Category Archives: معاشرہ

بچپن کی ياد اور ہماری حالتِ زار

جب ميں سيکنڈ سٹينڈرڈ [شايد تیسری جماعت کے برابر] کا امتحان دے رہا تھا ۔ ميں نے اختياری مضمون موسيقی کا امتحان ديا تو جو گانا ميں نے موسيقی کے ساتھ گا کر اوّل انعام حاصل کيا تھا اْس کے بول يہ تھے

نگری ميری کب تک يونہی برباد رہے گی
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

2 جنوری کو ڈاکٹر عبدالقدير خان کی تحرير “اپنا ہُنر بيچتا ہوں” پڑھتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ يہ گانا برصغیر کے مشہور اِنقلابی شاعر نواب شبّیر حسن خان جوش فلم ڈائريکٹر ڈبلیو زیڈ احمد کے اصرار پر انہوں نے فلم ”ایک رات“ کيلئے لکھا تھا ۔ ايک اور دلچسپ حقيقت يہ ہے کہ ڈبلیو زیڈ احمد صاحب اليکٹريکل انجيئر تھے اور انہوں نے ہميں انجيئرنگ کالج کے پہلے سال ميں پڑھايا بھی تھا ۔اس فلم کيلئے لکھنے پر معاوضہ ملا تھا جس کا نواب شبّیر حسن خان جوش صاحب کو قلق تھا اور انہوں نے يہ شعر لکھا

نہ ہوگا کوئی مجھ سا بھی تیرہ قسمت
میں کم بخت اپنا ہُنر بیچتا ہوں

انہوں نے ہندوستانیوں کی حالت زار بھی یوں بیان کی

سنا تو ہوگا تو نے ایک انسانوں کی بستی ہے
جہاں جیتی ہوئی ہر چیز جینے کو ترستی ہے

ڈاکٹر عبدالقدير خان لکھتے ہيں
چیزیں خریدی اور بیچی جاتی ہیں اسی لئے بیچنے والے کے نام سے اس کا پیشہ جُڑ جاتا ہے جیسے سبزی فروش، گندم فروش، موتی والا، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہمارے ملک میں ایک اور نہایت مکروہ اور قابل ہتک نام بھی ہے اور وہ ہے ”وطن فروش“ جسے عرف عام میں غدّار کہتے ہیں۔ بلکہ یہ نام یا لقب غدّار سے بھی زیادہ قابل نفرت ہے کیونکہ غدّار تو ایک گروپ، فرقہ یا چند لوگوں سے بے وفائی کرتا ہے لیکن وطن فروش تو اپنے ہم وطنوں کی عزّت، غیرت، حمیت، جان و مال کا سودا کردیتا ہے۔ تاریخ میں ایسے وطن فروشوں کی کئی کہانیاں ہیں جن کی وجہ سے نسلیں تا قیامت اُن پر لعنت بھیجتی رہینگی۔ سب سے مشہور مثال ہمارے سامنے بنگال کے میر جعفر اور دکن کے میر صادق کی ہے۔ جن کا ذکر علامہ اقبال نے بھی اپنے کلام میں یوں کیا ہے
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن
میر جعفر نے اگر نواب سراج الدولہ کے ساتھ غدّاری نہ کی ہوتی تو ہماری تاریخ مختلف ہوتی اور تمام انگریز وہیں نیست و نابود کردیے جاتے۔ اسی طرح میر صادق نے ٹیپو سلطان کے ساتھ غدّاری کی اور جنوبی ہند پر انگریزوں کا راج قائم ہوگیا ۔ بڑی بڑی حکومتیں غدّاری کے سبب فنا ہوگئیں

پرویز مشرف کا دور آیا تو سیاسی لوگ اور بیورو کریٹس حکومت کے ہم نوا بن کر اقتدار اور دولت دونوں حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ میں لگ گئے۔ جس کی جیتی جاگتی مثال ایک صاحب ہیں جنھوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کے دن ہمارے سامنے مٹھائی بانٹی اور آج ان سے بڑا مخالفین کو لعن طعن کرنے والا ملک میں نہیں ۔ پرویز مشرف کے آرمی چیف بننے اور حکومت پر قبضہ کرنے سے پیشتر ہی فوج کو اور عوام کو اس کے کردار کے بارے میں تمام باتوں کا علم تھا۔ جوں ہی اس نے حکومت پر ناجائز قبضہ کیا تو اپنے ساتھ لٹیروں کا ایک گروہ ملا لیا۔ ملک کی عزّت و وقار کو چند ٹکوں میں بیچ دیا ۔ ہمیں امریکی کالونی بنادیا ۔ اپنے ہزاروں شہریوں کو قتل کردیا اور دوسروں سے کرایا۔ اپنے لوگ بیچ کر اس بارے میں اپنی کتاب میں فخریہ اس کی رقم وصول کرنے کا ذکر کیا۔ عورتیں، بچّے، علماء، بزرگ سیاستداں نواب اکبر بگتی وغیرہ کو شہید کیا۔ چوروں لٹیروں کے اربوں روپے کے قرضے معاف کردیئے

ایک وقت تھا جب ہمارے یہاں سرفروشوں کی عزّت کی جاتی تھی مگر اب ہم ضمیر فروشوں ، غدّاروں اور منافقوں کو ہیرو بنائے پھرتے ہیں ۔ اب وطن فروشوں نے ملک کے اندر ایسی پالیسیاں اختیار کرلی ہیں کہ بجائے جنگ کے ہم اقتصادی ، مالی اوراخلاقی طور پر ختم ہو کر پرانے غدّاروں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے

ڈاکٹر عبدالقدير خان نے ايک وطن فروش جماعت علی شاہ کا ذکر نہيں کيا جسے پرويز مشرف نے انڈس واٹر کميشن کا سربراہ بنايا تھاکہ پاکستان کے پانيوں کے حقوق حفاظت کرے اور وہ 30 ستمبر 2011ء کو ريٹائر ہوا ۔ جماعت علی شاہ پاکستان کے حق کی بجائے بھارت کے ناجائز اقدامات کی حفاظت کرتا رہا جس کے نتيجہ ميں بھارت نے 2002ء سے 2009ء تک مقبوضہ جموں کشمير کی سرزمين پر دريائے سندھ کا پانی روکنے کيلئے دو بڑے ڈيم بنا لئے ۔ ايک 57 ميٹر اُونچا نمُو بازگو کے مقام پت دريائے سندھ پر اور دوسرا 42 ميٹر اُونچا دريائے سندھ ميں شامل ہونے والی سورو ندی پر چتّر کے مقام پر ۔ ان 2 ڈيموں ميں 4238400000 مکعب فٹ پانی روکا جا سکتا ہے ۔ مزيد يہ کہ پاکستان کے ماحول کی حفاظت کے نام پر بھارت نے اقوامِ متحدہ سے 482083 ڈالر امداد بھی حاصل کر لی مگر جماعت علی شاہ اپنی قوم کو بيوقوف بناتے رہے کہ بھارت کچھ نہيں کر رہا ۔ کمال يہ ہے کہ 23 ستمبر 2011ء کو جماعت علی شاہ کی کارستانياں معلوم ہونے پر اُسے ايگزِٹ کنٹرول لسٹ پر رکھا گيا تھا مگر وہ کنيڈا جا پہنچا ہے

مقبوضہ جموں کشمير ميں بھارت کی طرف بنائے جانے والے ڈيموں کے متعلق ميں ماضی ميں اپنے بلاگ پر اور اخبار ميں لکھتا رہا ہوں ۔ ميں نے اس سلسلہ کی آخری تحرير اسی بلاگ پر 31 جولائی 2010ء کو لکھی تھی

احوالِ قوم ۔ مايوسی گناہ ہے

خواجہ الطاف حسين حالی صاحب نے مسلمانانِ ہِند کی حالتِ زار بيان کرنے کے بعد اُنہيں مايوس ہونے سے بچانے اور ترقی کی راہ پر چلنے کا راستہ بھی بتايا ۔ مسدسِ حالی کے اس حصہ کا نام ” ضميمہ ” ہے

بس اے نااُمیدی نہ یوں دل بُجھا تُو ۔ ۔ ۔ جھلک اے اُمید اپنی آخر دکھا تُو
ذرا نا امیدوں کی ڈھارس بندھا تو ۔ ۔ ۔ فسردہ دلوں کے دل آکر بڑھا تو
ترے دم سے مردوں میں جانیں پڑی ہیں ۔ جلی کھیتیاں تو نے سر سبز کی ہیں

بہت ڈوبتوں کو ترایا ہے تو نے ۔ ۔ ۔ بگڑتوں کو اکثر بنایا ہے تونے
اکھڑتے دلوں کو جمایا ہے تونے ۔ ۔ ۔ اجڑتے گھروں کو بسایا ہے تونے
بہت تونے پستوں کو بالا کیا ہے ۔ ۔ ۔ اندھیرے میں اکثر اجالا کیا ہے

نہیں فکر تو دل بڑھاتی ہے جب تک ۔ دماغوں میں بو تیری آتی ہے جب تک
یہ سچ ہے کہ حالت ہماری زبوں ہے ۔ عزیزوں کی غفلت وہی جوں کی توں ہے
جہالت وہی قوم کی رہنموں ہے ۔ ۔ ۔ تعصب کی گردن پہ ملت کا خوں ہے
مگر اے امید اک سہارا ہے تیرا ۔ ۔ ۔ کہ جلوہ یہ دنیا میں سارا ہے تیرا

ہم ترقی چاہتے ہيں ؟؟؟

آج بلکہ يوں کہنا چاہيئے کہ پچھلی کئی دہائيوں سے ہم لوگ مُلک و قوم کے دن بدن رُو بتنزل ہونے کا ہر محفل ميں رونا روتے ہيں ۔ تنزل کا مُوجب کوئی سياستدانوں کو قرار ديتا ہے تو کوئی فوجی آمروں کو اور کچھ ايسے بھی ہيں جو مُلا يا مُلا کے پڑھائے ہوئے اُن 18 فيصد افراد کو قرار موردِ الزام ٹھہراتے ہيں جنہوں نے مُلک ميں خواندگی کی شرح کو 17 سے 35 فيصد بنايا ہوا ہے ۔ آخرالذکر ميں اپنے کو زيادہ ذہين سمجھنے والےکچھ ايسے افراد بھی ہيں جو مروجہ بدحالی کا سبب دين اسلام کو قرار ديتے ہيں

ہموطنوں ميں پڑھے لکھوں سميت اکثريت کا يہ حال ہے کہ انہيں مطالعہ کا شوق نہيں ۔ وہ صرف نصاب کی کتب پڑھتے ہيں اسناد حاصل کرنے کيلئے اور بعض تو نصاب کی کُتب بھی پوری نہيں پڑھتے ۔ تعليميافتہ بننے يا اچھی عملی زندگی گذارنے کيلئے نصابی کُتب کے ساتھ ساتھ تاريخ ۔ معاشرتی اور معاشی علوم کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے اور يہ عادت نمعلوم کيوں ہموطنوں کی بھاری اکثريت ميں نہيں ملتی ۔ ہماری قوم کی ريخت و ناکامی کا يہی بڑا سبب ہے

دُور کيوں جايئے ۔ پڑھے لکھے ہموطنوں کی بھاری اکثريت کو 6 دہائياں پرانی اپنے ہی مُلک کی تاريخ کا ہی عِلم نہيں تو اور کيا توقع کی جائے ۔ اسی لئے يہ لوگ شکائت کرتے ہيں کہ مُلک ميں کسی نے 64 سال سے کچھ نہيں کيا ۔ صرف معاشی پہلو ہی کو ديکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری دِگرگوں حالت ہموطنوں کی بلاجواز شاہانہ عادات کا نتيجہ ہے ۔ آج کے دور ميں کسی سرکاری دفتر ميں چلے جائيے اور صرف قلم اور کاغذ کے استعمال کا تخمينہ لگايئے ۔ پھر اس کا مقابلہ کيجئے اُن لوگوں کے طريقے سے جنہوں نے اس مُلک کو حاصل کيا اور ترقی کی راہ پر ڈالا تھا

ميں نے پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں يکم مئی 1963ء ميں ملازمت شروع کی ۔ مجھے اُس وقت کے سمال آرمز گروپ [جو 1967ء ميں ويپنز فيکٹری بنا] ميں تعينات کيا گيا ۔ سمال آرمز گروپ کے سربراہ ورکس منيجر تھے جن کے ماتحت ميرے سميت 2 اسسٹنٹ ورکس منيجر اور ايک سيکشن آفيسر ايڈمن تھے ۔ سيکشن آفيسر کے برابر عہدے کے 8 فورمين متذکرہ 2 اسسٹنٹ منيجرز کے ماتحت تھے پھر اُن کے ماتحت اسسٹنٹ فورمين ۔ چارجمين ۔ سپروائزر اور ورکمين وغيرہ تھے

ميں نے ديکھا کہ ہمارے دفاتر ميں کوئی ايسا کاغذ جس کے ايک طرف لکھا ہوا ہو اور اس کی ضرورت نہ رہی ہو تو اُسے ضائع نہيں کيا جاتا تھا بلکہ لکھائی پر صرف ايک کاٹا لگا کر اس کے دوسری طرف لکھنے کيلئے استعمال کی جاتی تھی ۔ اسی طرح جو لفافہ ڈاک ميں موصول ہو اُس پر جہاں پتہ لکھا ہوتا تھا ايک پرچی چپکا کر لفافہ دوبارہ استعمال کيا جاتا تھا ۔ کاغذوں کو نتھی کرنے کيلئے لوہے کے پِن کی بجائے کانٹے استعمال کئے جاتے تھے جو قريب ہی اُگے کيکر کے درخت سے اُتارے جاتے تھے ۔ ہماری فيکٹری ميں صرف ايک ٹائپسٹ تھا اور ايک ہی ٹائپ رائٹر اسلئے کئی خطوط نب ہولڈر يا پکی پنسل سے ہی لکھے جاتے تھے

گليوں اور سڑکوں پر لگی بتياں کوئی توڑتا نہيں تھا ۔ نہ کوئی دوسری املاک کو نقصان پہنچاتا تھا ۔ طلباء اور طالبات اپنی چھٹيوں کے دوران دشمن کے ہوائی حملے سے بچنے اور اس کے بعد پيدا ہونے والی صورتِ حال سے نپٹنے ۔ ابتدائی طبی امداد اور دوسرے فلاحی کورس کرتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ معلوماتِ عامہ کے امتحاں پاس کرتے تھے

ہماری فيکٹری ميں سيکشن آفيسر ايڈمن 50 سالہ اشرف علی صاحب تھے جو 1947ء ميں وسط بھارت سے ہجرت کر کے آئے تھے ۔ چونکہ وہاں پر وہ سرکاری سيکرٹيريئٹ کے ملازم تھے اسلئے پاکستان پہنچنے پر اُنہيں کراچی ميں سيکرٹيريئٹ ميں ملازمت دی گئی ۔ وہاں سے 1953ء ميں اُن کا تبادلہ پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں ہوا تھا ۔ ميں نے اشرف علی صاحب کو ديکھا کہ ردّی کاغذ کی نلکی بنا کر ايک چھوٹی سی پنسل کے پيچھے لگا کر اسے لمبا کيا ہوا تھا کہ لکھنے کيلئے ہاتھ ميں آ سکے ۔ مجھے کام شروع کرنے کيلئے ايک ماہ کيلئے 2 پنسليں ملی تھيں ۔ ميرے پاس لکھنے کا کام کم تھا سو ميں نے ان ميں سے ايک اشرف علی صاحب کو پيش کی تو اُنہوں نے مسکراہٹ کے ساتھ يہ کہا “بھائی ميں چند سال ميں ريٹائر ہونے والا ہوں اور اپنی عادت خراب نہيں کرنا چاہتا کہ ريٹائرمنٹ کے بعد مجھے صرف پنشن پر گذر کرنا ہے”۔

اس کے بعد اُنہوں نے جو کچھ کہا وہ دورِ حاضر کے ہموطنوں کو اگر ہوش ميں نہ لائے تو پھر وہ اسی کے مستحق ہيں جو کچھ آجکل ہو رہا ہے ۔ اور عمران خان تو کيا شايد کوئی فرشتہ بھی آ کر اس مُلک و قوم کو درست نہ کر سکے ۔ اشرف علی صاحب نے مجھے جو بتايا تھا اُس کا خلاصہ يہ ہے

“جب پاکستان بنا تو ہم سی پی سے لُٹے پُٹے کراچی پہنچے سرحد پر نام اور دوسرے کوائف درج کئے جاتے تھے سو ہم نے لکھوا ديا ۔ کچھ دن ہميں کراچی مہاجرين کيمپ ميں رکھا گيا ۔پھر جوں جوں ضرورت ہوتی آدميوں کو ان کی تعليم اور تجربہ کے مطابق چھوٹی موٹی ملازمت دے دی جاتی سو ہميں بھی سيکرٹيريئٹ ميں ملازمت مل گئی ۔ وہاں نہ کوئی کرسی تھی نہ کوئی ميز ۔ کچھ کاغذ جن کی ايک طرف کچھ لکھا تھا اور ايک پکی پنسل دے دی گئی ۔ ايک ساتھی جو پہلے سے موجود تھے اور ايک پيٹی [wooden crate] کو ميز بنائے بيٹھے تھے کہنے لگے کہ آج چھٹی کے بعد ميرے ساتھ چليں ۔ وہ چھٹی کے بعد مجھے کيماڑی لے گئے ۔ وہاں خالی پيٹياں پڑی تھيں ۔ ہم نے ايک چھوٹی اور ايک بڑی اُٹھا لی ۔ اگلے روز ہم دفتر ميں ميز لگا کر کرسی پر بيٹھے ۔ ہميں 3 ماہ تنخواہ پيسوں ميں نہيں ملی بلکہ چاول ۔ آٹا اور دال وغيرہ دے ديا جاتا تھا اور سب خوش تھے ۔ اپنا کام بڑے شوق اور انہماک سے کرتے تھے ۔ ايک دوسرے کا خيال بھی رکھتے تھے ۔ کسی کو کوئی پريشانی نہ تھی ۔ ہم پيدل ہی دفتر آتے جاتے تھے ۔ جن لوگوں کی رہائش دور تھی وہ صبح تڑکے گھر سے نکلتے تھے ۔ ہميں جو پنسل ملتی تھی اُسے ہم آخری حد تک استعمال کرتے تھے ۔ کوئی 6 ماہ بعد ہميں سياہی کا سفوف ۔ دوات ۔ نب اور ہولڈر مل گئے ۔ ليکن پکی پنسل ساتھ ملتی رہی کيونکہ نب سے کاپياں نہيں بن سکتی تھيں”۔

يہاں يہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان بننے کے بعد بھارت ميں گندم کی شديد قلت پيدا ہوئی تو مہاتما کرم داس موہن چند گاندھی نے پورے بھارت کا دورہ کيا اور خود آلو کی روٹی کھا کر عوام کو بھی آلو کی روٹی کھانے کی ترغيب دی تھی جو آج کی اُن کی ترقی کا پيش خيمہ ثابت ہوئی

ملک فيروز خان نون 1957ء ميں پاکستان کے وزير اعظم رہے ہيں ۔ اُن کا گھر ميں دفتر ايک چھوٹی سی ميز اور ايک کرسی پر مشتمل تھا جو اُنہوں نے اپنے سونے کے کمرے ہی ميں لگائی ہوئی تھی ۔ ايک دن ان کی بيوی بيگم وقارالنساء نون نے ذاتی خط لکھا اور اُسی ميز پر رکھ ديا ۔ جب وقت کے پاکستان کے وزير اعظم گھر آئے تو بيوی نے کہا يہ خط ڈاکخانے ميں ڈال آئيں
وزير اعظم نے پوچھا “يہ کاغذ کہاں سے ليا ہے ؟”
بيوی “آپ کی ميز سے”
وزير اعظم “اور يہ سياہی”
بيوی ” آپ کی ميز سے”
وزير اعظم غصے ميں” نہ يہ کاغذ تمہارے خاوند کا ہے اور نہ سياہی ۔ يہ دونوں بلکہ يہ دفتر وزيرِ اعظم پاکستان کا ہے ۔ اب يہ کمی پوری کرنا ہو گی”

کاش کہ تيرے دِل ميں اُتر جائے ميری بات

مصائب کا حل ؟

اگر انڈہ بيرونی طاقت سے ٹوٹے تو اس ميں زندگی کی اُميد نہيں رہتی

اگر انڈہ اندرونی طاقت سے ٹوٹے تو زندگی شروع ہوتی ہے

معاملہ ايک فرد کا ہو يا پوری قوم کا
ہميشہ اندر سے شروع ہونے والی تبديلی فعال ۔ مفيد اور پائيدار ہوتی ہے

ايہہ پُتر ہٹاں تے

ايہہ پُتر ہٹاں تے نئيں وِکدے ۔ تُوں لَبھدی پھِريں بزار کُڑے
ايہہ سَودا نقد وی نئيں مِلدا ۔ تُوں لَبھدی پھِريں اُدھار کُڑے

سچ ہے کہ بيٹے نہ تو بِکتے ہيں اور نہ کہيں سے مُستعار ملتے ہيں
بيٹے گھر کے اندر ہی پيدا ہوں تو بات بنتی ہے ۔ عزت بنتی ہے ۔ عِفت قائم رہتی ہے اور دُشمن ڈرتا ہے

بيٹا کيا ہوتا ہے ؟

بيٹا وہ نہيں جو
غير لڑکی کو ديکھ کر لٹُو ہو جائے
پستول دکھا کر راہگير کو لُوٹ لے
دولت کی خاطر نشانہ لے کر بے قصور آدمی کو ہلاک کر دے
مسندِ حکومت پر بيٹھ کر قوم کے مال سے گلچھڑے اُڑائے
قوم کے نام پر اپنی تجورياں بھرے

بيٹا ہوتا ہے
ماں کی عظمت کا نشان
بہن کے فخر کا سامان
باپ کے حوصلے کا مقام
قومی غيرت کا پيغام
نظرياتی سرحدوں کا پاسبان
رات کی تاريکی کی بجائے دن کی روشنی ميں بر سرِ پيکار
اپنے لئے سہارا ڈھونڈنے کی بجائے خود دوسروں کا سہارا
کسی کی کوشش کا متمنی نہيں ۔ اپنی محنت پر بھروسہ کرنے والا
دھواں دار نعرے لگانے والا نہيں ۔ عمل اور کردار سے پہچانا جانے والا
اپنوں پر مہربان اور دُشمن کيلئے قہر

اگر کوئی ہے عزت کا خواہشمند ؟ اور عافيت کا طلباگار ؟

تو بن جائے
بيٹا قوم کی ہر ماں کا
بھائی قوم کی ہر بہن کا
مددگار قوم کے ہر باپ کا
محافظ قومی نظريہ کا
جانثار قوم کے وقار کا

زبانی نہيں عملی طور پر کہ زندگی کوئی تمثيل [drama] نہيں ہے بلکہ ايک اٹل حقيقت ہے جو تلخ ہے اور شيريں بھی

ايک بيٹا ميں نے بچپن ميں ديکھا تھا
سال 1947ء پنجاب اور قربِ جوار ميں جو علاقہ بھارت کا حصہ قرار ديا گيا ہے وہاں جہاں جہاں مسلمان اقليت ميں ہيں راشٹريہ سيوک سنگ ۔ مہا سبھا اور اکالی دَل کے مسلحہ جتھے اُن پر حملے کر رہے ہيں ۔ ايک ايسے ہی شہر ميں ايک محلہ ميں چند مسلمان گھرانے تھے ۔ اکالی دَل کے مسلحہ افراد ايک مکان کا دروازہ پِيٹتے ہيں ۔ يہ مسلمان خاندان مياں بيوی اور جوان بيٹے پر مشتمل ہے ۔ سربراہِ خانہ دروازہ کھولتا ہے تو
ايک گرجدار آواز آتی ہے “کڑے پہن لو ۔ ورنہ مرنے کيلئے تيار ہو جاؤ”۔
جوان بيٹا يکدم باپ کو پيچھے کر کے دروازے سے باہر نکل کر دروازہ بند کر ديتا ہے پھر
بازو ہوا ميں لہرا کر دہاڑتا ہے ” لاؤ اپنی بہن کی ڈولی اور پہناؤ مجھ کو کڑا”۔
ايک سکھ غصہ کھا کر نيزے کا وار کرنے آگے بڑھتا ہے
جوان عقاب کی طرح جھپٹ کر اُس سے نيزا چھين کر اُسے ڈھير کر ديتا ہے پھر دوسروں کی طرف بڑھتا ہے ۔ اکيلا مسلمان جوان پانچوں کے وار سہتا جاتا ہے اور جوابی وار کرتا جاتا ہے حتٰی کہ پانچوں ڈھير ہو جاتے ہيں اور ساتھ ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جوان خود بھی شہيد ہو جاتا ہے

سؤر اور شراب

اس موضوع پر ياسر صاحب نے ايک تحرير لکھی تھی جس پر کچھ تبصرے بھی شرع اسلام کے حوالے سے ہوئے ۔ ميں نے اس حوالے سے لکھنے کا قصد کيا تھا اور لکھ بھی ليا تھا مگر کچھ وجوہات کے باعث شائع کرنے ميں تاخير ہوئی اور 2 ہفتے گذر گئے بمصداق پنجابی مقولہ “کڑيوں کھُنجيا کوہواں تے جا پَيندا اے”

ميں نے سُوّر کو دور سے ہی ديکھا ہے قريب سے نہيں مگر ديہات ميں زميندار لوگ جو اپنی فصل بچانے کيلئے سُوّر ہلاک کرتے رہتے ہيں اس کے متعلق کافی عِلم رکھتے ہيں اور اس کی نجس عادت کو اس کے حرام ہونے کی وجہ قرار ديتے ہيں يعنی اللہ تعالٰی نے انہی وجوہات کی بناء پر حرام کيا ہو گا

ہم اگر مسلمان ہيں يعنی يقين رکھتے ہيں کہ “اللہ کے سوا کوئی معبود نہيں” تو اللہ کا حُکم آ جانے کے بعد کسی سوال يا جواز کی تلاش کی گنجائش باقی نہيں رہتی ۔ ميں حلال و حرام کے بارے ميں قرآن شريف سے کچھ حوالے پيش کر رہا ہوں ۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ قرآن شريف کو سمجھ کر پڑھے اور اس ميں مرقوم اللہ سُبحانُہُ تعالی کے احکامات پر عمل کرے ۔ اللہ ميرے سميت سب مسلمانوں کو قرآن شريف سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 173 ۔ اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے، ہاں جو ناچار ہوئے (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے ‏

[تفسير ابن کثير ۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہيئے اس لئے کہ وہ ایک تصویر کے لئے ذبح کیا گیا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہيئے یا نہیں؟ تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لئے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ۔ پھر اللہ تعالٰی نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بےبس ہو جائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں
درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا جو حاجت مند شخص ان سے میں کچھ کھا لے لیکر نہ جائے اس پر کچھ جرم نہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ اضطراب اور بےبسی کے وقت اتنا کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے بےبسی اور اضطرار ہٹ جائے، یہ بھی مروی ہے کہ تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے غرض ایسے وقت میں اللہ کی مہربانی اور نوازش ہے یہ حرام اس کے لئے حلال ہے]

سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آيت ۔ 3 و 4 ۔ تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے نااُمید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں۔ اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو۔ اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے۔ (اس طریق سے) تم نے انکو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو اور (شکاری جانوروں کے چھوڑنے وقت) خدا کا نام لیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے۔

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آيت 121 ۔ اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جاؤ گے۔‏

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آيت 145 ۔ آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔‏

سورت ۔ 16 ۔ الانحل ۔ آيت 115 ۔ تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے حرام ہیں پھر اگر کوئی بےبس کر دیا جائے نہ وہ خواہشمند ہو اور نہ حد سے گزر جانے والا ہو تو یقیناً اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‏

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 219 ۔ لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کونسا مال خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو

سورت ۔ 10 ۔ يونس ۔ آيت 59 ۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو خدا نے تمہارے لئے جو رزق نازل فرمایا۔ تو تم نے اس میں سے (بعض کو) حرام ٹھیرایا اور (بعض کو) حلال’ (ان سے) پوچھو کیا خدا نے تمہیں اس کام کا حکم دیا ہے یا تم خدا پر افترا کرتے ہو؟ ‏

وما علينا الابلاغ

يومِ اقبال پر ہموطنوں کے نام

ملک ميں بہتری اس وقت تک نہيں آ سکتی جب تک کل پاکستانی بالغوں ميں سے کم از کم 50 فيصد کا عمل شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے کلام کے مندرجہ ذيل تراشوں کی زد سے باہر نہ نکل جائے

تربيت عام تو ہے ، جوہر قابل ہی نہيں ۔ ۔ ۔ جس سے تعمير ہو آدم کی ، يہ وہ گِل ہی نہيں

ہاتھ بے زور ہيں ، الحاد سے دل خوگر ہيں ۔ ۔ ۔ اُمتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں

منفعت ايک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ايک ۔ ۔ ۔ ايک ہی سب کا نبی ، دين بھی ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی’ اللہ بھی’ قرآن بھی ايک ۔ ۔ ۔ کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں ۔ ۔ ۔ کيا زمانے ميں پنپنے کی يہی باتيں ہيں ؟
کون ہے تارکِ آئين رسول مختار ؟ ۔ ۔۔ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار ؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار ؟ ۔ ۔ ۔ ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار ؟
قلب ميں سوز نہيں ، روح ميں احساس نہيں ۔ ۔ ۔ کچھ بھی پيغام محمد کا تمہيں پاس نہيں

واعظِ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی ۔ ۔ ۔ برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں ، روح بلالی نہ رہی ۔ ۔ ۔ فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالی نہ رہی

وضع ميں تم ہو نصارٰی تو تمدن ميں ہنُود ۔ ۔ ۔ يہ مسلماں ہيں جنہيں ديکھ کے شرمائيں يہُود
يوں تو سيّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو ۔ ۔ ۔ تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟

ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے ۔ ۔ ۔ تم مسلماں ہو ، يہ انداز مسلمانی ہے ؟
حيدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے ۔ ۔ ۔ تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر ۔ ۔ ۔ اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم ۔ ۔ ۔ تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم