Category Archives: معاشرہ

پتھر دل

جی ہاں ۔ مجھے يہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ميں بقلم خود فدوی “پتھر دل آدمی ہوں” ۔

“کل [شبقدر ميں] خُود کُش حملے ميں 80 پاکستانی ہلاک ہوئے اور طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ۔ آپ اس پہ افسوس یا مذمت کب کریں گے ؟” ۔ يہ تبصرہ ميری تحرير ” افغانستان ۔ پاکستان ۔ اُسامہ بن لادن ۔ تاريخ کا ايک ورق” پر کيا گيا گو وہاں اس طرح کی کوئی بات نہ تھی

ميں نے جواب ميں لکھا “آپ صرف افسوس اور مذمت کی بات کر رہی ہيں ۔ ميرے پاس تو اب رونے کيلئے آنسو بھی نہيں بچے”
ميرے اس جواب پر ايک صاحب نے دُکھ کا اظہار کيا
اور سوال کرنے والے کی طرف سے دوسرا سوال آيا ” اگر آپکے پاس رونے کے لئے آنسو نہیں تو ایم کیو ایم پہ بہانے کے لئے کہاں سے آتے ہیں ؟”

مزيد کہا گيا کہ لياری ميں 2 جوئے کے اڈوں پر دستی بم پھينکے گئے ۔ متعدد لوگ مارے گئے ۔ ميں نے اس پر کچھ نہيں لکھا

ميں نہ صحافی ہوں اور نہ کسی اخبار يا ٹی وی چينل کا نمائندہ ۔ پھر ميری ذمہ داری ميں يہ کيسے شامل ہوا کہ ميں ہر خبر پر تبصرہ کروں ؟
ميں تو اپنا روزنامچہ لکھتا ہوں ۔ کوئی پڑھ کر فيض حاصل کرے تو ميری خوش قسمتی ہے ۔ اگر ناراض ہو تو اُس کی خوشی ہے

تعليم يافتہ مسلمان جو اللہ کو بھی بغير تحقيق نہيں چھوڑتے ان کے شہر ميں جوئے کے اڈے شريعت کے مطابق ہی ہوں گے شايد ؟

مجھ سے کوئی قسم کرا لے کہ ميں الطاف حسين يا اُس کے مريدوں پر کبھی رويا ہوں ۔ جن کی مجھے آج تک سمجھ ہی نہ آسکی کہ وہ کہتے کيا ہيں اور چاہتے کيا ہيں ؟ اُن پر رونا سوائے آنکھوں کے ستياناس کے اور کيا ہو سکتا ہے ؟

اب واقعی بے تحاشہ رونا آ رہا ہے ۔ کسی آدمی پر نہيں بلکہ ” اُردو اسپيکنگ” کہلانے والوں کے دماغ ميں اُردو کے مر جانے پر ۔ ميں نے تو محاورہ استعمال کيا تھا اپنے زيادہ غم و اندوہ کے اظہار کيلئے يعنی ” ميرے پاس تو اب رونے کيلئے آنسو بھی نہيں بچے”

کہاں ہيں وہ “ديا جلائے رکھنا والے” خرم ابن شبير صاحب جو ہميں اُردو لُغت سمجھاتے رہتے ہيں ؟
اور کہاں ہيں وہ خامہ کی صرير والے محمد وارث صاحب جو اُردو کے اُستاذ ہيں ؟
ان حضرات کو معلوم ہو کہ وارث سوئے ہوئے ہيں اور صرف خامہ ہی خامہ رہ گيا ہے صرير پر
ميری پياری اُردو کے سر پر ايسا چپت ايک اُردو والے نے مارا ہے کہ ميری پياری اُردو بيہوش پڑی ہے
جلدی سے ميری پياری اُردو کو طاقت کا ٹيکہ لگايئے کہيں گذر گئی تو ميں بہاؤں گا کيا ؟ ميرے آنسو تو پہلے ہی خُشک ہو چکے ہيں

ويسے کيا لياری پنجاب ميں ہے ؟ ميں تو آج تک يہی سمجھتا رہا کہ لياری کراچی ميں ہے ۔ قتل لياری ميں ہو يا ناظم آباد ميں ۔ شاہ فيصل کالونی ميں ہو يا لياقت آباد ميں ۔ عزيز آباد يا غريب آباد ميں ہو يا سعدی ٹاؤن يا نارتھ کراچی ميں ۔ ملير ميں ہو يا بولٹن مارکيٹ ميں ۔ وغيرہ وغيرہ ۔ يہ سب ہوتے تو کراچی ميں ہيں

اگر کراچی يا سندھ کی حکومت اس قتال کو نہيں روک سکتی تو اس ميں مجھ نحيف کا کيا قصور ؟ ميں نہ کسی حکومت ميں شامل ہوں نہ کسی سياسی جماعت ميں

سندھ کا گورنر سالہا سال سے ايم کيو ايم کا ۔ وزيرِ اعلٰی 3 سال سے پی پی پی کا ۔ سندھ کے وزراء پی پی پی اور ايم کيو ايم کے ۔ مرکزی حکومت ميں بھی پی پی پی اور ايم کيو ايم دونوں شامل ہيں ۔ پی پی پی اور ايم کيو ايم کی حکومت کا تو يہ حال ہے کہ عوام کے قتال کو روکنا تو درکنار سعودی عرب [جس سے درپردہ اب تک امداد لے کر جی رہے ہيں] کے کراچی ميں کونسليٹ پر 11 مئی کو گرينيڈ پھينکے گئے مگر حکومت مست رہی اور [اپنی غفلت سے مجبور] مستقبل کی فکر نہ کی ۔ نتيجہ يہ کہ 16 مئی کو سعودی سفارتکار اپنے قونصلیٹ جار رہے تھے کہ ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی اور سعودی سفارتکار حسن گابانی جاں بحق ہوگئے ۔ سندھ حکومت اور مرکزی حکومت قتل و دہشتگردی کے ہر واقعہ کو طالبان يا القاعدہ کے ذمہ ڈال کر پھر لوٹ مار ميں مشغول ہو جاتی ۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتيں مل کر اپنے گھر [سندھ بالخصوص کراچی] کی بہتری نہيں کر سکتيں تو ميری طرف سے مذمت و افسوس کيا معنی ؟

شکريہ محترم شکريہ

ميں نے اپنے طور پر محمد علی مکی صاحب سے ايک سوال کھُلے عام نہيں بذريعہ ای ميل پوچھا اور اُنہوں نے شايد عوام الناس کی بہتری کی خاطر اسے مُشتہر کر ديا کيونکہ ہمارے مُلک ميں سب کام عوام کی بہتری کيلئے ہوتے ہيں ڈاکے ڈالنا لاشيں گرانا سميت ۔ مجھے محمد علی مکی صاحب سے کوئی گلہ نہيں کيونکہ ميں عام آدمی ہوں اور عام آدمی صرف برداشت کرنے کيلئے ہوتا ہے

البتہ محمد علی مکی صاحب کا شکريہ ميرے متعلق تحرير لکھنے کا ۔ کسی نے کہا تھا “بدنام ہوں گے تو کيا نام نہ ہو گا ؟”
مزيد ميں محمد علی مکی صاحب کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے مجھے محترم اور چچا جيسے القاب سے نوازا ۔ گو بات کچھ ايسی ہے “محترم ۔ ميں آپ کا سر پھوڑنے کی گستاخی کر لوں”
اور محمد علی مکی صاحب کا ايک بار پھر شکريہ مجھے لينکس بنا کر بھيجنے کا ۔ اب تک تو ميں اپنی علالت کی وجہ سے اس سے استفادہ حاصل نہ کر سکا تھا مگر محمد علی مکی صاحب کی سيکولرزم کی تھيوری کے تحت مجھے اس بارے ميں سوچنا پڑے گا ۔ اگر محمد علی مکی صاحب کی بنائی ہوئی لينکس استعمال کرتا ہوں تو ميں بھی محمد علی مکی صاحب جيسا ہو جاؤں گا جو محمد علی مکی صاحب کيلئے سُبکی کا باعث ہو گا ۔ کہاں وہ علم و ذہانت کا سمندر اور کہاں ميں 2 جماعت پاس عام سا آدمی

محمد علی مکی صاحب نے ميرے متعلق لکھا ہے کہ “ان کے بلاگ کے مطابق ان کا مقصد اپنی زندگی کے تجربات نئی نسل تک پہنچانا ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے تجربات کم اور نظریات زیادہ پہنچانا چاہتے ہیں”

محمد علی مکی صاحب صرف ميرے بلاگ کو جانتے ہيں اور وہ بھی جزوی ۔ نہ کبھی مجھے ملے ہيں نہ کبھی ٹيليفون پر مجھ سے بات کی ہے تو پھر انہيں ميرے نظريات سے کيسے واقفيت ہوئی ؟ ہاں ۔ سنا ہے کہ اعلٰی ذہن کے لوگ بند لفافہ ديکھ کر اندر پڑے خط کا مضمون سمجھ جاتے ہيں ۔ ويسے ميرے بلاگ پر مختلف نظريات کی تحارير موجود ہيں جن سے ميرا مُتفق ہونا ضروری نہيں

محمد علی مکی صاحب کی ذہانت بھی قابلِ تعريف ہے کہ ميرے سوال کا جواب تو ديا نہيں مگر کمال ہوشياری سے توپوں کا رُخ ميری طرف موڑ ديا اور مجھ پر خود ساختہ ليبل بھی چسپاں کر ديئے ۔ يہی عصرِ جديد کا طرّہ امتياز ہے

محمد علی مکی صاحب خود تو خدا کی ہستی کو متنازعہ بنانے کيلئے اپنا سارا عِلم اور ذہانت بروئے کار لاتے ہيں اور ميرے سوال کے جواب ميں اُسی خدا کی کتاب سے ايک آيت اور اسی کے رسول کا ايک فرمان نقل کئے ہيں جو مجھے اپنی جان سے زيادہ محترم ہيں مگر ميرے سوال کا جواب کسی صورت نہيں بنتے ۔ محمد علی مکی صاحب کا زور پھر بھی اسی پر رہا ہے کہ مجھے يا مجھ جيسے کو بہر صورت اور بہر طور سيکولر ثابت کريں جبکہ اُن کے سيکولرزم کی بنياد ہی ناقص ہے

بے علم ہوتے ہوئے بھی ميں اتفاق سے علم کی اہميت سے واقف ہوں ۔ ميں جہاں پی ايچ ڈی سے سيکھنے کی کوشش کرتا ہوں وہاں اَن پڑھ لوگوں سے بھی سيکھتا ہوں ۔ ميں بزرگوں سے سيکھتا ہوں اور بچوں سے بھی ۔ ميں نے چوپايوں اور پرندوں سے بھی سيکھا ہے اور حشرات الارض سے بھی ۔ ميں نے محمد علی مکی صاحب کے عِلم کے خزانوں سے بھی استفادہ کی کوشش کی مگر مايوسی کے سوا کچھ نہ ملا

کتابيں ميں نے بھی بہت پڑھی ہيں ۔ زمين کے متعلق آدمی لاکھ کتابيں پڑھ لے مگر جب تک پاؤں زمين پر نہ رکھے اُسے احساس نہيں ہو گا کہ زمين سخت ہے ۔ نرم ہے ۔ پتھريلی ہے ۔ ريتلی ہے يا دلدل يا يہ سخت زمين ۔ نرم زمين ۔ پتھريلی زمين ۔ ريتلی زمين يا دلدل ہوتی کيا ہے ؟ اسلئے تجربے کو اہميت دی جاتی ہے اور اسی لئے ايک عالمی شہرت يافتہ مفکر نے کہا تھا

عمل سے زندگی بنتی ہے جہنم بھی
يہ خاکی اپنی فطرت ميں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اللہ تعالٰی محمد علی مکی صاحب کو جزائے خير دے اور مجھے سيدھی راہ پر قائم کرے

ميں نے کيا ديکھا

جمعہ 29 اپريل کو برطانيہ کے ايک شہزادے وليم کی شادی کی تقريب اکثر قارئين نے ديکھی ہو گی ۔ اُميد ہے کہ قارئين اپنے احساسات ضرور قلمبند کريں گے ۔ ميں نے جو ديکھا وہ حاضر ہے

نکاح سے پہلے اور بعد ميں بائبل سے بہت کچھ پڑھا گيا اور دعائيں کی گئيں ۔ دُلہا دُلہن سميت تمام حاضرين نے اس ميں بيک زبان منظم طريقہ سے حصہ ليا ۔ ايجاب و قبول بھی طويل تھا

لندن کی سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد ميں عوام اپنی ملکہ کے پوتے کی شادی کے شوق ميں نکلے ہوئے تھے اور بڑے نظم اور صبر کے ساتھ کھڑے تھے

شادی پر غيرملکی 600 حکومتی نمائندوں سميت 1900 افراد کو مدعو کيا گيا تھا

اب ايک نظر اپنی طرف

ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہيں ۔ ہمارے ہاں نکاح بہت مختصر ہوتا ہے ۔ اس ميں نکاح خواں چند آيات کی تلاوت کرتا ہے پھر قبوليت کرواتا ہے ۔ ان چند منٹوں کيلئے بھی کوئی خاموش نہيں ہوتا بلکہ چيکڑچاڑا مچا ہوتا ہے ۔ کچھ بزرگ خاموش کراتے تھک جاتے ہيں

کہيں چند سو لوگ اکٹھے ہو جائيں وہ بدنظمی کا اعلٰی ثبوت ہوتے ہيں ۔ پوليس کو بلانا پڑتا ہے

ہمارے لوگ سربراہِ مملکت کے بچے کی شادی ديکھنے کے شوقين نہيں ہوتے ۔ وجہ يہ ہے کہ وہ عوام کے مال سے گلچھڑے اُڑا رہا ہوتا ہے اور عوام کو حقير جانتا ہے ۔ جبکہ ملکہ برطانيہ مقررہ تنخواہ ميں سے اپنے اخراجات پورے کرتی ہے ۔ ہمارے ايک آرمی چيف کی بيٹی کی شادی ہوئی تو کراچی ميں 7000 مہمانوں کو دعوت دی گئی اور راولپنڈی ميں 5000 مہمانوں کو ۔ کراچی ميں لوگوں نے سات نئی کاريں اس کی بيٹی کو تحفہ ميں ديں اور راولپنڈی ميں 3 کاريں دی گئيں

قارئين سے درخواست ہے کہ اس سلسلہ ميں اپنے احساسات سے مستفيد فرمائيں

مُلک کے اصل ستون

پچھلے دنوں نعيم اکرم ملک صاحب نے علی الصبح کا ايک خوشگوار نظارہ لکھا تھا ۔ بات چل نکلی ہے تو اس سلسلہ ميں کچھ مزيد معلومات سپُردِ قلم کر رہا ہوں تاکہ کہيں کوئی يہ نہ سمجھ بيٹھے کہ يہ مُلک لُٹيروں اور اٹھائی گيروں کی حکمرانی کے نتيجہ ميں چل رہا ہے ۔ پہلے نعيم اکرم ملک صاحب کی تحرير پر ميرے تبصرہ کی تلخيص

بہت اچھا کيا آپ نے لکھ کر ۔ ميں سوچتا ہی رہا کہ لکھوں لکھوں ۔ آپ نے جس ريستوراں کا حوالاديا ہے وہ زين ہُوئی يا ضيافت ہے جہاں آپ 2 اور 3 سو روپے کے درميان اچھا کھانا کھا سکتے ہيں ۔ ضيافت کے مالکان غُرباء کو صبح ناشتہ مُفت دينے کے ساتھ ساتھ دن ميں جو کھانا بچ جاتا ہے رات کو غرباء ميں تقسيم کر ديتے ہيں ۔ ريستوراں رات 10 بجے بند کر ديا جاتا ہے ۔ کراچی ميں عالمگير ٹرسٹ والے غريبوں کو بالخصوص رمضان کے مہينے ميں مفت کھانا کھلاتے تھے ۔ لاہور ميں تاجر لوگ يہ کام مختلف جگہوں پر کر رہے ہيں ۔ 28 ستمبر 2010ء کو حادثہ کے بعد مجھے بيہوشی ميں لاہور جنرل ہسپتال پہنچا ديا گيا تھا ۔ 2 دن بعد ميں ہوش ميں آيا تو ميری بيٹی نے نرس سے کہا “ابو نے 2 دن سے کچھ نہيں کھايا ۔ کيفيٹيريا کہاں ہے ؟” نرس نے کہا “ان کيلئے ابھی ناشتہ آ رہا ہے”۔ ناشتہ ميں اُبلا انڈا کيک ۔ دودھ کی ڈبيہ اور چائے تھی ۔ بيٹی نے پوچھا “يہ سب ہسپتال والے ديتے ہيں ؟” تو نرس نے کہا “نہيں ۔ يہ مخيّر حضرات لاتے ہيں ۔ ايک صبح سب مريضوں کو ناشتہ ديتا ہے ۔ ايک دوپہر کا کھانا اور ايک رات کا کھانا”۔ جو لوگ دور دراز سے مريضوں کے ساتھ آتے ہيں وہ کھُلے ميدان ميں پڑے رہتے تھے ۔ پنجاب حکومت نے اُن کيلئے بند برآمدے بنا ديئے ہيں اور لوگ ديگيں پکا کر اُن کيلئے دے جاتے ہيں ۔ گورمے والے رات کو جو کچھ بچتا ہے اپنے چھوٹے ملازمين اور غُرباء ميں تقسيم کر ديتے ہيں ۔ يہی راولپنڈی اور اسلام آباد ميں راحت بيکرز والے کرتے ہيں ۔ بحريہ ٹاؤن والے بھی ايک ہسپتال ميں دوپہر کا کھانا ديتے ہيں

ايک صحافی اور رُکن قومی اسمبلی کی حيرت کا سبب

ڈاکٹرزکی ہڑتال کے دوران میں نے میو اسپتال کا دورہ کیا اور جب میں اسپتال کے باورچی خانے میں جا نکلا تو جو کچھ دیکھا وہ معجزے سے کم نہ تھا۔ باورچی خانہ مکمل صاف ستھرا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ 2002ء سے لے کر اب تک اسپتال کے تمام وارڈز میں موجود مریضوں، جن کی تعداد 1600 سے 1700 تک ہوتی ہے، کو کھانا مفت دیا جاتا ہے اور اُس کا اہتمام عوام کی طرف سے دیئے جانے والے عطیات سے کیا جاتا ہے۔ میں نے سوچا کہ ناقص خوراک ہو گی مگر جب میں نے اُس دن دوپہر کو دیئے جانے والے پالک گوشت کو چکھا تو ایک اور حیرت میری منتظر تھی۔ میرے ساتھ موجود نوجوان ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کھانے کا معیار ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ میرا یہاں آنا کوئی طے شدہ پروگرام نہ تھا اور نہ ہی میں کوئی لاٹ صاحب تھا کہ جس کے لئے کوئی اہتمام کیا جاتا۔ ناشتہ اس باورچی خانے میں تیار کیا جاتا ہے اور تمام اسپتال جو پاکستان یا شاید جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا اسپتال ہے، کے وارڈز میں تقسیم کیا جاتاہے۔ ہر روز ڈبل روٹی ”ونڈر بریڈ “ کی طرف سے مفت آتی ہے۔ دوپہر کے کھانے کے لئے گوشت ایدھی فاؤنڈیشن کی طرف سے آتا ہے۔ مگر ہر روز تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد کے لئے وحدت روڈ کے ایک شخص کی طرف سے آتا ہے جو گمنام رہنا پسند کرتا ہے

جتنا زیادہ میں اس معاملے کو جانتا گیا، میری حیرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ جیلانی پلاسٹک جن کا رنگ روڈ پر کہیں پلانٹ ہے ہر ماہ 300,000 روپے ۔ فیصل آباد کے گوہر اعجاز 165,000 روپے ۔ بادامی باغ اسپئر پارٹس مارکیٹ کے مدثر مسعود 50,000 روپے اور برانڈ رتھ روڈ کے شاہد صدیق 25,000 روپے باقاعدگی سے بھیجتے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی اور بھی ہوں گے مگر میں معذرت خواہ ہوں کہ اُن کے نام سے ناواقف ہوں۔ کچھ اور بھی ہیں جو گاہے بگاہے عطیات بھیجتے رہتے ہیں۔ یہ صورت حال اب کی ہے مگر 2002ء سے لیکر 2008ء تک کھانے کا تمام بل ایل جی الیکٹرانکس والے ادا کرتے تھے۔ پھر بعض وجوہات کی بنا پر اُن کی طرف سے سلسلہ جاری نہ رہ سکا تو بحران نے دیگر امکانات پیدا کر دیئے۔ 2010ء میں سیٹھ عابد نے ایک کروڑ روپے دیئے اور یوں یہ سلسلہ جاری ہے ۔ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن جو ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے الحاق رکھتا ہے، بھی عوام کے چندے پر چل رہا ہے۔ عمران خان کا شوکت خانم کینسر اسپتال بھی عطیات پر چل رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب لوگوں کو یقین ہو کہ اُن کا روپیہ خورد برد نہیں ہو گا تو وہ دل کھول کے دیتے ہیں
ہم اپنی ترجیحات کا درست تعین کیوں نہیں کر سکتے؟
ہمارا حکمران طبقہ سرابوں کے پیچھے کیوں بھاگتا ہے؟
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی توانائی اسکول اور اسپتال بنانے میں لگائیں

بلاگر کی گذارش
اب بھی وقت ہے کہ ہم کھوکھلی تقارير کرنے اور شور مچانے کی بجائے خاموشی سے ملک کی تعمير ميں حصہ ليں اور ساتھ ساتھ اپنی عاقبت بھی سنورايں ۔ يہ کوئی مشکل کام نہيں ہے ۔ تھوڑا سا وقت نکال کر کسی بھی سرکاری ہسپتال ميں جائيں اور انجمن بہبود مريضاں [Patients Welfare Commitee] جو کم از کم پنجاب کے ہر سرکاری ہسپتال ميں ڈاکٹروں اور نرسوں نے بنائی ہوئی ہيں کا پتہ کريں کہ کس طرح غريب مريضوں کی امداد کی جا سکتی ہے ۔ پھر چرغے اور پِزّے کھانے بند کر کے رقم بچائيں اور اپنی عاقبت بنائيں

اسی کام کی تعليم کے سلسلہ ميں بھی ضرورت ہے ۔ باقی صوبوں کا مجھے علم نہيں ۔ پنجاب ميں ايک ايجوکيشن فاؤنديشن اس سلسلہ ميں اچھی خدمات انجام دے رہی ہے ۔ اس کے زيادہ تر اراکين نيک دل تاجر لوگ ہيں ۔ تعليم ميں حصہ ڈالنے کيلئے ان سے رابطہ کيجئے

پھر آپ فخر سے سينہ تان کر گا سکيں گے
ہم ہيں پاکستانی ہم تو جيتيں گے

احوالِ قوم ۔ 17 ۔ آدميت کا زيور

ہوئے زیورِ آدمیت سے عاری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معطل ہوئیں قوتیں ان کی ساری
نہ ہمت کہ محنت کی سختی اٹھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ جراءت کہ خطروں کے میداں میں آئیں
نہ غیرت کہ ذلت سے پہلو بچائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ عبرت کہ دنیا کی سمجھیں ادائیں

نہ کل فکر تھی یہ کہ ہیں اس کے پھل کیا ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہے آج پروا کہ ہونا ہے کل کیا
نہیں کرتے کھیتی میں وہ جاں فشانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہل جوتتے ہیں نہ دیتے ہیں پانی
پہ جب یاس کرتی ہے دل پر گرانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کہتے ہیں حق کی ہے نامہربانی

نہیں لیتے کچھ کام تدبیر سے وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سدا لڑتے رہتے ہیں تقدیر سے وہ
کبھی کہتے ہیں ہیچ ہیں سب یہ ساماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ خود زندگی ہے کوئی دن کی مہماں
دھرے سب یہ رہ جائینگے کاخ و ایواں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نہ باقی رہے گی حکومت نہ فرماں
ترقی اگر ہم نے کی بھی تو پھر کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بازی اگر جیت لی بھی تو پھر کیا

مگر اک فریق اور ان کے سوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرف جس سے نوعِ بشر کو ملا ہے
سب اس بزم میں جن کا نور و ضیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب اس باغ کی جن سے نشوونما ہے
ہوئے جو کہ پیدا ہیں محنت کی خاطر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنے ہیں زمانہ کہ خدمت کی خاطر

نہ راحت طلب ہیں نہ محنت طلب وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لگے رہتے ہیں کام میں روز و شب وہ
نہیں لیتے دم ایک دم بے سبب وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت جاگ لیتے ہیں سوتے ہیں تب وہ
وہ تھپکتے ہیں اور چین پاتی ہے دنیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کماتے ہیں وہ اور کھاتی ہے دنیا

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی