Category Archives: معاشرہ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ زبان

نادان کی زبان اُس کی مالک

اور

عقلمند اپنی زبان کا مالک

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ پونے 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے میڈیا بنجمن کا اوباما سے سوال

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

پاکستان میں سزائے موت ختم کرنے کی خواہش مند این جی اوز اور وکلاء کمیونٹی بھی بنگلہ دیش میں پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں تھوک کے حساب سے موت کی سزائیں دینے کی کارروائی پر خاموش ہیں اور صرف حکمران ہی نہیں سیاستدان، انسانی حقوق کے ادارے اور ظلم ، زیادتی، ناانصافی کے خلاف بڑھ چڑھ کر لکھنے، بولنے اور تڑپنے والے دانشور، قلمکار اور کالم نگار بھی منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں ۔ کچھ سیاسی و مذہبی تعصب کے سبب، کسی کو بھارت کاخوف دامن گیر اور کوئی فوج سے بغض و عناد کی وجہ سے خوش ہیں کہ ”ہَور چُوپو“۔

پاکستان میں دہشت گردی، تخریب کاری اور قتل و غارت گری کے مرتکب کسی مستند جاسوس کو عدالتی سزا ملے تو بھارتی حکومت باضابطہ احتجاج کرتی ہے ۔ توہین رسالت کے مرتکب افراد کی مدد کو امریکہ برطانیہ اور دنیا جہاں کے ادارے آتے ہیں اور پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا جذبہ انسانی ہمدردی عود کر آتا ہے ۔ مگر ڈھاکہ میں ہزاروں سیاسی قیدیوں، معمر افراد کو عمر قید اور موت کی سزا دینے اور سڑکوں پر عوام کو گولیوں سے بھوننے پر کسی کو اعتراض نہیں ۔ کوئی اپنے اردگرد موجود بھارتی شردھالوؤں اور نام نہاد ترقی پسندوں سے مرعوب ہے اور کسی کو امریکہ و یورپ کی ناپسندیدگی کا خدشہ ہے

بنگلہ دیش میں ان دنوں دارورسن کا موسم ہے ۔ 1971ء میں اپنے وطن کو متحد رکھنے، بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے اور پاکستان کا ساتھ دینے کے جُرم میں مولانا دلاور حسین سعیدی، مولانا غلام اعظم، محمد قمر الزمان اور احسن مجاہد کو سزائے موت سنائی گئی ہے اور درجن بھر افراد عمر قید کے مستحق ٹھہرے۔ جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھر چکی ہیں۔ فوج کے 70 کے قریب میجر جنرل سے میجر تک کے افسروں کو نام نہاد بغاوت کی آڑ میں ذبح کرنے کے علاوہ ان کی بیوییوں، بچیوں، ماؤں، بہنوں کی آبروریزی اور قتل کے واقعات ہو چکے ہیں تاکہ فوج کو بھارت مخالف عناصر سے پاک کیا جاسکے مگر پاکستان میں کسی کو ان واقعات کا تفصیلی علم ہے نہ مظلوموں سے ہمدردی اور نہ پاکستان سے وفاداری کے تقاضے نبھانے والوں کی کوئی فکر ۔ کیوں؟ اس لئے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کہ فلسفے اور تصور سے ہم نے توبہ کرلی ہے اور ایک طرف آرام سے بیٹھ کر دہی کھانے میں مگن ہیں

مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کی منتخب حکومت کے خاتمے اور فوجی مداخلت پر بھی ہمارا رویہ کم و بیش یہی رہا ۔ جن لوگوں کو 12 اکتوبر اور 3 نومبر کے اقدامات پر آرٹیکل 6 یاد آتا ہے اور وہ جنرل پرویز مشرف کو فوجی مداخلت پر سزائے موت سنانے کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں بھی جنرل عبدالفتاح السیسی کے اقدام پر مذمت تو کیا لب کشائی کی توفیق نہیں ہوئی ۔ غلام اعظم اور مرسی کا قصور اس کے سوا کیا ہے کہ ” اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں“۔

واقعی پاکستان کبھی ایسا تھا مولانا ظفر علی خان کے الفاظ ”اخوت اس کو کہتے ہیں۔ چبھے کانٹا جو کابل میں تو دہلی کا ہر اک پیر و جواں بے تاب ہو جائے “۔
ترکی کی فوجی حکومت نے سابق وزیراعظم عدنان میندریس کو سزائے موت سنائی تو اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ، صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا خط لے کر انقرہ پہنچ گئے کہ ”سزائے موت پر عمل نہ کیا جائے“۔
اخوان المسلمون کے مرشد سیّد قطب کو کرنل جمال عبدالناصر نے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا اور سولی پر لٹکایا تو پاکستان کے حکمران، سیاستدان، دانشور، قلمکار اور صحافی تڑپ اٹھے۔ اخبارات میں اداریئے، مضامین اور کالم شائع ہوئے اور اس اقدام کی مذمت کی گئی

ہماری سیاسی، مذہبی، سماجی قیادت کی اس کوتاہ اندیشی، بے حمیتی اور بزدلی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ گیدڑوں کی طرح 100 سال جینے کی آرزو نے ہمیں اس حال کو پہنچا یا ہے ورنہ پاکستان ہمیشہ ایسا نہ تھا ۔ کابل میں سردار داؤد نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے بیان دیا تو بھٹو صاحب نے ملک میں ہڑتال کرائی اور قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلا کر مذمت کی ۔ شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور مقبول بھٹ کی پھانسی پر بھی تاریخی ہڑتال سب کو یاد ہے اورویت نام، فلسطین،افریقی ممالک میں حریت پسندوں کے حق میں مرثیے، نوحے اور رزمیہ
نظمیں کل کی باتیں ہیں ۔ تب ہم اسلامی اور عالمی برادری کا حصہ تھے اور حق کا علم بلند کرنے والوں کے ساتھ، ظلم ، جبر، ناانصافی اور استحصال کے خلاف۔ تب ہماری سب سنتے تھے۔ اب ہم حال مست ہیں اس لئے بولنے کے قابل نہ کوئی سننے کو تیار

ارشاد احمد عارف کی تحریر سے اقتباس

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ بُرائی ۔ اچھائی

بُرائی کی مثال پہاڑ سے اُترنے کی ہے
ایک قدم اُٹھاؤ تو باقی اُٹھتے چلے جاتے ہیں

اچھائی کی مثال پہاڑ پر چڑھنے کی ہے
ہر قدم پچھلے قدم سے مُشکل لگتا ہے
لیکن ایک قدم چڑھنے پر مزید چڑھنے کو جی چاہتا ہے
اور آدمی بلندی (کامیابی) کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے

تبدیلی مگر کیسے ؟

حالیہ انتخابات سے قبل تبدیلی تبدیلی کا بہت شور تھا ۔ تبدیلی لانے کے بلند بانگ دعوے کئے جا رہے تھے
میں سوچتا ہوں کہ کیسے تبدیلی لائی جائے گی ؟
کس کس کو تبدیل کیا جائے گا ؟
پنجابی کی ضرب المثل ہے ” اِٹ نئیں آوے دا آوا ای وگڑیا اے“ (بھٹے کی ایک اینٹ نہیں بٹھے کی سب اینٹیٹں ہی خراب ہیں)
کوئی وعدہ کرے تو کم ہی وفا کرتا ہے
کوئی آپ کی چیز سنبھال کر رکھے تو حیرت ہوتی ہے
اگر کوئی کتاب لے کر گیا وہ واپس کم ہی آتی ہے
جس نے کہا میں فلاں وقت آؤں گا وہ کم ہی اس وقت پر پہنچا ۔ زیادہ تر تو ایک سے دو گھنٹے دیر سے آتے ہیں
سوائے چند لوگوں کے ۔ جس نے کوئی کام کرنے کا وعدہ کیا وہ نہ ہوا
ضلعی عدالتوں کا تو ذکر ہی نہیں اعلٰی بلکہ عدالتِ عظمٰی کے احکامات پر کوئی عمل نہیں کرتا ۔ میری ذاتی مثال یہ کہ پچھلے سال میری پوری پنشن بحال ہونا تھی تو درخواستیں دے کر اس سال یعنی 10 ماہ بعد بحال ہوئی مگر کیا ؟ 1992ء میں جو 3217 روپے کمیُوٹ ہوئے تھے وہ 20 سال بعد ویسے ہی یعنی 3217 تھما دیئے گئے جبکہ 5 جنوری 2012ء کو فیڈرل سروس ٹرِبیونل نے فیصلہ دیا تھا کہ سالانہ اضافے بھی دیئے جائیں ۔ اس کے خلاف حکومتِ پاکستان نے اپیل کی تھی جو عدالتِ عظمٰی (سپریم کورٹ آف پاکستان) نے 24 اپریل 2012ء کو مسترد کر دی تھی ۔ یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہزاروں پنشنروں کے ساتھ ہوا ہے ۔ یہ ظالمانہ حُکم پرویز مشرف شوکت عزیز حکومت نے 2001ء میں دیا تھا اور پی پی پی (زرداری) حکومت نے اسے بحال رکھا ۔ اس سے پہلے کی حکومتیں پنشن کی بحالی تمام اضافوں کے ساتھ کرتی تھیں

کسی ادارے میں انتطامات درست نہیں ۔ اس کی بھی ایک ذاتی مثال جو صرف میری نہیں لاکھوں پاکستانیوں کی ہے ۔ جس بنک کے ذریعہ میں پنشن لیتا ہوں اُنہوں نے اس سال مارچ میں میری پنشن کا جھگڑا ڈال دیا ۔ میں نے کہا میری فائل نکالئے ۔ 4 دن بعد فائل نکلی تو اس میں سوائے پہلے خط کے جو 1992ء کا تھا اور کوئی خط نہ تھا ۔ وہ خطوط بھی نہیں تھے جو میں نے اس سال جنوری اور فروری میں دیئے تھے ۔ منیجر صاحب کے پاس گیا تو بولے ”آپ کی تو فائل مل گئی ہے ۔ یہاں تو بہت سے پنشروں کی فائلیں بنی ہی نہیں ہیں“۔ گویا یہ شرم کی بات نہیں بلکہ فخر کی بات ہے

یہ دیگ میں سے نمونے کے چند چاول ہیں ۔ ہماری بد اعمالیوں کی فہرست تو بہت لمبی ہے

کون کرے گا ان سب کو تبدیل ؟ ؟ ؟

Important Prepositionاہم حرفِ جار ۔

معاشیات کی کلاس میں طلباء نے مؤقف اختیار کیا کہ قوم صرف گِلرڈ براؤن کے کُلیئے کے مطابق مساوات پر عمل کر کے ترقی کر سکتی ہے

پروفیسر نے اگلے ٹیسٹ میں تمام طلباء کے حاصل کردہ نمبروں کو جمع کر کے طلباء کی تعداد پر تقسیم کر دیا ۔ ہر طالب علم کو گریڈ ”بی“ ملا اور سب پاس ہو گئے ۔ جنہوں نے کم محنت کی تھی وہ خوش ہوئے اور جنہوں نے زیادہ محنت کی تھی وہ پریشان ہوئے

دوسرے ٹیسٹ کیلئے جن طلباء نے کم پڑھا تھا اُنہوں نے اور بھی کم پڑھا اور جنہوں نے پہلے ٹیسٹ کیلئے زیادہ محنت کی تھی اُنہوں نے بھی کم محنت کی ۔ جس کے نتیجہ میں دوسرے ٹیسٹ میں سب کو گریڈ ”ڈی“ ملا جس سے کوئی بھی خوش نہ ہوا

تیسرے ٹیسٹ کی اوسط گریڈ ”ایف“ آیا ۔ نوک جھونک ۔ الزام تراشی حتٰی کہ گالی گلوچ ہوتی رہی مگر کوئی دوسرے کی خاطر محنت کرنے کو تیار نہ ہوا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سالانہ امتحان میں سب طلباء فیل ہو گئے

اس پر پروفیسر نے طلباء کو سمجھایا کہ سوشلزم صرف ایک نعرہ ہے اس پر عمل پیرا ہو کر قوم ترقی نہیں کر سکتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترمات و محترمان ۔ ہوشیار ۔ انتخابات ہو چکے ۔ نئی حکومت بن گئی ۔ مندرجہ ذیل فقرے یاد رکھیئے

1 ۔ حکومت کسی سے لئے بغیر کسی کو کچھ دے نہیں سکتی

2 ۔ ایسا قانون کوئی نہیں جس سے غریبوں کو خوشحالی اور امیروں کو بدحالی عطا کی جائے

3 ۔ محنت کرنے والے سے چھین کر محنت نہ کرنے والے کو دینے سے ترقی نہیں ہو سکتی

4 ۔ دولت ناحق تقسیم کرنے سے بڑھتی نہیں

5 ۔ جب عوام کو سمجھایا جائے کہ تمہیں حصہ سب کے برابر ملے گا تو کام چور سوچیں گے کہ دوسروں کا کمایا اُنہیں ملے گا اور محنت کرنے والے سوچیں گے کہ ان کی محنت کوئی اور چُرا لے گا تو یہ قوم کی تباہی کا پیش خیمہ ہو گا

6 ۔ قوم کی فلاح نعروں اور وعدوں میں نہیں ۔ فلاح اور ترقی کی بنیاد دیانت ۔ محنت اور عدل ہیں

ایک اور جھٹکا

میں نے گذشتہ کل اپنی پریشانی کا اظہار کیا تھا ۔ آج ایک اور واقعہ پڑھ کر میں پریشان ہوں ۔ جب تبدیلی کے علمبراروں کا یہ حال ہے تو بنے گا کیا ؟ آپ بھی پڑھ لیجئے ۔ میں نے اُردو ترجمہ نہیں کیا تاکہ ترجمہ میں ہیرا پھیری نہ ہو جائے

PESHAWAR: Like their predecessors, ministers, special assistants and advisors in the Pakistan Tehreek-e-Insaf-led coalition government have also started taking official cars from their respective departments for the use of their private secretaries and other staff members.

The phenomenon has led to some confusion in several departments as their heads are worried about justifying the expenses for these vehicles. In some cases even designated cars of some high-ranking officials have been taken by the ministers, advisors and special assistants.

One such case happened in the Law Department where the designated car of a senior government pleader has been handed over to the private secretary (PS) of minister of law and parliamentary affairs.

The senior government pleader, Noorullah, on June 25 wrote to the secretary Law (copy of letter is available with The News)

“… the government of Khyber Pakhtunkhwa has arranged the purchase of the vehicle for senior government pleader of the Peshawar Law Department Civil Secretariat vide invoice No. 9131`6887, dated 2013. The vehicle was under my (Noorullah) use for official duties being a senior government pleader Peshawar Law Department since dated 23.4.2013.

According to the rules in vogue I am not drawing conveyance allowance as I have been provided the said vehicle for performing my official duties.

The above mentioned vehicle being designated one and the undersigned is responsible for its maintenance, wear and tear and has plied the said vehicle 5,000 km for official duties. I the undersigned (senior government pleader) being your subordinate officer in Law Department complied with your verbal orders for handing over the aforesaid officially authorized designated car along with the dedicated driver to the PS to law minister for the purpose and duty best known to your good office or worthy law minister.

I am aware of the exigencies of services and discipline or protocol to be followed in letter and spirit in upholding the rule of law and good order, but it is worthwhile to mention here that my office is located at Peshawar Saddar (Cantt area) and being, in charge of the officer, I perform my duties at courts as well as at my office, hence, am facing great inconvenience while performing my daily duties without the vehicle.

To overcome this troublesome situation, it is requested that the designated vehicle of senior government pleader Peshawar may please be made available to the undersigned by taking it back from law minister to enable me to discharge my official duties in efficient manner at the earliest.”

بجٹ کون سا اچھا ؟ ؟ ؟

”بجٹ“ انگریزی ہے ”تخمینہ“ کی ۔ یعنی آمدنی اور خرچ کا تخمینہ ۔ میرے پاس اگر آمدنی ہو گی تو میں خرچ بھی کر سکوں گا ۔ پھر میں کس طرح سوچ سکتا ہوں کہ حکومت بغیر آمدنی کے خرچ کرے گی ؟ مجموعی طور پر کوئی بجٹ نہ بُرا ہوتا ہے نہ اچھا ۔ اسے اچھا یا بُرا اس کا نفاذ اور تکمیل بناتے ہیں جس میں سب سے اہم عنصر عوام ہیں جن میں صنعتکار ۔ تاجر ۔ ٹھیکیدار ۔ دکاندار اور سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین شامل ہیں

بات چند سو چند ہزار یا چند لاکھ کی نہیں بلکہ میرے وطن کے کروڑوں باسیوں کی ہے جو پچھلی 4 دہائیوں سے اپنی سوچ کو سُلا کر دولت جمع کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں اور اُنہیں احساس نہیں کہ وہ بدعنوانی (corruption) میں ملوّث ہو رہے ہیں

شروع میں کم از کم بدعنوانی کو بُرا سمجھا جاتا تھا ۔ پھر دور آیا جنرل پرویز مشرف کا جس نے اقتدار سنبھالتے وقت کرپشن کے خاتمے کے بلند بانگ دعوے کئے ۔ مگر پھر اپنی کرسی کے لئے سب قربان کر دیا ۔ کرپشن کا پھل لاکھوں گھرانوں تک پہنچنے لگا اور کرپشن کو بُرا سمجھنے کا رجحان بھی معاشرے سے ناپید ہوتا گیا۔ پچھلے پانچ سالوں میں قومی دولت کو بے دریغ لُوٹا گیا ۔ مُلک اندھیروں میں ڈوب رہا تھا اور بجلی پیدا کرنے کیلئے شروع کئے گئے منصوبوں جن میں نندی پور اور چیچوکی ملیاں بھی شامل ہیں کے اربوں روپوں سے حکمرانوں نے اپنی جیبیں بھریں ۔ یہاں تک کہ حکمرانی کے آخری 3 دنوں میں دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے مُختص رقم کے اربوں روپے اُڑا لئے ۔ ہر سطح پر بدعنوانی کو ذاتی استحقاق اور اسلوبِ کار بنا دیا گیا

سڑکوں پر دوڑتی پھرتی بیش قیمت گاڑیوں ۔ لاکھوں کی تعداد میں موٹرسائیکلوں اور دن بدن عام ہوتی ڈیزائنر شاپس اور مہنگے ترین ریستورانوں کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بدعنوانی خاص و عام کا دستورالعمل بن چکی ہے ۔ دفاتر میں چند منٹ کے انتظار سے بچنے کیلئے اچھے خاصے پڑھے لکھے ”شکل سے شریف“ آدمی جائز کام بھی رشورت دے کر کرواتے ہیں ۔ ناجائز کام کروانے والوں نے دفاتر اور اداروں میں ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ جائز کام کیلئے بھی چائے پانی کے نام سے رشوت مانگی جاتی ہے ۔ سرکاری اداروں ہی میں نہیں پرائیویٹ اداروں میں بھی رشوت اور بدعنوانی کا ڈیرہ ہے

کہا جاتا ہے کہ حکمران بدعنوان ہیں ۔ اگر سیاستدان بدعنوان ہیں اور بدعنوانی کے ذمہ دار ہیں تو سوال یہ ہے کہ عوام بار بار انہیں ووٹ دے کر منتخب کیوں کرتے ہیں ؟ اپنے تئیں دانشور سمجھنے والے کہتے ہیں کہ عوام جاہل ہیں اسلئے درست فیصلہ کرنے کی قوت نہیں رکھتے مگر یہ دلیل بے معنی ہے ۔ جو عوام برسرِ عام سیاستدانوں کو بدعنوان کہتے پھرتے ہیں وہ ووٹ ڈالتے ہوئے اپنا مؤقف کیوں بھول جاتے ہیں ؟

حکومت کوئی بھی آئے ۔ حکمران کوئی بھی ہوں جب تک ہم عوام اپنا قبلہ درست نہیں کریں گے اور اپنی ذاتی خواہشات کیلئے جو ہیرا پھیریاں اور لاقانونیاں کی جاتی ہیں اُنہیں نہیں چھوڑیں گے کچھ بہتر نہیں ہو گا ۔ اللہ کا فرمان اٹل ہے

سورت 13 الرعد آیت 11 إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے)

سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ( اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)

لازم ہے کہ ہم سب جذباتیت اور دوسروں کی عیب جوئی کو چھوڑ کر معاشرہ کی اصلاح کیلئے کوشش کریں اور اس سے پہلے اپنی اصلاح کریں ۔ اس کے بغیر کوئی بہتری نہیں آئے گی