Category Archives: معاشرہ

کب آئے گی واپس حميّت ہماری ؟ ؟ ؟

جب عوام تحريک چلا کر اپنے لئے وطن کے نام پر زمين کا کوئی ٹکڑا حاصل کرنے کيلئے اپنے خون کا نذرانہ پيش کرتے ہيں ۔ يقينی طور پر اور ميں بطور نو دس سال کے بچے کے اس کا شاہد ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی1946ء اور 1947ء ميں ايسا ہی کيا تھا ۔ دراصل وہ 1857ء سے وقفے وقفے سے اپنے خون کے نذرانے پيش کرتے آئے تھے ۔ لاکھوں بوڑھے ۔ جوان ۔ مردوں اور عورتوں اور بچوں کے خون اور ہزاروں عورتوں کی عزتوں کی قربانی کے نتيجہ ميں اللہ نے يہ وطن ہميں بخشا تھا کيونکہ ہم نے اس کا مطلب ” لا اِلَہَ اِلاللہ ” کہا تھا

جب وطن حاصل ہو جاتا ہے تو قوميں دن رات کی جاں فشانی سے ترقی اور خوشحالی کی طرف رواں دواں ہوتی ہيں ۔ بلاشُبہ وطنِ عزيز کے پہلے چند سال ايسا ہی ہوا ۔ پھر انگريزوں کے ذہنی غلام اس نوزائدہ وطن پر حاوی ہو گئے اور اپنے ہی بھائيوں کا گوشت نوچنے لگے بلکہ اپنے وطن کے بھی بخيئے ادھڑنے لگے ۔ ہموطنوں کی کوتاہ انديشی اور آپا دھاپی کے نتيجہ ميں1971ء ميں مُلک کا ايک بڑا حصہ جاتا رہا اور اب اُس کا حال کچھ اس طرح بنا ديا ہے

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں ۔ ۔ ۔ ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کہ جلاؤں
شاہیں کا تو ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا ۔ ۔ ۔ کنجشک فرومایہ کو میں اب کس سے لڑاؤں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکّاری و عیاری و غدّاری و ہیجان ۔ ۔ ۔ اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو ۔ ۔ ۔ اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن ۔ ۔ ۔ مکاری و روباہی پہ اِتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو ۔ ۔ ۔ وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے ۔ ۔ ۔ ملتی ہوئی مُلا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور ۔ ۔ ۔ شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
کردار کا ، گفتار کا ، اعمال کا مومن ۔ ۔ ۔ قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی پنجاب کا مومن ۔ ۔ ۔ ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ہر داڑھی میں تِنکا ہے تو ہر آنکھ میں شہتیر ۔ ۔ ۔ اب مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں ۔ ۔ ۔ اب ذوقِ یقیں سے کہیں کٹتی نہیں زنجیر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر ۔ ۔ ۔ شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے ۔ ۔ ۔ تقدیرِ امم سو گئی ، طاؤس پہ آ کر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مرمر کی سِلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے ۔ ۔ ۔ رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر شخص مسلمان ہے لیکن ۔ ۔ ۔ دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے ۔ ۔ ۔ جمہور سے سلطانیءِ جمھور ورے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے ، یہاں پر جو خودی کا ۔ ۔ ۔ مر مر کے جیئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے ۔ ۔ ۔ اس بندہءِ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو ۔ ۔ ۔ اک بار میں ہم چُھٹے اس بار گراں سے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

موت کے بيوپاری

پانی ميں آرسینک اور سوڈیم [Arsenic and Sodium] کی زیادتی کے باعث دل ۔ گردوں ۔ بلڈ پریشر ۔ اور جلد وغیرہ کی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔ اسلام آباد ۔ کراچی ۔ لاہور ۔ پشاور ۔ کوئٹہ ۔ راولپنڈی ۔ فیصل آباد ۔ سیالکوٹ ۔ ساہیوال ۔ ڈیرہ غازی خان ۔ بدین ۔ ٹنڈوجام اور ڈیرہ اسماعیل خان سے منرل واٹر کمپنیوں کے 77 نمونے حاصل کرکے ان کا لیبارٹری میں پاکستان اسٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے معیار کے مطابق تجزیہ کیا گيا اور مندرجہ ذيل 12 کمپنيوں کا پانی کیمیائی طور پر مضر صحت پایاگیا ہے ۔ اِن اجزاء کی زيادہ سے زيادہ مقدار يہ ہے ۔ آرسينک [Arsenic]10 پی پی بی ۔ سوڈيم [Sodium] 50 پی پی بی اور فلورائيڈ [Fluoride
]0.7 پی پی ايم

نادق واٹر[Nadiq Water] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 54 پی پی بی آرسينِک
پین پیور[Pan Pure] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 15 پی پی بی آرسينِک
آقوا ون[Aqua-One] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 پی پی بی آرسينِک
نیشن[Nation] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 40 پی پی بی آرسينِک
ہمالیہ[Hamaliya] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 پی پی بی آرسينِک
اکوا نیشنل[Aqua National] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 57 پی پی بی آرسينِک
پِنيو[Pineo] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13 پی پی بی آرسينِک

نیشن[Nation] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 68 پی پی بی سوڈيم
میکس فریش[Max Fresh] ۔ ۔ ۔ 59 پی پی بی سوڈيم
مرجان[Marjan] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 53 پی پی بی سوڈيم
وینا[Vina] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 58 پی پی بی سوڈيم
اصل پیو نا[Asal Pio Na]۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 120 پی پی بی سوڈيم

ایکٹو [Active] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1.39 پی پی ايم فلورائيڈ

بشکريہ ۔ جنگ

روزہ يا فاقہ ؟

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا اور پياسا رہنے کا نام نہیں ہے
روزہ ہر برائی سے بچنے کا نام ہے

روزہ صرف پيٹ کا نہيں ہے ۔ نہ روزہ دوپہر کا کھانا چھوڑ کر سحری اور افطاری کے اوقات دوگنا کھانے کا نام ہے
روزہ زبان ۔ کان ۔ آنکھ ۔ ہاتھ۔ پاؤں ۔ غرضيکہ جسم کے ہر عضوء کو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے بتائے ہوئے طريقہ پر عمل کا پابند کرنے کا نام ہے

کچھ لوگ اپنے روزے کو اپنی کم عِلمی کے سبب ضائع کر ديتے ہيں
ایک صاحب سنیما ہاؤس سے باہر نکلے ۔ ان سے پوچھا گيا “آپ کا روزہ نہیں ہے کیا ؟”
جواب دیا “روزے سے ہوں ۔ بس وقت گذارنے کیلئے آ گیا تھا”
آجکل سنیما ہاؤس تو لوگ کم ہی جاتے ہیں ۔ گھر میں ہی وی سی آر پر وڈیو کیسٹ یا کمپیوٹر پر سی ڈی لگا کر روزے کا وقت آسانی سے گذار لیتے ہیں

روزے کو فاقہ ميں تبديل کرنے کے عمل جن پر عام طور پر توجہ نہيں دی جاتی
نماز نہ پڑھنا يا کچھ نمازيں چھوڑ دينا
جھوٹ بولنا
کم تولنا ۔ ناقص مال بیچنا
غیبت کرنا ۔ چغلی کھانا
کسی لڑکی یا عورت کی طرف بُری نيت سے دیکھنا
لڑنا ۔ جھگڑنا ۔ کسی کے ساتھ بدتميزی يا زيادتی کرنا

سورت ۔ 23 ۔ المؤمنون ۔ آيات 1 تا 11
بے شک ایمان والے رستگار ہوگئے ‏
جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ‏
اور جو بےہودہ باتوں سے منہ موڑتے رہتے ہیں ‏
اور زکوۃ ادا کرتے ہیں ‏
اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ‏
مگر اپنی بیویوں یا (کنیزوں سے) جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں ‏
اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے) نکل جانے والے ہیں ‏
اور جو امانتوں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں ‏
اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ‏
یہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں ‏
جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے

اللہ ہميں روزے کی اہميت کو سمجھنے اور اسے صرف اللہ کی خوشنودی کيلئے رکھنے کی توفيق عطا فرمائے

معمل میں عاملِ بے عمل

ایک دلچسپ واقعہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبانی ۔ 1984ء کاواقعہ ہے۔ میں غلام اسحاق خان صاحب، صاحبزادہ یعقوب خان ، ایچ یو بیگ صاحب اور جنرل عارف کے ساتھ پنسٹیک [PINSTECH] میں میٹنگ میں حصہ لینے گیا۔ میٹنگ کے بعد ہمیں نیو لیبز [New Labs] کا دورہ کرایا گیا وہاں ہاٹ لیب [Hot Lab] تھی جہاں تابکار اشیاء کا استعمال ہوتا تھا اور حفاظتی شیشے کے اندر ایسی اشیاء رکھی ہوئی تھیں اور باہر سے ایک مینوپلیٹر [Manipulator] کے ذریعے ان اشیاء کو ہلایا جا سکتا تھا ۔ یہ آلہ بس آپ پُتلی کے کھیل کی طرح سمجھ لیں جس میں ڈوریوں کی مدد سے پتلی کو نچایا جاتا ہے جبکہ اس آلہ میں دونوں ہاتھوں میں گرفت ہوتی ہے جن کی مدد سے شیشے کے پیچھے اندر کرین کی طرح اشیاء کو پکڑا جا سکتا ہے اور جائے مقررہ پر رکھا جا سکتا ہے ۔

غلام اسحاق خان صاحب نے اس محکمہ کے سربراہ سے کہا کہ وہ ذرا اس کو چلا کر دکھا دیں ۔ ان صاحب کا رنگ زرد ہو گیا اور کہا کہ وہ نہیں جانتے اور ٹیکنیشن جو یہ کام جانتا ہے اس کو آج آنے سے منع کر دیا تھا۔ غلام اسحاق خان صاحب ششدر رہ گئے اور مسکرا کر کہا کہ انہوں نے لاتعداد مرتبہ کہوٹہ میں ورکشاپوں کا دورہ کیا ہے وہاں تو محکمے کا سربراہ اپنے محکمے کے تمام آلات استعمال کر سکتا ہے۔ یہ میں نے پہلے دن سے ہی ہدایت کی تھی کہ محکمے کے سربراہ کا اپنے محکمے کے آلات سے پوری طرح واقف ہونا لازمی ہے۔تمام سائنسدانوں اور انجینئروں سے درخواست ہے اور نصیحت ہے کہ وہ اپنے محکمے میں استعمال ہونے والے آلات و ایکوپمینٹ سے پوری طرح آگاہی حاصل کریں اور اپنے ماتحتوں اور ساتھیوں کی نگاہ میں باوقار اور باعزت رہیں۔ آپ کی عزت جب ہی ہوتی ہے جب دوسروں کو علم ہو کہ آپ اپنے کام سے پوری طرح واقف ہیں اور ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں

قومی حميت ابھی باقی ہے

خواجہ الطاف حسين حالی صاحب کے مندرجہ ذيل اشعار ميں نے بہت پہلے نقل کر کے مسؤدہ محفوظ کيا اور شائع کرنے کی فہرست ميں لگا ديا تھا ۔ ان کو شائع کرنے کی تاريخ آئی تو بلا وجہ خيال ہوا کہ ملتوی کيا جائے ۔ اس طرح دو بار ملتوی کيا اور بات مہينوں پر جا پڑی

پچھلے ہفتے ان کو شائع کرنے کی حتمی تاريخ 27 جولائی 2011ء مقرر کر دی ۔ سُبحان اللہ ۔ اللہ کا کرنا ديکھيئے کہ آج کا دن ان کيلئے ميرے خالق و مالک نے مُلک ميں وقوع پذير ہونے والے واقعات کے حوالے سے موزوں بنا ديا ہے ۔ سُبحان اللہ

نہیں قوم میں گرچہ کچھ جان باقی ۔ ۔۔ ۔ ۔ نہ اس میں وہ اسلام کی شان باقی
نہ وہ جاہ وحشمت کے سامان باقی ۔ ۔ ۔ پر اس حال میں بھی ہے اک آن باقی
بگڑنے کا گو ان کے وقت آگیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس بگڑنے میں بھی اک ادا ہے
بہت ہیں ابھی جن میں غیرت ہے باقی ۔ ۔ ۔ ۔ دلیری نہیں پر حمیت ہے باقی
فقیری میں بھی بوئے ثروت ہے باقی ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ تہی دست ہیں پر مروت ہے باقی
مٹے پر بھی پندار ہستی وہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکاں گرم ہے آگ گو بجھ گئی ہے

سمجھتے ہیں عزت کو دولت سے بہتر ۔ ۔ ۔ فقیری کو ذات کی شہرت سے بہتر
گلیمِ قناعت کو ثروت سے بہتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ انہیں موت ہے بارِ منت سے بہتر
سر ان کا نہیں در بدر جھکنے والا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ خود پست ہیں پر نگاہیں ہیں بالا
مشابہ ہے قوم اس مریضِ جواں سے ۔ کیا ضعف نے جس کو مایوس جاں سے
نہ بستر سے حرکت نہ جبنش مکاں سے ۔ اجل کے ہیں آثار جس پر عیاں سے
نظر آتے ہیں سب مرض جس کے مزمن ۔ نہیں کوئی مُہلک مرض اس کو لیکن

بجا ہیں حواس اس کے اور ہوش قائم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طبعیت میں میل خور و نوش قائم
دماغ اور دل چشم اور گوش قائم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جونی کا پندار اور جوش قائم
کرے کوئی اس کی اگر غور کامل ۔ ۔ ۔ ۔ عجب کیا جو ہو جائے زندوں میں شامل
عیاں سب پہ احوال بیمار کا ہے ۔ کہ تیل اس میں جو کچھ تھا سب جل چکا ہے
موافق دوا ہے نہ کوئی غذا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہزالِ بدن ہے زوالِ قویٰ ہے
مگر ہے ابھی یہ دیا ٹمٹماتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بجھا جو کہ ہے یاں نظر سب کو آتا

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

مانگنے والے ۔ جو ياد رہ جاتے ہيں

مانگنے والوں کی لاتعداد اقسام ہوں گی ميں صرف اُن اچھے يا بُرے مانگنے والوں کی بات کر رہا ہوں جو اپنی کسی حرکت يا عمل کی وجہ سے ياد رہ جاتے ہيں ۔ اِن ميں بھيک مانگنے والے بھی ہيں اور مسجد کے نام پر مانگنے والے بھی ۔ پہلے ناپسنديدہ واقعات پھر وہ جو اپنے پيچھے ايک اچھا تاءثر چھوڑ گئے

ہم جھنگی محلہ راولپنڈی ميں رہتے تھے ۔ مغرب کے بعد ايک بہت مسکين اور نحيف آواز آتی “مائی جی ۔ روٹی”
ايک جھُکا ہوا آدمی اپنے سر اور جسم پر کمبل ڈالے ہوئے بھيک مانگ رہا ہوتا تھا ۔ ايک دن ميں مغرب کے بعد گھر واپس آ رہا تھا کہ يہی آواز ہماری گلی ميں سے سُنائی دی ۔ جب ميں اپنی گلی کی طرف مُڑا تو گلی ميں کوئی نہ تھا ۔ ميں حيران ہو کر واپس بھاگا اور اس جوان صحتمند کو ديکھا جو ايک لمحہ پہلے گلی سے نکل کر گيا تھا ۔ اگلے دن “مائی جی ۔ روٹی’ کی نحيف آواز آئی تو ميں گھر سے نکل کر جا کر وہاں کھڑا ہو گيا جہاں ہماری گلی بڑی گلی سے ملتی تھی ۔ جونہی وہ مانگنے والا اُسی طرح کمبل ڈالے نکلا ميں نے پيچھے سے کمبل پکڑ ليا ۔ اندر سے ہٹا کٹا جوان نکل آيا جو کمبل سنبھال کر بھاگ گيا ۔ اس دن کے بعد ہماری گلی ميں اُس کی آواز نہ آئی

ميں انجنيئرنک کالج لاہور ميں پڑھتا گھر سے کالج جانے کيلئے بس پر جا رہا تھا ۔ بس جہلم رُکی ۔ ميں بس سے نکل کر باہر کھڑا ہو گيا ۔ چند منٹ بعد ايک خانہ بدوش قسم کی جوان پلی ہوئی عورت آ کر بھيک مانگنے لگی ۔ کچھ فاصلے پر اسی کی طرح کی تين چار عورتيں اور تھيں ۔ خطرہ پہچانتے ہوئے ميں نے خيرات دينے کی بجائے “معاف کرو” کہا مگر وہ ميری تھوڑی پکڑ پکڑ کے مانگنے لگ گئی ۔ ميں وہاں سے ہٹ کر بس کے ساتھ لگ کے کھڑا ہوگيا ۔ وہ پيچھے آ گئی اور اتنی قريب کہ اگر ميں يکدم وہاں سے چلا نہ جاتا تو اس کی چھاتی کے اُبھار ميرے سينے سے ٹکراتے ۔ ميں بس کے اندر چلا گيا ۔ کنڈکٹر نے اُسے روک ديا اور کہنے لگا “يہ بے غيرت عورتيں ہيں اسی طرح جوان سواريوں کو تنگ کرتی ہيں

ہم 1994ء ميں اسلام آباد منتقل ہو گئے ۔ گيٹ کے باہر کی گھنٹی بجی ميں نے گھر کے اندر سے انٹرکام کا رسيور اُٹھايا ۔ آواز آئی “آپ خوش قسمت ہيں ۔ آپ سے ملنے کيلئے حضرت خود تشريف لائے ہيں”۔ ميں گيٹ پر پہنچا ۔ داڑھيوں والے 4 آدمی کھڑے تھے ۔ مدعا پوچھا تو کسی مسجد کيلئے چندہ مانگا ۔ ميں نے پوچھا “کونسی مسجد ؟” جواب ملا “يہ جی يہ ساتھ والی”۔ مزيد سوال پوچھنے پر جھوٹ ثابت ہو گيا مگر ان لوگوں کو کوئی شرمندگی نہ ہوئی

بالا کے برعکس

جب ہم 1964ء سے قبل جھنگی محلہ ميں رہتے تھے ايک آدمی صرف رمضان کے مہينہ ميں سحری کے وقت آواز لگاتا ” اللہ کے پيارو ۔ اللہ والو ۔ تيری بستی ميں بولتا سائیں نا”۔ بہت گرجدار مگر من بھاتی آواز ۔ وہ کچھ نہيں مانگتا تھا ۔ صرف ستائيسويں روزے کی سحری کے وقت کہتا “بابا اپنی بستی واپس جا رہا ۔ بابا کو کچھ دے دو”۔ ايک سحری کا مجھے ياد ہے کہ ہمارا دروازہ کھٹکھٹايا ۔ ميں باہر گيا تو کہا “سائيں بابا کو روزہ نہيں رکھواؤ گے ؟” ميں دوڑ کر اندر گيا ۔ جو پراٹھا اور سالن ميں نے کھانا تھا لا کر اُسے ديا ۔ وہ بولا ” مجھے پانی کا ايک گلاس بھی دے جاؤ ۔ پھر اپنا روزہ رکھو”۔ کئی سال وہ آتا رہا ۔ پھر ايک رمضان کا مہينہ آيا مگر سائيں بابا نہ آيا ۔ اگلے روز محلے ميں سب ايک دوسرے کو کہہ رہے تھے “سائیں بابا نہيں آيا ؟” کوئی نہيں جانتا تھا وہ سائيں بابا کہاں سے آتا تھا اور کہاں چلا گيا ۔ اُسے ديکھے 5 پانچ دہائياں ہونے کو ہيں مگر مجھے اُس کی شکل اب بھی ياد ہے اور اُس کی آواز اب بھی ميرے کانوں ميں گونجتی ہے

اسلام آباد ميں ايک مانگنے والی باقاعدہ 2 سے 6 ہفتے کے وقفے سے آتی ۔ کہتی “مدد کر ديں” ۔ ایک دن میں اُسے پيسے دينے گيا تو ديکھا تيس پينتيس سال عمر ہو گی ۔ ميلے کچيلے کپڑے ۔ چہرے پر تھکاوٹ اور پريشانی کے آثار ۔ ساتھ ايک کوئی 3 سال کی بچی اور ايک بچہ چند ماہ کا گود ميں جسے وہ اينٹی بائيوٹک شربت کی ايک خوراک پلا رہی تھی ۔ ميں نے پوچھا “ان بچوں کا باپ کہاں ہے ؟” بولی “نشہ کرتا ہے”۔ اسی حال ميں وہ کئی سال آتی رہی ۔ پيسے لے کر چلی جاتی ۔ جولائی 2009ء ميں ہم لاہور چلے گئے ۔ فروری 2011ء ميں واپس آئے ۔ جون کے شروع ميں ايک دن انٹرکام کی گھنٹی بجی ۔ ميں نے رسيور اُٹھايا ۔ ايک زنانہ آواز آئی “بچے يتيم ہيں ۔ مدد کر ديں”۔ ميں پيسے دينے گيا تو وہی عورت جو پہلے صرف “مدد کر ديں” کہتی تھی ۔ صاف ستھرے کپڑے ۔ چہرے پر پہلے جيسی ہوائياں نہيں اُڑ رہی تھيں ۔ بچے بھی ساتھ نہ تھے ۔ ميں نے پيسے ديئے ۔ وہ چلی گئی ۔ گيٹ سے واپس آتے ہوئے ميں نے سوچا “اس کا خاوند شايد اس کيلئے عذاب تھا ۔ مر گيا تو اس کا بوجھ ہلکا ہو گيا”

کچھ سال پيشتر ايک دن دوپہر کے ڈھائی بجے تھے ۔ گيٹ کی گھنٹی بجی ۔ رسيور اُٹھايا ۔ آواز آئی ” بھوکا ہوں بابا ۔ کھانا کھلا دو”۔ ميں پيسے لے کر باہر نکلا ۔ اُس نے پيسے لينے سے انکار کر ديا ۔ ميں نے کہا ” اس وقت روٹی يا چاول کچھ بھی نہيں ہے”۔ کہنے لگا “بابا ۔ 2 دن کی باسی ہو تو وہ لا دو”۔ ميں اندر گيا بيوی سے پوچھا “انڈے ہيں ؟” بولی “نہيں”۔ ميں نے کہا “اچھا روٹی پکوا دو يا پکا دو ۔ سالن ميں قريبی مارکيٹ سے لے آتا ہوں”۔ گوندھا ہوا آٹا بھی صرف ايک روٹی کا تھا ۔ ميں وہی لے کر باہر گيا ۔ اور مانگنے والے سے کہا “ميں ابھی بازار سے سالن لے کر آتا ہوں”۔ بولا “کہاں جاؤ گے ۔ بابا ۔ پانی لادو ميں پانی سے کھا لوں گا”۔ ساتھ والوں کا نوکر کھڑا سُن رہا تھا بولا “سر ۔ ميں ابھی اندر سے کچھ لے کر آتا ہوں”۔ وہ اچار سے بھری پيالی لے کر آ گيا ۔ بابا نے روٹی پر اچار اُنڈيل ليا ۔ کھا کر پانی پيا ۔ اللہ کا شکر ادا کيا اور بولا “بابا ۔ دو دن سے بھوکا تھا ۔ آج پيٹ ميں کچھ چلا گيا ۔ اللہ بھلا کرے”۔ ميں ديکھتا رہا ۔ وہ چلتا ہوا سيدھا گلی سے نکل گيا ۔ مجھے جب بھی وہ شخص ياد آتا ہے ميں آنسو بہائے بغير نہيں رہ سکتا

ہميں اللہ نے اتنی زيادہ نعمتيں دے رکھی ہيں ۔ ہم اللہ کا کتنا شکر ادا کرتے ہيں ؟ ايک وہ کہ 2 دن بعد ايک روٹی مل گئی تو شکر گذار ہوا اور مطمئن بھی

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ کل ۔ آج اور کل

اگر آدمی ماضی پر روتا رہے
اور
مستقبل کيلئے پريشان رہے
تو
اُس کا آج بھی غارت چلا جائے گا

ماضی کو کوئی بھی تبديل نہيں کر سکتا
مستقبل کيلئے پريشان رہنے سے حال بھی برباد ہو جائے گا

درست سوچ يہ ہے کہ جو انتخاب آج کيا جائے گا
عمومی طور پر اُس کا اثر آنے والے کل پر ہو گا
چنانچہ مستقبل اچھا بنانے کيلئے آج ہی کچھ کرنا ہو گا