Category Archives: معاشرہ

باپ اور بیٹے میں فرق

ایک 85 سالہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے بڑے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے پاس آ کر شور مچایا
باپ کو نجانے کیا سوجھی اُٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا “بیٹے یہ کیا چیز ہے ؟”
بیٹے نے جواب دیا “یہ کوّا ہے”
یہ سُن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا ۔ کُچھ دیر بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس آیا اور پوچھا “بیٹے ۔ یہ کیا ہے ؟”
بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا “یہ کوّا ہے”
کُچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا “بیٹے یہ کیا ہے ؟”
بیٹے نے اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے کہا “ابا جی یہ کوّا ہے یہ کوّا ہے”
تھوڑی دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا ور چوتھی بار بیٹے سے پوچھا “بیٹے یہ کیا ہے ؟”
اس بار بیٹے کا صبر جواب دے چُکا تھا۔ نہایت اُکتاہٹ اور ناگواری سے اپنی آواز کو مزید بُلند کرتے ہوئے اُس نے کہا “کیا بات ہے آج آپکو سُنائی نہیں دے رہا کیا ؟ ایک ہی سوال کو بار بار دُہرائے جا رہے ہيں ۔ میں کتنی بار بتا چُکا ہوں کہ یہ کوّا ہے یہ کوّا ہے ۔ کیا میں کسی مُشکل زبان میں آپکو بتا رہا ہوں جو اتنا سادہ سا جواب بھی سمجھ نہيں آرہا ہے يا آپ کو سُنائی دے رہا ہے ؟”
اس کے بعد باپ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد باپ واپس آیا تو ہاتھ میں کُچھ بوسیدہ سے کاغذ تھے ۔ کاغذوں سے لگ رہا تھا کہ کبھی کسی ڈائری کا حصہ رہے ہونگے ۔ کاغذ بیٹے کو دیتے ہوئے بولا “بیٹے ۔ دیکھو ان کاغذوں پر کیا لکھا ہے ؟”
بیٹے نے پڑھنا شروع کیا ۔لکھا تھا
“آج میرے بیٹے کی عمر 3 سال ہو گئی ہے ۔ اُسے کھیلتے کودتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھ دیکھ کر دِل خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہے ۔ اچانک ہی اُسکی نظر باغیچے میں کائیں کائیں کرتے ایک کوّے پر پڑی ہے تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ہے اور پوچھتا ہے یہ کیا ہے ؟ میں نے اُسے بتایا ہے کہ یہ کوّا ہے مگر اُسکی تسلی نہیں ہو رہی یا شاید میرے منہ سے سُن کر اُسے اچھا لگ رہا ہے ۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد آ کر پھر پوچھتا ہے یہ کیا ہے ؟ اور میں ہر بار اُسے کہتا ہوں یہ کوّا ہے ۔ اُس نے مُجھ سے یہ سوال 23 بار پوچھا ہے اور میں نے بھی اُسے 23 بار ہی جواب دیا ہے ۔ اُسکی معصومیت سے میرا دِل اتنا خوش ہو رہا ہے کہ کئی بار تو میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اُسے گلے لگا کر پیار بھی کر چُکا ہوں ۔ خود ہی پوچھ پوچھ کر تھکا ہے تو آکر میرے پاس بیٹھا ہے اور میں اُسے دیکھ دیکھ کر فدا اور قُربان ہو رہا ہوں

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ سورت ۔ 17 ۔بنٓی اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 23
وَقَضَی رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُھُمَا أَوْ كِلَاھُمَا فَلَا تَقُلْ لَھُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَھُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
ترجمہ ۔ اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو

تحرير ۔ محمد سليم ۔ بقيہ يہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔ يہاں اس سلسلہ ميں ميرا ايک ذاتی تجربہ

شايد 1951ء کی بات ہے جب ميں آٹھويں جماعت ميں پڑھتا تھا کہ ميں کسی سلسلہ ميں راولپنڈی سے لاہور روانہ ہوا ۔ ٹرين 8 بجے صبح روانہ ہوئی ۔ ہفتہ کے درميانی دن تھے اسلئے ٹرين ميں بھيڑ نہ تھی ۔ 4 سواريوں کی نشست پر ميں ايک بزرگ اور ايک تين ساڑھے تين سال کا بچہ بيٹھے تھے ۔ بچہ بزرگوار کا پوتا تھا ۔ جونہی ٹرين روانہ ہو کر پليٹ فارم سے باہر نکلی بچہ کھڑکی سے باہر ديکھنے لگ گيا
ايک کھمبہ نظر آيا تو دادا سے پوچھا “يہ کيا ہے ؟”
دادا نے بڑے پيار سے مسکرا کر کہا “يہ کھمبا ہے”

سب جانتے ہيں کہ ريلوے لائن کے ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھمبے ہوتے ہيں
بچہ ہر دوسرے تيسرے کھمبے کی طرف اشارہ کر کے کہتا “يہ کيا ہے ؟”
اور دادا اُسی طرح پيار سے مسکرا کر کہتے “يہ کھمبا ہے”

غرضيکہ جہلم تک جب بچہ تھک کر سو گيا تو ميرے حساب سے وہ يہ سوال ساٹھ ستّر بار دہرا چکا تھا اور بزرگوار نے اُسی طرح پيار سے اور مسکرا کر جواب ديا تھا

بچے کے سونے کے بعد ميں نے بزرگوار سے کہا “آپ کی ہمت ہے کہ آپ متواتر اتنے پيار سے جواب ديتے گئے ۔ آپ تھک گئے ہوں گے ؟”
وہ بزرگ بولے “اب سو گيا ہے ۔ ميں آرام کر لوں گا”

ميں مسکرائے بغير نہ رہ سکا کيونکہ بچہ اُن کی گود ميں سويا ہوا تھا ۔ وہ کيسے آرام کر سکتے تھے

خدا ۔ منطق ۔ عقل اور سائنس ۔ دوسری اور آخری قسط

پچھلی قسط ميں سوال ” خدا کے وجود کا کيا ثبوت ہے ؟” کے حوالے سے عقل ۔ منطق اور سائنس پر کچھ بات کی گئی تھی ۔ آج مزيد مثالوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہيں

آج سے شايد 3 دہائياں قبل 24 دسمبر کو ايک ہوائی جہاز ايميزان کے جنگلوں کے اُوپر سے پرواز کے دوران لاپتہ ہو گيا ۔ تلاشِ بسيار کے باوجود نہ جہاز کا ٹکڑا ملا نہ کسی انسان کا مگر حادثہ کے 10 دن بعد ايک جوان لڑکی خود چلتی ہوئی جنگل کے محافظوں کے ايک خيمے تک پہنچ گئی اور بتايا کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ اُس ہوائی جہاز ميں سفر کر رہی تھی ۔ وہ بيہوش ہو گئی تھی ۔ ہوش آنے پر اُس نے اپنے آپ کو زمين پر پايا اور چلتی ہوئی وہاں پہنچی ہے

کيا عقل اور منطق سے ايسے واقعات کی تشريح ہو سکتی ہے ؟ نہيں ۔ اس عمل کا عامل وہی عقلِ کُل ہے جسے ہم خدا کہتے ہيں

عقل اور منطق کس کی مِلکيت ہے ؟

چھ سات دہائياں پيچھے کا واقعہ ہے کہ لندن کے دماغی امراض کے اسپتال کا سربراہ ڈاکٹر ايک دن شام کو کام ختم کر کے گھر جانے کيلئے سڑک پر کھڑی اپنی کار کے پاس پہنچا تو ديکھا کہ ايک پہيئے کی چاروں ڈھبرياں [Nuts] غائب ہيں ۔ وہ پريشان کھڑا تھا کہ ہسپتال کی دوسری منزل سے آواز آئی
“ڈاکٹر کيوں پريشان ہو ؟”
ڈاکٹر “کوئی شرير لڑکا ميری کار کے ايک پہيئے کی چاروں ڈھبرياں لے گيا ہے ۔ ميں گھر کيسے جاؤں گا”
وہ شخص “ڈاکٹر ۔ باقی تين پہيئوں سے ايک ايک ڈھبری اُتار کر اس ميں لگا لو اور گاڑی آہستہ چلاتے سپيئر پارٹس کی دکان تک چلے جاؤ ۔ وہاں سے 4 ڈھبرياں خريد کر پوری کر لينا”
ڈاکٹر “کمال ہے ۔ تم پاگل ہو کر بھی مجھ سے زيادہ عقل رکھتے ہو”

ايک صدی کے قريب پرانی بات ہے جب پہلا راکٹ بنانا شروع کيا گيا تھا ۔ تجربہ کيلئے جب راکٹ فائر کيا جاتا تو اُس کے پر اُکھڑ جاتے اور راکٹ ھدف تک نہ جاتا ۔ کئی ماہ مُلک کے عقلمند [Think Tanks] مختلف طريقے آزماتے رہے مگر کاميابی نہ ہوئی ۔ آخر تمام فيکٹريوں ميں کام کرنے والوں سے مشورہ لينے کا سوچا گيا ۔ ايک فيکٹری ميں ايک مزدور تھا جو اپنی نااہلی کی وجہ سے 14 سال سے فرش صاف کرنے سے آگے نہ بڑھ سکا تھا ۔ اُس کے فورمين نے اُس کی رائے پوچھی تو اُس نے کہا “اسے سوراخدار [Perforated] بنا دو”۔ اس پر عمل ہوا اور تجربہ کامياب ہو گيا ۔ اس مزدور کو انعام و اکرام سے نوازا گيا ۔ اس کے اعزاز ميں بہت بڑی دعوت کا اہتمام کيا گيا ۔ وہاں اس سے کہا گيا کہ “جو تجويز بڑے بڑے عقلمند نہ دے سکے تمہارے دماغ ميں کيسے آئی ؟”وہ بولا “ٹائيلٹ پير کو نہيں ديکھا ؟ کبھی وہاں سے نہيں پھٹتا جہاں سوراخ ہوتے ہيں”

پہلی صورت ميں ايک پاگل کے پاس ايک ماہر اور تعليميافتہ ڈاکٹر کی نسبت زيادہ عقل نظر آتی ہے جبکہ دوسرے معاملہ ميں ايک جاہل کی بيوقوفی عقل کا نمونہ بن گئی ۔ ہم کس عقل کی بناء پر خدا کے وجود کے منکر بننا چاہتے ہيں ؟

تھوڑی سی بات سائنسی ترقی کی

آج کا انسان سمجھتا ہے کہ ترقی کے جس عروج پر آج وہ ہے ماضی کا انسان اس کی گرد کو بھی نہ پا سکا تھا ۔ يہی سوچ ہے جو آدمی کو انسانيت سے وحشت کی طرف ليجاتی ہے ۔ اگر سائنس آج ماضی کی نسبت بہت زيادہ ترقی کر چکی ہے تو اس کے پاس مندرجہ ذيل اور اسی طرح کے مزيد عوامل کا حل کيوں نہيں ہے ؟

سمندر کی تہہ ميں ايک ليبارٹری جس ميں خالص سونے کے ہاتھوں کی انگليوں پر رکھا خالص کوارٹز کا 5 سينٹی ميٹر قطر کا کُرہ کس نے بنايا اور سمندر کی تہہ ميں ليبارٹری کيسے بنی جو آج بھی ناممکن نظر آتا ہے ؟

سسلی کے قريب سمندر کی تہہ ميں پڑی بادبانی کشتی ميں سے لکڑی کا بنا ہوا کمپيوٹر ملا ۔ يہ کس نے بنايا اور اس سے کيا کام ليا جاتا تھا ؟

جنوبی افريقہ کے صديوں سے غير آباد علاقے ميں ايروڈروم [Aerodrome] جسے آجکل ايئرپورٹ کہا جاتا ہے کے آثار ملے ۔ يہ ايرو ڈروم کس نے بنائی اور يہاں سے کيا اُڑتا تھا ؟

اہرامِ مصر کی کيا ٹيکنالوجی تھی کہ کوئی سوراخ نظر نہ آنے کے باوجود اندر ہوا چلتی محسوس ہوتی ہے ؟

گرم حمام آگرہ کس طرح بنايا گيا تھا کہ اس ميں ہر وقت پانی گرم رہتا تھا ؟ اسے انگريزوں نے توڑا مگر پھر آج تک نہ بن سکا

تدبير کے پر جلتے ہيں تقدير کے آگے ۔ تدبير انسانی عقل ہے جو اللہ ہی نے تفويض کی ہے اور تقدير اللہ کی منشاء ہے ۔ انسان کی بدقستی يہ ہے کہ جس کام کيلئے عقل عطا کی گئی وہاں تو استعمال کرتا نہيں ۔ اُلٹا عقل تفويض کرنے والے کے خلاف عقل استعمال کرنا شروع کر ديتا ہے

اے انسان ۔ عقل کُل صرف اللہ کی ذات ہے وہی خالق و مالک ہے ۔ مان لے کہ تيری عقل ناقص ہے اور تيری جو بھی خُوبياں ہيں وہ سب اللہ کی تفويض کی ہوئی ہيں
سب کچھ ديا ہے اللہ نے مجھ کو
ميری تو کوئی بھی چيز نہيں ہے
يہ تو کرم ہے ميرے اللہ کا
مجھ ميں ايسی کوئی بات نہيں ہے

خدا ۔ منطق ۔ عقل اور سائنس

خدا کی موجودگی کے متعلق باذوق صاحب نے ايک پُر مغز تحرير لکھی تھی ۔ بغير باذوق صاحب کی تحرير کا اثر لئے اور مسجد و منبر کو بھی ايک طرف رکھتے ہوئے منطق ۔ عقل اور سائنس کی بات کرتے ہيں

خدا کے وجود کا کيا ثبوت ہے ؟ يہ يا اس قسم کے سوال اتنا ہی پرانے ہيں جتنی اس دنيا ميں آدمی کی آمد مگر اُردو بلاگو سفيئر پر اس طرح کے سوال کو دو بار موضوع بنايا گيا

سائنس کيا ہے ؟

سائنس کی بنياد يہ اصول ہے کہ ہر عمل کا کوئی عامل ہوتا ہے ۔ علمِ طبيعات ہو يا علمِ کيمياء يا سائنس کا کوئی اور شعبہ سب اسی اصول پر استوار ہيں ۔ طبيعات ميں آئزک نيوٹن کے مشہورِ زمانہ کُلياتِ حرکت اسی اصول کو واضح کرتے ہيں ۔ پہلا کُليہ ہے ” کوئی چيز جو ساکن يا متحرک ہے اُس وقت تک ساکن يا متحرک رہتی ہے جب تک کوئی باہر کی طاقت اس صورتِ حال کو نہ بدل دے ۔ يعنی کوئی عمل خود بخود نہيں ہوجاتا اس کے وقوع پذير ہونے کيلئے عامل کا ہونا لازمی ہے

عامل کی تلاش کو سائنس تحقيق کا نام ديتی ہے ۔ سائنس کے کچھ طالب علم محسوس يا غيرمحسوس طور پر اس مفروضہ سے ابتداء کرتے ہيں کہ وہ بذاتِ خود عقلِ کُل ہيں جس کا فطری نتيجہ خدا جو کہ عقلِ کُل ہے کا انکار ہوتا ہے ۔ معروف سائنسدان آئزک نيوٹن نے ہی کہا تھا
“انسان کے ايک ہاتھ کی ايک اُنگلی کی ايک پور کا مطالعہ ہی يہ باور کرنے کيلئے کافی ہے کہ خدا ہے”

پوری کائنات کی تخليق ايک عمل ہے ۔ اس کا عامل کون ہے ؟ عقل ۔ منطق اور سائنس يہ بتانے سے قاصر ہيں ۔ جب کوئی تسُونامی آتا ہے تو اس کا عامل زلزلے کو بتايا جاتا ہے ۔ زلزلے کا عامل بتانے کيلئے فالٹ لائنز دريافت کر لی جاتی ہيں ۔ فالٹ لائنز کے عمل کا عامل نہيں بتايا جاتا ۔ جو ثابت کرتا ہے کہ سائنس نامکمل اور عقل محدود ہے

کئی بار ايسے ہوا ہے کہ ايک آدمی کو سائنس مردہ قرا د دے ديتی ہے مگر بعد ميں وہ زندہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے برعکس ايک آدمی کا معائنہ کر کے اُسے سو فيصد تندرست قرار ديا جاتا ہے اور اُسی لمحے وہ مر جاتا ہے ۔ ايسے واقعات کے بارے ميں انسانی عقل اور منطق ناکام ہيں کيونکہ انسانی عقل ناقص ہے

کوئی 56 سال پرانی بات ہے جب ميں گارڈن کالج راولپنڈی ميں گيارہويں جماعت ميں پڑھتا تھا ۔ اُس زمانہ ميں بھی خدا کا منکر بننے کيلئے سائنس کا سہارا لينے کا فيشن چلا تھا ۔ ايک دن آدھی چھُٹی کے وقت ميرے 2 ہمجماعت آپس ميں بات کر رہے تھے تو
ايک نے کہا “اس دنيا کا خالق خدا ہے”
پاس ہی ايک بارہويں جماعت کا لڑکا کھڑا تھا بول اُٹھا “يہ دنيا خدانے بنائی تو خدا کو کس نے بنايا تھا ؟”
پہلے والا بولا “آپ بتائيں يہ دنيا کيسے بنی ؟”
بارہويں جماعت والا بولا “فضا ميں خُليئے تھے ۔ وہ جڑنا شروع ہوئے اور يہ کائنات وجود ميں آئی”
پہلے والا بولا “خُليئوں سے پہلے کيا تھا اور خُليئے کہاں سے آئے ؟”
بارہويں جماعت والا بولا “معلوم نہيں”
پہلے والا بولا “ناقص علم پر يقين کرنے والا ناقص العقل ہوتا ہے ۔ انسان کی عقل کامل نہيں ہے ۔ وہ خدا کو تسليم کرنے ميں اسلئے ہچکچاتا ہے کہ اسے ناقص العقل نہ سمجھا جائے”

منطق کيا ہے ؟

سادہ الفاظ ميں منطق کہتی ہے کہ 2 + 2 = 4
مگر آج سے 55 سال قبل بارہويں جماعت ميں ہميں ڈفرينشل کيلکولس [Differential Calculus] کا ايک کُليہ پڑھايا گيا تھا جس کے ذريعہ سے ثابت کيا جا سکتا تھا کہ ضروری نہيں 2 + 2 = 4 ہی ہو ۔ اسے سائنس کا ارتقاع کہا جاتا ہے مگر ساتھ ہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی منطق ہو يا عقل دونوں نامکمل ہيں اور اس کی نشو و نما ہوتی رہتی ہے ۔ عقلِ کُل صرف وہ عامل [وَحْدَہُ لَا شَرِيْکَ لَہُ] ہے جس نے يہ ساری کائنات تخليق کی اور اسے چلا رہا ہے اور وہ خدا ہے

عقل کيا ہے ؟

يہ انسان کی سوچ ہے جو کہ محدود ہے مگر انسان اسے محدود ماننا اپنی توہين سمجھتا ہے ۔ اس کی کچھ مثاليں عملی زندگی سے ديکھتے ہيں

خليل اللہ سيّدنا ابراھيم عليہ السّلام کو منکرِ خدا آگ ميں پھينکتے ہيں مگر آگ اُنہيں کچھ نقصان نہيں پہنچاتی ۔ ايسے موقع پر عقل گُنگ ہو جاتی ہے ۔ علامہ اقبال نے اسی واقعہ کے متعلق لکھا تھا

بے خطر کُود گیا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشہ لبِ بام ابھی

دوسری قسط اِن شاء اللہ جمعرات 14 اپريل کو

اسلام کی قیمت 20 پنس

برسوں پہلے کی بات ہے کہ ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول بن گیا ۔ لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا

ایک دن یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے ، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا بیٹھے ۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے بقايا پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ 20 پنس زیادہ آگئے ہیں ۔ امام صاحب سوچ میں پڑ گئے ۔ پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ 20 پنس وہ بس سے اُترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے ۔ پھر ایک سوچ آئی کہ اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے ۔ ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی ہے ۔ ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑے گا ؟ میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں

جب بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو 20 پنس واپس کرتے ہوئے کہا “یہ لیجئے 20 پنس ۔ آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے تھے”

ڈرائیور نے 20 پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا “کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں ؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا ۔ یہ 20 پنس میں نے جان بوجھ کر آپ کو زیادہ دیئے تھے تاکہ آپ کا اس معمولی رقم کے بارے میں رویّہ پرکھ سکوں”

امام صاحب کو بس سے نیچے اُترتے ہوئے ایسے محسوس ہوا جیسے کہ اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے ۔ گرنے سے بچنے کیلئے
ایک کھمبے کا سہارا لیا ۔ آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی “یا اللہ مُجھے معاف کر دینا ۔ میں ابھی اسلام کو 20 پنس میں بیچنے لگا تھا”

ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے افعال پر لوگوں کے رد عمل کی پرواہ نہ کرتے ہوں مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں ليکن زيادہ تر ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہيں ۔ ہم اگر مسلمان ہيں تو ہميں دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال ہونا چاہیئے اور ہمیشہ اپنے معاملات میں سچے اور کھرے بھی ۔ صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر کہ کوئی ہمارے رویّوں کے تعاقب میں تو نہیں جو ہمارے شخصی عمل کو سب مسلمانوں کی مثال سمجھ بیٹھے یا پھر اسلام کی تصویر ہمارے اعمال اور رویّئے کے مُطابق ذہن میں بٹھا لے

بشکريہ ۔ محمد سليم صاحب ۔ شانتو ۔ چين

احوالِ قوم ۔ ماضی اور حال

سعادت بڑی اس زمانہ کی یہ تھی
کہ جھکتی تھی گردن نصحیت پہ سب کی
نہ کرتے تھے خود قول حق سے خموشی
نہ لگتی تھی حق کی انہیں بات کڑوی
غلاموں سے ہو جاتے تھے بند آقا
خلیفہ سے لڑتی تھی ایک ایک بڑھیا
نبی نے کہا تھا انہیں فخرِ امت
جنہیں خلد کی مل چکی تھی بشارت
مسلم تھی عالم میں جن کی عدالت
رہا مفتحر جن سے تختِ خلافت
وہ پھرتے تھے راتوں کو چھپ چھپ کے دردر
وہ شرمائیں اپنا کہیں عیب سن کر
مگر ہم کہ ہیں دام و درہم سے بہتر
نہ ظاہر کہیں ہم میں خوبی نہ مضمر
نہ اقران و امثال میں ہم موقر
نہ اجداد و اسلاف کے ہم میں جوہر
نصحیت سے ایسا برا مانتے ہیں
کہ گویا ہم اپنے کو پہچانتے ہیں

ہوئی ان کی بچپن میں یوں پاسبانی
کہ قیدی کی جیسے کٹے زندگانی
لگی ہونے جب کچھ سمجھ بوجھ سیانی
چڑھی بھوت کی طرح سر پر جوانی
بس اب گھر میں دشوار تھمنا ہے ان کا
اکھاڑوں میں تکیوں میں رمنا ہے ان کا
نشہ میں مئے عشق کے چور ہیں وہ
صفِ فوجِ مژگاں میں محصور ہیں وہ
غمِ چشم و ابرو میں رنجور ہیں وہ
بہت ہات سے دل کے مجبور ہیں وہ
کریں کیا کہ ہے عشق طینت میں ان کی
حرارت بھری ہے طبعیت میں ان کی
اگر شش جہت میں کوئی دلربا ہے
تو دل ان کا نادیدہ اس پر فدا ہے
اگر خواب میں کچھ نظر آگیا ہے
تو یاد اس کی دن رات نامِ خدا ہے
بھری سب کی وحشت سے روداد ہے یاں
جسے دیکھيئے قیس و فرہاد ہے یاں

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

پيغام يا سوال ؟؟؟

ويلنٹائن ڈے سے کچھ روز قبل مجھے موبائل فون پر ايک پيغام ملا تھا ۔ يہ پيغام ہے يا ہمارے ماتھے پر ايک سواليہ نشان ؟

کچھ جوان بيٹھے خوش گپياں کر رہے تھے کہ ويلنٹائن ڈے کا ذکر شروع ہوا تو اس کی تياريوں کی منصوبہ بندی ہونے لگی ۔ اچانک ان ميں سے ايک جوان بولا “اوئے ۔ ايک عيسائی نے عيدالفطر بڑے جوش سے منائی”

سب اُس کی طرف ہکا بکا ہو کر ديکھنے لگے مگر وہ بولتا گيا
“سُنا تم نے کہ ايک ہندو نے عيدالاضحٰے پر بکرے کی قربانی دی اور ايک يہودی نے رمضان کے روزے رکھے”

ويلنٹائن کی منصوبہ بندی کرنے والا جوان بولا “کيا ہانک رہے ہو ۔ ايسا ہو ہی نہيں سکتا”

پہلے والا جوان بولا “تو يہ سب کيا ہے ؟ مسلمانوں نے نيو ايئر منايا ۔ بسنت منائی ۔ ايف ايم 90 نے راکھی کی تقريب منعقد کی ۔ تم لوگ ويلنٹائن منانے کی تياری ميں ہو”

احوالِ قوم ۔ 10 ۔ خوشامد

خوشامد وہ عِلّت ہے جو دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے اور قوموں کی تباہی کا اصل سبب ہے ۔ خوشامد عصرِ حاضر ميں ہماری قوم کے اعلٰی اور پڑھے لکھے طبقہ ميں گھر کر چکی ہے ۔ نتيجہ سب کے سامنے ہے

خوشامد میں ہم کو وہ قدرت ہے حاصل
کہ انساں ہو ہر طرح کرتے ہیں مائل
کہیں احمقوں کو بناتے ہیں عاقل
کہیں ہوشیاروں کو کرتے ہیں غافل
کسی کو اتارا کسی کو چڑھایا
یو نہیں سیکڑوں کو اسامی بنایا
روایات پر حاشیہ اک چڑھانا
قسم جھوٹے وعدوں پہ سو بار کھانا
اگر مدح کرنا تو حد سے بڑھانا
مذمت پہ آنا تو طوفاں اٹھانا
یہ ہے روزمرہ کا یاں ان کے عنواں
فصاحت میں بے مثل ہیں جو مسلماں
اسے جانتے ہیں بڑا اپنا دشمن
ہلمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن
نصحیت سے نفرت ہے، ناصح سے اَن بَن
سمجھتے ہیں ہم رہنماؤں کو رہزن
یہی عیب ہے، سب کو کھویا ہے جس نے
ہمیں ناؤ بھر کر ڈبویا ہے جس نے

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی