Category Archives: معاشرہ

میں کوئی چُوٹھ بولیا


اَیویں دُنیا دیوے دُہائی ۔ چُوٹھا پاؤندی شور
اپنے دِل تے پُچھ کے ویکھو ۔ کون نئیں اے چور
تے کی میں چُوٹھ بولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں کُفر تولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں زہر کولیا ۔ کوئی نہ
حق دُوجے دا مار مار کے بَن گئے لوک امِیر
میں اَیہنُوں کہندا چوری ۔ لوکی کہن تقدیر
تے کی میں چُوٹھ بولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں کُفر تولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں زہر کولیا ۔ کوئی نہ
ویکھے پنڈت گھیانی دھیانی دیآ دھرم دے بندے
رام نام چَپ کے کھاؤندے گاؤ شالہ دے چَندے
تے کی میں چُوٹھ بولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں کُفر تولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں زہر کولیا ۔ کوئی نہ
سَچے پھانسی چَڑھدے ویکھے ۔ چُوٹھا مَوج اُڑاوے
لوکی کہن اے رَب دی مایا ۔ میں کہندا انیآ اے
تے کی میں چُوٹھ بولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں کُفر تولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں زہر کولیا ۔ کوئی نہ

مسلمان بدنام کيوں ہيں ۔ لمحہءِ فکريہ

کِسی مُلک کا قانون وہ ہوتا ہے جو کہ اُس مُلک کا مجاز حاکم بناتا ہے اور یہ بھی تمام ممالک کے قوانین کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ قانون سے لاعلمی بریّت یا معافی کا جواز نہیں ۔ کوئی ذی شعور آدمی يہ نہيں کہتا کہ قانون وہ ہے جس طرح لوگ کر رہے ہيں ۔ ايک روزمرّہ کی مثال ديتا ہوں ۔ ہمارے ملک ميں قوانين کی کھُلم کھُلا خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ ٹريفِک کے قوانين ہی کو لے ليجئے ۔ مقررہ رفتار سے تيز گاڑی چلانا ۔ غلط طرف سے اوورٹيک کرنا اور چوراہے ميں بتی سُرخ ہوتے ہوئے گذر جانا عام سی بات ہے ۔ 90 فيصد لوگ ٹريفک قوانين کی خلاف ورزی کرتے ہيں مگر کبھی کِسی نے نہيں کہا کہ قانون وہی ہے جيسا لوگ کرتے ہيں ۔ ليکن دین اسلام کا معاملہ ہو تو بڑے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ مسلمان کہلوانے والوں کے کردار کو اسلام کا نام دے کر اسلام کی ملامت کرتے ہيں يا اسے رَد کرتے ہيں

اِسلام کے قوانین قرآن الحکیم میں درج ہیں ۔ قرآن شریف میں اللہ کا حُکم ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو ۔ اِسلئے حدیث اور سنتِ رسول بھی اِسلام کے قوانین کا حصّہ ہيں ۔ قرآن الحکيم اور حديث کا مطالعہ کيا جائے تو اس میں نہ صرف يہ کہ کوئی بُرائی نظر نہيں آتی بلکہ اچھائياں ہی اچھائياں نظر آتی ہيں اور کئی غيرمُسلم مفکّروں نے بھی اسے بہترين قانون قرار ديا ۔ سياسی ليڈروں ميں چين کے ايک وزيراعظم اور بھارت کے ايک صدر نے دو اميرالمؤمنين اور خليفہ ابوبکر صِدّيق رضی اللہ عنہ اور عُمر رضی اللہ عنہ کی حکومتوں کو انسانوں کے لئے بہترين قرار ديا حالانکہ ان دونوں شخصيات کا مسلک اسلام سے عاری تھا ۔ جسٹس کارنيليئس جو عيسائی تھے مگر اعلٰی پائے کے قانون دان تھے نے آسٹريليا ميں ورلڈ چيف جسٹسز کانفرنس ميں کہا تھا کہ دنيا کا بہترين اور قابلِ عمل قانون اسلامی قانون ہے اور يہ انتہائی قابلِ عمل بھی ہے اور اس کے حق ميں دلائل بھی ديئے ۔ دنيا کے کسی چيف جسٹس نے اُن کے اس استدلال کو رد کرنے کی کوشش نہ کی

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کا کردار ايسا تھا کہ اُن کے دين کے دُشمن بھی اُنہيں صادق ۔ امين اور مُنصِف سمجھتے تھے ۔ اُن کے پاس اپنی امانتيں رکھتے ۔ اُن سے اپنے معاملات ميں فيصلے کرواتے ۔ يہاں تک کہ يہودی اور مُسلمان ميں تنازع ہو جاتا تو يہودی فيصلہ کے لئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے پاس جاتے اور جو وہ فيصلہ کرتے اُسے بخوشی قبول کرتے

خلفائے راشدين کو بھی ديکھیئے ۔ عمر رضی اللہ عنہ اميرالمؤمنين اور خليفہ ہيں ۔ ساتويں صدی عيسوی ميں بيت المقدّس پر بازنطینی [عيسائی] حکومت تھی جس نے 636ء میں مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا تھا

اب سوال پيدا ہوتا ہے کہ آخر آج مُسلمان بدنام کيوں ہيں ؟ اگر ديکھا جائے تو ہم اپنے دين اسلام کی بدنامی کا باعث ہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ جس طرح کسی مُلک کا قانون وہ نہیں ہوتا جس طرح وہاں کے لوگ عمل کرتے ہیں بلکہ وہ ہوتا ہے جو مجاز حاکم بناتا ہے ۔ اسی طرح اِسلام بھی وہ نہیں ہے جس طرح کوئی عمل کرتا ہے بلکہ وہ ہے جو اللہ نے قرآن شریف میں اور اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ اٰلِہِ و سلّم نے اپنی حدیث اور عمل کے ذریعہ سمجھایا ہے

مُسلمانوں کی بدقسمتی يہ ہے کہ اُنہوں نے دنيا کی ظاہری چکاچوند سے مرغوب ہو کر اپنے دين پر عمل کرنا چھوڑ ديا ہے ۔ ناجائز ذاتی مفاد کيلئے جھوٹی گواہی ديتے ہيں ۔ اپنی خوبی جتانے کيلئے دوسروں کی عيب جوئی کرتے ہيں ۔ نہ تجارت ميں نہ لين دين ميں نہ باہمی سلوک ميں کہيں بھی اسلامی اصولوں کو ياد نہيں رکھا جاتا اور حالت يہ ہو چکی ہے کہ آج کا ايک اچھا مُسلمان تاجر ايک غير مُسلم تاجر پر تو اعتبار کر ليتا ہے مگر مُسلمان پر نہیں کرتا ۔ مُسلمان اس خام خيالی ميں مبتلا ہو گئے ہيں کہ سب کچھ کرنے کے بعد حج کر ليں گے تو بخش ديئے جائيں گے يا کسی پير صاحب کے پاس جا کر يا کسی قبر پر چڑھاوا چڑھا کر بخشوا ليں گے ۔ ہماری قوم کی اصل بيماری محنت کرنے کا فُقدان ہے ۔ صرف دين ہی نہيں دنيا ميں بھی شارٹ کَٹ ڈھونڈ لئے ہوئے ہيں ۔ امتحان پاس کرنے کيلئے کتابوں کی بجائے نوٹس پڑھ لئے وہ بھی اپنے لکھے ہوئے نہيں فوٹو کاپياں کالجوں ميں بِکتی ہيں ۔ والدين مالدار ہوں تو ممتحن اساتذہ کی جيبيں بھر نے سے بالکل آسانی رہتی ہے ۔ زيادہ مال بنانے کيلئے ہيراپھيری کرتے ہيں ۔ تولتے ہوئے ڈنڈی مارتے ہيں ۔ اشياء خوردنی ميں ملاوٹ کرتے ہيں ۔ افسوس صد افسوس ۔ بننا تو امريکن چاہتے ليکن اتنی تکليف نہيں کرتے کے اُن سے محنت کرنا ہی سِيکھ ليں البتہ اُن کی لغويات سيکھ لی ہيں ۔

يہ ہنسنے کی باتيں نہيں پشيمان ہونے اور اپنے آپ کو ٹھيک کرنے کی سوچ کی باتيں ہيں ۔ ہم خود تو اپنے کرتوُتوں سے بدنام ہوئے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے ہمارے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے ذريعہ آئے ہوئے دين کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہيں

اللہ ہمیں قرآن الحکیم کو پڑھنے ۔ سمجھنے ۔ اس پر عمل کرنے اور اپنے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ ومَا عَلَيْنَا اِلْالّبلَاغ المبین

پارلیمنٹیرین کی انسانیت کیلئے قربانی

ہَیلن جو آن کاکس (Helen Joanne Cox) المعروف جو کاکس (Jo Cox) مئی 2015ء میں لیبر پارٹی کی طرف سے برطانوی پارلمنٹ کی رُکن منتخب ہوئی ۔ اُس کی انسانیت دوستی اور اصول پرستی کی وجہ سے اُسے 16 جون 2016ء کو قتل کر دیا گیا

جو کاکس 22 جون 1974ء کو باٹلی (ویسٹ شائر) میں پیدا ہوئی ۔ تعلم مکمل کرنے کے بعد 2001ء میں آکس فام میں شمیولیت اختیار کی

سیاستدانوں کے نام

رُلاتا ہے تمہارہ نظارہ پاکستانیوں مجھ کو
عبرت خیز ہے یہ ا فسانہ سب فسانوں میں
چھپا کر آستین میں بجلیاں رکھی ہیں غیروں نے
رہنما قوم کے غافل ۔ لڑتے ہیں دونوں ایوانوں میں
وطن کی فکر کرو نادانوں ۔ مصیبت آنے والی ہے
تمہاری بربادیوں کے مشورے ہیں دُشمنوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاوگے اے پاکستان والو
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی پھر داستانوں میں

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کِیا ہے اپنے بختِ خُفتہ کو بیدار قوموں نے
محبت کے شَرَر سے دل سراپا نُور ہوتا ہے
ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے

پاکستان کے دُشمنوں سے
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ۔ وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ۔ وہ نا پائیدار ہو گا

جسے آمر (Dictator) کہا جاتا ہے ؟

میں مئی 1976ء سے جنوری 1983ء تک لیبیا کے دارلحکومت طرابلس میں رہائش پذیر تھا ۔ اس دوران بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کو ملا ۔ آج ایک واقعہ لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کے متعلق جسے امریکہ اور اس کے حواریوں نے خلافِ حقیقت بہت بدنام کیا

طرابلس میں موجود پاکستانی بھائیوں سے ملاقات ہوتی رہتی تھی ۔ ان میں انجنیئروں اور ڈاکٹروں کے علاوہ مختلف فیکٹریوں ۔ دفاتر اور تجارتی اداروں میں کام کرنے والے ہر سطح کے لوگ تھے ۔ معمر قذافی کے ذاتی معالج پاکستانی ڈاکٹر تھے جو کبھی کبھی معمر قذافی کے ساتھ اپنے سفر کے خاص خاص واقعات سنایا کرتے تھے

ایک دن میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ”ایسا واقعہ سنایئے جس نے آپ کو بہت متاءثر کیا”۔
ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے ” ایک دن معمر قذافی نے کہیں نہیں جانا تھا چنانچہ میں گھر پر رہا ۔ بعد دوپہر قذافی کا ڈرائیور پہنچ گیا ۔ میں سمجھا کہ قذافی کی طبعیت خراب ہو گی ۔ اپنا بیگ تیار کیا اوراس کے ساتھ چل پڑا ۔ شہر کے باہر پہنچے ۔ جہاں سڑک کے کنارے گاڑیاں کھڑی تھیں ڈرائیور نے گاڑی روکی ۔ اُتر کر اِدھر اُدھر دیکھا تو دُور کچھ لوگ اپنی طرف آتے ہوئے نظر آئے ۔ قریب پہنچ کر قذافی نے مجھے آنے کی وجہ پوچھی ۔ اُسی وقت ایک افسر نے بتایا کہ قذافی کے سر میں درد ہے اسلئے میں نے ڈائیور کو بھیجا تھا ۔ میں نے بیگ میں سے دو اسپرین کی گولیاں نکالیں ۔ قذافی نے گولیاں لیں ۔ سڑک کے کنارے زمین پر بیٹھ کر بسم اللہ پڑھی اورھوالشّافی کہہ کر گولیاں نگل لیں ۔ پھر اُٹھ کھڑا ہوا“۔

ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا ” جب قذافی کسی کام سے صحرا میں گیا ہوتا ۔ وہاں کوئی عام آدمی کھانے کی چیز قذافی کو پیش کرتا تو قذافی زمین پر بیٹھ کر کھا لیتا اور چیز کی تعریف کے بعد دینے والے کا شکریہ بھی ادا کرتا ۔ ایک دن صحرا میں گھومتے بعد دوپر 3 بج گئے ۔ ایک چھوٹے سے مکان کے پاس پہنچے ۔ مکین نے کھانا پیش کیا ۔ بھوک لگی ہوئی تھی ۔ میں بھی کھانے لگا تو کھانے میں ریت کی وجہ سے مجھ سے کھایا نہ گیا مگر قذافی کھاتا رہا ۔ کھا چُکنے کے بعد حسبِ عادت کھانے کی تعریف کی اور کھلانے والے کا شکریہ ادا کیا“۔

کیا ایسے آدمی کو آمر کہنا چاہیئے ؟ ذرا موازنہ کیجئے اپنے ہموطن کسی معمولی افسر کے ساتھ ۔ کتنے ہیں جو ایسا کرتے ہیں ؟

ہمیں بچپن سے ہی بیٹھ کر کھانے پینے کی تربیت دی گئی تھی ۔ یہ واقعہ سُننے کے بعد اگر بیٹھنے کو کرسی یا سٹول نہ ملے میں کہیں بھی ہوں بغیر کچھ سوچے زمین پر بیٹھ کھاتا یا پانی پیتا ہوں

حاکم کا کردار

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ روزانہ نمازِ فجر کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ غائب ہو جاتے ہیں
ایک روز عمر فاروق رضی اللہ عنہ چُپکے سے اُن کے پیچھے چل پڑے ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ چلتے چلتے مدینہ سے باہر نکل گئے اور شہر سے باہر ایک خیمہ میں داخل ہو کر کچھ دیر اندر رہنے کے بعد واپس مدینہ کی طرف چل پڑے
بعد میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ خیمے میں گئے تو وہاں ایک بُڑھیا کو پایا
پوچھنے پر بڑھیا نے بتایا ”میں نابینا اور مُفلس عورت ہوں ۔ میرا اور میرے دو بچوں کا اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ یہ آدمی روزانہ آ کر جھاڑو دیتا ہے اور کھانا بنا کر چلا جاتا ہے“۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا ”اے ابو بکر ۔ تُو نے بعد والوں کو بہت مُشکل میں ڈال دیا“۔

یہ دُنیا یا زمانہ

یہاں قدر کیا دل کی ہو گی ۔ یہ دُنیا ہے شیشہ گروں کی
محبت کا دِل ٹھوکروں میں ۔ ہے قیمت یہاں پتھروں کی
بڑی سادگی سے زمانہ ۔ کہانی کا رُخ موڑتا ہے
نگاہوں کی بیگانگی سے ۔ محبت کا دِل توڑتا ہے
نظر کھیلتی ہے دِلوں سے ۔ یہ محفل ہے بازیگروں کی
جہاں پیار وقتی تقاضہ ۔ وہاں ذِکر کیا ہو وفا کا
دھوآں بن کے جذبات نکلیں ۔ خلوص ایک جھونکا وفا کا
کہاں جائیں ہم دِل کو لے کر ۔ یہ بستی ہے سوداگروں کی