Category Archives: معاشرہ

سمجھ سے باہر

اپنے معاشرے ميں جہاں اچھی روايات اور عادات پائی جاتی ہيں وہاں ميرے ہموطنوں کی بھاری تعداد ميں خواہ وہ کتنا ہی پڑے لکھے ہوں چند ايسی عادات پائی جاتی ہيں جو ميری سمجھ ميں آج تک نہ آسکيں

1 ۔ حقيقت کی نسبت افواہيں سننا زيادہ پسند کرتے ہيں ۔ اخباری اور ٹی وی بالخصوص بی بی سی اور اسی طرح کے فرنگی ذرائع ابلاغ پر بلا چُوں و چرا اعتبار کر ليتے ہيں مگر زمينی حقائق کو بغير غور و مطالعہ کے رَد يا نامنظور کر ديتے ہيں ۔ اگر کوئی اُن کی توجہ حقائق کی طرف دلانے کی کوشش کرے تو اُس کا تمسخر اُڑاتے ہيں ۔ بہت رعائت کريں تو کہہ ديں گے “کس دنيا ميں رہتے ہو ؟”

2 ۔ کوئی بات گھڑ کر دوسرے کو سنائيں گے ۔ سُننے والا شخص بغير غور اور تشخيص کے کسی دوسرے کو وہ من گھڑت خبر يا کہانی سنائے گا ۔ کچھ دن بعد ہر سننے اور سنانے والا اس من گھڑت خبر کو حقيقت ماننا شروع کر ديتا ہے

3 ۔ جو چيز ۔ جگہ يا ادارہ ايک شخص نے اندر تو کيا باہر سے بھی نہ ديکھا ہو گا اُس کے متعلق وہ غيرمصدقہ باتيں بڑے وثوق کے ساتھ بيان کرے گا

يہ بھولی بسری باتيں مجھے اسلئے ياد آئيں کہ کچھ ماہ قبل ايک بلاگ پر کچھ ايسے دلائل باوثوق طريقہ سے بی بی سی کے حوالے سے کچھ دلائلديئے گئے تھے جو زمينی حقائق سے ميل نہيں کھاتے تھے ۔ جس ادارے کا وہ ذکر کر رہے تھے ميں نے اپنی زندگی کا بہترين حصہ اُسی ادارے کی ملازمت ميں گذارا تھا

شايد جون يا جولائی 1965ء کی بات ہے کہ ميں کراچی ميں ورک سٹڈی ٹيکنيکس کورس کر رہا تھا ۔ ايک شام ميں اپنے ايک بزرگ جو 1947ء ميں حيدر آباد دکن سے ہجرت کر کے آئے تو کراچی ميں رہائش پذير ہو گئے تھے اُنہيں ملنے گيا ۔ اُن کے ساتھ اُن کے کوئی دوست بيٹھے تھے ۔ بزرگ نے ميرا تعارف اُن سے کراتے ہوئے کہا “يہ انجنيئر ہے اور پاکستان آرڈننس فيکڑيز ميں ملازم ہے”۔ موصوف طنزيہ بولے “وہ فيکٹری جو آج تک لِپ سٹک پاؤڈر کے علاوہ کچھ نہيں بنا سکی”
وہ بزرگ تھے اور ميری اُن سے جان پہچان بھی نہ تھی دوسرے ميں بداخلاق نہيں ہوں اسلئے خاموش رہا

بات ہے شروع 1970ء کی دہائی کی ۔ ميں واہ سے کسی ذاتی کام کے سلسلہ ميں راولپنڈی گيا اور واپس ويگن پر آ رہا تھا ۔ ميرے آگے والی نشست پر ايک صاحب بڑے وثوق کے ساتھ پاکستان آرڈننس فيکٹريز کی ويپنز فيکٹری کے متعلق باتيں کر رہے تھے ۔ ميں غور سے سُنتا رہا ۔ وہ صاحب کچھ خود ساختہ خامياں بتا رہے تھے اور کچھ ايسی چيزوں کا وہاں بننے کا ذکر کر رہے تھے جو وہاں کبھی نہيں بنيں تھيں ۔ جب من گھڑتی کی انتہاء ہو گئی تو ميں نے پوچھا “معاف کيجئے گا ۔ آپ ويپنز فيکٹری ميں کام کرتے ہيں ؟”
جواب ملا “نہيں”
ميں نے پوچھا “آپ کبھی ويپنز فيکٹری کے اندر گئے ہيں ؟”
جواب ملا “نہيں”
ميں نے پوچھا “آپ کو کوئی دوست يا رشتہ دار فيکٹری ميں کام کرتا ہے ؟”
جواب ملا “نہيں”
اس پر ميں نے کہا “ويپنز فيکٹری جس کا آپ ذکر کر رہے تھے ميں اس کا پروڈکشن منيجر ہوں”
اس کے بعد وہ صاحب چُپ بيٹے رہے
ويسے وہ زمانہ پھر بھی اچھا تھا ۔ آجکل تو لوگ اپنی غلط بات درست ثابت کرنے کيلئے جان لڑا ديتے ہيں

يہ بات 1990ء يا 1991ء کی ہے کہ ميں ايک دوست سے ملنے گيا جو ايم ايس سی انجنيئرنگ ہيں اور انجنيئرنگ کالج لاہور ميں ميرے ہمجماعت تھے ۔ اُن کے پاس ايک جوان بيٹھا تھا ۔ ميرے ساتھ عليک سليک کے بعد ميرے دوست نے اُس جوان سے کہا “تمہاری قسمت اچھی ہے ۔ اجمل صاحب آ گئے ہيں تم ان سے سيکھ سکتے ہو”
اُس جوان نے مايوس سی شکل بناتے ہوئے کہا “يہ نئی ٹيکنالوجی ہے ۔ بڑی عمر کے لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے” اور اُٹھ کر چلا گيا
اُس کے چلے جانے کے بعد ميں نے اپنے دوست کو سواليہ نظروں سے ديکھا تو وہ بولے “ہمارے ہمسائے کا بيٹا ہے ۔ بدقسمت ہے ۔ آج کے جوان اپنے آپ کو بہت ذہين اور عِلم والا سمجھتے ہيں ۔ کمپيوٹر کے بارے ميں بات ہو رہی تھی اور کہہ رہا تھا کہ ميں سيکھنا چاہتا ہوں مگر پاکستان ميں اس ٹيکنالوجی کا اُستاد نہيں ہے جو مجھے سمجھا سکے اور ميرے سوالوں کا جواب دے سکے”

يہ لوگ

آج مختلف بلاگ پڑھتے ہوئے ميرے ذہن ميں مُلک کے سب سے بڑے شہر ميں بہنے والا عوام کا خون تھا ۔ کئی بلاگرز نے اس پر رنج کا اظہار کيا ہے ۔ پڑھتے پڑھتے ايک بلاگ پڑھنا شروع کيا مگر زيادہ نہ پڑھ سکا ۔ جو کچھ پڑھا اس کے نتيجہ ميں کالج کے زمانہ کے ايک پنجابی گيت کے بول ذہن ميں گونجنے لگے

دِلاں دِياں مَلِياں نے ۔ اے چَن جہياں صورتاں
ہونٹاں تے مُسکان اے ۔ تے دِلاں وِچ قدُورتاں
ايہناں کولوں چنگياں نے ۔ مِٹی دِياں مُورتاں

ماں ۔ بہن ۔ بيوی ۔ بيٹی

اس موضوع پر ميں ايک سے زيادہ بار مختلف زاويوں سے اظہارِ خيال کر چکا ہوں ۔ اب پروفيسر محمد عقيل صاحب کی تحرير “بيٹا بہتر يا بيٹی” پڑھ کر ايک اور زاويہ سے لکھنے کا خيال آيا

ہند و پاکستان رسم و رواج کی آماجگاہ ہے ۔ نہ کسی کو قوم کی بھلائی کی فکر نہ اپنے خاندان کی ليکن اگر فکر ہے تو صرف رسم و رواج کی کہ اگر فلاں رسم نہ کی گئی تو شايد طوفان آ جائے گا يا فلاں رواج کے مطابق نہ چلے تو شايد تباہ ہو جائيں گے ۔ ہندو تو ہندو رہے اُن کا تو مذہب ہی رسم و رواج کا مجموعہ ہے ۔ مسلمان بھی نام تو اللہ اور رسول کا ليتے ہيں اور عمل غير اسلامی رسم و رواج پر کرتے ہيں ۔ اسلئے بچی کی پيدائش کو کچھ مسلمان گھرانوں ميں بھی اچھا نہيں سمجھا جاتا

بيٹی ہی کسی کی بہن بنتی ہے يا ہوتی ہے اور بيٹی ہی کسی کی بيوی اور بعد ميں ماں بنتی ہے ۔ لڑکی اور عورت کے يہ 4 کردار نہ صرف ہمارے دين کی روح سے اہم رشتے ہيں بلکہ ہمارے آج کے بگڑے معاشرے کی اکثريت بھی انہيں محترم جانتی ہے ۔ پھر صرف اقليّتی واقعات جنہيں ذرائع ابلاغ [بالخصوص غيرمُلکی] ہوا ديتے ہيں اس کی بنا پر رائے قائم کرنا کيا دانشمندی ہے ؟

بيٹے يا بيٹوں کے باپ کا مغرور يا ظالم بن جانے کا خدشہ ہوتا ہے جبکہ بيٹی کے باپ کے بُرد باری اختيار کرنے کی زيادہ توقع ہوتی ہے ۔ اسی طرح عام طور پر بيٹے يا بيٹوں کی ماں کی ناک اُونچی ہوتی ہے اور پاؤں ہوا ميں اُچھل رہے ہوتے ہيں جبکہ بيٹی کی ماں سے حِلم اور متانت کی زيادہ توقع کی جا سکتی ہے

بيٹا تو گھر ميں ننگا پھر کر اور گليوں ميں دوڑ بھاگ کر پل جاتا ہے مگر بيٹی کی پرورش خوش اسلوبی سے کرنا ہوتی ہے ۔ اُسے زمانے کی ہوا کے گرم تھپيڑوں سے بھی بچانا ہوتا ہے ۔ باپ گو بچوں سے کم پيار نہيں کرتا مگر بچوں کی پرورش ماں ہی کرتی ہے اور بہت متانت ۔ صبر اور خوش اسلوبی سے کرتی ہے ۔ يہی وجہ ہے کہ ميں بچی کی ماں کو بہت محترم جانتا ہوں اور اس سے عمدہ سلوک کی توقع رکھتا ہوں ۔ ايک بار کسی خاتون نے جو اُس وقت ايک بچی کی ماں تھيں مجھ سے کچھ اس طرح کا سوال کيا “آپ ميرے متعلق کيا جانتے ہيں ؟” ميں نے جواب ميں کہہ ديا “ميں جانتا ہوں کہ آپ ايک بچی کی ماں ہيں”۔ اُنہوں نے اس کا بُرا منايا اور مجھے کھری کھری سنا ڈاليں ۔ قصور شايد اُن کا نہ تھا ۔ شايد اُن کے ماحول کا تھا

بالخصوص پانچ درياؤں کی دھرتی ميں کچھ مقولے ببہت معروف تھے

ماواں ٹھنڈياں چھاواں ۔ ۔ ۔ [ماں ۔ ايک خوشگوار سايہ]

بہن درداں والی اے ۔ ۔ ۔ [بہن درد رکھنے والی ہے]
جس پا پٹاری رکھيا ۔ ۔ ۔ [جس نے ميری حفاظت کی]
ميں تِليّر طوطا شہر دا۔ ۔ [مجھ شہر کے نازک بچے کو]

تريمت گھر دی زينت ۔ ۔ ۔ [بيوی گھر کی رونق اور سنگار]

دِھی دُکھ سانبھے ماپياں دے ۔ ۔ ۔ [بيٹی ہی والدين کا دُکھ درد بانٹتی ہے]

مگر ضرب المثل ” کوا گيا سيکھنے ہنس کی چال ۔ اپنی بھی بھول گيا” کے مطابق ہم لوگوں اپنی پرانی اچھی عادات کو تَج کر جديد راہيں اپناتے ہوئے شہر کی طرف جانے کے ارادوں سے جنگلوں کی طرف نکل گئے ہيں

موٹی سی بات يہ ہے کہ بيٹوں کو عام طور پر تعليم کے بعد اُن کے حال پر چھوڑ ديا جاتا ہے ليکن بيٹيوں کا اُن کی شادی کے بعد بھی پورا خيال رکھا جاتا ہے

ہمارے خاندان اور برادری کو شايد ايک عجوبہ سمجھا جائے کہ ہمارے ہاں تھوڑی سی استثنٰی کے علاوہ بچی کی پيدائش کو بھی اللہ کی نعمت سمجھا جاتا ہے ۔ ہماری برادری ميں اگر خوشی کی جائے تو پہلے بچے کی پيدائش پر کی جاتی تھی خواہ بيٹی ہو يا بيٹا ۔ جب سے بہت مہنگائی ہوئی ايسا بہت کم ديکھنے ميں آيا ہے ۔ طريقہ يہ ہے کہ پيدائش کے بعد 7 دن کے اندر بچی يا بچے کے سر کے بال اُترواتے ہيں اور لڑکی ہو تو ايک بکرا اور لڑکا ہو تو 2 بکرے ذبح کر کے بجائے گوشت عزيز و اقارب ميں بانٹنے کے سب کو اپنے گھر دعوتِ طعام ديتے ہيں ۔ اسے عقيقہ کہا جاتا ہے ۔ اگر مہمان زيادہ ہوں تو زيادہ بکرے ذبح کر ليتے ہيں۔ کبھی کبھار ايسا بھی ہوتا ہے کہ اگر عقيقہ کے وقت سب اکٹھے نہ ہو سکتے ہوں تو بکرا ذبح کر کے بانٹ ديا جاتا ہے اور بعد ميں خوشی کيلئے دعوت کی جاتی ہے

جديديت

سمجھتے ہیں شائستہ جو آپ کو یاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیں آزادئی رائے پر جو کہ نازاں
چلن پر ہیں جو قوم کے اپنی خنداں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلماں ہیں سب جن کے نزدیک ناداں
جو ڈھونڈو گے یاروں کے ہمدرد۔ ان میں ۔ تو نکلیں گے تھوڑے جواں مرد۔ ان میں

نہ رنج ان کے افلاس کا ان کو اصلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ فکر ان کی تعلیم اور تربیّت کا
نہ کوشش کی ہمت نہ دینے کو پیسہ ۔ ۔ ۔ ۔ اڑانا مگر مفت ایک اک کا خاکا
کہیں ان کی پوشاک پر طعن کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں ان کی خوراک کو نام دھرنا

جہاز ایک گرداب میں پھنس رہا ہے ۔ ۔ پڑا جس سے جوکھوں میں چھوٹا بڑا ہے
نکلنے کا رستہ نہ بچنے کی جا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ان میں سوتا کوئی جاگتا ہے
جو سوتے ہیں وہ مست خوابِ گراں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو بیدار ہیں ان پہ خندہ زناں ہیں

کوئی ان سے پوچھے کہ اے ہوش والو ۔ ۔ ۔ کس امید پر تم کھڑے ہنس رہے ہو
بُرا وقت بیڑے پہ آنے کو ہے جو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ چھوڑے گا سوتوں کو اور جاگتوں کو
بچو گے نہ تم اور نہ ساتھی تمہارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ناؤ ڈوبی تو ڈوبیں گے سارے

غرض عیب کیجئے بیاں اپنا کیا کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا
فقیر اور جاہل ضعیف اور توانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاسف کے قابل ہے احوال سب کا
مریض ایسے مایوس دنیا میں کم ہیں ۔ ۔ ۔ بگڑ کر کبھی جو نہ سنبھلیں وہ ہم ہیں

مجھے ڈر ہے اے میرے ہم قوم یارو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مبادا کہ وہ ننگِ عالم تمہیں ہو
گر اسلام کی کچھ حمیت ہے تم کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جلدی سے اٹھو اور اپنی خبر لو
وگر نہ یہ قول آئے گا راست تم پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہونے سے ان کا نہ ہونا ہے بہتر

رہو گے یو نہی فارغ البال کب تک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ بدلو گے یہ چال اور ڈھال کب تک
رہے گی نئی پود پامال کب تک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ چھوڑو گے تم بھیڑیا چال کب تک
بس اگلے فسانے فراموش کر دو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعصب کے شعلے کو خاموش کر دو

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

اپنی کوتاہ نظری کا ماتم

يحیٰ خان کے حلفيہ بيان کا کچھ حصہ بنگلا ديش ميں شائع ہوا ہے “مجیب غدار نہیں تھا اور نہ ہی علیحدگی چاہتا تھا لیکن ۔ ۔ ۔”

لال مسجد پر فوجی کاروائی رکوانے کے سلسلہ ميں مدد کيلئے شجاعت حسين نے وزیر اعظم شوکت عزیز سے رابطہ کيا
وزیر اعظم شوکت عزیز نے کہا “میں اپنی بیوی کے ساتھ قُلفی کھانے جارہا ہوں”

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اور اس حوالے سے میں نے جتنی تحقیق کی تھی اس سے یہ تاثر بنتا تھا کہ شیخ مجیب الرحمن اپنے چھ نکات سے کسی قیمت پر ہٹنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ انہی نکات پر عوام سے ووٹ لے کر اور انتخابات جیت کر وہ اس مقام پر پہنچا ہے اسلئے اب یہ چھ نکات عوام کا مقدس ٹرسٹ ہیں جس میں ردو بدل کا اسے اختیار نہیں۔ جب بھٹو صاحب اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان مذاکرات کا دور شروع ہوا تو رعایات دیتے دیتے بھٹو صاحب پانچ نکات ماننے پر تیار ہوگئے تھے لیکن وہ چھٹے نکتے بلکہ نصف نکتے فارن ٹریڈ(دوسرے ممالک سے براہ راست تجارت) پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھے کیونکہ بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ پانچ نکات کی روشنی میں اگر مشرقی پاکستان کو غیر ممالک سے براہ راست تجارت کا اختیار دے دیا جائے تو پھر اس کا مطلب آزادی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہی ہوگا

بنگلہ دیش میں یحییٰ خان کا ایک حلفیہ بیان چھپا ہے جو یحییٰ خان نے ضیاء الحق کے دور حکومت میں لکھا اور لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرایا تھا لیکن پاکستان کے عوام عام طور پر اس سے آگاہ نہیں۔ سپریم کورٹ میں بھٹو ریفرنس کے حوالے سے یہ بیان بے نقاب ہوناچاہئے۔ غالباً یحییٰ خان کا انتقال 1980ء میں ہوا اور یہ حلفی بیان1978ء میں جمع کرایا گیا تھا

اس بیان میں یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری بھٹو اور مجیب پر ڈالی ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ مجیب غدار نہیں تھا اور نہ ہی علیحدگی چاہتا تھا لیکن ا س کے ساتھیوں مشیروں اور پارٹی عہدیداروں نے اسے یرغمال بنا رکھا تھا اور مجیب ان کے دباؤ سے آزاد نہیں ہوسکتا تھا۔ ان حضرات کی اکثریت علیحدگی پسند تھی، ان میں سے کچھ کا رابطہ ہندوستان سے تھا اور وہ مجیب کو چھ نکات سے ذرا بھی پیچھے ہٹنے نہیں دیتے تھے

مجھے علم نہیں کہ یحییٰ خان کے اس حلفی بیان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے لیکن اس بیان میں یحییٰ خا ن نے تسلیم کیا ہے کہ آرمی ایکشن اس کا ذاتی فیصلہ تھا کیونکہ حکومتی رٹ ختم ہوچکی تھی اور مشرقی پاکستان بغاوت کے دہانے پر کھڑا تھا، چنانچہ خالصتاً فوجی انداز میں یحییٰ خان نے حکومتی رٹ بحال کرنے کےئے مارچ 1971ء میں آرمی ایکشن کا حکم دے دیا۔ دنیا بھر کے مصنفین اور محققین اس بات پر متفق ہیں کہ دراصل مشرقی پاکستان آرمی ایکشن کے ساتھ ہی بنگلہ دیش بن گیا تھا اور یہ کہ آرمی ایکشن مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا شاندار ”نسخہ“ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ آرمی ایکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن کے ہفت روزہ اکانومسٹ نے لکھا تھا کہ یہ سٹاف کالج کے انداز میں پاکستان کو تباہ کرنے کی بہترین سکیم تھی

کئی لیڈران کا دعویٰ تھا کہ اگر انہیں وقت دیا جاتا تو وہ مجیب کو منا سکتے تھے اور اس کے ساتھیوں کو بھی سمجھا سکتے تھے، اگرچہ بھٹو صاحب مذاکرات سے مایوس ہوچکے تھے لیکن کئی مسلم لیگی رہنما اور این اے پی کے لیڈران ابھی تک امید کا دامن تھامے ہوئے تھے لیکن جب انہوں نے ڈھاکہ پرل کانٹینٹل کی کھڑکیوں سے گولے برستے دیکھے اور فائرنگ کی بے تحاشا آوازیں سنیں تو مایوسی کی ا تھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سیاستدان ابھی تک مایوس نہیں ہوئے تھے اور وہ ڈھاکہ میں حکومتی رٹ ختم ہونے کے باوجود یہ امید رکھتے تھے کہ ہم کسی نہ کسی طرح مجیب اور اس کے ساتھیوں کو کسی متفقہ حل اور وسیع تر سمجھوتے پر راضی کرلیں گے لیکن یحییٰ خان نے حکومتی رٹ بحال کرنے کے لئے گولی چلا دی اور وہ گولی متحدہ پاکستان کے جسم میں جالگی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بن گئی

یہی فرق ہوتا ہے جرنیلی اور سیاہپانہ ذہن اور سیاسی ذہن میں۔ جرنیل کیوں جمہوریت کو تباہ کرتے ،ادارے پاؤں تلے روندتے اور مخالفین کے سر پھوڑتے ہیں۔ انہیں پھانسی چڑھاتے یا جلا وطن کردیتے ہیں کیونکہ ان کی اپروچ، ذہنی ساخت اور تربیت ناک کی سید چلنا ،بلاچوں چراں حکم ماننا اور حکم دینا ہوتی ہے۔ ان میں لچک، سیاسی بصیرت، کچھ لو کچھ دو اور صبر آزما مذاکرات کی صلاحیت اور استعداد نہیں ہوتی جبکہ سیاستدان سر تا پا لچک، دوربیں اور مذاکرات بلکہ تھکا دینے والے طویل مذاکرات کا عادی ہوتا ہے۔ وہ ہر مشکل سے مشکل صورتحال اور پیچیدگی سے راستہ نکال لیتا ہے اور دلائل سے بات منوا لیتا ہے جبکہ جرنیل دلائل سے نہیں گولی سے بات منواتا ہے۔ جرنیل کی ساری ٹریننگ میدان جنگ کی ٹریننگ ہوتی ہے جبکہ سیاستدان کی ساری ٹریننگ میدان زیست کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرنیل سیاسی حکمرانی کے اہل نہیں ہوتے اور وہ جب آئین و قانون کو پامال کرکے اقتدار میں آتے ہیں تو تباہی کی بارودی سرنگیں بچھا کر تشریف لے جاتے ہیں

ابھی کل کی بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف لال مسجد کے امتحان میں پھنس گئے تھے اگرچہ اب پرویز مشرف اپنی غلطی مانتا ہے لیکن کرسی صدارت پر بیٹھ کر وہ عقل کُل بن بیٹھا تھا اور اس نے صلا ح مشورے کے دروازے بند کردئیے تھے۔ جب اس نے محسوس کیا کہ جامعہ حفصہ لال مسجد میں حکومتی رٹ چیلنج کی جارہی ہے تو اس نے معصوم بچوں، بچیوں اور شہر یوں کا خون بہانے سے دریغ نہ کیا حالانکہ چوہدری برادران کا دعویٰ ہے کہ اگر انہیں موقع دیا جاتا تو وہ اس چیلنج کا حل نکال سکتے تھے۔چوہدری برادران کے لئے لال مسجد میں نرم گوشہ اور احترام تھا وہ بات سمجھا سکتے تھے لیکن جنرل صاحب کو اقتدار کا نشہ چڑھ چکا تھا ، ان میں سیاسی لچک کا فقدان تھا اور وہ اس بصیرت سے کلی طور پر محروم تھے جو اس طرح کے خطرناک چیلنجوں سے نکلنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ ان کی تربیت فقط یہ تھی کہ جب کوئی حکومتی رٹ چیلنج کرے اور حکم نہ مانے تو اسے گولی مار دو۔ اللہ اللہ خیر صلاّ

چوہدری شجاعت حسین کئی بار ببانگ دہل کہہ چکے کہ انہیں لال مسجد کے سانحے سے دور رکھا گیا اور جب وہ آرمی ایکشن سے پہلے وزیر اعظم شوکت عزیز سے ملنے گئے اور اسے بیچ بچاؤ کے لئے سمجھانا چاہا تو جواب ملا کہ “میں اپنی بیوی کے ساتھ قلفی کھانے جارہا ہوں”۔ شوکت عزیز بھی مکمل طور پر بابو تھے، بیورو کرٹیک ذہن رکھتے تھے اور انہیں جامعہ حفصہ کے خون سے کوئی زیادہ ہمدردی نہیں تھی کیونکہ وہ عوام کے ووٹوں سے وزیر اعظم بنے تھے نہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔ شوکت عزیز اچھی طرح سمجھتا تھا کہ جب لال مسجد کاخون پکارے گا تو وہ ملک سے باہر جاچکا ہوگا اور لوٹی ہوئی دولت کے انباروں پر بیٹھ کر عیش کررہا ہوگا۔ظاہر ہے کہ یہ سوچ کسی سیاستدان کی نہیں ہوسکتی تھی جو تمام تر کمزوریوں کے باوجود عوام سے رشتوں میں بندھا ہوتا ہے اور اپنی جڑیں ملک کی دھرتی میں تلاش کرتا ہے۔ سیاستدان نالائق ہوں، لیٹرے ہوں، بدنیت ہوں یا ملکی خزانے کے چور ہوں انہیں ہمیشہ عوامی جوابدہی کا ”دھڑکا“لگا رہتا ہے جبکہ جرنیل اپنے آپ کو ان ”خرافات“ سے بلند و بالا سمجھتا ہے۔ آج مشرف اسی برتے پر بڑھکیں مارتا پھرتا ہے

مختصر یہ کہ مشرقی پاکستان ہو یا جامعہ حفصہ اور لال مسجد فوجی اور سیاسی سوچ کے درمیان اختلاف اور فاصلوں کا سمندر حائل ہوتا ہے۔ آج یہی غلطی ہم بلوچستان میں کررہے ہیں ۔ سیاستدان بظاہر بے بس نظر آتے ہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سیاسی مسائل فوجی انداز سے نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی سے حل ہوتے ہیں۔ کتنے کوڑھ مغز، کوتاہ نظر اور نالائق ہیں ہم لوگ کہ اپنی ہی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ، ایک ہی غلطی کو دہراتے چلے جاتے ہیں ،کانٹے بو کر پھولوں کی تمنا کرتے ہیں اور گولی اور اغواء کے بیج بو کر محبت اور حب الوطنی کی فصل کاٹنا چاہتے ہیں۔ خدارا سمجھئے کہ قانون فطرت میں ایسا ممکن نہیں

تحرير ۔ ڈاکٹر صفدر محمود

بلاگرز ۔ مبصّرين اور مُنتظم اُردو سيّارہ کے نام

محترم جوانو اور نوجوانو
السلام عليکم
ہر آدمی کسی تحرير کا مطلب اپنے ماحول ۔ تعليم اور تربيت کے زيرِ اثر سوچتا اور سمجھتا ہے ۔ اسلئے ميری آپ سب سے درخوست ہے کہ تحرير يا تبصرہ لکھنے سے قبل يا لکھ کر شائع کرنے سے قبل کم از کم ايک دو بار اسے اس نظريئے سے پرکھ ليا کيجئے کہ کوئی قاری اس کا کيا کيا مطلب لے سکتا ہے ؟

مُنتظم اُردو سيّارہ نے جس بلاگ کو اُردو سيّارہ سے ہٹانے کا اقرار کيا گيا ہے بلا شُبہ اس کی ايک تحرير نے ميرے ذہن ميں بھی ناراضگی پيدا کی تھی ۔ ميں صاحبِ بلاگ کو سمجھانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر گھريلو سخت قسم کی مجبوری کے باعث ميں کچھ دن کمپيوٹر نہ چلا سکا ۔ آج کمپيوٹر چلايا تو معلوم ہوا کہ وہ بلاگ اُردو سيّارہ سے ہٹا ديا گيا ہے

مُنتظم اُردو سيّارہ سے درخواست ہے کہ جس اصول کو نافذ کرنا ہے انصاف اور برابری کے ساتھ نافذ کيجئے ۔ ايک بلاگ ہم مسلمانوں کے دلوں ميں زہر آلود نيزے چبھوتا اور ہمارے سروں پر ہتھوڑے مارتا رہا ۔ اس پر بہت سے بلاگرز اور قارئين پچھلے دو ماہ سے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہيں ليکن مُنتظم اُردو سيّارہ پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا

اور پھر مُنتظم اُردو سيّارہ نے ايک بلاگ پر اپنی غيرجانبداری ثابت کرتے ہوئے اپنے رويّئے کو آزادی اظہارِ رائے اور اُردو سيّارہ کو سيکولر قرار ديا ۔ ويسے تو ساری دنيا ہی ميں سيکولر کا عملی مطلب يہی ہے کہ مسلمانوں ۔ اُن کے دين اور اُن کے اسلاف کو رگيد کر کہو کہ يہ اظہارِ رائے کی آزادی ہے مگر رگيدنے والے کی کسی نامعقول بات يا متشدد عمل پر اعتراض کرنے والے کو انتہاء پرست يا دہشتگرد قرار دے کر اُسے اُس کے گھر ميں گھُس کر قتل کر دو

اللہ ميرے سميت سب کو حقائق کا ادراک نصيب فرمائے اور مجھے سيدھی راہ پر قائم و دائم کرے