Category Archives: معاشرہ

ثقافت ۔ ۔ ۔ ؟

ثقافت کے بارے میں اخبارات ۔ رسائل اور ٹی وی پر لوگوں کے خیالات پڑھے یا سنے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں جانتے کہ ثقافت کیا ہوتی ہے اور تہذيب کس بلا کا نام ہے

پچھلی دو صدیوں میں لکھی گئی کُتب کی طرف رُخ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ثقافت کسی قوم ۔ ملت یا قبیلہ کی مجموعی بود و باش سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ ایک عادت یا عمل سے ۔ نہ کچھ لوگوں کی عادات سے ۔ مزید یہ کہ ثقافت میں انسانی اصولوں پر مبنی تعلیم و تربیت کا عمل دخل لازم ہے ۔ ثقافت کے متعلق محمد ابراھیم ذوق ۔ الطاف حسین حالی ۔ علامہ اقبال ۔ اکبر الٰہ آبادی اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن میں اسے دہرانے کی بجائے صرف لُغت سے استفادہ کروں گا

فیروز اللُغات کے مطابق ” ثقافت ” کے معنی ہیں ۔ عقلمند ہونا ۔ نیک ہونا ۔ تہذیب
ایک انگریزی سے اُردو ڈکشنری کے مطابق کلچر [Culture] کا مطلب ہے ۔ ترتیب ۔ تہذیب ۔ پرورش کرنا ۔ کاشت کرنا

چند مشہور انگریزی سے انگریزی ڈکشنریوں کے مطابق ثقافت یا کلچر [Culture] کے معنی ہیں

مریم ویبسٹر ڈکشنری
1 ۔ شعوری اور اخلاقی استعداد کا افشا بالخصوص علم کے ذریعہ
2 ۔ شعوری اور جمالیاتی تربیت سے حاصل کردہ بصیرت اور عُمدہ پسندیدگی
3 ۔ پیشہ ورانہ اور فنی استعداد سے ماوراء فنونِ لطیفہ ۔ انسانیات اور سائنس کی وسیع ہیئت سے شناسائی
4 ۔ انسانی معلومات کا مرکب مجسمہ ۔ اعتقاد اور چال چلن جس کا انحصار سیکھنے کی وسعت اور آنے والی نسلوں کو علم کی مُنتقلی پر ہو
5 ۔ کسی گروہ کے رسم و رواج ۔ باہمی سلوک اور مادی اوصاف

کومپیکٹ آکسفورڈ ڈکشنری
1 ۔ خیالی یاشعوری فَن یا ہُنر کے ظہُور جو اجتمائی نشان ہو یا اس کی ایک خالص فِکر یا قدر دانی
2 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کی رسوم ۔ ادارے اور کامرانی

کیمبرج بین الاقوامی انگریزی کی ڈکشنری
1 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کے کسی خاص دور میں بود و باش کا طریقہ بالخصوص عمومی عادات ۔ رسوم ۔ روایات اور عقائد
2 ۔ اگر صرف فَنون سے متعلق ہو تو موسیقی ۔ ہُنر ۔ ادبی علوم یا تمثیل گھر

اینکارٹا ورلڈ انگلش ڈکشنری
کسی قوم یا گروہ کی / کے مشترکہ
1 ۔ مجموعی طور پر فن یا ہُنر جس میں فنونِ لطیفہ ۔موسیقی ۔ ادب ۔ ذہنی چُستی شامل ہوں
2 ۔ آگہی ۔ آمیزش اور بصیرت جو تعلیم کے ذریعہ حاصل ہو
3 ۔ رائے ۔ وصف ۔ رسم و رواج ۔ عادات ۔ باہمی طور طریقے
4 ۔ شعور یا ہُنرمندی یا فنی مہارت کی نشو و نما

چنانچہ ثقافت صرف عادات و رسوم کا ہی نہیں بلکہ صحتمند عادات و رسوم کے مجموعہ کا نام ہے جن کی بنیاد تربیت پر ہو ۔ ہر چند کہ کسی گروہ یا قبیلہ کے لوگ کچھ قباحتیں بھی رکھتے ہوں لیکن ان بُری عادات کو ان کی ثقافت کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا

ہندوؤں کیلئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کی ثقافت ناچ گانا ہے کیونکہ ناچ گانا ان میں بھی صرف چند فیصد لوگ ہی کرتے ہیں ۔ ہاں شائستہ (classical) موسیقی یعنی بھجن ان کی پوجا پاٹ کا حصہ ہے اور یہ وہ ناچ گانا نہیں ہے جو کہ مووی فلموں میں دکھایا جاتا ہے

مسلمان کیلئے دین اول ہے اسلئے مسلمانوں کی ثقافت میں دین کا لحاظ لازمی ہے لیکن میرے کچھ ہموطن مسلمان ہوتے ہوئے اپنی ثقافت کو ناچ ۔ گانا ۔ تمثیل ۔ مصوّری ۔ بُت تراشی وغیرہ ہی سمجھتے ہیں اور ثبوت کے طور پر ہندوانہ رسم و رواج کا حوالہ دیتے ہیں یا پھر اس دور کی مثال دیتے ہیں جب اسلام کا ظہور نہیں ہوا تھا

عام طور پر جو لوگ ثقافت پر زور دیتے ہیں اُن میں سے کچھ کے خیال میں شاید ثقافت ساکت و جامد چیز ہے اور وہ اسے موہنجو ڈارو کے زمانہ میں پہنچا دیتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ ثقافت کو ہر دم متغیّر قرار دیتے ہیں ۔ یہ دونوں گروہ اپنے آپ کو جدت پسند ظاہر کرتے ہیں ۔ مؤخرالذکر ثقافت کو اپنے جسم تک محدود رکھتے ہیں یعنی لباس ۔ محفل جمانا ۔ تمثیل ۔ ناچ گانا وغیرہ ۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ ثقافت عوام کی اکثریت کا ورثہ اور مرہُونِ منت ہے جنہیں ثقافت کی بحث میں پڑنے کا شاید خیال بھی نہیں ہوتا یا جنہوں نے کبھی ثقافت پر غور کرنے یا اسے اُجاگر کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی

ثقافت ایک ایسی خُو ہے جو اقدار کی مضبوط بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں عورت اور مرد کا جنسی اختلاط عام ہے اور عرصہ دراز سے ہے ۔ کسی یورپی یا امریکن سے پوچھا جائے کہ کیا یہ جنسی اختلاط آپ کی ثقافت کا حصہ ہے تو وہ کہے گا کہ “نہیں ایسا نہیں ہے” ۔ اس کے برعکس کچھ ایسی عادات ہیں جسے اُنہوں نے غیروں سے اپنایا ہے مثال کے طور پر آجکل جسے ٹراؤزر یا پینٹ کہتے ہیں یہ دراصل منطلون یا منطالون ہے جسے عربوں نے گھوڑ سواری بالخصوص جنگ کے دوران کیلئے تیار کیا تھا ۔ یہ اب یورپ اور امریکہ کی ثقافت کا حصہ ہے گو اس کی شکل اب بدل چکی ہے اور اُن لوگوں کی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے ۔ اسی طرح کچھ کھانے ہیں جو یورپی اور امریکی ثقافت کا حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ایشیا سے نقل کئے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ اب ایشیا کی بجائے یورپ یا امریکہ کا خاصہ تصور ہوتے ہیں ۔ دورِ حاضر کا برگر جرمنی کا ہیمبُرگر تھا کیونکہ اسے ہیمبُرگ میں کسی شخص نے بنانا شروع کیا تھا ۔ اس سے قبل اس کا نام وِمپی تھا اور ترکی اور اس کے قریبی ایشیائی علاقہ میں بنایا جاتا تھا ۔ اُس سے پہلے یہ منگولوں کا سفری کھانا تھا ۔ اسی طرح شیش کباب جسے ولائیتی [یورپی] کھانا سمجھ کر کھایا جاتا ہے درصل سیخ کباب ہی ہے جو کہ ترکی کا کھانا تھا

ہندو عورتیں ڈیڑھ گز چوڑی چادر پیچھے سے سامنے کی طرف لا کر داہنے والا کونہ بائیں کندھے اور بائیں والا کونہ داہنے کندھے کے اُوپر لے جا کر گردن کے پیچھے باندھ لیتی تھیں اور یہی ان کا لباس تھا ۔ لباس میں ساڑھی جسے کئی لوگ ہندوؤں کا پہناوا یا ثقافت کہتے ہیں ہندوؤں نے مسلمانوں سے نقل کیا جس کو مختلف اشکال دی گئیں اور عُریاں بھی بنا دیا گیا ۔ دراصل یہ عرب بالخصوص افریقی مسلمانوں کا لباس ساری تھا جو کہ مسلمان عورتیں بطور واحد لباس نہیں بلکہ اپنے جسم کے خد و خال چھپانے کی خاطر عام لباس کے اُوپر لپیٹ لیتی تھیں ۔ یہ ساری اب بھی افریقہ کے چند ملکوں بالخصوص سوڈان میں رائج ہے

ثقافت کے متذکرہ بالا اجزاء میں جو مادی اوصاف ہیں وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ان کے تبدیل ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور انسانی بہتری کیلئے ان میں تبدیلی ہوتے رہنا چاہیئے مگر ثقافت پر اثر انداز ہونے والی اقدار میں وہ وصف شامل ہیں جن کی بنیاد خالقِ کائنات نے اپنی مخلوق کی بہتری کیلئے مقرر کر دی ہے ۔ ان کو تبدیل کرنا انسانی تمدن کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اللہ کی نافرمانی بھی ۔ آج کمپیوٹر کا دور ہے ۔ کمپیوٹر متعدد قسم کے کام سرانجام دیتا ہے مگر یہ سب کام کمپیوٹر کے خالق کے مقرر کردہ ہیں ۔ کمپیوٹر ان مقررہ حدود سے باہر نہیں جاتا ۔ یہی حال انسان کا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو کچھ اختیار دیا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی انسان کا نصب العین بھی مقرر کر دیا ہے اور اس پر واضح کر دیا ہوا ہے کہ غلط عمل کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا ۔ اس لئے انسان کیلئے لازم ہے کہ انسانیت یا خود اپنی بہتری کیلئے اپنی اقدار کو نہ بدلے اور ان پر قائم رہے ۔ وہ اقدار ہیں عبادت ۔ تعلیم ۔ سلوک ۔ عدل ۔ انتظام ۔ وغیرہ

تہذیب کے بارے میں مضمون اِن شاء اللہ عنقریب

منافق سے دُشمن بہتر

منافقت (Hypocrisy) اور دُشمنی میں واضح فرق ہے
منافق (Hypocrite) دراصل دوست یا خیر خواہ کے بھیس میں دُشمن ہوتا ہے
تھوڑی یا زیادہ کوشش سے کوئی بھی شخص دُشمن کو جان جاتا ہے
لیکن منافق کو پہچاننا بہت مُشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے
چنانچہ منافق دُشمن سے زیادہ خطرناک ہے

بجلی کہاں جاتی ہے ؟

حسبِ وعدہ حاضر ہے مطالعاتی تحقیق کا نتیجہ
عوام پریشان کہ حکمرانوں کے مطابق بجلی پیدا کرنے والوں کو 360 ارب روپے سبسڈی دی جاتی ہے ۔ گو وہ بھی عوام سے وصول کردہ ٹیکس ہی کا پیسہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام بھاری بھرکم بل بھی عطا کرتے ہیں ۔ محترمہ بجلی صاحبہ پھر بھی کم ہی درشن کراتی ہے ۔ آخر یہ بجلی جاتی کہاں ہے ؟

وفاقی وزراء اور ان کے لواحقین کے ذمہ ایک کھرب 20 ارب (120000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
حکومتِ سندھ کے ذمہ 50 ارب (50000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
حکومتِ پنجاب کے ذمہ 19 ارب (19000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
حکومتِ بلوچستان کے ذمہ 18 ارب (18000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
حکومت خیبر پختونخوا کے ذمہ 16 ارب (16000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
حکومتِ آزاد جموں کشمیر کے ذمہ 15 ارب (15000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
نجی اداروں کے ذمہ ایک کھرب 27 ارب روپے بجلی کے بل واجب الادا ہیں جس میں زیادہ رقم اُن لوگوں کے ذمہ ہے جو بارسُوخ سیاستدانوں کے رشتہ دار یا قریبی دوست ہیں

واجب الادا بلوں کے ساتھ ساتھ مُلک میں ہر سال 50 ارب روپے کی بجلی چوری کی جاتی ہے ۔ چوری کی بجائے کہا جاتا ہے کہ سِلکیہ نقصانات (Line Losses) 35 سے 40 فیصد ہیں ۔ چین میں سلکیہ نقصانات 6 فیصد ہوتے ہیں جبکہ فلپین جو کرپٹ مُلک جانا جاتا ہے میں 11 فیصد ہوتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں بھی کم از کم 1970ء تک سِلکیہ نقصانات 6 فیصد ہو جائیں تو آڈٹ اوبجیکشن ہو جاتا تھا اور تحقیقات شروع ہو جاتی تھیں

اس بجلی چوری کے حصہ داران ہیں
کراچی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 38.5 فیصد یعنی سالانہ 19 ارب 25 کروڑ روپے
پشاور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 31.2 فیصد یعنی سالانہ 15 ارب 60 کروڑ روپے
لاہور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12.8 فیصد یعنی سالانہ 6 ارب 40 کروڑ روپے
فیصل آباد ۔ ۔ ۔ 9.1 فی صد یعنی سالانہ 4 ارب 55 کروڑ روپے

دوسرے علاقے ۔ 4 ارب 20 کروڑ روپے

یہیں بات ختم نہیں ہوتی
ہر بڑے شہر میں چوری کئے ہوئے سرکاری ٹرانسفارمر اور بجلی کی تاروں کے ڈھیر لگے ہیں جو اندر کھاتے سستے داموں فروخت ہوتے ہیں
نیپرا رپورٹ کے مطابق بجلی کی صرف 3 سرکاری کمپنیوں نے 26 ارب روپے کا فرنس آئل چوری کیا

اگر صرف واجب الادا بل ہی ادا کر دیئے جائیں تو مُلک میں لوڈ شیڈنگ بالکل بند ہو جائے اور فاضل بجلی برآمد بھی کی جا سکتی ہے

ایسی بات نہیں کہ مندرجہ بالا کاروائیاں حکمرانوں کے علم میں نہیں ۔ حقیقت واضح ہے کہ اس میں بارسُوخ حکمرانوں کا مفاد ہے ۔ اسی لئے اسے جاری و ساری رکھا گیا ہے

گھی مہنگا ۔ تیل مہنگا ۔ آٹا مہنگا ۔ چاول مہنگے ۔ پھل مہنگا ۔ سبزیاں مہنگی ۔ دالیں مہنگی ۔ پٹرول مہنگا ۔ گیس مہنگی اور بجلی یہ تحریر لکھنے اور شائع کرنے کے درمیان مزید (more over) مہنگی ۔ عوام صرف غم کھائیں اور جان بنائیں

حیف وہ قوم

“خلیل جبران کی روح سے معذرت کے ساتھ اور موجودہ حالات کے حوالے سے میں خلیل جبران کی نظم “حیف وہ قوم (Pity The Nation)” میں مندرجہ ذیل اضافہ کروں گا” ۔ ۔ ۔ یہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کیخلاف توہین عدالت کے مقدمہ میں عدالتِ عظمٰی کے تفصیلی فیصلہ میں تعارفی جملہ ہے بند 3 کا جو جسٹس آصف کھوسہ کی 6 صفحات پر مشتمل اضافی تحریر کا حصہ ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے بقایا بند 3 کا ترجمہ ۔ مکمل اضافی تحریر یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے اور عدالتِ عظمٰی کے پورے بنچ کا فیصلہ یہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

حیف وہ قوم جو مذہب کے نام پر قومیت حاصل کرے لیکن مذہب کی بنیاد سچ ۔ دیانتداری اور احتساب کو اہمیت نہ دے

حیف وہ قوم جو جمہوریت کو اپنی سیاست قرار دے لیکن اسے صرف ووٹ ڈالنے کیلئے قطار لگانے تک محدود رکھے اور جمہوری اقدار کی حوصلہ شکنی کرے

حیف وہ قوم جس کی تعظیم کا معیار حصولِ مقصد اور اعلٰی عہدہ و اختیار ہو

حیف وہ قوم جو اخلاقی معیار کو حقارت سے نطر انداز کرے اور دنیاوی مفاد کی پرورش کرے

حیف وہ قوم جو مُجرم کو غازی اور مہذب آدمی کو کمزور سمجھے

حیف وہ قوم جو دانا آدمی کو بیوقوف سمجھے اور مکّار آدمی کی تعظیم کرے

حیف وہ قوم جو آئین تو منظور کرے لیکن سیاسی مفاد کو آئینی ترجیحات پر بھاری رکھے

حیف وہ قوم جو سب کیلئے انصاف کا مطالبہ تو کرے لیکن جب انصاف اُس کی سیاسی وابستگی پر اثرانداز ہو تو طیش میں آ جائے

حیف وہ قوم جس کے ملازم اپنے آئینی حلف کو صرف عہدہ سنبھالنے کا ذریعہ سمجھیں

حیف وہ قوم جو اپنے رہنما کا انتخاب بطور نجات دہندہ کرے لیکن توقع رکھے کہ وہ تمام قوانین کو اپنے حواریوں کی خاطر توڑے مروڑے

حیف وہ قوم جس کے رہنما قانون کی حکمرانی کی خاطر قربانی دینے کی بجائے عدالت کی حُکم عدولی کر کے شہید بننا چاہیں

حیف وہ قوم جس کے رہنما جُرم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ کریں

حیف وہ قوم جس کی رہنمائی قانون کا مذاق اُڑانے والے کریں اور اُنہیں احساس نہ ہو کہ بالآخر قانون اُن پر ہنسے گا

حیف وہ قوم جو قانون کی حُکمرانی کیلئے تحریک تو چلائے لیکن جب اس کے بڑے قانون کی گرفت میں آنے لگیں غُل غپاڑہ مچائے

حیف وہ قوم جو عدالت کے فیصلے سیاسی عینک سے دیکھے اور عدالت کی بجائے عدالت سے باہر وکالت کے جوہر دکھائے

حیف وہ قوم جو کمزور اور غریب کو سزا دے لیکن اپنے طاقتور اور بلند مرتبہ لوگوں کا حساب لینے سے شرمائے

حیف وہ قوم جو قانون کے سامنے مساوات کیلئے شور مچائے لیکن مفاد پرستانہ فیصلے اُنہیں محبوب ہوں

حیف وہ قوم جو دماغ کی بجائے دل سے رہنمائی لے

واقعی حیف وہ قوم جو بد معاشی یا کمینگی اور عالی مَنشی میں امتیاز نہ کر سکے

کاش وہ آئے روزانہ ہماری گلی میں

آپ غلط سمجھے ۔ میں کسی خوبصورت دوشیزہ کی بات نہیں کر رہا ۔ میں نے تو کبھی جوانی میں بھی یہ تمنا نہ کی تھی ۔ پھر آیا کون ؟ ذرا تحمل سے پڑھیئے

ہمارے علاقے میں روزانہ بلا ناغہ 24 گھنٹے میں 6 بار بجلی ایک ایک گھنٹے کیلئے بند ہوتی ہے جسے فی زمانہ لوڈ شیڈنگ کہا جاتا ہے ۔ دن میں 7 سے 8 بجے تک ۔ 11 سے 12 بجے تک ۔ 3 سے 4 بجے تک ۔ رات میں بھی انہی اوقات میں ۔ بعض دن بونس کے طور پر زیادہ بار بجلی بند ہوتی ہے لیکن یکم مئی بروز منگل رات کو نہ 7 سے 8 بجے بجلی بند ہوئی اور نہ 11 سے 12 بجے ۔ وجہ یہ کہ ہمارے گھر کے سامنے جو مکان ہے اُس کے ساتھ والے مکان میں وزیرِ اعظم صاحب نے آنا تھا ۔ وزیرِ اعظم صاحب کی آمد کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ متذکرہ مکان میں رہائش پذیر بڑے سرکاری افسر جو وزیرِ اعظم صاحب کے رشتہ دار ہیں کی بیٹی کی شادی پچھلے ہفتہ ہوئی تھی ۔ وزیرِ اعظم صاحب اُس کی مبارک دینے آئے تھے

سوچتا ہوں کہ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب کو احساس نہیں کہ لوگوں کو بجلی بند ہونے سے کیا تکلیف ہوتی ہے کیونکہ جہاں وہ رہتے ہیں یا جاتے ہیں وہاں بجلی بند نہیں ہوتی

وزیرِ اعظم کی آمد سے کچھ قبل حکم دیا گیا کہ جو کوئی جہاں ہے وہیں رہے اور حرکت نہ کرے یعنی اگر کوئی کسی کمرے یا ٹائیلٹ میں رفع حاجت کیلئے گیا تھا تو وہ اس کمرے یا ٹائیلٹ ہی میں رہے اور جو کمرے یا ٹائیلٹ سے باہر تھا اور اندر جانا چاہتا تھا وہ اب باہر ہی رہے جب تک وی آئی پی آ کر واپس نہ چلے جائیں ۔ یہ حُکم اُس گھر میں رہنے والوں کیلئے بھی تھا جن کے ہاں وزیراعظم صاحب آ رہے تھے ۔ ہماری گلی کے ایک رہائشی اپنے بچوں کو لے کر آ رہے تھے اُنہیں رات 9 بجے کے بعد تک گلی میں گھُسنا تو کُجا گلی سے بہت دُور روکے رکھا گیا

گو شادی کچھ دن قبل ہو چکی تھی پھر بھی اہلِ خانہ نے وزیر اعظم صاحب کیلئے مناسب کھانے کا بندوبست کر رکھا تھا ۔ وزیراعظم صاحب کے ساتھ آئے ہوئے ایک صاحب نے کھانے کی تمام چیزوں اور پھلوں کے رس کا باقاعدہ ٹیسٹ کیا اور پھر سب کو خود چکھا ۔ اس کے باوجود وزیراعظم صاحب نے نہ کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا سوائے سادہ پانی کے جو نیسلے کی بند بوتل میں تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بوتل وزیراعظم صاحب کے ساتھ ہی آئی ہو

یہ سب کچھ سُنتے ہوئے میرے ذہن میں پرائمری سکول کے زمانے میں سُنی ہوئی شہنشاہ کی کہانی گُھوم رہی تھی ۔ کہانی کے مطابق شہنشاہ کے کوئی چیز کھانے یا پینے سے پہلے ان کا ملازم اسے چکھتا تھا

اِن لوگوں کو اپنی زندگی تو اتنی پیاری ہے لیکن عوام کی زندگیوں کو بے مُول کیوں سمجھتے ہیں ؟ کیا یہ عوام کے نمائندے کہلانے کے قابل ہیں ؟

وقت وقت کی بات

آج ہر طرف سے سدا آتی ہے 64 سال سے کچھ نہیں ہوا ۔ حاکم غاصب تھے لُٹیرے تھے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس ہاہا کار کا سبب مُلکی ذرائع ابلاغ ہیں جو کچھ دنوں سے کچھ سچ کہنا یا لکھنا شروع ہوئے ہیں لیکن پچھلی چار پانچ دہائیوں سے عوام کو گمراہ کرنا ان کا نصب العین رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پرانے لوگ اتنے کم ظرف اور لالچی نہ تھے جتنے ہمارے حکمران اب ہیں ۔ خاور صاحب نے “بے چارے کم ظرف لوگ” لکھا ۔ اسے پڑھتے ہوئے میرا ذہن واقعات کی کھوج میں ماضی کا سفر کرنے لگا ۔ میں اُس دور میں پہنچ گیا جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ جنرل محمد ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا اور نواب کالاباغ امیر محمد خان گورنر تھا

مجھے یاد آیا کہ

1 ۔ گوجرانوالہ میں منقعدہ ایک شادی میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان بھی مہمانوں میں شامل تھا ۔ حسبِ معمول مہمانوں کی تفریح طبع کیلئے بھانڈوں نے بولیاں مارنا شروع کیں :
“او سُنا کچھ تم نے ؟”
“کیا ؟”
“ایوب خان نے پاکستان کے سارے غُنڈے ختم کر دیئے ہیں”
“اوہ ۔ نہیں ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ”
“سچ کہتا ہوں”
“پر کیسے ؟’
“سارے بی ڈی ممبر بنا دیئے ہیں”۔ بی ڈٰ ممبر یعنی رُکن بنیادی جمہوریت

اس پر محمد ایوب خان نے قہقہہ لگایا اور دونو کو سو سو روپیہ دیا ۔ اُن دنوں سو روپیہ بڑی رقم تھی ۔ اس سے بڑا نوٹ نہیں تھا

2 ۔ انارکلی میں ایک آدمی مصنوعی مونچھیں بیچتے ہوئے آواز لگا رہا تھا
“دوانی دی مُچھ تے گورنری مفت” (دو آنے کی مونچھ اور گورنری مفت ۔ ایک روپے میں 16 آنے ہوتے تھے)
پولیس والے نے پکڑ کے اُس کی پٹائی کر دی ۔ اگلے روز یہ خبر اخبار میں چھپ گئی
گورنر نے خبر پڑھ کر حُکم دیا “متعلقہ آدمی حاضر کیا جائے”
پولیس نے حاضر کر دیا تو گورنر امیر محمد خان نے اُسے پوچھا “سچ بتاؤ تم نے کیا کہا تھا ؟”
غریب آدمی سہما ہوا تھا ۔ ڈرتے ڈرتے کہا “جی جی ۔ میں مصنوعی مونچھیں بیچ کر اپنی روٹی کماتا ہوں”
گورنر نے پوچھا “مجھے بتاؤ تو سہی کہ تم کیا کر رہے تھے ؟”
اُس آدمی نے مصنوئی مُونچھ اپنے لگائی اور کہا “دوانی دی مُچھ تے گورنری مُفت”
گورنر امیر محمد خان نے ہنس کر اُسے تھپکی دی اور نقد انعام بھی دیا