Category Archives: معاشرہ

جموں کشمیر کے جوانوں نے ہتھیار کیوں اٹھائے

جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے تیسری سیاسی تحریک جو 1931ء میں شروع ہوئی تھی وہ آج تک مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری ہے ۔ دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی وہ پاکستان کی حکومت کی مدد کے بغیر آج تک جاری ہے ۔ اس دوسری مسلح تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کے ایماء پر شروع کی گئی ۔ حقیقت کچھ اس طرح ہے

ایک طرف بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور دوسری طرف سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی ۔ بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی ۔ دسمبر 1988ء میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے جہاں کہیں “کشمیر بنے گا پاکستان” یا ویسے ہی جموں کشمیر کا نام لکھا تھا وہ مِٹوا دیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا

بے غيرتی يہاں تک پہنچی کہ ملاقات يا مذاکرات کے بعد بھارت اور پاکستان کے وقت کے حاکموں راجيو گاندھی اور بينظير بھٹو نے مشتکہ پريس کانفرنو کی جس ميں ايک صحافی نے جموں کشمير کے بارے ميں سوال کيا ۔ راجيو گاندھی نے اُسے غصہ ميں ڈانتتے ہوئے کہا “جموں کشمير بھارت کا اٹُوٹ اَنگ ہے”۔ اور بينظير بھٹو دوسری طرف منہ کر کے ہنستی رہيں

اُسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے حکمرانوں نے اُن راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی جن سے جموں کشمیر کے لوگ سرحد کے آر پار جاتے تھے ۔ مقبوضہ علاقہ کے ظُلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے ۔ جوتے ۔ کمبل وغیرہ لے کر انہی راستوں سے جاتے تھے ۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ اس طرح جموں کشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی

بوڑھے جوانوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے ۔ جب بوڑھوں کے پاس جوانوں کو دلاسہ دینے کے لئے کچھ نہ رہا تو جوانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھانی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ بھارتی فوجیوں نے ایک گاؤں کو محاصرہ میں لے کر مردوں پر تشدّد کیا اور کچھ خواتین کی بے حُرمتی کی ۔
یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا تھا مگر اس دفعہ ایک تو نوجوان بدلہ لینے کا فیصلہ کر چکے تھے اور دوسرے بھارتی فوجی اتنے دلیر ہو چکے تھے کہ انہوں نے خواتین کی بےحرمتی ان کےگاؤں والوں کے سامنے کی ۔ اس گاؤں کے جوانوں نے اگلے ہی روز بھارتی فوج کی ایک کانوائے پر اچانک حملہ کیا ۔ بھارتی فوجی کسی حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے مسلمان نوجوانوں کا یہ حملہ کامیاب رہا اور کافی اسلحہ ان کے ہاتھ آیا ۔ پھر دوسرے دیہات میں بھی جوابی کاروائیاں شروع ہو گئیں اور ہوتے ہوتے آزادی کی یہ مسلحہ تحریک پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھیل گئی

ميں کيا جواب دوں ؟

ميری تحرير شکست خوردہ قوم پر ايک قاری عمران اقبال صاحب نے مندرجہ ذيل تبصرہ کيا ہے جس ميں ايک اہم قومی معاملہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ آج کی جوان نسل سے ميری درخواست ہے کہ اس سلسلہ ميں اپنی تعميری تجاويز سے نوازيں

عمران اقبال صاحب لکھتے ہيں ۔ ۔ ۔

کل جب آپ سے بات ہوئی تو آپ نے کہا تھا کہ “پاکستان پہلے ایسا نہیں تھا” اور پھر آپ نے مثال دی کہ “پہلے اگر کسی پارک میں لوگ گھاس پر چل رہے ہوتے تھے تو دوسرے لوگ کہتے تھے کہ بھائی اگر آپ نے بیٹھنا ہے تو گھاس پر بیٹھ جاؤ ورنہ راہ داری پر چلو” ۔۔۔ یہ تھیں قدریں۔۔۔

میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ “آج کی نسل اور ہم سے پہلی نسل میں کیا بنیادی فرق ہو گیا جو اب پہلے جیسی مروت نہیں رہی ؟” ۔۔۔ اور آپ نے جواب دیا تھا کہ “دین اور قانون سے بيگانگی”۔۔۔

میرے خیال میں۔۔۔ ہم اس حد تک پست اقدار اپنا چکے ہیں کہ اب اسے بدلنے میں ایک پوری نسل کی کوششیں چاہئیں ۔۔۔ ہماری نسل کے خون میں بے ایمانی، بے قدری اور بے مروتی بھری جا چکی ہے۔۔۔ اور میں اس کا قصور پچھلی نسل کو دونگا۔۔۔ انہی کی اسلام دوری اور مادی دنیا میں آگے بڑھنے کے شوق نے ہم سے وہ ساری اقدار چھین لیں جو کبھی ہمارا اثاثہ تھے۔۔۔ اور بقول آپ کے کہ پہلی تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے تو جب گھر بھر میں دین کا نام نہ ہو اور ہر وقت مادی مسائل کا ذکر ہو تو ہم بھی وہی سوچیں گے اور کریں گے جو ہمارے بڑوں نے کیا۔۔۔

جب میں “اپنی نسل” کی بات کرتا ہوں تو میں خود سمیت کسی کو الزام نہیں دے رہا لیکن کھلے دماغ اور دل سے سوچیئے کہ کیا ہماری نسل واقعی بے راہ روی کا شکار نہیں ؟ ۔۔۔ ہم میں وہ کونسی خامیاں‌نہیں رہ گئيں جو ہم نے قرآن میں ان قوموں کے بارے میں پڑھیں ہیں جن پر اللہ نے عذاب نازل فرمایا۔۔۔

لیکن ہم بخشے جا رہے ہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے سبب۔۔۔ ورنہ جو خامیاں ہم میں ہیں ان کے باعث اب تک ہم بندر یا سُوّر بن چکے ہوتے یا ہمیں بھی آسمان تک لے جا کر الٹا پھینک دیا جاتا۔۔۔

آپ نے فرمایا تھا کہ” آج کی نسل بہت بہتر ہے” تو میں آپ سے اس بات پر اس حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ دنیاوی علم اور کچھ کر دکھانے کی جہت نے ہمیں بہت فاسٹ فارورڈ کر دیا ہے۔۔۔ شاید میں کنویں کے مینڈک کی طرح ہوں جسے کچھ نظر نہیں آ رہا لیکن مجھے پڑھے لکھے، سوچنے سمجھنے والے اور لوجیک کے ساتھ گفتگو کرنے والے عالم دین سے ملنے کا اب بھی بہت انتظار ہے۔۔۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک یا ڈاکٹر اسرار احمد کو بہت سن چکا ہوں لیکن انہیں بھی صرف ایک خاص طبقہ ہی فالو کر رہا ہے۔۔۔ ہمیں چاہیے ایسے لوگ جو محلوں کی مساجد میں یہ خدمت انجام دیں ۔۔۔

میرا ماننا یہ بھی ہے کہ اگر ہمارا دین راسخ ہو جائے اور عقیدہ میں کوئی کمی نہ رہ جائے تو دنیا میں رہنے کے ہمارے اطوار ہی بدل جائیں گے۔۔۔ پھر لوگ قانون کی پاسداری بھی کریں گے اور ان میں توکل بھی آ جائے گا۔۔۔ اور میرے خیال میں توکل علی اللہ دنیا بھی بنا دیتا ہے اور آخرت بھی۔۔۔

عمران اقبال صاحب نے عجمان سے مجھے ٹيليفون کيا اور سير حاصل گفتگو کی ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ميرے ملک ميں ايسے جوان ہيں جو درست معلومات حاصل کرنے اور اپنے علمِ نافع ميں اضافہ کرنے کی کوشش ميں لگے رہتے ہيں ۔ ميں عمران اقبال صاحب کی صرف دو باتوں پر اپنا خيال پيش کروں گا

درست ہے کہ آج کی جوان نسل کی بے راہ روی ان سے پہلی نسل يعنی ميری نسل کی عدم توجہی يا غلط تربيت يا خود غرضی کا نتيجہ ہے مگر کُلی طور پر پچھلی نسل اس کی ذمہ دار نہيں

درست ہے کہ ہماری مسجدوں کی بھاری اکثريت پر غلط قسم کے لوگ قابض ہيں ۔ مگر اس کی وجہ بھی ہم خود ہی ہيں ۔ ہم ميں سے کتنے ہيں جنہوں نے مساجد ميں دينی لحاظ سے بہتری کيلئے خلوصِ نيت سے کوشش کی ہے ۔البتہ نکتہ چينی کرنے کيلئے اکثريت ميں ايک سے ايک بڑھ کر ہے

اسلام آباد کی سب سے بڑی سرکاری مسجد جسے لوگ لال مسجد کہتے ہيں کے خطيب کو حکومت گريڈ 12 کی تنخواہ ديتی ہے باقی مساجد ميں گريڈ 10 اور 8 کی ۔ دسويں جماعت کے بعد 8 سال علمِ دين حاصل کرنے والے کتنے ايسے خدمتگار ہو سکتے ہيں جو گريڈ 12 يا 10 يا 8 ميں ملازمت اختيار کريں گے ؟ جب حکومت ان کی سند کو ماسٹرز کے برابر مانتی ہے تو پھر ان لوگوں کو دوسری جامعات سے ماسٹرز کرنے والوں کی طرح گريڈ 15 کيوں نہيں ديا جاتا ؟ خاص کر اسلئے کہ ان لوگوں نے ايک اہم دينی فريضہ ادا کرنا ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل ميں خيال پيدا ہو کہ پھر يہ سب کہاں چلے جاتے ہيں ؟ ان ميں کئی ساتھ ساتھ بی ا انگلش اور ايم اے انگلش کے امتحان پاس کر ليتے ہيں اور مسجد کی بجائے دوسری ملازمتيں اختيار کرتے ہيں ۔ صرف چند ايسی مساجد کے خطيب بنتے ہيں جہاں جائز آمدن کا کوئی اور ذريعہ بھی ہو ۔ ايسی مساجد کے طور طريقے ہی الگ ہوتے ہيں ۔ کوئی کہيں چندہ مانگنے نہيں جاتا ۔ جمعرات کی روٹی کا کوئی رواج نہيں ہوتا اور نہ کسی کے گھر ميں ختم کے نام پر کھانا کھاتے ہيں ۔ يہاں يہ واضح کرنا بے جا نہ ہو گا کہ ايسے امام مسجد بھی ہيں جنہوں نے دينی تعليم کے ساتھ ساتھ معاشيات يا رياضی يا سائنس کی کم از کم گريجوئيشن کی ہوئی ہے

شکست خوردہ قوم

ميرے ہموطنوں کی اکثريت کی يہ عادت بن چکی ہے کہ ہر آدمی اپنی کمزوری اور عِلّت کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے ۔ قومی سطح پر بھی يہی صورتِ حال ہے کہ قصوروار کبھی امريکا و اسرائيل اور کبھی حکمران يا طالبان يا مُلا ہوتے ہيں يا اور کچھ نہيں تو اُن کا پاکستانی ہونا ہی بڑا قصور ہوتا ہے ۔ جسے ديکھو ذاتی غرض کے تحت پہاڑ کھودے گا اور غليظ کام کرنے کو بھی تيار ہوگا ليکن کسی ہموطن کی بھلائی کی خاطر ايک تنکا اُٹھانے کا روادار کم ہی ہو گا ۔ خود کچھ کرنے کا نہيں مگر کہتا پھرے گا کہ فلاں يہ کيوں نہيں کرتا اور فلاں وہ کيوں نہيں کرتا ؟ يا پھر کہے گا کہ يہ مُلک ہی خراب ہے

پچھلے دنوں کی بات ہے کہ کسی محفل ميں ايک شخص نے پاکستان کے چيف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کے عزم کی تعريف کی۔ ايک صاحب بولے “يہ سب کچھ وہ اپنی ذات کيلئے کر رہا ہے ۔ فلاں آدمی کو قتل کر ديا گيا ۔ اُس کا سوئو موٹو نوٹس کيوں نہيں ليا ؟”۔ جب اُن صاحب سے پوچھا گيا “آپ اتنے بڑے کھڑپينچ ہيں ۔ آپ بتايئے کہ آپ نے کسی کيلئے یا ملک کيلئے کيا کيا ہے ؟” تو وہ صاحب خاموش بيٹھ گئے

جب کبھی کبھار سڑک پر کار چلاتے ہوئے یا پيدل سڑک کو پار کرتے ہوئے کوئی کار والا راستہ دے ديتا ہے تو اُسی وقت دل و جان سے اُس کا اور اللہ کا شکر بے اختيار ادا ہو جاتا ہے کہ ہماری قوم ميں اِکّا دُکّا ہی سہی مگر کچھ انسان موجود ہيں ۔ ورنہ يہ حال ہے کہ ايک دن میں جا رہا تھا ۔ ايک سکول کے قريب بچے سڑک پار کر رہے تھے ۔ ميں نے کار روک لی ۔ ايک کار نے ميری گاڑی کو تيزی سے اوورٹيک کيا ۔ ايک آٹھ دس سالہ بچہ اُس کار کے نيچے آتا بچا ۔ قبل اس کے کہ ميں اپنی گاڑی سے اُتر کر اُس کار تک پہنچتا اُس کار کو چلانے والے نے اپنی کار سے نکل کر اُس بچے کی پٹائی کرتے ہوئے کہا “حرامزادے مرنا ہے تو کسی اور کے آگے آ کر مر”

ايک جگہ سڑک پر بھيڑ لگی تھی جا کر ديکھا تو ايک بچہ کسی گاڑی سے ٹکرا کر گرا پڑا ہے ۔ ٹانگ سے خون نکل رہا ہے ۔ ارد گرد کھڑوں ميں سے کوئی کار والوں کو گالی دے رہا ہے کوئی پوليس کو گالی دے رہا ہے کوئی پاکستان کو گالی دے رہا ہے کوئی مسلمانوں کو گالی دے رہا ہے مگر کسی نے جھُک کر بچے کو نہيں ديکھا اور نہ اسے طبی امداد پہنچانے کی فکر کی ۔ جب ميں بھيڑ ميں داخل ہوا اُسی وقت ايک اور شخص سامنی طرف سے آيا ہم دونوں نے بچے کو اُٹھايا ۔ وہ بچے کو لے ہسپتال روانہ ہوا اور ميں نے بچے کے گھر جا کر اطلاع کی

اپنے ملک ميں سڑک پار کرنے کيلئے کھڑے ہيں مگر مجال ہے کہ کوئی گاڑی والا راستہ دے ۔ اگر گاڑيوں کے درميان فاصلہ ہو تو پچھلی گاڑی والا ہارن بجا کر گاڑی تيز کر ليتا ہے ۔ دو سال قبل دبئی ميں ميں سڑک کے کنارے پٹڑی [foot path] پر کھڑا ہوا کہ گاڑياں گذر جائيں تو ميں سڑک پار کروں ۔ سب گاڑياں رُک گئيں اور اگلی گاڑی ميں بيٹھے شخص نے مجھے سڑک پار کرنے کا اشارہ ديا ۔ ہمارے مُلک ميں اپنی تيزی ميں سڑک کے کنارے کھڑے کو ٹکر مار کر بھاگ جاتے ہيں يا بھاگنے کی کوشش کرتے ہيں جيسا ميرے ساتھ پچھلے برس اٹھائيس ستمبر کو ہو چکا ہے

مُلک ميں چوربازاری عام ہے تو قصور امريکا يا اسرائيل کا ہے ۔ جوانوں کا چال چلن انحطاط پر ہے تو قصور دينی مدرسوں اور مُلا کا ہے ۔ آج کا مسلمان خود کو اسلام پر چلانے کی بجائے اسلام کو اپنے مطابق چلانا چاہتا اور اس خواہش کی تکميل ميں دينی مدرسہ اور مُلا کو راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر کوتاہيوں کا ملبہ اُن پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کچھ باريک بين مدرسہ اور مُلا کا تعلق امريکا سے دريافت کر ليتے ہيں

جسے ديکھو وہ دوسروں کو ٹھيک کرنے کيلئے لمبی تقارير کر رہا ہے اور تحارير لکھ رہا مگر چراغ تلے اندھيرا کی مصداق اپنے قول فعل کے تضاد پر نظر ڈالنے کی اُسے فرصت نہيں ہے ۔ کوئی صوبائی سطح پر بات کرتا ہے تو کوئی ضلعی سطح پر ۔ کوئی قبيلہ کی سطح پر تو کوئی لسانی سطح پر ۔ محدب عدسہ اور چراغ لے کر سورج کی روشنی ميں پاکستانی کو ڈھونڈنا پڑتا ہے

زندہ قوم کے افراد اجتمائی بہتری کا سوچتے اور اس کيلئے کام کرتے ہيں جبکہ شکست خوردہ قوم کے افراد صرف اپنے لئے کام کرتے ہيں اور صرف اپنی بہتری کا سوچتے ہيں خواہ دوسرے کی اس ميں حق تلفی ہو

احوالِ قوم ۔ 7 ۔ عصرِ حاضر کا مسلماں

وہ قومیں جو سب راہیں طے کرچکی ہیں ۔ ۔ ذخیرے ہر اک جنس کے بھر چکی ہیں
ہر اک بوجھ بار اپنے سر دھر چکی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہوئیں تب ہیں زندہ کہ جب مرچکی ہیں
اسی طرح راہِ طلب میں ہیں پویا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت دور ابھی ان کو جانا ہے گویا
کسی وقت جی بھر کے سوتے نہیں وہ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی سیر محنت سے ہوتے نہیں وہ
بضاعت کو اپنی ڈبوتے نہیں وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کوئی لمحہ بے کار کھوتے نہیں وہ
نہ چلنے سے تھکتے نہ اکتاتے ہیں وہ ۔ ۔ ۔ بہت بڑھ گئے اور بڑھے جاتے ہیں وہ

مگر ہم کہ اب تک جہاں تھے وہیں ہیں ۔ ۔ جمادات کی طرح بارِ زمیں ہیں
جہاں میں ہیں ایسے کہ گویا نہیں ہیں ۔ ۔ زمانہ سے کچھ ایسے فارغ نشیں ہیں
کہ گویا ضرویری تھا جو کام کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب کر چکے ایک باقی ہے مرنا

عمل جن کا تھا اس کلامِ متیں پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سر سبز ہیں آج روئے زمیں پر
تفوق ہے ان کو کہین و مہیں پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ مدار آدميّت کا ہے اب انہیں پر
شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لے جاکے سب اہلِ مغرب نے جوڑے

سمجھتے ہیں گُمراہ جن کو مسلماں۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جن کو عقبٰیٰ میں اُمیدِ غفراں
نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ رضواں۔ ۔ نہ تقدیر میں حُور جن کے نہ غلماں
پس از مَرگ دوزخ ٹھکانا ہے جن کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حمیم آب و زقُّوم کھانا ہے جن کا
وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب آپس میں ایک اک کے حاجت روا ہیں
اولوالعلم ہیں ان میں یا اغنیا ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طلب گار بہبود خلقِ خدا ہیں
یہ تمغا تھا گویا کہ حصہ انہیں کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ حُب الوطن ہے نشان مومنیں کا

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ شادی خانہ آبادی يا ۔ ۔ ۔

شادی کا لفظ نکلا ہے شاد ۔ شاداں يا شادمانی سے يعنی خوشی ۔ عقد النکاح کا نام شادی رکھنا تب درست معلوم ديتا ہے جب خانہ آبادی ہو ورنہ بربادی کو شادی کہنا کہاں کی عقلمندی ہے
:lol:
ويسے اس نہائت اہم سلسلہ ميں ہماری قوم کی اکثريت عقلبندی کا مظاہرہ کرتی ہے عقلمندی کا نہيں ۔ شادی تو بعد کی بات ہے اسے خانہ بربادی بنانے کا بندوبست اُسی وقت شروع کر ديا جاتا ہے جب کسی لڑکے کی شادی کی منصوبہ بندی شروع ہوتی ہے

کسی نے کہہ ديا “بيٹے سے پوچھ ليا ؟” تو جواب ملا “اے ہے ۔ ہمارا بيٹا ہے ۔ بڑے لاڈ چاؤ سے پالا ہے ۔ کيسے نہ پسند ہوگی اُسے”۔ اگر لڑکے کا باپ مداخلت کی کوشش کرے تو جواب ملتا ہے “تمہيں کيا معلوم کہ گھر کيسے چلتا ہے ۔ تم تو سارا دن باہر رہتے ہو ۔ بہو کے ساتھ سارا دن ميں نے گذارنا ہے”

يہ بات جاہلوں يا کم پڑھے لکھوں کی نہيں ہو رہی ۔ بڑی بڑی پڑھی لکھیاں جب ماں بنتی ہيں تو عقلبند ہو جاتی ہيں ۔ عورت بہو کی تلاش ميں نکلتی ہے تو پہلی شرط چاند سا مکھڑا ہوتی ہے جب مل جائے تو اُس کے باپ کی جائيداد يا عہدے کا حساب لگنا شروع ہو جاتا ہے ۔ شادی ہو جانے پر پتہ چلتا ہے کہ بيٹا مشرق کی طرف جا رہا ہے اور بہو مغرب کی طرف پھر وہی چاند سا مکھڑا گہنا جاتا ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ شادی نہيں خانہ بربادی ہوئی ہے

ہمارے ہاں ايک رواج بيٹے برآمد [export] کرنے کا بھی چل رہا ہے ۔ برطانيہ يا امريکا ميں لڑکی پسند کی اور بہو گھر لانے کی بجائے بيٹے کو بہو کے گھر بھيج ديا ۔ دل ميں لڈو پھوٹتے ہيں کہ بيٹا برطانوی يا امريکی شہری بن جائے گا تو گويا بادشاہت مل جائے گی ۔ بھلا ہو امريکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ورنہ بڑے فخر کے ساتھ کہا جاتا تھا ہمارے بيٹے کے پاس گرين کارڈ ہے يا ہمارے بيٹے کے پاس لال پاسپورٹ ہے ۔ ايسے لڑکے عام طور پر ساری عمر بيوی کی غلامی ميں گذارتے ہيں کيونکہ امريکا اور برطانيہ کے قانون کے مطابق اُن کی بيوياں جب چاہيں اُنہيں مُلک سے نکلوا سکتی ہيں ۔ تو کيا يہ شادی ہوئی يا خانہ بربادی

ہم ۔ ہماری باتيں اور ہمارا عمل

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کی حفاظت کرنے والے ایلیٹ فورس کے سکواڈ میں شامل جوان ممتاز قادری نے ہلاک کر ديا

نتيجہ ۔
ہميشہ کی طرح عوام کی آپس ميں لے دے ۔ فضول بحث اور ايک دوسرے پر تہمت طرازی
سوال ہے ۔ کيا ہميں اس سے بہتر کوئی کام نہيں آتا ؟

[ميں شروع ہی ميں واضح کر دوں کے ميری سوچ کے مطابق ممتاز قادری ملک کے قانون کا مجرم بنا ہے ۔ اللہ کا مجرم بنا ۔ يا نہيں ۔ وہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ ميں دو جماعت پاس کيا کہہ سکتا ہوں ؟]

جسے ديکھو وہ قرآن شريف اور حديث سے بالا بالا اپنی مخصوص رائے رکھتا ہے جسے وہ اصلی اسلام منوانے پر تُلا بيٹھا ہے ۔ اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم سے محبت صرف يہ سمجھ ليا گياہے کہ ميلادالنبی کا جلوس نکالا جائے محفل ميلاد رچائی جائے ۔ ان ميں نعت کے عنوان سے شرک کی حديں پار کی جائيں مگر اپنی زندگی ميں صرف وہاں نبی کی پيروی کی جائے جہاں آسانی ہو يا اپنی مطلب براری ہوتی ہو ۔ اور جب توہينِ رسالت کی بات آئے تو “قانون امتناع توہينِ رسالت” کو ظالمانہ يا کالا قانون کہا جائے ۔
يا
رحمت للعالمين کی حيات طيّبہ ميں سے چند مثاليں دے کر توہين کرنے والے کی معافی کا جواز نکالا جائے

ميں ايک عام سا انسان ہوں اور ہر بات کو اس نظر سے ديکھتا ہوں جيسا کہ ميرا اپنا عمل ہے ۔ اگر کوئی ميری بے عزتی کرے تو ميں اُسے معاف کر سکتا ہوں اور يہ حقيقت ہے کہ ميں نے اپنی زندگی ميں ہميشہ ايسے لوگوں کو معاف کيا بھی بلکہ ايک بار حالات کی سازگاری کے پيشِ نظر ايک سِنيئر افسر ہوتے ہوئے ايک ورکر سے سب کے سامنے معافی مانگی ليکن ميں اپنے والدين کی توہين برداشت نہيں کر سکتا چاہے ميری جان جائے ۔ ايک بار ايک شخص نے يہ حرکت کی تھی اور وہ پہلی اور آخری بار تھی کہ لوگوں نے مجھے بپھرا ہوا ديکھا تھا ۔ ميں نے اپنے سے زيادہ جسمانی لحاظ سے طاقتور توہين کرنے والے کے دو چار ہاتھ ايسے رسيد کئے کہ وہ پريشان ہو گيا تھا ۔ اس کے بعد آج تک کسی کو جراءت نہيں ہوئی کہ وہ ميرے ماں باپ کے خلاف بولے

کيا يہ حقيقت نہيں ہے کہ کوئی شخص مُسلمان ہو ہی نہيں سکتا جب تک اُسے نبی سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم اپنی عزيز ترين چيز حتٰی کہ اپنے والدين سے بھی زيادہ عزيز نہ ہو جائيں ؟

پھر کہاں رہ جاتی ہے ہماری مسلمانی جب کوئی ملعون توہنِ رسالت کا مرتکب ہوتا ہے ؟

کيا ہمارا حال کچھ اس طرح نہيں جس طرح گارڈن کالج راولپنڈی ميں ہمارے پروفيسر جناب وی کے مل صاحب نے انگلش پوئٹری پڑھاتے ہوئے بتايا تھا “ايک جوان اپنی محبوبہ کو بتا رہا تھا کہ وہ اس سے بہت زيادہ محبت کرتا ہے يہاں تک کہ اس کيلئے اپنی جان تک قربان کر سکتا ہے ۔ اسی اثناء ميں ايک بھينسا اُن کی طرف بھاگتا ہوا آيا تو جوان نے اپنی محبوبہ جس نے سُرخ رنگ کا سکرٹ پہن رکھا تھا کو اُٹھا کر بھينسے کے سامنے کر ديا”

يہ کہنا درست ہے کہ ممتاز قادری نے سلمان تاثير کو قتل کر کے ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی ۔ اس پر بہت شور شرابا ہے ۔ ملک ميں اس سے زيادہ قانون کی خلاف ورزياں ہو رہی ہيں ۔ ان پر خاموشی ہے ۔ کيوں ؟

سلمان تاثير نے قانون امتناع توہينِ رسالت کو “کالا قانون” کہہ کر نہ صرف ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی بلکہ توہينِ رسالت کا بھی مرتکب ہوا تھا

اس پر ملک کے وزيرِ اعظم سيّد يوسف رضا گيلانی نے يہ کہہ کر کہ يہ حکومت کی پاليسی نہيں ہے ايک گڑوی پانی سے اشنان کر ليا تھا ۔ توممتاز قادری کے بارے ميں بھی ايک گڑوی پانی سے اشنان کر لينے ميں کيا مانع ہے ؟

اس سے اُن کی اپنی جماعت اور حواری زد ميں آتے ہيں اور اُنہيں اپنی کرسی چھننے کا خدشہ ہے

بدلہ جانوروں سے ؟ ؟ ؟

ميں پہلے بدلہ انسانوں سے لکھ چکا ہوں جس ميں اس سلسلہ ميں اللہ کا فرمان نقل کر چکا ہوں ۔ ہم لوگ اتنے خود پسند اور خود غرض ہو چکے ہيں کہ بے زبان جانوروں کو بھی معاف نہيں کرتے ۔ انسان بول سکتے ہيں بدلہ لے سکتے ہيں مگر جانور جو ايسا نہيں کر سکتے ہمارا رويّہ اُن کے ساتھ بہتر ہونے کی بجائے ظالمانہ ہوتا ہے

پرانے زمانہ ميں لوگ اپنے گھر کی چھتوں پر يا برآمدے ميں محراب کی چوٹی سے دو برتن لٹکا ديا کرتے تھے اور روزانہ ايک ميں دانہ اور ايک ميں پانی ڈالا کرتے تھے ۔ يہ کام صرف مالدار نہيں کم مايہ لوگ بھی کرتے تھے اور کئی اب بھی کرتے ہيں ۔ پرندے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی حمد کرتے ہيں کيا وہ انسانوں کيلئے خير کی دعا نہيں کر سکتے ؟

ميں نے بچپن ميں چيوٹيوں کی لمبی قطار لگی ديکھی تو اپنے گھر والوں کو مطلع کيا ۔ کہا گيا “ديکھو چيونٹياں کہاں سے آ رہی ہيں ۔ وہاں ايک مُٹھی آٹا ڈال دو”۔ ميں نے تعميل کی اور چيونٹيوں کا جائزہ لينے لگا ۔ کچھ ہی دير ميں سب چيونٹياں آٹا اپنے بِل ميں ليجا رہی تھيں ۔ اس کے بعد گھر ميں کوئی چيونٹی نظر نہ آئی

اب اگر پرندوں کے گند ڈالنے يا چيونٹيوں کے گھر ميں کھانے کی چيز پر چڑھنے يا گھر ميں پھرنے سے ناراض ہو کر پرندوں کو ہلاک کرنا شروع کر ديا جائے يا چيونٹيوں کی نسل کُشی کر دی جائے تو کيا يہ ظلم نہ ہو گا ؟

ہم نے اساتذہ اور بزرگوں سے سنا تھا کہ ايک درخت کاٹا جائے يا فالتو پانی بہايا جائے تو اس کا بھی روزِ محشر حساب دينا ہو گا ۔ بدلہ لينے کے سلسلہ ميں اللہ کا فرمان ہے بے زبان سے کيا بدلہ لينا جسے اس بات کی سمجھ ہی نہيں کہ وہ اپنا رزق تلاش کرتے ہوئے کسی کی نازک طبع پر گراں گذر رہا ہے

سورت 16 النحل آيت 126 ۔ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ
اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے

سورت 42 الشورٰی آيات 40 تا 43 ۔ وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، (فی الواقع) اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا