ابليس [شيطان] نے ايک بين الاقوامی کانفرنس بلائی جس ميں اُس کے پيروکاروں کے وفود دنيا کے تمام ممالک سے جوق در جوق شامل ہوئے ۔ اپنی تقرير کا آغاز کرتے ہوئے ابليس نے اپنے پيروؤں سے کہا
“ميرے دوستوں و مددگارو ۔ نيک ۔ پرہيزگار ۔ اللہ کے بندوں کو ہم کسی صورت مساجد ميں جانے سے نہيں روک سکتے ۔ نہ ہم اُنہيں قرآن کی تلاوت سے روک سکتے ہيں اور نہ سچائی کی تلاش سے ۔ مجھے اللہ نے اول روز ہی بتا ديا تھا کہ ‘ميرے [اللہ کے] بندوں کو تم ورغلا نہيں سکو گے’۔ ہم اُنہيں اللہ کا قُرب حاصل کرنے سے بھی نہيں روک سکتے ۔ اسلئے اُنہيں نہ مساجد ميں جانے سے روکنے پر وقت ضائع کرو اور نہ دوسرے بھلائی کے کاموں سے روکنے پر”
“ليکن ياد رکھو ۔ اگر سب لوگ اپنے رب کے قريب ہو گئے تو ہمارا اُن پر کوئی اختيار نہيں رہے گا ۔ ان کو اللہ سے دور کرنے کا صرف ايک ہی طريقہ ہے کہ ان سب سے ايک چيز چھين لو ۔ اُن کا وقت [فرصت] ۔ پھر وہ اپنے خالق کے ساتھ مطلوبہ ربط قائم کرنے ميں ناکام رہيں گے ۔ ميں چاہتا ہوں کہ تم سب اس منصوبہ پر ہمہ تن گوش کاربند ہو جاؤ ۔ ميرے پيروکارو ۔ اُنہيں اللہ سے ربط قائم کرنے سے غافل کر دو ۔ جب ربط قائم نہيں ہو گا تو وہ فلاح کی راہ پر چل ہی نہ پائيں گے”
تمام وفود نے يک زبان ہو کر کہا “ہمارے آقا ۔ يہ کيسے ممکن ہو گا ؟”
ابليس بولا “يہ مشکل نہيں ہے ۔ اُنہيں خوش دل بنا دو اور دوسرے غير اہم عوامل ميں ُانہيں ہر وقت مشغول و مصروف رکھو ۔ ايسے عوامل ايجاد کرو جو انہيں پسند آئيں ۔ اُنہيں اور بالخصوص اُن کی بيويوں کو فضول خرچی پر اُکساؤ يہاں تک کہ وہ اپنی من پسند حاجات کيلئے مقروض ہو جائيں يا دولت اکٹھا کرنے کے اور ذرائع تلاش کريں ۔ اُن کے دلوں ميں زيادہ دولت اکٹھا کرنے اور اعلٰی مرتبے حاصل کرنے کی ہوس پيدا کرو ۔ يہاں تک کہ اپنی مادی ضروريات پوری کرنے کيلئے وہ دن ميں 18 سے 20 گھنٹے کام کرنے لگيں ۔ اُنہيں بچوں کے ساتھ وقت گذارنے سے محروم کر دو ۔ اس طرح اُن کے خاندان بکھر جائيں گے اور وہ دل کا سکون کھو بيٹھيں گے ۔ رات گئے تک دولت کمانے کے چکر ميں پڑ کر وہ گھر سے باہر سکون تلاش کريں گے”
“ان کے دماغوں کو اتنا مشغول کر دو کہ وہ ضمير کی آواز سُن نہ سکيں ۔ کلبوں اور پارٹيوں ميں جانے کيلئے اُن کی حوصلہ افزائی کرو اور اگر وہ گھر آئيں تو ريڈيو ۔ ٹی وی ۔ سی ڈیز اور ڈی وی ڈی پليئرز کی دنيا اُن کيلئے حسين بنا دو يا انہيں موبائل فون ميں لگا دو ۔ حتٰی کہ اُن کے دماغ سُن ہو جائيں اور وہ اپنی بھلائی کا سوچ بھی نہ سکيں ۔ اس طرح اُن کا دھيان اپنے اللہ کی طرف نہيں جا پائے گا اور اگر گيا بھی تو اس کيلئے اُن کے پاس وقت نہيں ہو گا”
“ان پر خبروں کی بوچھاڑ کر دو تاکہ ان کے دماغ ہر وقت منتشر رہيں”
“انہيں قائل کرو کہ اللہ سے تعلق انفرادی فعل ہے ۔ اجتماعی معاشرہ جمہور کی اکثريتی رائے سے بنتا ہے ۔ انہيں مذہب کو جديد زمانہ کے مطابق ڈھالنے کی ترغيب دو تاکہ کہ وہ اپنی عقل لڑا کر مذہب کی روح کو غائب کر ديں”
“اگر پھر بھی ان کے پاس کچھ وقت بچے تو انہيں خوش گپيوں ميں مبتلا کر دو تا کہ ان کے دماغ کچھ سوچنے کی سکت نہ رکھيں”
“آگے بڑھو ميرے جانبازو ۔ انسان کی خواہشات کو اتنا بڑھا دو کہ ان کی نيک خواہشات ہوں بھی تو ان پر عمل کرنے کا ان کے پاس وقت نہ ہو”