Category Archives: معاشرہ

قومیں ۔ متحمل مزاج کون اور متعصب کون ؟

80 ملکوں میں کئے گئے سروے میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ ”وہ کس قسم کے لوگوں کو اپنے ہمسائے میں پسند نہیں کریں گے ؟“
اس سروے کے نتیجہ میں دلچسپ صورتِ حال سامنے آئی جو کہ مندرجہ ذیل نقشہ میں دکھائی گئی ہے ۔ خیال رہے یہ لکھنے والے وہ ہیں جو ہم پاکستانیوں کو جاہل اور انتہاء پسند سمجھتے ہیں . racial-tolerance-map-hk-fix(بڑا کرنے کیلئے نقشے پر کلِک کیجئے)۔

لال رنگ متعصب یا تنگ نظر لوگوں کو ظاہر کرتا ہے ۔ گہرا لال زیادہ متعصب یا تنگ نظر ہوں گے ۔ اس سروے کے مطابق سب سے زیادہ متعصب یا تنگ نظر لوگ بھارت میں پائے جاتے ہیں یعنی 40 فیصد یا زیادہ لوگ اپنے قریب کسی غیرمُلکی باشندے یا دوسرے مسلک کے لوگوں کی رہائش پسند نہیں کرتے

گہرا نیلا سب سے زیادہ زیادہ متحمل مزاج لوگوں کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس میں برطانیہ اور اس کی سابقہ کالونیوں (ریاستہائے متحدہ امریکہ ۔ کنیڈا ۔ آسٹریلیا ۔ نیوزی لینڈ) اور لاطینی امریکہ کے لوگ ہیں ۔ یعنی ان میں 5 فیصد سے کم لوگ تنگ نظر یا متعصب ہیں

ان کے بعد نیلا رنگ متحمل مزاج لوگوں کو ظاہر کرتا ہے ۔ متحمل مزاج لوگوں میں پاکستان خاص اہمیت رکھتا ہے کہ انتہائی متعصب اور تنگ نظر لوگوں کے علاقوں میں گِرا ہوا ہونے کے باوجود پاکستان میں تنگ نظر لوگ 10 فیصد سے کم ہیں باوجودیکہ پاکستان میں بسنے والے مقابلتاً بہت زیادہ مختلف نسلی اور لسانی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دیکھیئے نقشہ ۔ (بڑا کرنے کیلئے نقشے پر کلِک کیجئے)۔ diversity-map-harvard2
گہرا لال یعنی سب سے زیادہ متعصب یا تنگ نظر سے گہرا نیلا یعنی متحمل یا سب سے کم تنگ نظر تک 7 قسمیں بنائی گئی ہیں جو نقشہ میں مختلف رنگوں سے واضح کی گئی ہیں

طرزِ عمل

جنگ ہمیشہ آدمیوں کے درمیان ہوتی ہے ۔ جذبے یا تصوّر کو نہ تو ہلاک کیا جا سکتا ہے اور نہ یرغمال بنایا جا سکتا ہے

مُشکل دور عقدہ کُشائی مانگتا ہے نہ کہ نہ ختم ہونے والی مُشکلات کی تکرار

جو یقین رکھے کہ وہ بچ نہیں سکتا ۔ عام طور پر نہیں بچتا

اُلجھن سے نکلیئے

آزادی کا مطلب جو چاہو سو کرو نہیں ہے ۔ آزادی کا مطلب دستِ نگر نہ ہونا ہے

ایک حکومت بننے سے آزادی کی ضمانت نہیں مل جاتی اور نہ ہی کوئی بہتری از خود آتی ہے ۔ بہتری کیلئے خلوصِ نیت سے لگاتار محنت ضروری ہے

کسی کو قصور وار ٹھہرانے کا فیصلہ اور مسئلے کا حل ایک ہی چیز نہیں ہیں ۔ مسئلے کا حل اپنے بہتر عمل اور دوسروں کی بہتری کی طرف مدد میں ہے

ہم قوم کو سُست ۔ بیوقوف یا کرپٹ ہونے پر بُرا کہتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم خود بھی اس میں شامل ہیں

مسلمان کا مطلب کیا ہے ؟

دو پاکستانی لڑکیاں ریحانہ کوثر اور ثوبیہ کمار حصول تعلیم کی غرض سے برطانیہ گئی تھیں
ریحانہ کوثر اور ثوبیہ کمار جن کی عمریں اب بالترتیب 34 سال اور 29 سال ہیں نے چند ہفتے قبل لیڈز (برطانیہ) میں سول پارٹنر شپ رجسٹرڈ کرالی یعنی ہم جنس شادی رچا لی
اخبار کے مطابق وہ برطانیہ میں شادی کے بندھن میں بندھ جانے والی پہلی مسلمان ہم جنس پرست خواتین بن گئیں
ریحانہ کوثر اور ثوبیہ کمار نے حکومتِ برطانیہ کو پناہ (Asylum) کیلئے درخواست دیتے ہوئے کہا ہے کہ
”پاکستان واپسی پر ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے“۔
مزید ریحانہ کوثر کا کہنا ہے کہ اس ملک (برطانیہ) نے ہمیں ہمارا حق دیا اور ہم نے جو فیصلہ کیا ہے وہ انتہائی ذاتی ہے ہم نجی زندگی میں کیا کرتے ہیں کسی اور کو اس میں مداخلت کا حق نہیں

عرضِ بلاگر
میرا پہلا سوال یہ ہے کہ ان عورتوں کو مسلمان کس بنا پر کہا گیا ؟

اگر بنیاد نام ہے تو ایک لڑکی کے نام کے ساتھ ”کمار“ لکھا ہے جو ہندوؤں کا نام ہے چناچہ وہ غیر مُسلم ہو سکتی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ عرب ۔ افریقہ ۔ امریکہ اور یورپ میں بھی ایسے غیر مُسلم بستے ہیں جن کے نام مسلمانوں جیسے ہیں ۔ بارک حسین اوبامہ کو ہی لے لیجئے

فرض کیجئے کہ وہ مسلمان والدین کے گھروں میں پیدا ہوئیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ مسلمان کا بچہ بھی مسلمان ہو ؟
سیّدنا نوح علیہ السلام اور طوفان میں غرق ہونے والے اُن کے بیٹے کی مثال ہمارے سامنے ہے

میرے مطالعے اور تجربے کے مطابق مسلمان یا مُسلم اُسے کہا جاتا ہے جو اللہ کا مُسلم یعنی تابع ہو اور جو اللہ کے چند بڑے احکام میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی کرے اور توبہ نہ کرے یا اس کی تکرار کرے وہ مسلمان نہیں ہوتا
ان عورتوں نے جس عمل کی بنیاد ڈالی ہے اس بناء پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے سیّدنا لوط علیہ السلام کی پوری قوم کو نیست و نابود کر دیا تھا ۔ ان میں سیّدنا لوط علیہ السلام کی بیوی بھی شامل تھی جس نے ایسے لوگوں کی صرف حمائت کی تھی

جب یہ عورتیں مسلمان ہی نہیں تو کسی مسلمان کو حق نہیں پہنچتا کہ اُن کے معاملات میں مداخلت کرے

برادری ۔ چوہدری ۔ پنچائت ۔ خُوبیاں اور خامیاں

برادری نظام افریقہ اور ایشیا کا قدیم معاشرتی نظام تھا ۔ انگریز جہاں بھی پہنچا اُس نے اسے سب سے پہلے نشانہ بنایا کیونکہ اُن کے اجارہ داری نظام کی راہ میں یہ نظام ایک بڑی رکاوٹ تھا ۔ ہندوستان میں عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے برادری نظام کے مقابلے میں اُنہوں نے لمبرداری یا نمبرداری نظام تشکیل دیا جس میں لمبردار یا نمبردار برطانوی حکومت کا نمائندہ ہوتا تھا اور اُسے عوام کو لوٹنے اور تنگ کرنے کے کئی اختیارات سونپے گئے تھے ۔ اس مصنوعی نظام نے برادری نظام کو کمزور کرنے میں اور برادریاں توڑنے اور ہندوستان پر انگریزوں کی گرفت مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ انگریز کے بنائے نظام میں بھی ایک چوہدری ہوتا تھا جو برادری کا قابلِ احترام بزرگ ہونے کی بجائے انگریز کا پِٹھو جاگیردار ہوتا تھا جسے اپنی قوم سے غداری کے عوض جاگیر ملی ہوتی تھی

نئی اچھی چیزیں اپنانا انسانی بہتری کیلئے لازم ہے لیکن یہ رویہ بھی غلط ہے کہ جدیدیت کو اپناتے ہوئے اپنے قدیم اچھے اوصاف سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے ۔ برادری نظام جس میں عدالت کا کام پنچائت کرتی تھی اپنی کمزور ترین حالت میں آدھی صدی قبل تک رائج تھا ۔ یہ نظام گو اپنی خُوبیوں میں سے اکثر کھو چکا تھا پھر بھی موجودہ انگریزی نما آدھا تیتر آدھا بٹیر نظام سے بدرجہا بہتر تھا ۔ میں صرف اپنے خاندان کے برادری نظام کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں جو کہ اب مرحوم ہو چکا ہے

ہماری برادری دوسری برادریوں سے ایک لحاظ سے مختلف تھی کہ اس میں اپنے ہی خاندان میں شادی کرنے کی پابندی نہ تھی البتہ ترجیح ضرور تھی ۔ جس دوسرے خاندان میں شادی ہوتی اُسے اُن کی رضامندی سے اپنی برادری میں شامل کر لیا جاتا ۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس سوچ کے نتیجہ میں ہماری برادری کا بہت زیادہ پھیل جانا بھی اس برادری نظام کے خاتمہ کی دو بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ۔ دوسری بڑی وجہ جدیدیت کا بخار ہے جس نے 1950ء کی دہائی میں جوان ہونے والی نسل کو خودسر بنا دیا تھا

برادری کا ایک چوہدری ہوتا تھا جسے برادری کے بزرگ چُنتے اور وہ اُس وقت تک چوہدری رہتا جب تک وہ صحت یا کسی اور خاص وجہ سے معذوری ظاہر نہ کرتا ۔ چوہدری کے خلاف کوئی بڑی شکائت ملنے پر پنچائت بُلائی جاتی جس کی صدارت تو چودری ہی کرتا لیکن اسے بولنے کا اختیار صرف اس وقت ہوتا جب پنچائت اسے کسی خاص بات کی وضاحت کرنے کو کہے ۔ اگر چوہدری کے خلاف شکایات بڑھ جاتیں تو چوہدری خود ہی کسی غیرمتنازعہ شخص کو اپنی ذمہ داری سونپ کر الگ ہو جاتا

جو خاندان اپنے باہمی فیصلے نہ کر پاتے وہ چوہدری سے رجوع کرتے اور اگر چوہدری اس کا متفقہ فیصلہ نہ کر پاتا تو معاملہ پنچائت تک پہنچایا جاتا ۔ شادی کی بات پکی کر کے چوہدری کو اطلاع دی جاتی ۔ کچھ لوگ شادی کی بات پکی کرنے سے قبل ہی چوہدری کو اعتماد میں لیتے اور کچھ ایسے بھی ہوتے جو اپنے بیٹے یا بیٹی کا رشتہ طے کرنا چوہدری کے ذمہ کر دیتے ۔ شادی کی تاریخ مقرر ہو جانے پر چوہدری سب مہمانوں کو مطلع کرنے کا ذمہ دار ہوتا یہ کام وہ اس کام کیلئے مقرر ایک خاندان سے کرواتا جس کی کُنیت بھَٹ تھی ۔ کسی کی وفات کی صورت میں بھی بھَٹ کو اطلاع دی جاتی جو گھر گھر جا کر وفات کی اطلاع کے ساتھ نماز جنازہ کے وقت اور دفن کی جگہ کی اطلاع دیتا ۔ اس کے علاوہ بھی سب اجتماعی ۔ معاشرتی اور انفرادی مسائل میں چوہدری سے مشورہ کیا جاتا اور اہم معاملات میں پنچائت بُلائی جاتی ۔ چوہدری گاہے بگاہے اپنے انفرادی طور پر کئے ہوئے فیصلوں پر پنچائت کو اعتماد میں لیتا رہتا ۔ چوہدری کسی بھی صورت مطلق العنان نہیں تھا

شادی کسی کی بھی ہو اس کا منتظمِ اعلٰی چوہدری ہی کو سمجھا جاتا تھا ۔ چوہدری جس کو اس شادی کا منتظم نامزد کر دیتا سب لوگ بالخصوص نوجوان اُس سے تعاون کرنے اور اُس کا حُکم ماننے کے پابند ہوتے ۔ شادی کے کھانے میں جو برتن استعمال ہوتے تھے وہ برادری کی ملکیت ہوتے تھے اور عام طور پر برادری کے چندے سے خریدے جاتے تھے لیکن کوئی چاہے تو چندے کے علاوہ اپنی جیب سے برتن خرید کر دے سکتا تھا ۔ اگر دُلہن بننے والی لڑکی کے والدین کی مالی حالت کمزور ہو تو چوہدری چُپکے سے برادری کے مخیّر حضرات سے مالی تعاون حاصل کر لیتا ۔ کبھی کبھی کوئی مخیّر شخص پوری برادری کی ضیافت بھی کرتا جسے “برادری کا کٹھ” کا نام دیا جاتا ۔ یہ ایک بہت بڑی ضیافت ہوتی تھی جس کا انتظام سب مل کر کرتے تھے ۔ بعض اوقات کچھ لوگ مل کر بھی برادری کے کٹھ کا خرچ اُٹھاتے تھے

میرے والدین کی شادی سے بھی پہلے میرے دادا کو چوہدری بنایا گیا تھا جبکہ برادری میں کئی بزرگ اُن سے عمر میں بڑے تھے اور اُن کے اپنے تینوں بھائی بھی اُن سے بڑے تھے ۔ اُنہوں نے اپنے دور میں برادری کی اجتماعی ضروریات کے سلسلہ میں اپنی جیب سے بہت خرچ کیا جس نے اُنہیں برادری کے عام لوگوں میں ہر دلعزیز بنا دیا لیکن پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے کچھ پہلے اُنہوں نے اپنی صحت کے حوالے سے ذمہ داریاں کسی اور سونپ دیں

دوسری قسط کچھ دن میں

جیت گیا آ آ آ آ آ آ آ آ پاکستان

جیت گیا پاکستان اور میں جیت گیاMy Id Pak
ہار گیا نکتہ دان اور دشمن ہار گیا

کسی نے کہا تھا

سچائی چھُپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

ہمارا حلقہ ہے اسلام آباد این اے 48 ۔ بہت پہلے سے معلوم تھا کہ مقابلہ تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی اور مسلم لیگ ن کے انجم عقیل میں ہو گا ۔ سیاسی جماعتوں کے موجودہ قائدین میں سے میں میاں محمد نواز شریف کو سب سے اچھا سمجھتا ہوں ۔ میں نے اُس اصول کے مطابق جس کی تلقین پچھلے ایک ماہ سے میں بار بار کر رہا تھا ووٹ میاں محمد اسلم کو ووٹ دیا ۔ میں جانتا تھا کہ وہ ہار جائے گا لیکن میں نے کبھی اپنا اصول نہیں توڑا ۔ میاں محمد اسلم دیانتدار ہے ۔ خدمت کا جذبہ رکھتا ہے اور آسانی سے اُس کے ساتھ ملاقات کی جا سکتی ہے ۔ غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق ہمارے حلقہ میں تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی جیت رہے ہیں

قومی اسمبلی کے اب تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق صورتِ حال یہ ہے

مسلم لیگ ن ۔ 129
پاکستان تحریکِ انصاف ۔ 34
پی پی پی پی ۔ 31
ایم کیو ایم ۔ 12
جمیعت علماء اسلام ف ۔ 10
جماعت اسلامی ۔ 3
پی ایم ایل کیو ۔ 1
اے این ۔ صفر
بقایا سیاسی جماعتیں
آزاد اُمیدوار ۔ 27

خاص باتیں
1 ۔ پہلی بار کراچی سے مسلم لیگ ن کا اُمید وار پی پی پی پی کے اُمیدوار کو ہرا کر جیت گیا ہے
2 ۔ اے این پی کا صفایا ہو گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی سیکولر جماعتوں سے دور ہو گئے ہیں
3 ۔ پی پی پی پی کو اُن لوگون کے ووٹ ملے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو شہید اور پیر سمجھتے ہین اور اُن کا دعوٰی ہے کہ اُن کی آنے والی نسلیں بھی شہیدوں پیروں کو ووٹ دیں گی
4 ۔ اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی کو ملنے والے ووٹوں میں 60 فیصد سے زیادہ ووٹ عورتوں اور لڑکیوں کے ہیں اور 40 فیصد سے کم مردوں اور لڑکوں کے ہیں ۔ گویا عمران خان صنفِ نازک کا ہیرو ہے
5 ۔ جہاں جہاں سوشل میڈیا کا دور دورا ہے وہاں عمران خان کی واہ واہ ہوئی اور تحریکِ انصاف کے اُمیدوار جیتے ہیں ۔ جہاں لوگ حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتے ہیں وہاں مسلم لیگ ن کے اُمیدوار جیتے ہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ طبیعت

دنیا کو اپنی خوشگوار اور دیانتدار طبیعت کو نہ بدلنے دیجئےMy Id Pak
بلکہ
اپنی خوشگوار طبیعت ۔ دیانت اور تحمل سے دُنیا کو بدل ڈالیئے

کل آپ کا امتحان ہے ۔ اپنی خوشگوار اور تحمل والی طبیعت اور دیانت کا ثبوت پیش کیجئے