Category Archives: معاشرہ

دیوانگی کا رقص ہے اور ہم ہیں دوستو

آسمان گواہ ہے کہ خود کو اذيت پہنچانے کي ہماري صلاحيت کا اس کرّہ ِ ارض پر کوئي حريف نہيں ہے۔ ہميں را، سي آئي اے يا موساد کي سازشوں کي محتاجي نہيں ہے۔ يہ بیچاري ايجنسياں تو اس خرابي کا عشر عشير بھي نہيں سوچ سکتيں جو ہم اپنے ليے خود برضا ورغبت پيدا کرتے رہتے ہيں

ابھي توہين کے قوانين کي بحث ختم نہيں ہوئي تھي کہ ايک اور کيس نے سر اٹھا ليا ۔ يہ کيس ہے کيا ؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے ليے ميں اسلام آباد کے ايک نواحي علاقے مہرہ جعفر ، جہاں يہ واقعہ پيش آيا،کي بل کھاتي ہوئي گليوں ميں گيا اور وہاں ميري ملاقات احمد، جو کہ
اس کيس ميں مدعي ہے سے ہوئي ميں اپنے ذہن ميں يہ تصور ليے ہوئے تھا کہ مير ي ملاقات کسي مذہبي جنوني سے ہوگي مگر مجھے يہ ديکھ کر حيرت ہوئي کہ احمد نہايت دوستانہ انداز ميں ملا۔ وہ پانچويں جماعت تک پڑھا ہے اور کچھ پڑھ سکتا ہے مگر لکھنا نہيں جانتا ۔ وہ جی ۔ 11 مارکيٹ ميں سي اين جي فٹنگ کي ورکشاپ چلاتا ہے۔ احمد نے بتایا کہ اُس نے ديکھا کہ رمشا نے کچھ جلے ہوئے کاغذات ايک پلاسٹک بيگ ميں اٹھائے ہوئے تھے۔ ديکھنے پر پتا چلا کہ وہ نوراني قاعدے کے اوراق ہيں

تمام مسلمان جانتے ہيں کہ يہ کلامِ الٰہي نہيں بلکہ عربي کے حروفِ تہجي اور ان کا تلفّظ سکھانے والا ايک بنيادي قاعدہ ہے مگر ايک نيم خواندہ شخص اسے مقد س کتاب سمجھ بيٹھا۔ ميں نے احمد سے کہا کہ ايک لمحے کے ليے بھول جائيں کہ اُس نے کيا جلايا تھا۔ کيا اُس چھوٹي سي لڑکي کا اسلام سے کوئي جھگڑا ہے ؟ اُس نے کہا کہ ايسا نہيں ہے ۔ وہاں موجود ديگر افراد نے بھي اس کي تصديق کي۔ ميں نے پوچھا
کہ چنداوراق نذر ِ آتش ہونے سے اسلام کي عظمت کو کيا خطرہ ہے تو اس کا ان کے پاس کوئي جواب نہ تھا۔ کيا رمشا کسي کے مذہبي جذبات مجروح کرنا چاہتي تھي؟ اس پر وہ پھر خاموش رہے۔

رمشا کا چھوٹا سا گھر، جو اب مقفل ہے احمد کے ہمسائے ميں ہے اور يہ ايک گندا سا علاقہ ہے جہاں گٹر کا سياہ پاني پھيلاہوا تھااور گلي ميں جس اونچي جگہ پر گندا پاني نہيں جا سکتا تھا، وہاں گندي گھاس اُگي ہوئي تھي، کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک بيگ بکھرے ہوئے تھے ۔ اس گلي کے دونوں طرف ايک ايک کمرے پر مشتمل چھوٹے چھوٹے گھر ہيں۔ اس سے کچھ آگے محلہ بوديل کي مسجد ہے۔ اس علاقہ میں ٹوبہ ٹيک سنگھ، فيصل آباد اور سرگودھا کے مزدور پيشہ افراد رہتے ہيں۔ ايک 10 يا 11 سالہ لڑکي مہرين نور نے بتايا کہ وہ جلے ہوئے کاغذات لے کر امام مسجد کے پاس گئي تھي۔ جب مہرين نے ميرے چہرے پر استفہاميہ تاثرات ديکھے تو اس نے کہا ”جب ميں نے وہ جلے ہوئے کاغذات ديکھے تو ميرا کليجہ پھٹ گيا اور ميں سکتے ميں آگئي“۔

اس کے بعد امام صاحب نے ہنگامي بنيادوں پر اہل ِ علاقہ کي ميٹنگ بلائي اور رمشا کے خاندان کو ايک گھنٹے کے اندر اندر علاقہ چھوڑنے کا حکم ديا۔ اس واقعہ کي پوليس کو بھي اطلاع دي گئي۔ يہ معاملہ اس وقت بگڑ گيا جب يہ خبر نزديکي بازار ميں پہنچي اس سے ايک ہنگامہ کھڑا ہو گيا اور اس ميں پيش پيش کراچي سے آئے ہوئے ايک اُردو بولنے والے صاحب جو اس بازار ميں ايک جنرل اسٹور چلاتے ہيں تھے ۔ مقامي مسجد سے اعلانات کے بعد ايک ہجوم جمع ہو گيا اور سڑک بلاک کردي گئي ۔ اس کے بعد يہ ہجوم رمنا پوليس اسٹيشن پہنچا اور احمد کي مدعيت ميں رمشا کے خلاف توہين کي رپٹ لکھوائي اور اس لڑکي کو گرفتار کر ليا گيا۔ کسي پوليس افسر نے يہ معلوم کرنے کي زحمت نہ کي اصل واقعہ کيا پيش آيا تھا اور کيا اتني چھوٹي لڑکي کسي طرح کے توہين کے کيس ميں ملوث ہو سکتي ہے يا نہيں ۔ پوليس نے مشتعل ہجوم کو ٹھنڈا کرنے کي بجائے رپورٹ درج کر لي۔

رمشا کے علاقے کے بازار ميں ميں نے لوگوں کے ايک گروہ سے کہا کہ ميرے گھر ميں روزانہ 6 يا 7 اخبارات آتے ہيں۔ اردو اخبارات ميں مذہبي ضميمے ہوتے ہيں اور مقدس مقامات کي تصاوير ہوتي ہيں مگر جب يہ اخبارات پرانے ہوجاتے ہيں تو ان کو تلف کر ديا جاتا ہے يا ردي ميں فروخت کرديا جاتا ہے تو کيا اس کا يہ مطلب ليا جائے کہ ميں يا ميرے گھر والے توہين کے مرتکب ہوتے ہيں ؟ ان افراد کاکہنا تھا کہ يہ توہين نہيں ہے کيونکہ تمام اخبار بين ايسا ہي کرتے ہيں۔ پھر رمشا نے کيسي توہين کي ؟

اسلام آباد پوليس نے پہلے دن ہي اپني ذمہ داري سے انحراف کيا اور اب بھي يہ تمام بوجھ عدليہ کے کندھوں پر ڈال رہي ہے حالانکہ تفتيش کرنا اس کا کام ہے۔ اسے چاہئے تھاکہ حوصلے سے کام ليتے ہوئے اس واقعے کي تحقيق کرتي اور يہ واضح کر ديتي کہ اس چھوٹي لڑکي سے کوئي توہين سرزد ہوئي ہے يا نہيں

ايک اور بات ۔ پاکستان کا نام پوري دنيا ميں بدنام کرنے پر کيا ” توہين ِ پاکستان “ کا کوئي کيس نہيں بننا چاہئے ؟

بشکریہ ۔ اخبار جنگ

یا اللہ ۔ ۔ ۔

لکھنا تو تھا اپنی گذشتہ کل کی تحریر کا درمیانی نقطہ جو جان بوجھ کر چھوڑ دیا تھا کہ تبصرے متاءثر نہ ہوں لیکن خلافِ معمول اخبار کی سُرخیاں دیکھنے لگا تو نظر نیچے درج خبر پر اٹکی

پانچ سات سال قبل خبر پڑھی تھی کہ لاڑکانہ کا رہائشی ایک بی ایس سی انجنیئر اپنے گھر کی انتہائی مفلسی سے تنگ آ کر ڈاکو بن گیا تھا تو دل پر ایک گھاؤ لگا تھا
معزز قارئین نامعلوم کیا کہیں گے لیکن آج نیچے نقل کردہ خبر کو پڑھ کر میں اندر سے ہِل گیا ہوں اور میرا دھاڑیں مار کر رونے کو دل چا رہا ہے

یا میرے خالق و مالک میرے اللہ ۔ تو جانتا ہے کہ میں نے 1947ء میں جب میں بچہ تھا بہت بُرے دن دیکھے اور پھر نام نہاد عوامی دور (1973ء تا 1976ء) میں بھی بمشکل گھر کا خرچ چلایا لیکن بچانا مجھے اُس دن سے جب میں حالات کے سامنے مجبور کر دیا جاؤں ۔ اگر ایسا دن اٹل ہے تو اے رحمٰن و رحیم و کریم مجھ پر اپنا رحم و کرم کرتے ہوئے مجھے اُس دن سے پہلے موت دے دینا

خبر
ايس ايس پی سکھر پير محمد شاہ اور ڈی ايس پی لاڑکانہ محمد نديم نے سکھر ميں مشترکہ پريس کانفرنس کرتے ہوئے بتايا کہ ڈاکوؤں کا گروہ مغوی آفتاب احمد کو لاڑکانہ سے کہيں اور مُنتقل کررہا تھا کہ پوليس اور ڈاکوؤں کے درميان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس ميں ڈاکو غازی جاگيرانی ۔ اللہ رکھيو سيال اور اس کے ديگر ساتھی مارے گئے اور مغوی بازياب کرا ليا گیا ۔ پوليس کے مطابق مارا جانے والا ڈاکو غازی جاگيرانی پی ايچ ڈی (Ph.D) ڈاکٹر ہے

اے بندے

اے بندے

کیا تم اس زندگی میں اپنی مرضی سے آئے تھے ؟

کیا تم اپنی مرضی سے اس دنیا کو چھوڑ کے جاؤ گے ؟

تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ” نہیں ”

پھر کیوں تم اپنی اس زندگی کو اُس اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں ڈھالتے
جس کی مرضی سے تم آئے اور جس کی مرضی سے تم جاؤ گے ؟

آج کی دنيا ۔ ایک غور طلب کہانی

ایک صاحب بہادر اپنے بیوی بچے لے کر سیر کو نکلے کہ دنیا کی رنگینیاں دیکھیں ۔ راستے میں ایک شخص کھڑا ملا
صاحب بہادر نے پوچھا “تم کون ہو؟”
اس نے کہا “میں مال ہوں”
” صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا خیال ہے ہم اسے ساتھ بٹھا لیں ؟
سب نے کہا “ضرور کیونکہ ہمیں اس سفر میں اس کی ضرورت پڑے گی اور اس کی موجودگی میں ہم سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں”
صاحب بہادر نے مال کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور آگے بڑھے ۔ جب تھوڑا آگے گئے تو ایک اور شخص کھڑا نظر آیا
صاحب بہادر نے پوچھا ” تم کون ہو ؟”
اس نے جواب دیا “میں منصب ہوں”
صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا خیال ہے اسے ساتھ بٹھا لیں ؟”
سب نے کہا “کیوں نہیں ۔ ہمیں اس سفر میں اس کی ضرورت پڑے گی اور دنیا کی لذتوں کا حصول اس کی موجودگی میں بہت آسان ہو جائے گا”
صاحب بہادر نے اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا اور مزید آگے بڑھے ۔ اس طرح اس سفر میں طرح طرح کی لذتوں سے ملاقات ہوئی اور صاحب بہادر سب کو ساتھ بٹھاتے آگے بڑھتے رہے ۔ آگے بڑھتے بڑھتے ایک اور شخص سے ملاقات ہوئی
صاحب بہادر نے پوچھا “تو کون ہے ؟”
اس نے جواب دیا” میں دین ہوں”
صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا اسے بھی ساتھ بٹھا لیں ؟”
سب نے کہا “ابھی نہیں یہ وقت دین کو ساتھ لے جانے کا نہیں ہے ابھی ہم سیر کرنے اور انجوائے کرنے جارہے ہیں اور دین ہم پر بلاوجہ ہزار پابندیاں لگادے گا حلال حرام کو دیکھو نمازوں کی پابندی کرو وغیرہ وغیرہ اور ہماری لذتوں میں رکاوٹ بنے گا ہم انجوائے نہیں کر سکیں گے ۔ ایسا کرتے ہیں کہ سیر سے واپسی پر ہم اسے ساتھ بٹھا لیں گے”
اور اس طرح وہ دین کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں چلتے چلتے آگے چیک پوسٹ آ تی ہے ۔ وہاں کھڑا شخص صاحب بہادر سے کہتا ہے “گاڑی سے اترو”
صاحب بہادر گاڑی سے اترتے ہیں تو وہ شخص صاحب بہادر سے کہتا ہے “تمھارے سفر کا وقت ختم ہو چکا۔ مجھے تمھارے پاس دین کی تفتیش کرنا ہے”
صاحب بہادر نے کہا “دین کو میں کچھ ہی دوری پر چھوڑ آیا ہوں میں ابھی جاکر اسے ساتھ لے آتا ہوں”
” اُس شخص نے کہا ہے “اب واپسی ناممکن ہے تمہارا وقت ختم ہو چکا اب تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا
صاحب بہادر نے کہا “مگر میرے ساتھ مال منصب اور بیوی بچے ہیں”
اُس شخص نے کہا “اب تمہیں تمھارا مال منصب اور اولاد کوئی بھی نہیں بچا سکتے ۔ صرف دین تمھارے کام آسکتا تھا جسے تم پیچھے چھوڑ آئے”
” صاحب بہادر نے پوچھا “تم ہو کون ؟
اُس نے کہا “میں تمہاری موت ہوں جس سے تم مکمل غافل تھے اور عمل کو بھولے رہے”
صاحب بہادر نے ڈرتی نظروں اور ڈوبتے دل کے ساتھ گاڑی کی طرف دیکھا اس کے بیوی بچے اس کو اکیلا چھوڑ کر مال اور منصب کو لئے اپنے سفر کو مکمل کرنے کے لئے آگے بڑھ گئے اور کوئی ایک بھی صاحب بہادر کی مدد کے لئے اس کے ساتھ نہ اترا

خاوند اور بیوی

ہر عورت (بیوی) کو معلوم ہونا چاہیئے کہ

جو مرد (خاوند) اُس سے سچا پیار کرتا ہے
حالات خواہ اُس کیلئے کتنے ہی مُشکل ہوں
وہ اُسے کبھی تنہاء نہیں چھوڑے گا

ہر مرد (خاوند) کو معلوم ہونا چاہیئے کہ

جو عورت (بیوی) اُس سے سچا پیار کرتی ہے
وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُس سے خفا ہوتی رہے گی
لیکن رہے گی اُس کے ساتھ ہی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سِینے پر مُونگ

میں اُن دنوں پروڈکشن منیجر ویپنز فیکٹری تھا [1969ء] ہفتہ کا دن تھا مہینہ مجھے یاد نہیں البتہ موسم خوشگوار تھا ۔ اُس زمانہ میں ہمیں سوا چار بجے سہ پہر چھٹی ہوتی تھی ۔ چھٹی ہونے والی تھی کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور ساتھ ہی چھٹی کا ہُوٹر بھی ہو گیا ۔ ٹیلیفون اُٹھایا تو میرے باس کے باس “م” تھے جو چند ماہ پیشتر میرے باس تھے ۔ فرمایا “کل مینا بازار ہو رہا ہے ذرا جا کر جھنڈیاں لگوا دو”۔ پوچھا “جھنڈیاں کہاں ہیں ؟” جواب ملا “ص صاحب کے پاس”۔ میں نے “ص” صاحب کے گھر ٹیلیفون کر کے پوچھا تو جواب ملا “ميرے پاس جھنڈیاں تو نہیں ہیں ۔ مجھے گُڈی کاغذ منگوانے کا کہا تھا ۔ آپ لے لیں اور جھنڈیاں بنوا لیں”۔

جھنڈیاں بنوانے کیلئے ڈوری اور بنانے والے چاہئیں تھے ۔ سوچا گُڈی کاغذ لے کر کلب چلتا ہوں وہاں لوگ ہوں گے ۔ اپنا بائیسائیکل پکڑا اور چلاتا ہوا کلب پہنچا ۔ وہاں آدمی کُجا کوئی جانور بھی نہ تھا اور نہ کوئی آثار کہ یہاں مینا بازار لگنے والا ہے ۔ بڑے باس “م” صاحب کے گھر ٹیلیفون کیا تو جواب ملا “سِینئر منیجر ہو بندوبست کر لو”۔ بندوبست کیا کروں اور کہاں سے کروں یہ اُنہیں بھی معلوم نہ تھا ۔ اِدھر اُدھر مارا مارا پھر رہا تھا کہ اسٹیشن انجيئر صاحب ایک پِک اُپ پر آئے اور کہنے لگے “میں قناتیں اور شامیانے لے آیا ہوں” ۔ لگانے کیسے ہیں یہ اُنہیں بھی معلوم نہ تھا ۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ “مینا بازار کا منتظم کون ہے ؟” وہ کہنے لگے “خواتین کا معاملہ ہے اُن کی صدر مسز “ش” ہیں اُن سے معلومات لے لو ۔ میں نے “ش” صاحب کے گھر ٹیلیفون کر کے مسز “ش” کا پوچھا تو بتایا گیا کہ غسل کر رہی ہیں ۔ چنانچہ ہم نے اپنی مرضی سے قناتیں اور شامیانے لگوا دیئے

قناتیں شامیانے لگنے کے بعد اسٹیشن انجنیئر چل پڑے ۔ میں نے کہا “اپنے آدمیوں کو روکئے باقی کام کون کرے گا ؟”اُنہوں نے کہا یہ تو شامیانے والے ہیں ۔ اِنہوں نے اپنا کام کر دیا ہے ۔ پھر مسز “ش” کیلئے ٹیلیون کیا تو بتایا گیا کہ غسل کر چکی ہیں تیار ہو کر خود کلب آئیں گی ۔ اسی اثناء میں مجھے کلب کا ایک کلرک نظر آیا ۔ بھاگ کر اس کو پکڑا اور پوچھا کہ “کلب کے ملازم کیوں نہیں آئے”۔ اُس نے بتایا “مینا بازار کی وجہ سے آج اور کل کلب کی چھٹی ہے”

جھنڈیاں بنوانے کیلئے ایک ساتھی سے رابطہ کیا ۔ اُنہوں نے جھنڈیاں تیار کروانے کا وعدہ کیا بشرطیکہ میں گُڈی کاغذ جہاں وہ بتائیں وہاں پہنچا دوں اور دوسرے دن صبح دس بجے وہاں سے جھنڈیاں اُٹھوا لوں ۔ ابھی سٹال لگانے باقی تھے جن کیلئے میزیں اور کرسیاں چاہئیں تھیں ۔ قریب ہی ایک سکول تھا اُس کے پرنسپل صاحب سے رابطہ کر کے منت سماجت کی تو وہ میزیں دینے پر راضی ہوئے اس شرط پر کہ ان کی پالش خراب نہیں ہو گی اور کل صبح سکول سے اُٹھوائی جائیں اور پرسوں صبح سویرے واپس پہنچائی جائیں ۔ شام ساڑھے سات بجے کے قریب مسز “ش” تشریف لائیں اور کہا کہ “میں تو معائینہ کرنے آئی ہوں اور یہاں ابھی صرف قناتیں اور شامیانے ہی لگے ہیں”۔ عرض کیا ” آپ پلان دیجئے تو اُس کے مطابق بندوبست کردیں گے”۔ کہنے لگیں “وہ تو مسز “ع” کے پاس ہے ۔ مسٹر “ع” کے گھر فون کیا مگر کسی نے نہ اُٹھایا ۔ پھر مسز “ش” نے کہا ” اتنے سٹال لگنے ہیں جس طرح بھی ہو لگا دیں”۔ اور وہ چلی گئیں ۔ رات کے آٹھ بج چکے تھے اور کوئی مدد کہیں سے نہ مل رہی تھی چنانچہ میں گھر چلا گیا

رات کے دوران اپنے دوستوں ساتھیوں سے مدد کے وعدے لئے ۔ دوسرے دن صبح سویرے کلب پہنچ گیا ۔ تھوڑی دیر میں آٹھ آدمی مدد کیلئے آ گئے ۔ ایک کو جھنڈیاں لینے بھیجا اور سات کو ساتھ لیجا کر سکول سے میزیں لانا شروع کیں ۔ خود بھی ساتھ مزدور بن کر ۔ سب بندوبست کر کے ابھی فارغ ہی ہوا تھا کہ ایک گروہ افسران کا آتا دکھائی دیا ۔ ان میں چیئرمین اور دیگر افسران تھے میرے باس کے باس “م” صاحب بھی تھے اور اُن کے باس “ح” صاحب بھی ۔ “م” صاحب نے چار افسروں کو ایک قطار میں کھڑا کیا جن میں اسٹیشن انجنیئر ۔ گُڈی کاغذ والے “ص” صاحب کے علاوہ دو اسسٹنٹ منیجر تھے جنہیں دو دن کے دوران ہم نے کلب میں نہ دیکھا تھا اور نہ ہی انتظامات کرنے میں اُن کا کوئی کردار تھا ۔ میں صرف چند فُٹ کے فاصلہ پر کھڑا دیکھتا رہا ۔ چیئرمین صاحب سے “ح” صاحب نے ان چار حضرات کا تعارف کرایا کہ اُنہوں نے مینا بازار کا سارا بندوبست کیا ہے ۔ اسٹیشن انجنیئر نے تو قناتیں اور شامیانے لگوا دیئے تھے ۔ باقی نے تو کچھ نہ کیا تھا

ایک سال بعد میرے اسی باس نے مجھے پھر مینا بازار کا انتظام کرنے کو کہا تو میں نے کہا “پچھلے سال کے تجربہ کے تحت میں اب ایسی جراءت نہیں کر سکتا” ۔
مسکرا کر بولے “تم انعام کیلئے کام کرتے ہو”۔
میں نے کہا “میں کام انعام کیلئے نہیں کرتا مگر مجھے پسند نہیں کہ کوئی میرے سِینے پر مُونگ دَلے “۔

تہذيب ۔ ۔ ۔ ؟

تہذیب کے موضوع سے انصاف کرنے کیلئے ضروری تھا کہ ثقافت کے معنی پوری طرح واضح کئے جائیں کیونکہ تہذیب اور ثقافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے البتہ تہذیب ثقافت سے جنم نہیں لیتی بلکہ تہذیب ثقافت پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کی راہ متعین کرتی ہے ۔ تہذیب کسی گروہ کے عقائد کے تابع ہوتی ہے ۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ افراد کو گروہ میں قائم رکھنے کیلئے کچھ مشترک باہمی عوامل لازم ہیں اور یہ عوامل ہی دراصل عقائد کا روپ دھارتے ہیں ۔ فطری طور پر یہ عوامل ان کے مذہبی اصول ہی ہوتے ہیں ۔ جيسا کہ ميں پہلے لکھ چکا ہوں ثقافت بھی مادر پدر آزاد نہیں ہوتی بلکہ اس کی حدود و قیود ہوتی ہیں

رہی تہذیب تو مؤرخین نے کم از کم وسط اُنیسویں صدی عیسوی تک اسے مذہب کے زیرِ اثر ہی گردانا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عیسائی اور یہودی بہترین اوصاف کا منبع زبور تورات اور انجیل کو قرار دیتے تھے اور یہ استدلال درست بھی تھا گو متذکرہ کُتب تحریفات کے سبب الہامی نہ رہی تھیں ۔ پھر جب غیرمسلم دنیا اپنے عقائد سے بالکل اُچاٹ ہو گئی تو اُنہوں نے تہذیب کی تعریف میں سے لفظ مذہب کو حذف کر دیا ۔ اس کے باوجود اب بھی کچھ ڈکشنریاں ایسی ہیں جن میں تہذیب کا تعلق مذہب سے بتایا گیا ہے یا مذہب کا نام لئے بغیر اس طرف اشارہ کیا ہے

تہذیب رکھنے والے کو مہذب کہا جاتا ہے ۔ کوئی بھی مہذب گروہ ہو وہ اپنے بنیادی عقائد سے ضرور متاءثر ہوتا ہے چنانچہ مُسلمان کا مہذب ہونے کیلئے اپنے دین اسلام سے متاءثر ہونا اچنبہ کی بات نہیں ہے بلکہ ایسا ہونا ایک لازمی امر ہے ۔ باعمل مسلمانوں کا مقابلہ دورِ حاضر کے عیسائیوں اور یہودیوں سے اسلئے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ لوگ پہلے اپنے دین سے منحرف ہوئے اور جب کلیسا ہی برائیوں کا گھر بن گیا تو انہوں نے مذہب سے کھُلم کھُلا بغاوت کر کے مذہب کو اپنی زندگی کے تمام عملی پہلوؤں سے نکال کر کلیسا میں محبوس کر دیا ۔ اس نئے خود تراشیدہ نظام کو سہارا دینے کیلئے سیکولرزم کا نظریہ ایجاد کیا گیا

عصرِ حاضر میں مسلمانوں کے تنزل کا سبب اُن کا دین نہیں بلکہ سبب یہ ہے کہ ان کی بھاری تعداد نے دین اسلام کو بھی وہی صورت دے رکھی ہے جو کئی صدیاں قبل کلیسا کے پاسبانوں نے دی تھی ۔ یعنی نماز پڑھتے نہیں اور پیروں کے آستانوں اور مزاروں پر حاضری اور تعویز گنڈے کو معمول بنا رکھا ہے ۔ زکوات اور صدقہ سے عاری ہیں مگر گیارہویں کا ختم نافذ کر رکھا ہے ۔ وغیرہ

دورِ حاضر کا مناسب دینی تعلیم سے محروم مسلمان جب ترقی اور جدیدیت کی علمبردار قوموں سے اپنی قوم کا موازنہ کرتا ہے تو بھٹک جاتا ہے ۔ ہمارے لوگ تاریخ پر تحقیق کرنا تو کُجا تاریخ پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتے ورنہ سب کچھ کھُل کر سامنے آ جائے ۔ یہاں تک کہ جس کتاب [قرآن شریف] کی بے حرمتی پر وہ مرنے مارنے پر تُل جاتا ہے اسے سمجھ کر پڑھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا ۔ قرآن شریف میں اللہ تعالٰی نے واضح الفاظ میں انسان کے ہر فعل کو دین کا تابع کرنے کا حُکم دیا ہے ۔ اسلئے مسجد ہو یا گھر ۔ دفتر ہو یا بازار ۔ تجارت ہو یا سیاست سب کو اللہ کے احکام کے تابع رکھنے سے ہی مسلمان بنتا ہے ۔ چنانچہ یورپ اور امریکہ میں رہنے والوں کے طور طریقے مسلمان نہیں اپنا سکتا سوائے ان اچھی عادات کے جو دین اسلام سے متصادم نہ ہوں بلکہ اچھی چیزیں اپنانا ہی چاہئیں ۔ ہمارے دین کی صلاح یہی ہے

میرے تہذیب اور مذہب کے درمیان رشتہ بیان کرنے پر خرم صاحب نے فرمایا تھا کہ اُردو والی تہذیب کا تعلق مذہب سے ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے انگریزی والی civilization کی بات کی تھی جس کا تعلق مذہب کے ساتھ نہیں بنتا ۔
بہت خُوب ۔ دیکھ لیتے ہیں کہ انگریزی والی civilization کیا ہوتی ہے

سب سے بڑی انگریزی سے اُردو آن لائین ڈِکشنری
تمدن ۔ تہذیب ۔ شائستگی

انگریزی اُردو لغت آن لائین
تہذیب ۔ تمدن ۔ تربیت ۔ انسانیت

ایک اور انگریزی اُردو لغت آن لائین
تہذیب و تمدن

مریم ویبسٹر ڈکشنری
مقابلتاً اعلٰی سطحی ثقافت اور فنی ترقی بالخصوص وہ ثقافتی ترقی جس میں تحریر اور تحاریر کو محفوظ رکھنے کا حصول مقصود ہو ۔ خیالات عادات اور ذائقہ کی شُستگی یا آراستگی

کیمبرج ڈکشنری
اچھی طرح ترقی یافتہ ادارے رکھنے والا انسانی گروہ یا کسی گروہ کے رہن سہن کا طریقہ

رھائیمیزون
اعلٰی سماجی ترقی کا حامل گروہ [مثال کے طور پر پیچیدہ باہمی قانونی اور سیاسی اور مذہبی تنظیم]

اینکارٹا آن لائین انسائیکلوپیڈیا
تاریخی اور ثقافتی یگانگی رکھنے والا ترقی یافتہ گروہ ۔ قرونِ وسطہ سے اُنیسویں صدی تک اکثر یورپی مؤرخین نے مذہبی پسِ منظر لیا ہے

الٹرا لِنگوا
ایک گروہ مخصوص ترقی کی حالت میں ۔ کوئی گروہ جو قانون کا پابند ہو اور وحشت کا مخالف ۔ ثقافت کا اعلٰی درجہ

امید ہے بات واضح ہو گئی ہو گی ۔ مندرجہ بالا سب جدید ڈکشنریاں ہیں پھر بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ کچھ میں مذہب کا لفظ غائب کر دیا گیا ہے لیکن اشارہ مذہب ہی کی طرف ہے ۔ پانج سات دہائیاں پرانی ڈکشنریوں میں civilization کو مذہب کے زیرِ اثر ہی لکھا جاتا رہا ہے کیونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مطابق بھی ہر بھلائی کا سرچشمہ زبور تورات اور انجیل تھیں گو کہ ان کُتب میں بہت تحریف کی جا چکی تھی