس کے ساتھی کےلئے تکلیف دہ ہو ۔ اس کو پکڑ کر نہیں بیٹھ جانا چاہیئے اور نہ دوسرے کو قصور وار ٹھہرانا چاہیئے بلکہ اے بھُلا دینا چاہیئے
یہ اُسی صورت ممکن ہے کہ ہم غرور میں آ کر دوسرے معافی مانگنے کا نہ کہیں اور خود ہمیں معاف کر دینے میں بُخل نہیں کرنا چاہیئے
رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم صحابہ کرام رضی الله عنہم سے پوچھا ” کیا تم چاہتے ہو کہ الله تمہیں معاف کر دے ؟“
اُنہون نے کہا ” ضرور یا رسول الله“۔
حضور صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا ” پھر ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو“۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ الله ہمیں معاف کر دے تو ہمیں دوسروں کو معاف کرنا سیکھنا چاہیئے

اگر ہم اپنے ساتھ سے ذکر کرتے رہیں کہ کتنی بار اُس نے ہمیں شرمندہ کیا ہے یا تکلیف دی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے معاف یا درگزر نہیں کیا
جو بات ماضی میں ہوئی اُسے ماضی ہی میں رہنے دینا چاہیئے اور اُس کی یاد نہیں کرنا چاہیئے ۔ یہ طریقہ نہ چھوڑنے والا خود ہی کم مائیگی یا کمینگی کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس کا ذہن آزاد نہیں ہو پاتا

اللہ نے نہیں کہا

اللہ نے نہیں کہا کہ
دن بغیر تکلیف کے ہوگے
خوشی بغیر غم کے ہو گی
دھوپ بغیر بارش کے ہو گی
لیکن وعدہ کیا ہے کہ
دن گزارنے کے لئے طاقت ہو گی
آنسوؤں کے بعد سکون ہو گا
اور راستہ دکھانے کے لئے روشنی ہو گی
مندرجہ ذیل سطر کو غور سے پڑھیئے
اگر اللہ آپ کو کہیں پہنچائے گا تو واپس بھی لائے گا